جنت کے پتےنمره احمدقسط نمبر 10دروازے پہ مدهم سی دستک ہوئ تو وہ سرعت سے کرسی سے اٹهی.ایک نظر سوئ ہوئ ڈی جے پہ ڈالی، دوسری اپنے زیر استعمال بینک پہ جو دوبارہ سے بنا سلوٹ اور شکن کے بنایا جا چکا تها اور جس پہ ترک لڑکیوں کے اعتماد کے خون کیے جانے کی کوئ نشانی باقی نہ تهی.....اور دروازہ کهول دیا." السلام علیکم ایکسچینج اسٹوڈنٹس ! " ہالے نور ہشاش بشاش سی مسکراتی کهڑی تهی.وہ یوں تهی گویا دهلی ہوئ چاندنی.سیاہ اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے ، ہلکی سبزلمبی جیکٹ تلے سفید جینز پہنےشانے پہ بیگ اور ہاتھ میں چابیوں کا گچھا پکڑے وہ پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی ۔وعلیکم السلام ، آؤ ہالے " وہ مسکراتی ھوئی ایک طرف کو ھوئی ۔تمہارے کمرے میں گئی تھی ۔ مگر تم ادھر نہیں تھیں میں نے اندازہ کیا کہ تم یہیں ھو گی ۔ ہالے نے اپنا بیگ میز پہ رکھا اور کرسی کھینچ کر نفاست سے بیٹھی ۔ہاں میں علی الصبح ہی ادھر آ گئی تھی ۔ ڈی جے کی یاد آ رہی تھی ۔خدیجہ سو رہی ھے ؟ ہالے نے گردن اونچی کر کے اوپر دیکھا جہاں ڈی جے دو موٹے کمبل گٹھڑی کی صورت خود پہ ڈالے سو رہی تھی ۔ ہاں اور شاید دیر تک سوتی رہے ۔اوہ ... میں نے سوچا تھا کہ تمہارے فون رجسٹرڈ کروانے چلیں آج ۔ ترکی میں غیر ملکی فون پہ ترک سم کارڈ ایک ہفتے کے بعد بلاک ھو جاتا ہے ۔ہاں بالکل ۔ تم لوگ جاؤ اور میرا فون بھی لے جاؤ میں ابھی دو گھنٹے مزید سوؤں گی ،،کمبلوں کے اندر سے آواز آئی تو ہالے مسکرا دی ، مسکراتے ھوئے اس کی چمکتی ھوئی سرمئی آنکھیں چھوٹی ھو جاتی تھیں ۔ چلو حیا ! ہم دونوں چلتے ہیں ۔۔، وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑی ھو گئی تھیں ۔ حیا صبح اپنے کمرے میں جا کر فریش ھو آئی تھی ۔ ابھی وہ سیاہ چوڑی دار پاجامے اور ٹخنوں تک آتی سیاہ لمبی قمیص میں ملبوس تھی ۔ شیفون کا دوپٹہ گردن کے گرد مفلر کی ظرح لپیٹے اور اوپر لمبا سیاہ سوئیٹر پہنے ھوئے تھی ۔کچھ دن میرے خوش قسمت دن ھوتے ہیں ، جب میرے پاس کار ھوتی ھے اور کچھ دن بدقسمت دن جب میرے پاس کار نہیں ھوتی اور آج میرا خوش قسمت دن ھے ۔ ہالے نے اٹھتے ھوئے بتایا ۔ ابھی ہم قریبی دکانوں میں جائیں گے ۔ اگر وہاں سے فون رجسٹرڈ نہ ھوئے تو جواہر چلیں گے ، اس کے بعد وہاں سے جہانگیر ۔۔،،جواہر ؟ حیا نے ابرو اٹھائی ، جہانگیر کو اس نے کسی ترک کا نام سمجھ کر نظرانداز کر دیا ۔جواہر شاپنگ مال ھے ۔ یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شاپنگ مال !..اوہ اچھا جیسے پاک ٹاورز ۔۔۔،، اوپر کمبلوں سے آواز آئی ۔پاک ٹاور ؟؟؟ ہالے نے گردن اٹھا کر خدیجہ کے کمبلوں کو دیکھا ۔ہمارا پاک ٹاورز ایشیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال میں شمار ھوتا ھے ،، وہ غنودہ آواز میں بولی ۔ نائس ہالے ستائش سے مسکرا کر باہر نکل گئی ۔ حیا نے اس کے جانے کی تسلی کر لیپھر لپک کر پیچھے آئی ۔ اور سیڑھی پر چڑھ کہ ڈی جے کا کمبل کھینچا ۔یہ پاک ٹاورز ایشیا کا سب سے بڑا مال کب سے ھو گیا ؟؟؟ اس نے کون سا جا کر چیک کر لینا ھے ۔ تھوڑا شو مارنے میں کیا حرج ھے ؟؟ ڈی جے غڑاپ سے پھر کمبل میں گھس گئی ہالے ڈرائیو کرتے ھوئے متاسف سی بار بار معذرت کر رہی تھی ۔ فون رجسٹر نہیں ھو سکے تھے ۔" وی آ " پورٹ کی دکان پہلے تو ملی نہیں ، دوسری موبائل کمپنیوں کی دکانیں ہی ہر جگہ تھیں ۔ یوں جیسے آپ کو زونگ کی دکان کی تلاش ھو اور ہر طرف یو فون کی دکانیں ھوں ۔ بمشکل ایک دکان ملی تو اس کا مینیجر شاپ بند کر کے جا رہا تھا ۔ لاکھ منتوں پر بھی اس نے دکان نہیں کھولی اور چلا گیا ۔ اب ہالے مسلسل شرمندگی کا اظہار کر رہی تھی ۔بس کرو ہالے بعد میں ھو جائے گا یہ کام اب مجھے شرمندہ مت کرو ،خیر تمہارا دوسرا کام تو کروں ، جہانگیر چلتے ہیں ۔ ہالے نے گہری سانس اندر کھینچی ۔ گاڑی سڑک پہ رواں دواں تھی ۔ اور کھڑکی کے باہر ہر سو برف دکھائی دے رہی تھی ۔تم ایڈریس دکھاؤ ہم پہنچنے والے ہیں ۔۔کدھر ؟؟؟ حیا نے ناسمجھی سے ڈرائیو کرتی ہالے کو دیکھا ۔ جہانگیر اور کدھر ؟؟ وہاں کیا ھے ؟ تمہاری آنٹی کا گھر ، کل کہا جو تھا کہ تمہیں لے جاؤں گی صبح بتایا بھی تھا ، بھول گئیں ؟ تم۔۔۔۔ تم مجھے ادھر لے کر جا رہی ھو ؟؟ وہ ہکا بکا رہ گئی ۔ہاں نا ۔۔ اب ایڈریس بتاؤ ، اسٹریٹ نمبر تو مجھے یاد رہ گیا تھا ، آگے بتاؤ ۔۔ اوہ ہالے ! اس نے ہڑبڑا کر پرس سے وہ مڑا تڑا سا کاغذ نکالا ۔۔۔ اس نے دیکھا ، اس علاقے کا نام Chihangir لکھا تھا وہ اسے سہانگیر پڑھتی رہی تھی ، اب یاد آیا کہ ترکوں کا سی ، جیم کی آواز سے پڑھا جاتا تھا ۔ اگر اسے زرا سا بھی اندازہ ھوتا کہ ادھر جانا ھے تو وہ تحائف ہی اٹھا لیتی جو اماں نے بھیجے تھے ۔ زرا اچھے کپڑے ہی پہن لیتی ۔لو یہ تو سامنے ہی تھا ۔ اب تم جاؤ مجھے ادھر تھوڑا کام ھے ۔ میرا نمبر تم نے فون میں فیڈ کر لیا ھے نا ؟ جب فارغ ھونا تو مجھے کال کر لینا ۔۔ میں آ جاؤں گی ، گھنٹہ تو مجھے بھی لگ ہی جائے گا، پھر کھانا ساتھ ہی کھائیں گے ۔ گاڑی رک چکی تھی ۔ حیا نے بےتوجہی سے اس کی ہدایات سنیں اور دروازہ کھول کر نیچے اتری ۔اس کے دروازہ بند کرتے ہی ہالے گاڑی زن سے بھگا لے گئی ۔وہ ایک خوبصورت چھوٹا سا بنگلہ تھا ۔ بیرونی چار دیواری کی جگہ سفید رنگ کی لکڑی کی باڑ لگی تھی ۔ گیٹ بھی لکڑی کی باڑ کا بنا تھا ۔ گیٹ کے پیچھے چھوٹا سا باغیچہ تھا اور اس کے آگے وہ بنگلہ ۔ بنگلے کی گلابی چھت مخروطی تھی ۔ داخلی سفید دروازہ زرا اونچا تھا ۔ اس تک چڑھنے کے لیے دو اسٹیپس بنے تھے ۔ اسٹیپس کے دونوں اطراف خوش رنگ پھولوں والے گملے رکھے تھے ۔ تو یہ تھی وہ چھوٹی سی جنت ، جس میں وہ رہتا تھا ۔ اور جس سے باہر نکلنے کا اس نےکبھی نہیں سوچا تھا ۔ وہ گیٹ کو دھکیل کر ، پتھروں کی روش پر چلتی ان اسٹیپس تک آئی ، اونچے سنہری دروازے پہ سنہری رنگ کی تختی لگی تھی ۔" سکندر شاہ " وہ ترک ہجوں میں لکھا نام اس کے پھوپھا کا ہی تھا ۔گھنٹی کی تلاش میں اس نے ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی ۔ اس گھر میں بہت سی لکڑی کی کھڑکیاں بنی تھیں ۔ اور شاید کوئی کھڑکی کھلی تھی ۔جس سے مسلسل ایک ٹھک ، ٹھک کی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی ہتھوڑے یا کلہاڑے کو لکڑی پہ زور سے مار رہا ھو ۔اس نے اپنی کپکپاتی انگلی گھنٹی پہ رکھی اور سنہری ڈور ناب کے چمکتے دھات میں اپنا عکس دیکھا ۔کاجل سے لبریز بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ، دونوں شانوں پر سے پھسل کر نیچے گرتے لمبے بال اور سردی سے سرخ پڑتی ناک ۔وہ سیاہ لباس میں چینی کی مورت لگ رہی تھی ، گھبرائی ھوئی پریشان سی مورت ۔اس نے گھنٹی سے انگلی اٹھائی تو ٹھک ٹھک کی آواز بند ھو گئی ۔ چند لمحے بعد لکڑی کے فرش پہ قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ کوئی انجانی زبان میں بڑبڑاتا دروازہ کھولنے آ رہا تھا ۔وہ لب کاٹتے ھوئے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی ، جب دروازہ کھلا ۔ چوکھٹ پہ بچھے ڈور میٹ پہ اسے دروازہ کھولنے والے کے ننگے پاؤں دکھائی دیے ۔ اس کی نگاہیں دھیرے سے اوپر اٹھتی گئیں ۔بلیو جینز اور اوپر گرے سوئیٹر میں ملبوس ، وہ ایک ہاتھ میں ہتھوڑی پکڑے کھڑا تھا ۔ سوئٹر کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں اور اس کے کسرتی بازو جھلک رہے تھے حیا نے دھیرے سے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا ۔ اس کا سانس لمحے بھر کو ساکت ھوا ۔وہ ویسا ہی تھا جیسے اپنے بچپن کی تصاویر میں لگا کرتا تھا ۔ وہی بھورے مائل بال جو بہت اسٹائلش انداز میں ماتھے پہ گرتے تھے ۔ پر کشش آنکھیں ، اٹھی ھوئی مغرور ناک ، سنہری رنگت کے تیکھے نقوش ، وہ ماتھے پہ تیوری لیے آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہا تھا بلاشبہ وہ بہت ہینڈسم تھا ۔" سن کمسن ؟؟؟اس نے ترک میں کچھ پوچھا تو وہ چونکی ۔ سس ۔۔۔۔ سبین سکندر ۔۔۔۔ سبین سکندر کا گھر یہ ہی ھے ؟ جی یہی ھے "وہ انگریزی میں بتا کر سوالیہ جانچتی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا ۔ اسے لگا وہ بوسفورس کے پل پر ہتھیلیاں پھیلائے کھڑی ھے ۔اور نیلے پانیوں کو چھو کر آتی ھوا اس کے بال پیچھے کو اڑا رہی ھے ۔ وہ کسی گہرے خواب کے زیر اثر تھی ۔ حسین خواب کے ۔۔۔ میں ان کی مہمان ھوں پاکستان سے آئی ھوں ۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی ۔کیسی مہمان ؟؟ اس کا انداز اکھڑا اکھڑا سا تھا جیسے وہ کسی ضروری کام میں مصروف تھا جس میں حیا مخل ھوئی تھی ۔ میں حیا ھوں ۔۔۔ حیا سلیمان ۔۔۔ اس نے پرامید نگاہوں سے جہان سکندر کا چہرہ دیکھا ۔ کہ ابھی اس کا نام سن کر اس کی پرکشش آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق ۔۔۔ کون حیا سلیمان ؟؟؟ اس کے قدموں تلے بوسفورس کا پل شق ھوا تھا ۔ وہ بے دم سی نیچے گہرے پانیوں میں جا گری تھی ۔"کون حیا سلیمان ؟؟؟ بے آواز دہراتے ھوئے وہ سن سی ھوتی اسے تک رہی تھی ۔ اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں ۔ اس شخص کے چہرے پر زمانے بھر کی بیزاری اور اجنبیت تھی ۔ پہچاننے یا نا پہچاننے کا تو سوال ہی نہ تھا ۔ جہان سکندر تو اس سے واقف ہی نہ تھا ۔کون ، مادام ؟؟ اس نے قدرے اکتا کر دہرایا ۔ حیا نے خفیف سا سر جھٹکا پھر لب بھینچ لیے ۔میں سبین پھپھو سے ملنے آئی ھوں ۔ان کے بھائی سلیمان کی بیٹی ھوں ۔ وہ جانتی ہیں مجھے " اوکے , اندر آ جاؤ " وہ شانے اچکا کر واپس پلٹ گیا ۔وہ جھجھک کر اوپر زینے پہ چڑھی پائیدان کو دیکھ کر کچھ یاد آیا تو فورًا پیر جوتوں سے نکالے اور لکڑی کہ فرش پہ قدم رکھا ۔فرش بیحد سرد تھا ۔ دور راہداری کے اس پار جہاں اس نے جہان کو جاتے دیکھا تھا وہاں سے ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک پھر سے شروع ھو چکی تھی ۔ وہ راہداری عبور کر کے کچن جے دروازے میں آ کھڑی ھوئی ۔ امریکی طرز کا کچن نفاست سے آراستہ تھا ۔ عین وسط گول میز کے گرد چار کرسیوں کا پھول بنا تھا ۔ ایک جانب کاؤنٹر کے ساتھ وہ حیا کی جانب پشت کیے کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں ہتھوڑی تھی ۔ جس سے وہ اوپر کیبنٹ کے کھلے دروازے کے جوڑ پر زور زور سے ضربیں لگا رہا تھا ۔ وہ چند لمحوں کے شش و پنج کے بعد ڈھیٹ بن کر آگے آئی ۔ اور قدرے آواز کے ساتھ کرسی کھینچی ۔ وہ بے اختیار چونک کر پلٹا ۔ ڈرائنگ روم ۔۔۔ خیر !،، وہ ناگواری سے لب بھینچ کر واپس کیبنٹ کی طرف مڑ گیا ۔ اس نے ایک ہاتھ سے کیبنٹ کے دروازے کے جوڑ پہ کسی شے کو پکڑ رکھا تھا ۔ اور دوسرے ہاتھ سے ہتھوڑی مار رہا تھا ۔ حیا سلیمان نے زندگی میں کبھی اتنی تذلیل محسوس نہیں کی تھی ۔ مام ۔۔۔۔۔۔ مام ۔۔۔۔۔ چند لمحے گزرے تو وہ اسی طرح اپنے کام کی طرف متوجہ ، چہرے پہ ڈھیروں سنجیدگی لیے پکارنے لگا ۔وہ انگلیاں مروڑتی ٹانگ پہ ٹانگ رکھے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔دفعتًا چوکھٹ پہ آہٹ ھوئی تو سر اٹھایا ۔ راہداری سے برتن ہاتھ میں لیے سبین پھپھو اسی پل کچن میں داخل ھوئی تھیں ۔جاری هے
0 comments:
Post a Comment