اُردو ناول آن لائن

Friday, 29 September 2017

ناول:جنت کے پتے تحریر: نمره احمد قسط نمبر 12


ناول:جنت کے پتےتحریر: نمره احمدقسط نمبر 12"جی"؟ وہ بمشکل بول پائی۔وہ کچن کے کھلے دروازے سے اندر آیااور حیا نے دیکھا'اس کے ہا تھوں میں ادھ کھلے گلابوں کا بوکے اور ایک سفید کارڈ تھا۔"کیا تم یہاں رہنے آئی ہو؟"وہ اس کے سامنے کھڑا سختی سے پوچھنے لگا۔"نن۔۔۔نہیں" وہ سانس روکےان سفیر گلاب کے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔"تو پھر اپنے ویلنٹائن کو میرے گھر کا پتا دینے کی کیا ضرورت تھی"؟اس نے زیرِلب ترکی میں کسی غیر مہزب لفظ سےاس نا معلوم شخص کو نوازااور گلدستہ و کارڈ اس کے سامنے میز پہ تقریباًپھینکنے کے انداز میں رکھا۔"نہیں۔۔۔۔میں نے نہیں"وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سےپھولوں کے اوپر گرے سفید کارڈ کو دیکھے گئی'جس پہ لکھے حروف نمایاں تھے۔"فار مائی لو۔۔حیا سلیمان فرام یور ویلنٹائن"۔اور ویلنٹائن ڈے میں ہفتہ سے زیادہ دن باقی تھے۔"یہ یہاں بھی پہنچ گیا؟"وہ اب تک بے یقین تھی۔جہان اپنا ٹول بکس کھولے چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا۔کچن میں ایک شرمندہ سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔دفعتاًمیز پہ رکھا حیا کا موبائل بج اٹھا۔اس نے چونک کر دیکھا۔گھر سے کال آ رہی تھی۔اس نے کال کاٹی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔"حیا۔۔بیٹھو بچے۔۔۔""میری۔۔۔میری فرینڈ کال کر رہی ہے"۔وہ باہر آ گئی ہے شاید'چلتی ہوں" اللہ حافظ۔حالانکہ پھپھو کی شکل سے ظاہر تھا کہ فون اس کی دوست کا نہیں تھا'مگر انہوں نے سر ہلا دیا۔کہنے کو جیسے کچھ باقی نہیں رہا تھا۔وہ کرسی دھکیل کر تیزی سے باہر نکل گئی۔میز پہ سفید گلاب پڑے رہ گئے۔ڈورمیٹ پہ اس کے جوتے یونہی پڑے تھے۔اس نے ان میں پاوں ڈالے تو دیکھا' ایک کاغذ ان پہ گراہوا تھا۔حیا جھکی اور وہ کاغذ اٹھایا۔وہ کسی کورئیر کمپنی کی رسید تھی غالباًجو شاید جہان نے دستخط کر کے وہاں پھینک دی تھی۔وہ رسید الٹ پلٹ کر دیکھتی تیز قدموں سے گیٹ عبور کر گئی۔وہ پھول آج ہی کی تاریخ میں کسی"اے آر"نے بُک کروائے تھے۔اے سے احمد اور آر سے۔۔۔۔؟وہ دھیرے دھیرے سڑک کے کنارے چلنے لگی۔رسید ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی۔وہ گھنٹہ بھر پہلے تک اس بات سے ناواقف تھی کہ وہ جہانگیر آ رہی ہے'پھر اس"اے آر"کو کیسے علم ہوا؟کیا وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا؟کیا اس کا تعاقب کیا جا رہا تھا؟لیکن ایک پاکستانی آفیسر کے ایک غیر ملک میں اتنے زرائع کیسے ہو سکتے تھے؟صرف اسے تنگ کرنے کے لئے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کون کرے گا؟وہ کالونی کے سرے پہ نصب بینچ پہ بیٹھ گئی۔اس کی نگاہیں برف سے ڈھکی گھاس پہ جمی تھیں۔اسے ہالے کے آنے تک یہیں بیٹھنا تھا۔اس نے اگلے روز ہی ڈورم آفیسرحقان سے بات کر کے اپنا گھر بدلوا لیا۔اب وہ ڈی جے کے کمرے میں منتقل ہو چکی تھی۔کمرے میں تیسری لڑکی ایک چینی نژاد "لنگ لنگ" تھی۔اس کاپورا نام اتنا لمبا اور پیچیدہ تھا کہاس نے یورپ کے لئے اپنا بنام "چیری" رکھ لیا تھا۔وہ ایکسچینج سٹوڈ نٹ تھی اور پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔چوتھی لڑکی ایک اسرائیلی یہودی"ٹالی" تھی۔واقعتاًٹاہلی کے درخت کی طرح لمبی چوڑی اور گھنگھر یالے بالوں والی۔وہ بھی ایکسچینج سٹوڈنٹ تھی۔اور اس کے ساتھ والے کمرے کےفلسطینی ایکسچینج سٹوڈنٹس(وہ ہینڈسم لڑکے جن کا زکر ڈی جے نے پہلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صفحہ نمبر 192روز کیا تھا)سے گاڑی چھنتی تھی۔وہ فلسطینی لڑکے اور وہ اسرائیلی لڑکی ہر جگہ ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔کیمپس کی سیڑھیاں ہوں یا ہاسٹل کا کامن روم۔وہ چاروں ساتھ ہی ہوتے۔"ان کے پاسپورٹ چیک کراّو یا تو یہ اسرائیلی نہیں ہے' یا وہ فلسطینی نہیں ہیں۔اتنا اتحاد اور دوستی؟توبہ ہے بھئ!"ڈی جے جب بھی ان کو ساتھ دیکھ کر آتی ' یونہی کڑھتی رہتی۔حیا نے اپھی ان لڑکوں کو نہیں دیکھا تھا'نہ ہی اسے شوق تھا۔تمام ممالک کے ایکسچینج سٹوڈنٹس پیر تک پہنچ گئےتھے۔وہاں کسی کو کسی ایکسچینج سٹوڈنٹ کا نام نہیں پتہ ہوتا تھا۔بس یہ فلسطینی ہیؓ 'یہ چائنیز ہیں'یہ نارویجن ہے'یہ ڈچ ہے اور یہ دونوں پاکستانی ہیں۔ان کو ایک سے چار مضامین لینے کا اختیار تھا۔ڈی جے نے دو لئے جب کہ حیا نے چار لئے۔پانچ ماہ کے احتتام پہ امتحان دینے کی پابندی تھی' اور یہ پانچ ماہ لازماً ترکی میں گزارنے کی پابندی تھی' باقی چاہے کلاس اٹینڈ کرو' چاہے نہ کرو' چاہے ساری رات باہر گزارو'کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔خوب مزے تھے۔سبانجی میں کلاس کے اندر لڑکیاں کے سکارف پر پابندی تھی۔"تو ےہ ہالے نور کیا کرتی ہو گی؟"حیا نے ڈی جے سے تب پوچھا'جب وہ دونوں کلاس سے نماز کے بہانےکلاس میں دکھائی جانے والی ترکی کی تعادفی پریزنٹیشن سے کسک آئی تھیں اور اب پرئیر ہالمیں بیٹھی چپس کھا رہی تھیں۔"وہ کیپ لے لیتی ہے'اور گلے میں مفلر یا کبھی کبھی وگ بھی لگاتی ہے ' مگر سر ڈھک کر جاتی ہے"۔ڈی جے چپس کترتے ہوئے بتا رہی تھی۔وہ دونوں چاکڑی مارکر کارپٹ پہ بیٹھی تھیں۔ ایک طرف الماری میں قرآن و اسلامی کتب کے نسخے سجے ہوئے تھے۔دوسری طرف بہت سے سکارف اور سکرٹس ٹنگے ہوئے تھے'جینز والی ترک لڑکیاں سکرٹ پہن کر نماز پڑھ لیتی اور پھربعد میں وہ سکرٹ وہاں لٹکا کر چلی جا تیں۔استنبول کے ہر زنانہ پرئیر ہال میں ایسے سکارف اور سکرٹس لٹکے ہوتےتھے۔"مزے کی ہے یہ ہالے نور بھی"۔وہ انگلی سے بال پیچھے کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔اس نے بلیو جینز کے اوپر گلابی سوئیٹر پہن رکھا تھا۔پاکستان میں تایا فرقان کی ڈانٹکے ڈر سے وہ جینز نہیں پہنتی سکتی تھی'لیکن شکر کہ یہاں وہ لوگ نہیں تھے اور وہ زندگی کو اپنیمر ضی سے لطف اندوز ہو کر گزار رہی تھی۔۔"پرسوں تم پھپھو کے گھر گئی تھیں۔کیسا ٹرپ رہا؟""اچھا رہا'پھپھو نے پلاوٙبنایاتھا' وہ واقعی ہی اتنا بد مزہ پکوان نہیں ہے 'جتنا ہم سمجھتے تھے۔""میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی"۔جن پرئیر ہال میں بھی خوب بور ہو گئیں تعو باہر نکل آئیں۔سرد نم ہوا دھیمی لے میں بہہ رہی تھی۔ہری بھری گھاس پہ سبانجی کی گول سی عمارت پورے وقار کے ساتھ کھڑی تھی'جیسے ایک گولائی کی شکل کے بنےگھر کو ہیٹ پہنا دی جائے۔شیشے کے اونچے داخلی دروازوں کے سامنے سیڑھیاں بنی تھیں۔سیڑھیوں کےدونوں اطراف سبزہ پھیلا تھا۔وہ دونوں فائلیں تھامے زینے اتر رہی تھیں'جب ڈی جے نے اس کا شانہ ہلایا۔"یہ جو آخری زینے پہ تین لڑکے کھڑے ہیں'یہ وہی فلسطینی لڑکے ہیں۔دیکھو!ٹالی بھی ان کے ساتھ ہے۔"اس نے ہوا سے چہرے پہ آتے بال پیچھے ہٹائےاور دیکھا۔ وہ ہینڈسم اور خوش شکل سے لڑکے سیڑھیوں کے کنارےکھڑے باتوں میں مصروف تھے۔"آوٙان سے ملتے ہیں"۔"مجھے دلچسپی نہیں ہے۔تم جاوٙ'مجھے زرا کام ہے"۔وہ کھٹ کھٹ زینہ اترتی آگے بڑھ گئی۔ڈی جے نے اسے نہیں پکارا' وہ فلسطینیوں کی جانب چلی گئی تھی۔اوروہ یہی چاہتی تھی'ڈی جے دوستی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جگہ'مگر وہ فی الحال وہ خوب آزادی سے استنبول کو کھوجنا چاہتی تھی۔اکیلی اور تنہا۔قریباً گھنٹے بھر بعدوہ اپنے کمرے سے خوب تیار ہو کر نکلی اور پتھریلی سڑک پر چلنے لگی۔اس نے بلیو جینز کے اوپر ایک تنگ'اسٹائلش سا کوٹ پہن رکھا تھا۔شدید سردی کے باوجود ننگے پاوں میں پانچ انچ اونچی سرخ پنسل ہیل پہنی تھی۔ریشمی بال ہواسے شانوں پہ اڑ رہے تھےاور گہرے کاجل کے ساتھ رس بھری کی طرح لپ اسٹک۔اسےسرخ لپ اسٹک ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی اور آج اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حسین لگ رہی ہے۔بس سٹاپ آ چکا تھا'جب بادل زور سے گرجے۔یہ بس سٹاپ یونیورسٹی کے اندر ہی تھا۔سبانجی کی ہیرئین "گورسل"تھی 'گورسل بس سروس۔وہ سبانجی کے طلبا کے لئے ہی چلتی تھی اور انہیں استنبعل شہر تک لے جاتی تھی۔ہالے نے اسے گورسل کا شیڈول رٹوا دیا تھا۔چس دن تمہاری گورسل چھوٹی'تمہیں ہالے نور بہت یاد آئے گی۔اس نے سختی سے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا۔گورسل اپنےوقت سے ایک لمحہ تاخیر نہیں کرتی تھی'اور اگر آپ چند سیکنڈ بھی دیر سے آئے تو گورسل گئی۔اب دو گھنٹے بیٹھ کر اگلی گورسل کا انتظار کرو۔جب وہ گورسل میں بیٹھی توآسمان پر سیاہ بادل اکٹھے ہو رہے تھے۔جب گارسل نے باسفورس کا عظیم الشان پل پار کیا تو موٹی موٹی بوندیں پانی میں گر رہی تھیں اور جب وہ ٹاقسم اسکوائر پہ اتری تو استنبول بھیگ رہا تھا۔ٹاقسم اسکوائر استنبول کاایک مرکزی چوک تھا۔وہاں عین وسط میں اتاترک سمیت تاریخی شخصیات کے مجسمے نصب تھے۔"مجسمہ آزقدی" ایک طرف ہرا بھرا سا پارک تھا'اور دوسری طرف میٹرو ٹرین کا زیرِزمین اسٹیشن۔وہ بس سے اتری توبارش تڑاٹر برس رہی تھی۔موٹے موٹے قطرے اس پہ گِر رہے تھے۔وہ سینے پہ بازو لپیٹے تیز تیز سڑک پار کرنے لگی۔گیلی سڑک پہ اونچی ہیل سےچلنادشوارہو گیا تھا۔چند ہی لمحوں میں وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔زیرِزمین میٹرو اسٹیشن تک جاتی وہ چوڑی سیڑھیاں سامنے ہی تھیں۔وہ تقریباًدوڑ کر سیڑھیوں کےدہانے تک پہنچی ہی تھی کہچیخ کی آواز آئی۔وہ لڑکھڑائی اور گرتے گرتے بچی۔اس کی دائیں سینڈل کی ہیل درمیان سے آدھی ٹوٹ گئی تھی۔ٹوٹا ہوا دو انچ کا ٹکڑا بس اٹکا ہوا ساتھ لٹک رہا تھا۔اس نے خفت سے اِدھر اُدھر دیکھ#ا۔لوگ مصروف سے انداز میں چھتریاں تانے گزر رہے تھے۔شکر کہ کسی نے نہیں دیکھاتھا۔بارش اسی طرح برس رہی تھی۔اس کے بال موٹی گیلی لٹوں کی صورت چہرے کے اطراف میں چپک گئے تھے۔اسنے کوفت سے ٹوٹے جوتے کے ساتھ زینہ اترنا چاہا'مگر یہ نا ممکن تھا۔جھنجلا کر وہ جھکی'دونوں جوتوں کے اسٹریپس کھولے'پاوں ان میں سے نکالے اور جوتے اسٹریپس سے پکڑ کر سیدھی ہوئی۔نیچے ٹرین کے پہنچنے کا شور مچ گیا تھا۔وہ بھاگتے ہوئے زینہ اترنے لگی۔اس کے پہلو میں گرے ہاتھ سے لٹکےدونوں جوتے ادھر ادھر نھول رہے تھے۔میٹرو کا ٹکٹ ڈیڑھ لیرا کا تھا'چاہے جس اسٹیشن پربھی اترو۔وہ ٹکٹ لے کر جلدی سےٹرین میں داخل ہوئیتا کہ کسی کے محسوس کرنے سے قبل ہی معتبر بن کر جوتا پہن کر بیٹھ جا ئے۔میٹرع میں نشستیں دونوں دیواروں کے ساتھ قطار میں تھیں۔کھڑے ہونے والے کے لئے اوپر راڈ سے ہینڈل لٹک رہے تھے۔وہ ایک ہینڈل کو پکڑے بھیڑ میں سے راستہ بنانے لگی۔اس کی نظر کونے کی ایک خالی نشست پر تھی مگر آگے چلتے شخص نے راستہ روک رکھا تھا۔جب تک وہ کانے والی نشست پر بیٹھا نہیں'وہ آگے نہیں بڑھ سکی'پھر اس کے بیٹھتے ہی دھم سے اس کے برابر کی جگہ پہ آ بیٹھی۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص شناسا سا لگا۔۔لمحے بھر کو اس کا سانس رُک س گیا تھا۔وہ جہان سکندر تھا۔بہت قیمتی اور نفیس سیاہ سوٹ میں ملبوس'جیل سے بال پیچھے کیےوہ چہرے پہ ڈھیروں سنجیدگی لئے اخبار کھول رہا تھا۔وہ متخیر سی بیٹھی'سامنے دیکھے گئی۔کن اکھیوں سے اسے وہ چہرے کے آگے اخبار پھیلا ئے نظر آ رہا تھا۔سامنے والی قطار اوران کی قطار کے درمیان جگہ اوپرلگے ہینڈل پکڑ کر کھڑے لوگوں سے بھرنے لگی تھی۔وہ اس عجیب اتفاق پر اتنی ششدر بیٹھی تھی کہہاتھ سے لٹکتے جوتےبھول ہی گئے۔یاد رہا تو بس یہی کہ وہ کتنا قریب۔۔۔۔۔مگر کتنا دور تھا۔وہ اسے کیسے مخاطب کرے؟اور اگر وہ اسے دےکھے بنا ٹرین سے اتر گیا تو۔؟اس کا دل ڈوبنے لگا۔مگر وہ تو اسے شائدپہچانے بھی نہ۔اس ے سرد مہر'کم گو شخص سے یہی توقع تھی۔چند پل سر کے تھےکہ جہان نے صفحہ پلٹنے کی غرض سے اخبار نیچھے کیااور انگوٹھے سےاگلے صفحے کا کنارہ موڑتے ہوئےایک سرسری نگاہ پہلو میں بیٹھی لڑکی پہ ڈالی'پھر صفحہ پلٹ کر اخبار کی طرف متوجہ ہو گیا۔لیکن اگلے ہی پل وہ جیسے رکااور گردن موڑ کردوبارہ اسے دیکھا۔اس کی بھیگی موٹی لٹیں رخساروں سے چپک گئی تھیں۔پانی کے قطرے ٹھوڑی سے نیچے گردن پہ گر رہے تھے'وہ اس کے متوجہ ہونے پہ بھی سانس روکے سامنے دیکھے گئی۔"اوہ۔۔۔حیا!"وہ حیرت بھری آوازکہیں دور سے آئی تھی۔حیا نے دھیرے سے پلکیں اس کی جانب اٹھائیں۔کاجل کی لکیر مٹ کر نیچھے بہہ گئی تھی'تب بھی ان اداس آنکھوں میں عجب سحر دکھتا تھا۔"جہان سکندر!"وہ بدقت رسماًمسکرائی۔"حیا!کیسی ہو؟اکیلی ہو؟"کہنے کے ساتھ جہان نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔وہاں کوئی مسافر حیا کا ہم سفر نہیں لگ رہا تھا۔"جی اکیلی ہوں۔""میں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیسی ہو؟" مسکراتے ہوئے اپنا ئیت سے کہتے ہوئے وہ اخبار تہہ کرنے لگا۔ وہ جو اس کے لئے ہتھوڑی اور میخیں نہیں تکھ سکتاتھا اب اخبار رکھ رہا تھا؟یا خدا! یہ وہی جہان سکندر تھا؟"ممی تمہیں یاد کر رہی تھیں۔تم پھر کب آو گی گھر؟"اخبار ایک طرف رکھ کراب وہ پوری طرح حیا کی جانب متوجہ تھا۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔"بس۔۔شائد کچھ دن۔۔۔۔"کچھ کہنے کی سعی میں اسے محسوس ہوا 'جیان کی نظریں اس کے ہاتھ پہ پھسلی تھیں'اور پیشتر اس کے کہ وہ چھپاپاتی' وہ دیکھ چکا تھا۔"جوتے کو کیا ہوا ہے؟اتنی سردی میں ننگے پاوں بیٹھی ہو۔لاو دکھاو جوتا"۔وہ خفا ہوا تھا یا فکر مند'اسے سوچنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔جہان جوتا لینے کے لئے حھکا تو اس نے بے بسی سے ٹوٹی ہیل والی سینڈل سامنے کی۔"یہ تو الگ ہونے والا ہے"۔اس کے ہاتھ سے جوتا لے کراب وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔حیا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔"جہان!رہنے دو۔""ٹھرو 'شاید یہ جڑ جا ئے"۔وہ جھک کر دوسرے ہاتھ سےبریف کیس میں سے کچھ نکالنے لگا۔"جہان!لوگ دیکھ رہے ہیں"۔"یہ پکڑوزرا"۔وہ سیدھا ہوا اور جوتا حیا کو تھمایا'پھر ہاتھ میں پکڑا ٹیپ کھولا۔کافی لمبا سا اسٹریپ کھول کر دانت سے کاٹا۔حیا نے جوتا سامنے کیا۔اس نے احتیاط سےہیل کے نچھلے لٹکتے حصے کو اوپر کے ساتھ جوڑا اوراس کے گرد چکروں میں ٹیپ لگاتا گیا۔"اب پہنو"۔مرہم شدہ سینڈل کو اس نے جھک کر حیا کے قدموں میں رکھا۔حیا نے اس میں پاوں ڈالا اور اسٹریپ بند کرنے جھکی ہی تھی کہ زورپڑنے سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پٹخ ہوا اورہیل کا ٹوٹا حصہ سرے سے ہی الگ ہو گیا۔"اوہ!"وہ متاسف ہوا۔"کوئی بات نہیں"۔حیا کو شرمندگی نے آن گھیراتھا۔یہ وہ سرد مہر اور تلخ جہان نہیں 'بلکہ کوئی اپنا اپنا سا شخص تھا۔وہ جواب دینے کی بجائے جھک گیا تھا۔حیا نے گردن ترچھی کر کے دیکھا۔وہ اپنے بوٹ کا تسمہ کھول رہا تھا۔اس سے پہلے کہ حیا اسے روک پاتی'جہان اپنے بوٹ اتار چکا تھا۔پہن لو۔باہر ٹھنڑ ہے'سردی لگ جائے گی"۔ اب وہ جرابیں اتارکر اپنے بریف کیس میں رکھ رہا تھا۔اس کا انداز عام سا تھا'جیسے وہ روز ہی میٹرو میں کسی نہ کسی کو اپنے جوتے دے دیتا ہو۔"نہیں 'رہنے دو۔میں ابھی مارکیٹ سے نیا لے لوں گی"۔"پہن لع حیا!""مگر تم کیا کرو گے؟تم تو آفس جا رہے ہو نا؟"جہان نے زرا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا"آفس کے کام سے سسلی جا رہا ہوں"۔"پھر میں تمہیں جوتے کیسے واپس کروں گی؟پتا نہیں کب تمہارے گھر آوں اور۔۔۔""تم ابھی اکیلی کہیں نہیں جا رہیں۔اگلا سٹیشن سسلی ہے۔ادھر ہم ساتھ مال سے جوتا خریدیں گے'پھر میں اپنے بوٹ واپس لے لوں گا"۔"مگر تمہارے آفس کا کام۔۔۔""میں ننگے پاو ۔ جا کر کیا کروں گا؟"وہ دھیرے سے مسکرایا۔وہ پہلی بار حیا کے لئے مسکرایا تھا۔وہ یک ٹک کاجل کی مٹتی سیاہی والی آنکھوں سے اسے دیکھی گئی۔اس کے چہرے سے چپکی موٹی گیلی لٹیں اب سوکھنے لگی تھیںاور ٹھوڑی سے گرتے پانی کے قطرے اب خشک ہو چکے تھے۔"جوتے پہن لو۔لوگ اب بھی دیکھ رہے ہیں"۔وہ چونکی پھر خفیف سا سر جھٹکااور دوہری ہو کر بوٹ پہننے لگی۔وہ جب بھی سمجھتی کہ جہان لا تعلقی سے بیٹھا'اس کی بات نہیں سن رہا'وہ اس کو وہی فقرہ لوٹا دیا کرتا تھا۔وہ سیدھی ہوئی تو جہان اخبار کھول چکا تھا۔عجیب دھوپ چھاوں جیسا شخص تھا۔سسلی کے سٹاپ پہ میٹرو سے اترتے وقت حیا نے دیکھا'جہان بہت آرام سے اس کے آگے ننگے پاوں چل رہا تھا۔اس کے انداز میں کوئی خفت'کوئی جھجک نہ تھی۔وہ دونوں خاموشی سے سیڑھیاں چڑھنےلگے۔چندزینے بعد ہی سیڑھیوں کے احتتام پہ سڑک اور کھلا آسمان دکھائی دینے لگا۔وہ جہان کے دائیں طرف تھی۔آخری سیڑھی چڑھتے ہوئےاس نے دیکھا زمین پہ ایک کیل نکلی پڑی تھی۔اس سے پیشتر کہ وہ مطلع کر پاتی'جہان کا پاوں اس کیل کے نوکدار حصے پہ آیا۔جب اس نے دوبورہ پاوں ااٹھایا تواس کی ایڑھی سے خون کی ننھی سی بوند نکل گئی تھی۔اس نے بے اختیار جہان کے چہرےبکو دیکھا۔وہ سکون سے سیدھ میں دیکھتا تیز تیز چل رہا تھا۔"جہان۔۔۔۔تمہارا پاوں۔۔۔تمہیں زخم آیا ہے۔"وہ اس کے ساتھ چلنے کی کوشش میں تیزی سے چلنے لگی تھی۔"خیر ہے"۔وہ رکا نہیں۔"مگر تمہارا خون نکلا ہے"۔وہ واقعتاًپریشان تھی۔"بچوں والی بات کرتی ہو تم بھی۔اتنے شرا سے خون سے میں زخمی تو نہیں ہو گیا۔بہت ٹف زندگی گزاری ہے میں نے۔وہ دیکھو'جواہر مال۔"اس سے کچھ کہنا بے کار تھا۔وہ چپ ہو کر اس کے ساتھ مال کے قریب آ رکی۔وہ بلند و بالا خوبصورت'نیلے سرمئی شیشوں سے ڈھکی عمارت تھی۔اس کے اوپر بڑا سا ستارہ اور اطرف میں چھوٹے ستارے بنے تھے۔بڑے ستارے کے اوپر Cavahir mallلکھا تھا' اور جہان ترکوں کی طرح "سی"کو "جے"پڑھ رہا تھا۔"یہ جواہر مال ہے۔یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شاپنگ مال"۔وہ فخر سے بولا تھا۔جاری هے


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India