اُردو ناول آن لائن

Thursday, 28 September 2017

ناول: جنت کے پتے تحریر:نمره احمد قسط نمبر 9


ناول: جنت کے پتےتحریر:نمره احمدقسط نمبر 9رکهنے اور ساته شاہر ہ وقت اٹهائے رکهنے کا رواج تها." یعنی اگر کسی کا نام جہان ہو تو وہ ترک ہجوں میں اسے کیسے لکهے گا ؟" بلا ارادہ اس کے لبوں سے نکلا.پهر فورا" گڑبڑا کر ڈی جے کو دیکها.وہ ذرا فاصلے پر کبوتروں کی تصاویر کهینچ رہی تهی.اس نے نہیں سنا تها.ہالے شاپر ڈسٹ بن میں پهینک کر سیدهی ہوئ اور مسکرا کر ہجے کر کے بتایا. (CIHAN )" اوہ !" اس نے خفیف سا سر جهٹکا.تب ہی وہ اسے فیس بک پر نہیں ملا تها.وہ اس کو Jihan لکه کر ڈهونڈتی رہی مگر وہ تو اپنے نام کو Cihanلکهتا ہوگا.گلی صاف ستهری اور کشادہ تهی.دونوں اطراف میں دکانوں کے دروازے کهلے تهے.آگے کرسیاں میزیں بچهی تهیں.اردگرد بہت سے اسٹال لگے تهے.سڑک کے کناروں پہ کهلے عام کتے ٹہل رہے تهے مگر وہ بهونکتے نہیں تهے.حیا کو بهوک لگ رہی تهی اور وہ اب اس سفر نامے سے بور ہونے لگی تهی.بمشکل وہ تینوں اس رش بهرے محلے سے نکلیں." ایکسچنج اسٹوڈنس کو ان کا پہلا کهانا ایک ترک میزبان خاندان دیا کرتا ہے اور ابهی ہم اسی میزبان خاندان کے گهر جا رہے ہیں." جب وہ کار میں بوسفورس کے پل پر سے گزر رہی تهیں تو ہالے نے بتایا.کهانے کا سن کر اس پہ چهائ بیزاریت ذرا کم ہوئ.میزبان خاندان کا گهر استنبول کے ایک پوش علاقے میں واقع تها.کشادہ سڑک،خوبصورت بنگلوں کی قطار اور بنگلوں کے سامنے سبزے پہ جمی برف ان کے اسکالر شپ کو آرڈئ نیٹر نے چند باتیں انهیں ذہن نشین کروا دی تهیں کہ ترکی میں جوتے گهر سے باہر اتارنے ہیں، گهاس پہ نہیں چلنا اور ملاقات کے وقت ترک خاندان کے بڑے کا ہاته چومنا ہے." اس کی ضرورت نہیں تهی.اس تکلف کو رہنے دو " ان دونوں نے گهر کے داخلی دروازے کے باہر بچهے میٹ پہ جوتے اتارے تو اندر سے آتی وہ مشفق اور معمر خاتون پیاری بهری خفگی سے بولی تهیں.پہلے دن کوئ اصول نہیں ہوتے، السلام علیکم اور ترکی میں خوش آمدید " " آپ کے اصولوں کی پاسداری میں ہمارے لیے فخر ہے " حیا نے مسکراتے ہوئے ان کا ہاته تهاما اور سر جهکا کر ان کے ہاته کی پشت کو لبوں سے لگایا.معمر خاتون ، مسز عبدالله کا چہرہ خوشی سے دمک اٹها."اندر آجاؤ".وہ راستہ دینے کے لیے ایک طرف ہٹیں.ان کی سرخ بالوں والی بیٹی آگے بڑهی اور کارپٹ شوز حیا اور ڈی جے کے قدموں میں رکهے.وہ ریشمی کپڑے سے بنے کوٹ شوز کی شکل کے جوتے تهے.دونوں نے جهک کر وہ جوتے پہنے اور اندر داخل ہوئیں.اس ترک گهر کا فرش لکڑی کا بنا تها.لونگ روم کے فرش پہ بہت خوبصورت قالین بچهے تهے.وہ باته روم ہاته دهونے آئ تو دیکها ،وہاں بیسن اور ٹونٹی وغیرہ نہیں تهے بلکہ ایک طرف قطار میں نل لگے تهے، البتہ باته روم کے فرش پر بهی رگز ( پائیدان ) اور کاؤچ بچهے تهے، حیرت انگیز ! وہ واپس آئ تو ڈائننگ روم میں کهانا لگایا جا رہا تها.ڈی جے جهک کر پیار سے مسز عبدالله کی چه سالہ نواسی عروہ سے کچه کہہ رہی تهی.وہ تین خواتین پہ مشتمل چهوٹا سا کنبہ تها اور چونکہ وہ دونوں لڑکیاں تهیں سو ہالے نے ایسے ترک خاندان کا چناؤ کیا تها ، جس میں کوئ مرد نہ ہو.اسی پل مسز عبدالله سوپ کا بڑا سا پیالا اٹهائے آئیں.ہالے ان کی مستعدی سے مدد کروا رہی تهی." تم کیا کہہ رہی تهیں ، تمهارا یہاں کوئ رشتے دار بهی ہے ؟ " انهوں نے سوپ کا ڈونگا میز پہ رکها.حیا نے ایک نظر اس ملغوبے کو دیکها." جی میری پهپهو ہیں ادهر. " وہ سوپ کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکهتے ہوئے بولی." کدهر رہتی ہیں ؟ " "ادهر " اس نے پرس سے وہ مڑا تڑا کاغذ نکال کر ہالے کو تهمایا.ہالے نے ایک نظر اس کاغذ کو دیکها اور پهر اثبات میں سر ہلا دیا."کل میں ملوا دوں گی تمهیں ان سے ، کهانا شروع کرو." اس نے کاغذ واپس حیا کی جانب بڑها دیا." ڈی جے ! ہم واقعی ترکی میں بهوکوں مریں گے.اس ملغوبے کی شکل تو دیکهو ، مجهے تو پهر سے متلی ہو رہی ہے." حیا جبرا" مسکراتے ہوئے ہولے سے اردو میں بولی.مسز عبدالله نے ناسمجهی سے اسے دیکها." یہ کہہ رہی ہے کہ ان خواتین کا خلوص اسے شرمندہ کر رہا ہے."ڈی جے نے جلدی سے ترجمانی کرتے ہوئے میز کے نیچے سے اس کا پیر زور سے کچلا."اوہ شکریہ " مسز عبدالله مسکرا کر کهانا پیش کرنے لگیں.سوپ دراصل سرخ مسور کی دال کس شوربہ تها اور اردو جیسی ترک میں اسے چوربہ کہتے تهے.وہ ذائقے میں شکل سے بڑه کر بدمزا تها.چند لمحوں بعد ہی دونوں پاکستانی ایکسچنج اسٹوڈنٹس کی برداشت جواب دینے لگی.' حیا مجهے الٹی آنے والی ہے " " اور میں مرنے کے قریب ہوں"وہ بدقت مسکراہٹ چہروں پہ سجائے چمچہ بهر رہی تهیں.ترک خواتین بہت مرغوبیت سے سوپ پی رہی تهیں.چوربہ ختم ہوا تو کهانا آ گیا.وہ اس سے بهی بڑه کر بدمزا.ایک چاولوں کا پلاؤتها.پاکستان میں پلاؤکو " پ" کے اوپر پیش کے ساته بولا جاتا ہے.مگر یہاں اسے "پ" تلے زیر کے ساته بولا جاتا تها.پلاؤ شکل میں ابلے چاولوں سے مختلف نہ تها.ساته چنے کا سالن اور مرغی کی گریوی ، منچورین کی طرح تهی.وڈیڑه دن کی بهوکی تهیں اور اوپر سے یہ بدمزا کهانے مزید حالت خراب کر رہے تهے." خدیجہ ! تمهاری دوست مجهے کچه پریشان لگ رہی ہے،خیریت ؟" مسز عبدالله نے پوچه ہی لیا.پلاؤ کا پیالا بهی ختم ہو چکا تها اور ہم پاکستانی میزبانوں کے برعکس وہ اسے دوبارہ بهرنے کے لیے دوڑی نہیں تهیں.وجہ ان کی خلوص کی کمی نہیں تهی ، بلکہ شاید یہی ان کا طریقہ تها.ڈی جے نے گڑبڑا کر اسے دیکها.سب کهانے سے ہاته روک کر اسے دیکهنے لگے تهے.حیا نے میز تلے آہستہ سے اپنا پاؤں ڈی جے کے پاؤں پہ رکها." فیملی فرنٹ کی ہما، کوئ معقول وجہ بتاؤ ان کو ." " نہیں.....وہ.....دراصل.....حیا... حیا بہت ڈرپوک ہے.اسے سٹریٹ کرائم سے بہت ڈر لگتا ہے.اور یہ پہلی دفعہ اکیلی یورپ آئ ہے، تو یہ پوچه رہی ہے کہ کہیں استنبول میں ہمارا آرگنائزڈ کرمنلز سے تو واسطہ نہیں پڑے گا ؟" حیا خفت سے سر جهکائے لب کاٹتی رہی.وہ خالی ہاته ان کے گهر آئ تهیں اور انہوں نے میز بهر دی تهی، پهر بهی اس کے نخرے ختم ہونے میں نہیں آ رہے تهے.اسے بے حد پچهتاوا ہوا.وہ بات سنبهالنے پہ ڈی جے کی بے حد ممنون تهی." قطعا" نہیں ،استنبول بہت محفوظ شہر ہے." سرخ بالوں والی لڑکی رسان سے بولی." یہاں کی پولیس ایسے لوگوں کو کهلے عام نہیں پهرنے دیتی."بالکل .....استنبول میں قانون کی بہت پاسداری کی جاتی ہے." ہالے نے تائید کی.مسز عبدالله خاموشی سے سنتی رہیں.ان کے چہرے پہ کچه ایسا تها کہ حیا انہیں دیکهے گئ.جب ہالے نور استنبول کی شان میں قصیدہ پڑه کر فارغ ہوئ تو مسز عندالله نے گہری سانس لی." خدا کرے ' تمہارا واسطہ کبهی عبفالرحمان پاشا سے نہ پڑے." حیا نے دهیرے سے کانٹا واپس پلیٹ میں رکها.ایک دم پورے ہال میں اتنا سناٹا چها گیا تها کہ کانٹے کی کانچ سے ٹکرانے کی آواز سب نے سنی." کون پاشا؟" ڈی جے نے الجه کر مسز عبدالله کو دیکها." وہ ممبئ کا ایک اسمگلر ہے' یورپ سے ایشیا اسلحہ اسمگل کرتا ہے.استنبول میں اگر چڑیا کا بچہ بهی لاپتا ہو جائے تو اس میں پاشا کا ہاته ہوتا ہے.بو سفورس کے سمندر میں ایک جزیرہ ہے، بیوک ادا.اس جزیرے پہ اس مافیا کا راج ہے." " اور میری مام کو خواب بہت آتے ہیں." ان کی بیٹی نے خفگی سے ان کو دیکها." یہ لڑکیاں سمجهتی ہیں ، میری عقل میرا ساته چهوڑنے لگی ہے."" بالکل ٹهیک سمجهتی ہیں اور ایکسچینج اسٹوڈنٹس ! کان کهول کر سن لو." ہالے نے قدرے تلملا کر مداخلت کی." استنبول میں ایسا کوئ کرائم سین نہیں ہے، یہ سب گهریلو عورتوں کے افسانے ہیں.یہاں کوئ بهارتی اسمگلر نہیں ہے." دونوں ترک لڑکیاں اپنے تئیں بات ختم کرکےاب سوئٹ ڈش کی طرف متوجہ ہوچکی تهیں.خدیجہ بهی ان کی باتوں پہ مطمئن ہوکر شکر پارے کهانے لگی تهی، مگر حیا کے حلق میں وہ شکر پارے کہیں اٹک سے گئے تهے.ابوظہبی انٹرنیشنل ایرپورٹ پہ اس نے اس حبشی کے منہ سے پاشا کا نام سنا تها.وہ نہایت مضمحل سا اپنی بیوی سے عربی میں بات کر رہاتها.اپنے بیٹے کے علاج کا ذکر،پاشا کے کسی کام کا ذکر،پیسے کم ملنے کا ذکر،مگر شاید وہ کسی اور کا ذکر کر رہا ہو اور واقعی ترک گهریلو عورتوں کے افسانوں کے مرکز پاشا کا کوئ وجود نہ ہو.الوداعی لمحات میں جب باقی سب آگے نکل چکے تو مسز عبدالله نے دهیرے سے حیا کے قریب سرگوشی کی." یہ لڑکیاں اپنے استنبول کی برائ نہیں سن سکتیں.تمہیں اس لیے بتایا کہ تم کرائم سے ڈرتی ہو اور خوبصورت بهی ہو، خوبصورت لڑکیوں پہ عموما" ایسے لوگ نظر رکهتے ہیں." حیا نے چونک کر انہیں دیکها ان کے جهریوں زدہ چہرے پہ سچائ بکهری تهی." وہ واقعی اپنا وجود رکهتا ہے." وہ بالکل سن سی ہوئ انہیں دیکهے گئ.کیا افواہوں کا خوف مجسم صورت میں ان کے سامنے آگیا تها،یا ان کی عقل واقعی ان کا ساته چهوڑ رہی تهی؟ ❄ شام کے سائے گہرے پڑ رہے تهے.،جب وہ سبانجی یونیورسٹی پہنچیں.سبانجی امرا کی جامعہ تهی.وہاں چار ماہ کے ایک سمسٹر کی فیس بهی دس ہزار ڈالرز سے کم نہ تهی.شہر سے دور ، مضافات میں واقع وہ قدرے گولائ میں تعمیر کردہ عمارت بہت پرسکون سی دکهتی تهی.چونکہ وہ جگہ استنبول شہر سے قریبا" پینتالیس منٹ کے فاصلے پہ تهی، اس لیے سبانجی میں ڈے اسکالرز نہیں ہوتے تهے.ان کے تمام طلبہ و طالبات بشمول ہالے نور جیسے لوگوں کے، جن کے گهر استنبول میں ہی تهے،ہاسٹل میں رہائش پذیر تهے.یونیورسٹی کی عمارت سے دور برف سے ڈهکے میدانوں میں ایک جگہ تهوڑے تهوڑے فاصلے پہ اونچی عمارتیں کهڑی تهیں.وہ ان کے رہائشی بلاکس تهے.انگریزی حرف ایل کی صورت کهڑی تین تین منزلہ عمارتیں ،جن کے کمروں کے آگے بالکونی بنی تهیں.چه کمرے ایک کی ایک لکیر پہ تهے اور چه دوسری لکیر پہ تهے." تمہارا کمرا دوسری منزل پہ ہے." ہالے نے اس کا سامان گاڑی سے نکالتے ہوئے بتایا.حیا اور ڈی جے دوسرا بیگ گهسیٹ کر لا رہی تهیں.ایل کی شکل کا بلاک جس کو ہالے بی ون کہہ رہی تهی،کے باہر گولائ میں چکر کهاتی سیڑهیاں کهلے آسمان تلے بنی تهیں ، جو اوپر تک لے جاتی تهیں.لوہے کی ان سیڑهیوں کے ہر دو زینوں کے درمیان خلا تها اور زینوں پہ برف کی موٹی تہ تهی.ذرا سا پاؤں پهسلے اور آپ کی ٹانگ اس گیپ میں سے نیچے پهسل جائے.وہ تینوں گرتی پڑتی بمشکل حیا کا سامان اوپر لائیں." کمرا تو اچها ہے،ہم یہاں رہیں گے ؟" حیا نے ہالے کی تهمائ چابی سے دروازہ کهول کر دهکیلا تو بے اختیار لبوں سے نکلا." ہم نہیں ،صرف تم ، کیونکہ خدیجہ کا بلاک بی ٹو ہے.وہ جو سامنے ہے." اس نے انگلی سے دور برفیلے میدان میں بنی عمارت کی جانب اشارہ کیا." کیا مطلب ، میں ادهر اکیلی ؟" وہ دنگ رہ گئ." بعد میں تم بدلوا سکتی ہو آفیسر سے کہہ کر.ابهی تم آرام کرو،ہر کمرے میں چار اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں.ہر سٹوڈنٹ کی ٹیلی فون ایکسٹینشن اس کی میز پہ ہوتی ہے.آج کل چهٹیاں ہیں، اکثر طالب علم اپنے گهر گئے ہوئے ہیں.تمہارا کمرا خالی ہے، مگر تم جا کر اپنے بیڈ پر ہی سونا ، ترک لڑکیوں کے بستر پہ کوئ سو جائے تو وہ بہت برا مانتی ہیں.کوئ مسئلہ ہوتو میرا بی فور میں ہے،اوکے؟" مسکرا کر وہ بولی تو حیا نے سرہلا دیا.ڈی جے نے بے چارگی سے اسے دیکها اور ہالے کے ہمراہ سیڑهیاں اترنے لگی " ہالے ! سنو ،اس عمارت کے پیچهے کیا ہے ؟" کسی خیال کے تحت اس نے پکارا.ہالے مسکرا کر پلٹی اور بولی " جنگل ! " پهر وہ دونوں زینے اتر گئیں.حیا نے اندر کمرے میں قدم رکها.کمرا خوبصورتی سے آراستہ تها.ہر دیوار کے ساته ایک ایک ڈبل اسٹوری بینک رکها تها.عموما" ایسے بینکس میں نیچے ایک بیڈ اور اوپر بهی ایک بیڈ ہوتا ہے ،مگر اس میں نیچے بڑی سی رائٹینگ ٹیبل بنی تهی.اس کے ساته ہی لکڑی کی سیڑهی اوپر جاتی ،جہاں ایک آرام دہ بیڈ تها.میز پہ ایک ٹیلی فون رکها تها.وہ چاروں بینکس کو دیکهتی اپنے نام کی میز کی کرسی کهینچ کر نڈهال سی بیٹه گئ.وہ ایک تهکا دینے والا دن ثابت ہوا تها ، مگر ابهی وہ تهکن کے بجائے عجیب سی اداسی میں گهری تهی.غیر ملک ،غیر خطہ ،غیر جگہ اور تنہا کمرا.جس کے پیچهے جنگل تها.اسے جانے کیوں بے چینی ہونے لگی.وہ فریش ہونے کے لیے اٹهی اور دروازے کی طرف بڑهی ،تاکہ باہر کہیں باته روم ڈهونڈے ،ابهی اس نے دروازہ کهولا ہی تها کہ دو کمرے چهوڑ کر ایک کمرے کا دروازہ کهلا،اس میں سے ایک لڑکا بیگ اٹهائے نکل رہا تها.اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور پهر مقفل کر دیا.گرلز ہاسٹل میں لڑکا ؟ اگر پاکستان میں ہوتی تو یقینا" یہی سوچتی ،مگر یہ بات تو سبانجی کے پراسپکٹس میں پڑه چکی تهی کہ وہ مخلوط ہاسٹل تها.البتہ ایک کمرے کے اندر صرف ایک صنف والے افراد ہی رہ سکتے تهے.وہ بددل سی ہو کر واپس کرسی پہ آبیٹهی.سامنے والی دیوار پہ ایک سفید اور سیاہ تصویر آویزاں تهی، پنسل سے بنایا گیا وہ خاکہ ایک کلہاڑے کا تها، جس کے پهل سے خون کی بوندیں گر رہی تهیں.خاکہ نے رنگ تها، مگر خون کے قطروں کو بےحد شوخ سرخ رنگ سے بنایا گیا تها.اس نے جهرجهری لے کر دوسری دیوار کو دیکها.وہاں ایک لڑکی کے چہرے کا بےرنگ پنسل سے بنا خاکہ ٹنگا ہوا تها.وہ تکلیف کی شدت سے آنکهیں میچے ہوئے تهی ، اس کی گردن پہ چهری چل رہی تهی.اور ادهر سے بهڑکیلے سرخ خون کے قطرے ٹپک رہے تهے.وہ مضطرب سی اٹه کهڑی ہوئ.ان تصاویر والی دیوار کے ساته لگے بینک کی میز پہ بہت سے چاقو اور چهریاں قطار میں رکهے تهے.ہر سائز ،ہر قسم اور ہر دهار کا چاقو ،جن کے لوہے کے پهل مدهم روشنی میں بهی چمک رہے تهے.وہ ایک دم بہت خوف زدہ ہو کر باہر لپکی.کوریڈور میں اندهیرا تها.دور نیچے برف سے ڈهکے میدان دیکهائ دے رہے تهے.وہ تیزی سے سیڑهیوں کی جانب بڑهی، جیسے ہی اس نے پہلے زینے پہ قدم رکها اوپر چهت پہ لگا بلب ایک دم جل اٹها.وہ ٹهٹک کر رکی اور گردن گهمائ.کوریڈور خالی تها،
وہاں کوئ نہیں تها.پهر بلب کس نے جلایا؟اس کی گردن کی پشت کے بال کهڑے ہونے لگے.دهڑکتے دل کے ساته وہ پلٹی اور زینے اترنے لگی.تب ہی ایک دم ٹهاہ کی آواز کے ساته اوپر کوئ دروازہ بند ہوا.اس نے پتهر بن جانے کے خوف سے پیچهے مڑ کر نہیں دیکها اور تیزی سے سیڑهیاں پهلانگتی چلی گئ.آخری زینے سے اتر کر اس نے جیسے ہی برف زار پہ قدم رکها ، اوپر بالکونی میں جلتا بلب بجه گیا.باہر زور و شور سے برف گر رہی تهی.تازہ پڑی برف سے اس کے قدم پهسلنے لگے تهے.سفید سفید گالے اس کے بالوں اور جیکٹ پہ آ ٹهہرے تهے.وہ گرتے پڑتے ڈی جے کے بلاک بی ٹو کی طرف بڑه رہی تهی.اسے پہلی دفعہ اپنی مانگی گئ کسی دعا پہ پچهتاوا ہوا تها ، "کاش! آج یہ برف نہ پڑتی." بی ٹو کی دوسری منزل کی بالکونی میں وہ دم لینے کو رکی.اسے منزل یاد تهی، مگر کمرے کا نمبر بهول چکا تها.اس نے ہونٹوں کے گرد ہاتهوں کا پیالا بنا کر زور سے آواز دی." ڈی جے ....تم کہاں ہو ؟" "ڈی جے ......" ایک دروازہ جهٹ سے کهلا اور کسی نے ہاته سے پکڑ کر اسے اندر کهینچا." اگر تم دو منٹ مزید تاخیر کرتیں تو میں مر چکی ہوتی حیا !" ڈی جے بهی اس کی طرح تنہا اور خوفزدہ لگ رہی تهی.مگر اب اس کمرے میں آکر حیا کا سارا خوف اڑن چهو ہوچکا تها." ڈرو مت ، تمہارے لیے ہی تو آئ ہوں.مجهے پتہ تها ، تم اکیلی ڈر رہی ہوگی ،ورنہ میرا کیا ہے، میں تو کہیں بهی رہ لیتی ہوں." وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر بولی ، پهر بے اختیار جمائ روکی." مگر ڈی جے ! میں سوؤں گئ کدهر ؟" " ان تین خالی بیڈز پہ کانٹے بچهے ہوئے ہیں کیا ؟" " مگر ہالے نے کہا تها کہ ترک لڑکیاں....." " فی الحال یہاں نہ ہالے ہے اور نہ ہی ترک لڑکیاں...." " مگر الله تو دیکه رہا ہے ! " غیر ملک میں اس کا سویا ہوا خوف_ خدا جاگ اٹها تها." اور مجهے امید ہے کہ الله تعالی' ہالے کو پتہ نہیں لگنے دے گا.اب بستر میں گهسو اور سو جاؤ.خدا جانے مجهے کس پاگل کتے نے کاٹا تها ، ترکی آگئ.آگے جهیل ،پیچهے جنگل ،اتنی وحشت ...." ڈی جے کمبل میں لیٹے بڑبڑائے جارہی تهی.نیند سے تو وہ بهی بے حال ہونے لگی تهی، سو ڈی جے کے قریبی بینک کی سیڑهیاں پهلانگ کر اوپر کمبل میں لیٹ گئ."حیا ...." وہ کچی نیند میں تهی، جب ڈی جے نے اسے پکارا." ہوں ؟" اس کی پلکیں اتنی بوجهل تهیں کہ وہ انہیں کهول نہیں پا رہی تهی." سامنے والے کمرے میں بڑے ہینڈسم سے لڑکے رہتے ہیں، میں نے انہیں کمرے میں جاتے دیکها ہے." " اچها...." اس کا ذہن غنودگی میں ڈوب رہا تها."اور سنو ،وہ پلاؤ اتنا برا بهی نہیں تها، ہمیں صرف سفر کی تهکاوٹ کے باعث برا لگا ،اور سنو ....." مگر ڈی جے کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ سو چکی تهی.جاری هے.....


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India