اُردو ناول آن لائن

Sunday, 12 November 2017

ایمان کے شیشے پر کتنی ہی گرد



ایمان کے شیشے پر کتنی ہی گرد اور مٹی کیوں نہ ہو اسے صاف کیا جاسکتا ہے-
بس ہاتھ پھیرنا پڑتا ہے اور شیشے میں سے عکس نظر آنا شروع ہوجاتا ہے – - -
اور پھر ہر ہاتھ کے ساتھ عکس پہلے سے زیادہ صاف اور چمکدار ہوتا جاتا ہے ۔ ۔ اور وہ ہاتھ اس محبت کا ہوتا ہے جو ایمان سے ہوتی ہے۔۔
عمیرہ احمد کے ناول ۔ ایمان امید اور محبت سے اقتباس

اسے اللہ سے خوف آرہا تھا



اسے اللہ سے خوف آرہا تھا ۔ ۔بے پناہ خوف ----
وہ کس قدر طاقتور تھا کیا نہیں کر سکتا؟
وہ کس قدر مہربان تھا ۔ ۔ ۔ ۔کیا نہیں کرتا ۔ ۔ ۔انسان کو انسان رکھنا اسے آتا ہے- کبھی غضب سے کبھی احسان سے ۔ ۔وہ اسے دائرے میں رکھتا ہے“
پیر کامل صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم سے اقتباس

Jannat kay patay By Nimra Ahmad Episode # 20




Jannat kay patay
By Nimra Ahmad
Episode # 20
ایک پروفیسر کو مافیا کے بارے میں کیا معلوم ہو گا حیا جی
وہ کھساہت سے مسکرائے۔
یعنی کہ وہ واقعی مافیا کا بندہ ہے
اور آ پ کو معلوم بھی ہے مگر آ پ اعتراف نہیں کر نا چاہ رہے۔شاید ایک اور داود ابراہیم؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا اور وہ عین نشا نے پہ بیٹھا۔
داود ابراہیم ۔شاید انہوں نے سادگی سے ہتھیار ڈال دیے۔
وفعتا کیچن سے انجم باجی کی چیخ بلند ہوئی۔وہ جو کرسی کے کنارے پہ ٹکی تھی گبھرا اٹھی اور کیچن کی طرف لپکی۔
کیا ہوا
انجم باجی سرخ بھبھو کا چہرہ اور آنکھوں میں پانی لیے کھڑی تھی ۔ان کے ہاتھ میں خالی چمچہ تھا۔
مرچیں اتنی مرچیں حیا۔
نن نہیں یہ ترکی کی مرچیں پھیکی ہوتی ہیں ۔تو میں نے صرف چار چمیچے۔۔۔۔۔۔۔۔
چار چمیچے ان کی آنکھوں پھل گئی۔یہ ترکی کی نہیں خالص مبی کی مرچیں ہیں میں سارے مسالے وہیں سے لاتی ہوں ۔اوہ نہیں! اس نے بے اختیا دل پہ ہا تھ رکھا۔جبکہ ڈ ی جے ہنس ہنس کر دوہری ھو رہی تھی ۔سردی کا زور پہلے سے ذرا ٹوٹا تھا ۔اس صبح بھی سنہری سی دھوپ ٹا قسم اسکوائر پہ بکھری تھی ۔مجسمہ آزادی کے گردہر سو سونے کے ذرات چمک رہے تھے۔وہ دونوں سست روی سے سڑک کہ کنارےچل رہی تھی جب ڈی جے نے پوچھا ۔حیا '،،،یہ ٹاقسم نام کتنے مزے کا ہے اس کا مطلب کیا ہوابھلا؟ میں شہر کی مئیر ہوں جو مجھے پتا ھو گا؟ نہیں وہ میری گائیڈ بک میں لکھا تھا کہ ٹاقسم عربی کا لفظ ہےاور اس کا معنی شاید بانٹنے کے ہیں کیونکہ یہاں سےنہرین نکل کر سارے شہر میں بٹ جاتی تھیں ۔تمہیں عربی آ تی ہے اس لئیے پو چھ رہی ہوں ۔ عربی میں تو ٹاقسم نام کا کوئی لفظ نہیں، اور عربی میں بانٹنے کو تقسیم کہتے ہیں ۔وہ ایک دم رکی اور بےاختیارسر پہ ہاتھ مارا۔اوہ ٹاقسم یعنی تقسیم ۔اگر گوروں کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے پڑھو تو تقسیم ٹاقسم بن جاتا ہے ۔ٹاقسم •••••!واو؛۔وہ دونوں اس بات پر خوب ہنستی ہوئی آ گے بڑھنے لگیں ۔وہ شاپنگ کے ارادے سے استقلال اسٹریٹ کی طرف آ ئ تھیں ۔استقلال جدیسی( اسٹریٹ )ٹاقسم کے قریب سے نکلنے والی ایک لمبی سی گلی تھی۔وہ گلی دونوں اطراف سے قدیم آ آرکیسٹیکچر والی اونچی عمارتوں سے گھری تھی۔گلی بے حد لمبی تھی وہاں انسانوں کا ایک رش ہمیشہ چلتا دکھائی دے رہا ہوتا۔بہت سے سامنے جا رہے ہوتے اور بہت سے آ پکی طرف آ رہے ہوتے۔ہر شخص اپنی دھن میں تیز تیز قدم اٹھا رہا ہوتا ۔گلی کے درمیان ایک پٹری بنی تھی جس پہ ایک تاریخی سرخ رنگ کو چھوٹا سا ٹرام چلتا تھا۔وہ پیدل انسان کی رفتار سے دگنیرفتار سے چلتا اور گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچا دیتا ۔اس گلی کو ختم کرنے کے لیے بھی گھنٹہ تو چاہیے تھا ۔وہاں دونوں اطراف دکانوں کے چمکتے شیشے اور اوپر قمقمے لگے تھے ۔بازار نائٹ کلبز ریسٹورینٹس کافی شاپس ڈ یزائنر وئیر غرض ہر برانڈ کی دکان وہاں موجود تھی۔چند روز پہلے وہ ادھر آ ئیں تو صرف ونڈو شاپنگ میں ہی ڈ ھا ئی گھنٹے گزر گئے اور تب بھی وہ استقلال جدیسی کے درمیان پہنچی تھیں سو تھک کے واپس ہو لیں ۔حیا! تم نے دیکھا استقلال اسٹریٹ جیسے ماڈرن علاقے میں بھی ہر تھوڑی دور بعد پئیرہال ضرور ہے ۔بڑے نیک ہیں بھئ ترک! وہ قدرے طنزیہ ہنسی اور پھر متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی استقلال اسٹریٹ آ نے کا اصل مقصد جہان سے ملنا تھا اور وہ صرف اس لیے یہاں آ ئی تھی کہ بر گر کنگ جاے اور ؛میں یہاں سے گزر رہی تھی تو سو چا؛کہہ کر اس سے مل لے وہ دونوں ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے چل رہی تھیں ۔وہاں ہوا تیز تھی اور حیا کہ کھو لے بال ا ڑ ا ڑ کہ اس کے چہرے پہ آ رہے تھے ۔
ﺣﯿﺎ ﺟﯽ؟ " ﻭﮦ ﮐﮭﺴﯿﺎﮨﭧ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ۔
" ﯾﻌﻨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﺎﻓﯿﺎ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ؟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﮯ۔ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ۔
" ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﮏ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮯ۔
ﺩﻓﻌﺘًﺎ ﮐﭽﻦ ﺳﮯ ﺍﻧﺠﻢ ﺑﺎﺟﯽ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﮧ ﭨﮑﯽ ﺗﮭﯽ، ﮔﮭﺒﺮﺍ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﭙﮑﯽ۔
" ﮐﯿﺎﮨﻮﺍ؟ "
ﺍﻧﺠﻢ ﺑﺎﺟﯽ ﺳﺮﺥ ﺑﮭﺒﺠﻮﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﻤﭽﮧ ﺗﮭﺎ۔
" ﻣﺮﭼﯿﮟ۔۔۔۔۔۔۔۔ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺮﭼﯿﮟ ﺣﯿﺎ "!
" ﻧﻦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺗﺮﮐﯽ ﮐﯽ ﻣﺮﭼﯿﮟ ﭘﮭﯿﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﭼﺎﺭ ﭼﻤﭽﮯ۔۔۔۔ "
" ﭼﺎﺭ ﭼﻤﭽﮯ؟ " ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯿﮟ۔ " ﯾﮧ ﺗﺮﮐﯽ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺧﺎﻟﺺ ﻣﻤﺒﺊ ﮐﯽ ﻣﺮﭼﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺴﺎﻟﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﻻﺗﯽ ﮨﻮﮞ۔ "
" ﺍﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺩﻝ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ، ﺟﺒﮑﮧ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺩﻭﮨﺮﯼ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
••••••••••••••••••••••••••••••
ﺳﺮﺩﯼ ﮐﺎ ﺯﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺫﺭﺍ ﭨﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺻﺒﺢ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﺳﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﺍﺳﮑﻮﺍﺋﺮ ﭘﮧ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﮨﺮ ﺳﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺕ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﺴﺖ ﺭﻭﯼ ﺳﮯ ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﺐ ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
" ﺣﯿﺎ ........ ﯾﮧ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﻧﺎﻡ، ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺰﮮ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﻼ؟ "
" ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻣﯿﺌﺮ ﮨﻮﮞ، ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ "
" ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺎﺋﯿﮉ ﺑﮏ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭧ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ۔ ﻋﺮﺑﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔
" ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ " ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺭﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﺮ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭﺍ۔ " ﺍﻭﮦ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ۔ ﺍﮔﺮ ﮔﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﻨﮧ ﭨﯿﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮍﮬﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ، ﺗﺎﻗﺴﻢ ﯾﺎ ﭨﺎﻗﺴﻢ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ "
" ﭨﺎﻗﺴﻢ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! ﻭﺍﺅ۔ " ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﺧﻮﺏ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﺁﺝ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺟﺪﯾﺴﯽ istiklal caddies ‏( ﺳﭩﺮﯾﭧ ‏) ﭨﺎﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﯽ ﮔﻠﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺍﮔﻠﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﺁﺭﮐﯿﭩﯿﮑﭽﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﮔﻠﯽ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﻤﺒﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺭﺵ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ۔ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ۔
ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﭘﭩﺮﯼ ﺑﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺳﺮﺥ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﭨﺮﺍﻡ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﭘﯿﺪﻝ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﺍﺱ ﮔﻠﯽ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﻗﻤﻘﻤﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺎﺯﺍﺭ، ﻧﺎﺋﭧ ﮐﻠﺒﺰ، ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭩﺲ، ﮐﺎﻓﯽ ﺷﺎﭘﺲ، ﮈﯾﺰﺍﺋﻨﺮﻭﺋﯿﺮ، ﻏﺮﺽ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻭﻧﮉﻭ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮈﮬﺎﺋﯽ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ، ﺍﻭﺭ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺟﺪﯾﺴﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﺳﻮ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﮨﻮﻟﯿﮟ۔
" ﺣﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﭘﺮﯾﺌﺮ ﮨﺎﻝ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ۔ "
" ﺑﮍﮮ ﻧﯿﮏ ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺌﯽ ﺗﺮﮎ "! ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﮨﻨﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺳﺘﻘﻼﻝ ﺍﺳﭩﺮﯾﭧ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﻣﻘﺼﺪ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺮﮔﺮ ﮐﻨﮓ ﺟﺎﮰ ﺍﻭﺭ " ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ۔ " ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﺎ ﮨﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻟﮯ۔
ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻮﺍ ﺗﯿﺰ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﮌ ﺍﮌ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺟﯿﮑﭧ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﻟﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﮌﺳﺘﯽ۔ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺮﮔﺮ ﮐﻨﮓ ﮐﺎ ﺑﻮﺭﮈ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﮰ ﺑﻨﺎ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺗﮏ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﯽ، ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﻼ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﺁﺗﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﯾﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﯽ۔
ﺣﯿﺎ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﺗﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﻮﭦ ﮐﯽ ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺭﺥ ﭘﮧ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯﺑﺎﻝ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺍﺯ ﻗﺪ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﻮﭦ ﺍﺳﮑﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮﺥ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ، ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﻼ ﮨﻼ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺰ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﻌﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﯾﺸﯿﺎﺋﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﻤﺸﮑﻞ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﯿﻦ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﭘﺎﺋﯽ۔
ﻟﮍﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﺗﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﺻﺎ ﺟﮭﻨﺠﻼﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﻮﺍﺑًﺎ ﺑﺤٽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺗﺮﮎ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ، ﻭﮦ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺗﺮﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﻟﻤﺒﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﻓﻘﺮﮮ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﯽ ﺗﺮﮎ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺳﻨﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﺮﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺲ ﻓﻌﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﺎﺑﻘﮯ ﻻﺣﻘﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﻟﻔﻆ ﺑﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻓﻘﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
" ﺟﮩﺎﮞ۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﮩﺎﻥ۔۔۔۔۔ " ﻭﮦ ﺷﻮﺭ ﻭ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺍﺗﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻦ ﺳﮑﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﭘﮑﺎﺭ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺭﮐﺎ۔ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﯽ۔ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﻠﭩﮯ۔
" ﺟﮩﺎﻥ۔۔۔۔ " ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔
" ﮐﯿﺎ ﻣﺴﯿﻠﮧ ﮨﮯ؟ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ، ﺍﮐﮭﮍﮮ ﺍﮐﮭﮍﮮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺮﻭ ﺍﭨﮭﺎﮰ۔ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﺨﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﻟﺐ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔
" ﻣﯿﮟ۔۔۔۔ﺣﯿﺎ۔۔۔۔۔۔ " ﻭﮦ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﮯ ﺷﮏ ﮔﺰﺭﺍ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ۔
" ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ؟ " ﻭﮦ ﺑﮭﻨﻮﯾﮟ ﺳﯿﮑﮍﮮ ﺑﻮﻻ۔
ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮﭦ ﮐﯽ ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺣﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﭘﮭﺮ؟ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺮﻟﺐ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺸﺪﺭ ﺳﯽ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ۔۔۔۔۔
جاری ہے




ناول جنت کے پتے تحریر نمره احمد قسط نمبر 19


ناول جنت کے پتے تحریر نمره احمد قسط نمبر 19اگے بڑںھی اور ناب گھما کر دروازہ کھولا۔باہر ںالکونی میں روشنی تھی۔جیسے ھی اس نے دروازہ کھولابالکونی تا ریک ھو گئی۔غالبا,,سیڑیوں کے اوپر لگا بلب بجھ گیا تھا۔کیا کوی واپس اکر پلٹ گیا تھا ۔اس نے گردن اگے کر کے راہداری کی دونوں سمت دیکھا ۔ہر سو خاموشی تھی۔بالکونی ویران تھی۔وھا سردی تھی اور اندر کمرہ گرم تھا۔وی چند ثا نیے وھا کھڑی رہی۔۔پھر دیھرے سے شانے اچکا کر پلٹنے ہی لگی تھی کے۔۔۔۔ ۔۔۔اوہ نہیں اس کے لبہوں سے ایک اوکتای ہوی کراہ نکلی۔چوکھٹ پر اس کے قد موں کے ساتھ سفید گلا بوں کا بئکے اور ایک بند لفا فں رکھا تھا۔وہ جھو کھی اور دونوں چیز یں اٹھایں اور جارھا نہ انداز میں لفا فے کا منہ پھا ڑا ۔اندر رکھا چوکور سفید کا غز نکا لا ور منہ کے سامنے کیا۔ ہیپی وہلنٹا ئہین ڈے۔۔۔۔۔فرام یور ویلنٹا ئن۔۔۔۔اس نے لب بینچ کرتنفر سےوی تحر یر پڑ ھی اور پھر بے حد غصے سے کا غز مروڑ کر گلد ستے سمیت پو ری قوت سے راہداری میں دے مارا۔. اوچ ۔وہ واپس مڑ نے ہی لگی تھی کے ۔ جب کسی کی بو کھلا ئی ہوی اواز سنی۔اس نے چو نک کر پیچھے دیکھا۔گلد ستہ اور کا غز سیدے ہاتھ والے کمرے سے نکلتے معتصم کو جا لگے۔اور اس سے ٹکرا کر اب اس کے قدموں میں پڑے تھے۔. یہ کیا ہے؟ وہ ہکا بکا کھڑا تھا۔. "ائی ایک سوری معتصن؛"وہ شد ید بے زاری سے بمشکل ضبط کر کے بولی۔معتصم کو و ضاحت دینے کا سوچ کر ہی اسے کو فت ہونے لگی تھی 'یہ میں نے تمیں نہیں دیے بلکہ کسی فضول انسان نے مجھے بیجھیے ہیں۔تم برا مت ما ننا اور ان کو ڈسٹ بن میں ڈال دینا۔"وہ ایک ھاتھ دروازے پر رکھے۔'دوسرے میں کا جل پکڑے زرا ر کھائی سے بو لی۔معتصم نے جھک کر وہ کا غز ا ٹھایا اور سیدھے ہوتےہھوےان کی شکنیں درست کرکے چہرے کے سامنے کیا۔حیا کوفت ہونے لگی۔"میں کہھ رہی ہونا سوری".اس نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں پھر معتصم کو پکارا۔وہ جو بھنویں سیکڑے کا غز کو دیکھ رہا تھا۔چونک کر اسے دیکھنے لگا۔"نہیں اٹس اوکے۔مگر یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں کوی سبا نجی میں تنگ کر رہا ہے۔؟.و ہ تحریرپہ نگا ہیں دوڑاتےتشو یش سےپوچھ رہا تھا۔یہ بات نہیں ہے۔یہ بہت پہلے سے میرے پیچھے پڑا ہے ۔لمبی کھانی ہے جانے دو".س کو کوڑے میں پھینک دینا۔گڈ نائیٹ"وہ مزید مروت کا مظاہرہ کیے بغیردروازے کا کواڑبند کر نے لگی تھی۔جب وہ ہولےسے بولا۔ یہ گیلاکیوں ہے؟تم روئ ہو؟کچھ تھا اس کی اواز میں کہ وہ دروازہ بند کرتی حیا ٹھٹھک کے دیکھا۔پھر پٹ نیم وہ کیااور باہر بالکونی میں قدم رکھا۔"میں کیوں رووں گی۔"وہ کا غز دیکھ کر بولی۔معتصم کا غز کے نچلےدائیں طرف کے کنارے پر انگلی پھیر رہا.تھا۔"پھر یہ گںیلا کیوں ہے۔؟"شائید پھولوں پر پانی تھا۔حیا نے میکا نیکی اندازمیں نفی میں گردن ہلائ۔"نہیں یہ تو موٹے لفا فے میں مہر بند تھا".معتصم نے وہ نم حصہ ناک کے قریب جا کر انکھیں موندےسانس ا ندر کو کھینچی۔سٹرس؟لیموں؟لائم؟وہ متز بذب سا حیاکو دیکھنے لگا۔کیا کھ رہے ہیں،مجھے کچھ سمج نہیں ا رہا".کسی نے اس کے نچلے کنارے پہ لیموں لگایا ہے۔"پھر اس نے چونک کر حیا کو دیکھا۔"تمھارے پاس ماچس ہے"وہ جواب دیے بنا الٹے قدموں پیچھے ائ۔اوردروازہ پورا کھول کر ایک طرف ہوگئ۔معتصم قدرے جھجکا'پھر کاغز پکڑے اندر داخل ہوا۔حیانے اپنی اور ڈ ی جے کی میز کی کرسیاں کھینچ کر آ منے سامنے رکھیں اور پھر ٹالی کی میز پر چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی ۔کیا تم بھی بچپن میں لیموں کا رس اور آگ والا کھیل کھیلتے تھے ۔؟وہ اب میز کی دراز کھول کر کچھ ڈ ڈھونڈرہی تھی ۔معتصم دھیرے سے ہنسا۔بہت کھیل کھیلے ہیں اور ان میں سے اکثر آ گ والے ہوتے تھے ۔فلسطین میں بہت آگ ہے شاید تم نہ سمجھو۔چلو آج ان ترکوں کے کھیل اسرائیلی آگ سے کھیلتے ہیں۔ وہ دراز میں سے ایک سگریٹ لائٹر نکال کے اس کہ سامنے کرسی پہ آ بیٹھی اور لائٹر اس کی طرف بڑھایا ۔معتصم نے لائٹر کا پہیہ اپنے انگوٹھے سے گھمایا تو آگ کا نیلا زردساشعلہ جل اٹھا ۔احتیاط سے وہ بے اختیار کہہ اٹھی ۔معتصم نے جواب نہیں دیا ۔وہ خط کہ نم حصے کو جواب تک سوکھ چکا تھا ۔شعلے کے قریب لایا ۔ذرا سی تپش ملی اور الفاظ ابھرنے لگے۔بڑے بڑے کر کے انگریزی کے تین حروف "اے آر پی"۔وہ حروف عین " فرام یورویلنٹائن "کے نیچے لکھے تھے ۔وہ دونوں چند لمحے کاغذ کے تکرے پہ ابھرے بھورے حروف کو تکتے رہے پھر ایک ساتھ گردن اٹھا کہ ایک دوسرے کو دیکھا۔آرپ،،،،،، ایرپ؟ کیسا لفظ ہے یہ ؟حنا نے ممکنہ ادائیگی کےدونوں طریقوں سے حروف کو ملا کہ پڑھا ۔شاید کوئی نام !کیا آ رپ کوئی ترک نام ہے؟معلوم نہیں ۔معتصم نے شانے اچکا دیے۔حیا سوچتی نگاہوں سے کاغذ کو تکتی رہی۔کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں ۔اس نے ایک نظر معتصم کو دیکھا پھر نرم سا مسکرائی تم کر چکے ہو ۔وہ ہولے سے مسکرا کر کھڑا ہوا اور کاغذ میز پر رکھا۔وہ جو بھی ہے شاید تمہیں اپنا نام بتانے کی کو شش کر رہا ہے ۔وہ کون ہو سکتا ہے یہ تم بہتر سمجھ سکتی ہوگی ۔مجھے اب چلنا چاہیے ۔؛ہوں؛ تھینک یو معتصم ۔معتصم نے ذرا سی سر کو جنبش دی اور باہر نکل گیا ۔دروازے کا کیچر سست روی سےواپس چو کھٹ تک جانے لگا۔حیا چند لمحے میز پر رکھے کنارے سے بھورے ہوئے کاغذ کو دیکھے گئ پھر بے اختیار کسی میکانکی عمل کہ تحت اس نے ہاتھ میں پکڑی کاجل کی سلائی کو سیدھا کیا اور بائیں ہتھیلی کی پشت پہ وہ تین حروف اتارتے ۔؛اے آر پی؛دروازہ چوکھٹ کے ساتھ لگنے ہی والا تھا۔ذرا سی دور سے باہر راہداری میں گرا گلدستہ دکھائی دے رہا تھا ۔ایک دو پل مزید گزرے اور دروازہ "ٹھاہ" کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہو گیا ۔وہ اپنی ہتھیلی کی پشت پہ سیاہ رنگ میں تین الفاظ دیکھ رہی تھی ۔"اے آر پی"*** اس نے اوپر بنے کیبنٹ کا دروازہ کھولا ۔چند ڈ بے الٹ پلٹ کیے۔نیچے خانے میں سرخ مرچوں کا ڈبا نہیں تھا ۔وہ ایڑیاں اٹھا کر ذرا سی اونچی ہوئی اور اوپر والے خانے میں جھانکا ۔وہاں سامنےایک پلاسٹک کے بے رنگ ڈبے میں سرخ پاؤڈر رکھا نظر آیا ۔اس نے ڈبہ نکا لا اور کاونٹر کی طرف آئی ۔وہاں ڈی جے کھڑی سلیپ پہ کٹنگ بورڈ کے اوپر پیاز رکھے کھٹا کھٹ کاٹ رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے.بریانی کی مقدار زیادہ ہے چار چمچ سرخ مرچ کہ ڈال دیتی ہوں شاید ذرا سا ذائقہ آ جائے ۔ٹھیک ؟وہ خود کلامی کے انداز میں کہتی ٹوکری سےچھوٹا چمچ ڈھنڈنے لگی۔ہاں ٹھیک !ڈی جے نے بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے رندھی آواز میں کہا اور آستین سے آنکھیں رگڑیں۔حیا اب ڈبے سے چمچ بھر بھر کردھوئیں اڑاتے پتیلے میں ڈال رہی تھی ۔بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا اس کے پیچھے گردن پہ جھول رہا تھا۔سادہ شلوار قمیض پہ وہ ڈھیلا ڈھالا سا سبز سوئٹر پہنے ہوئے تھی ۔جس کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں۔دوپٹہ ایک طرف دروازے پہ لٹکا تھا ۔اور چند لٹیں جوڑے سے نکل کر چہرے کے اطراف لٹک رہی تھیں ۔گوشت میں چمچہ ہلاتی وہ بہت مصروف لگ رہی تھی ۔وہ دونوں اس وقت انجم باجی کے کچن میں موجود تھیں ۔صبح انجم باجی ڈی جے کو ڈائننگ ہال میں ملیں تو شام اپنے گھر کھانے کی دعوت دے ڈالی ،جو کہ ڈی جے نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ وہ اور حیا مل کر بریانی بنائیں گی۔اب سر شام ہی وہ دونوں ہالے کو لیے انجم باجی کے اپارٹمنٹ آ گئی تھیں ۔ایک بیڈروم لاؤنچ اور کچن پر مشتمل وہ چھوٹا مگر بے حد نفیس اور سلیقے سے سجا اپارٹمنٹ تھا ۔ہالے کو انہوں نے لاؤنچ میں انجم باجی کہ پاس بیٹھا رہنے دیا اور خود کچن میں آ کر مصروف ہو گئیں ۔یہ پنٹینگ جوید جی لائے تھے انڈیا سے۔اندر لاؤنچ میں انجم باجی کی ہا لے کو مطلع کرتی آواز آ رہی تھی ۔ڈی جے یہ جوید جی کیا ہے؟اس نے قدرے الجھ کر پوچھا ۔ان کا مطلب ہے جوید جی۔ان کے ہزبینڈ! ڈی جے نے سرگوشی کی تو وہ مسکراہٹ دباتی پلٹ کر ابلتے چاولوں کو دیکھنے لگی ۔جس وقت انجم باجی اور ہالے کچن میں داخل ہوئیں حیا پتیلے کا ڈھکن اخبار لگا کر احتیاط سے بند کر رہی تھی ۔آ ہٹ پہ پلٹی اور مسکرائی۔بس دم دے رہی ہوں ۔بہت خراب ہو تم دونوں مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا ۔بس اب آ پ کو کھانے کے وقت ہی اٹھنا تھا ۔وہ جوید،،،،،، جاوید بھائی آگئے ۔؟وہ ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کرتی ڈی جے کے پاس آئی۔ڈی جے کا سلاد ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا ۔اب کہیں جا کہ وہ ٹماٹروں پہ پہنچی تھی۔بس آنے والے ہیں لاو یہ سلاد تو مجھے بنانے دو۔نہیں!میں کر لوں گی۔تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ڈی جے نے بڑی بے فکری سے کہا تو حیا نے اسے جتا تی نظروں سے گھورا ۔آپ نے اس تھوڑے میں بھی صبح کر دینی ہے۔لاو مجھے دو اور پلیٹیں لگاو۔اس نے ٹماٹر اور چھری ڈی جے کے ہاتھ سے لے لی۔ہالے از خود نہایت پھر تی سے سارا پھیلاؤ سمیٹنے میں لگی تھی۔وہ میلے برتن اب سنک میں جمع کر رہی تھی ۔ڈی جے کیبنٹ سے پلیٹیں نکالنے لگی اور انجم باجی رائتہ بنانے لگیں۔حیا نے ٹماٹر کو کٹنگ بورڈ پہ بائیں ہاتھ سے پکڑکہ رکھا اور چھری رکھ کہ دبائی۔دو سرخ ٹکڑے الگ ہو گئے اور ذرا سا سرخ رنگ اس کی بائیں ہتھیلی کی پشت پہ بہہ گیا جہاں کاجل سے لکھے تین مٹے مٹے سے حروف تھے ۔اے،،،،،آر،،،،،پی۔وہ دو تین روز سے اسی ؛اے آر پی؛ کے متعلق سوچے جا رہی تھی اب بھی کچھ سوچ کر اس نے گردن اٹھائی ۔؛ انجم باجی؛دہی کو کانٹے سے پھینٹتیں انجم باجی نے ہاتھ روک ےلئیےآپنے کسی ایرپ کے متعلق سنا ہے۔ایرپ انجم باجی نے حیرت بھری الجھن سے دوہرایا۔جی ایرپ اے آرپی۔اس نےوضاحت کے لیے ہلجے کر کے بتایا۔اونائٹ اگین حیا۔ہالے جو سنک کے آگے کھڑی تھی ۔قدرے اکتا کر پلٹی۔اس کے ہاتھ میں جھاگ بھرا اسفخج تھاجسے وہ پلیٹ پہ مل رہی تھی ۔تم پھر وہی موضوع لے کر بٹھ گئئ ہو۔اس کے انداز میں خفگی بھرا احتجاج تھا۔مگر ہالے اب وہ الجھی تھی۔یہ ۔موضوع تو اس نے ابھی تک ہالے کے ساتھ ڈسیکس نہیں کیا تھا۔پھرمیں نے کہا تھا نا یہ سب بے کار باتیں ہیں ۔مگر میں نے پوچھا ہی کیا ہے۔اے آڑپی۔عبدالرحمان پاشا اور کون اس نے بتایا تھاکہ یہ گھریلو عورتوں کے فسانے سے ذیادہ کچھ نہیں ہے۔یہ استنبول ہے۔یہاں قانون کا راج ہے۔مافیا کا نہیں ۔اب اس کے بعد اس موضوع پہ کچھ نہیں سنوں گی۔ہالے اب پلٹ کر جھاگ سے بھری پلیٹ کو پانی سے کھنگال رہی تھی ۔اور وہ جو حیرتوں کے سمندر میں گھڑی کھڑی تھی ۔اے آرپی۔عبدالرحمان پاشا اور یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا۔اوکے اوکے وہ سر جھکائے ٹماٹر کاٹنے لگی مگر اس کے ذہین میں جھٹ سے خیال گڈمڈ ہو رہے تھے۔ہالے اور جہان دونوں ایک جیسے تھے۔اور اپنے استنبول کے دفاع کے علاوہ وہ کبھی کچھ نہیں کہیں گے۔اسے یقین تھا۔مگر کسی کے پاس تو کچھ کہنے کے لئے ہو گا اور اسے اس کسی کو ڈھونڈنا تھا۔وہ میز لگا رہی تھی جب جاوید بھائی آگے۔وہ بھی پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔اور سبانجی میں پڑھاتے بھی تھے۔بے حد ملنسار سادہ اور خوش اخلاق سے دیسی مرد تھے۔اپنے پاکستانی ڈرموں کے شوقین اور پرستار۔ٹی وی کے ساتھ ریک میں ان کہی آرئیگاں دھوپ کنارے آنگن ٹیڑھا الف نون سمیت بہت سے کلاسک ڈراموں کی دی وی ڈیز قطار میں سجی تھیں ۔ان دونوں میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لیے طرز تخاطب بہت دلچسپ تھا۔جوید جی اور انجو جی اسے بہت اہنسی آئی۔باقی تینوں کیچن میں تھے۔جب حیا پانی کا جگرکھنے میز پہ آئی جاوید بھائی کو تنہا بیٹھے پایا۔وہ کسی کتاب کی ورق کروانئ کر رہے تھے۔جوید۔۔۔۔۔جاوید بھائی گڑبڑ کر تصیع کرتی ان کے ساتھ کرسی کھنچ کر بیٹھی اور محتاط نگاہوں سے کیچن کے دروازے کو دیکھا۔ایک بات پوچھنی تھی آپ سے۔جی جی پوچیھے۔وہ فورا کتاب رکھ کر سیدھے ہو بیٹھے ۔استنبول میں ایک انڈین مسلم رہیتا ہے عبدالرحمان پاشا نام کا۔آپ اسے جانتے ہیں ۔وہ محتاط کرسی کے کنارے ٹکی بولتے ہوئے بار بار کیچن کے دروازے کو بھی دیکھ لیتی۔کون پاشا وہ بیوک اواولا۔اور حیا کو لگا اسے اس کے جواب ملنے والے ہیں ۔جی جی وہی وہ خاصا مشہور ہے۔ہاں سنا تو میں نے بھی ہے۔بیوک ادا میں اس کا کافی ہولڈ ہے۔وہ مال امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے۔کیا وہ مافیا کا بندہ ہے اسلحہ اسمگل کرتا ہے۔ایک پروفیسر کو مافیا کے بارے میں کیا معلوم ہو گا حیا جیوہ کھساہت سے مسکرائے۔یعنی کہ وہ واقعی مافیا کا بندہ ہے اور آ پ کو معلوم بھی ہے مگر آ پ اعتراف نہیں کر نا چاہ رہے۔شاید ایک اور داود ابراہیم؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا اور وہ عین نشا نے پہ بیٹھا۔داود ابراہیم ۔شاید انہوں نے سادگی سے ہتھیار ڈال دیے۔جاری هے



Jannat Kay pattay By Nimra Ahmad Episode #18


Jannat Kay pattay
By Nimra Ahmad
Episode #18
صرف ہمیں ہی بلایا ھے یا یہ عرب اسرائیل دوستی کی زندہ مثال بھی موجود ھو گی ڈی جے کا اشارہ ٹالی کی طرف تھا ۔
پتا نہیں ۔ حیا نے شانے اچکا دیے ۔وہ الماری سے کپڑے نکالنے لگی
ہر موقع کی مناسبت سے ڈریسنگ کرنا اس کا جنون تھا ۔کپڑوں پہ ایک سلوٹ تک نہ ھو اور میک اپ کی ایک لکیر بھی اوپر نیچے نہ ھو ، وہ ہر بات کا خیال رکھتی تھی ۔ البتہ لڑکوں کی دعوت پہ جانے کی اجاذت پاکستان میں ابا یا تایا کبھی نہ دیتے ۔مگر وہ ادھر کون سا دیکھ رھے تھے ۔ یہ ترکی تھا اور یہاں سب چلتا تھا ۔
وہ تین لڑکے تھے ۔معتصم المرتضیٰ ، حسین اور مومن ، ان کے دو فلسطینی دوست محمد قادر اور نجیب اللہ دعوت کے شروع میں موجود رہے ۔ پھر اٹھ کر چلے گئے ، مگر ان تین میزبانوں نے احسن طریقے سے میزبانی نبھائی ۔وہ تینوں اسمارٹ اور گڈ لکنگ سے لڑکے ایک جیسے لگتے تھے ۔ معتصم ان میں ذرا لمبا تھا ۔ اس کا نام معتصم المرتضیٰ تھا ، مگر یہ ڈی جے نے بعد میں نوٹ کیا کہ وہ فیسبک پہ اپنا نام معتصم اینڈ مرتضیٰ لکھتا تھا ۔ وجہ انھیں کبھی سمجھ نہ آئی ۔ حسین اور معتصم ان دونوں کو بالکل اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح ٹریٹ کر رھے تھے ۔ البتہ اس بھائی چارے سے مومن متفق نہ تھا ۔ وی فلرٹیب، نظر باز سا لڑکا کچھ بھی تھا مگر مومن نہ تھا ۔
البتہ وہ دونوں اس کو اپنی موجودگی میں سیدھا کیے ھوئے تھے وہ دونوں اتنے ملنسار اور مہذب لڑکے تھے کہ حیا کو اپنے سارے کزن ان کے سامنے بےکار لگے ۔ البتہ جہان کی بات اور تھی ۔ اس نے فورًا اپنی رائے میں ترمیم کی ۔
اگلے ہفتے حسین کا برتھڈے ھے ،، حسین فون سننے باہر گیا تو مومن نے بتایا پھر تو ہمیں اسےٹریٹ دینی چاہیے ۔ڈی جے سوچ کر بولی ۔
اور گفٹ بھی ، حیا کو خیال آیا ۔
ہم دونوں اس کے لیے ایک گھڑی خریدنے کا سوچ رھے رہیں جو ہم نے جواہر میں دیکھی ھے ۔
130لیزار کی ھے معتصم نے چائے کا آخری گھونٹ پی کر کپ میز پر رکھا ۔
یعنی کہ پاکستانی روپوں میں ۔۔۔۔،، حیا نء سوچتے ھوئے پرس میں ہاتھ ڈالا تاکہ موبائل کےکے کیلکولیٹر سے حساب کر سکے ۔
سات ہزار ایک سو پانچ پاکستانی روپے ۔۔
معتصم جھک کر پیسٹریز کی پلیٹ سے ایک ٹکڑا اٹھاتے ھوئے بولا ۔ حیا کا پرس کھنگالتا ہاتھ رک گیا ۔اس نے حیرت و بے یقینی سے معتصم کو دیکھا ۔
تم نے اتنی جلدی حساب کیسے کیا ؟؟
میں میتھس کا سٹوڈنٹ ھوں ،،، وہ جھینپ کر مسکرا دیا ۔
اور معتصم کا ایک ہی خواب ھے کہ وہ میتھس میں نوبل پرائز لے ،، مومن حیا کے ہاتھوں کو دیکھتے ھوئے کہنے لگا ۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد معتصم سے آنکھ بچا کر حیا کے سراپے کا جائزہ لے لیتا تھا ۔ حیا قدرے رخ موڑ کر معتصم کی طرف متوجہ ھوئی ۔
تو میتھس کے سٹوڈنٹ جلدی بتاؤ اس مہنگی گھڑی کو خریدنے کے لیے اگر ہم چاروں پیسے تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصے میں کتنے ۔۔
32 لیرا اور پچاس کرش ۔۔،،
اوکے ،،، حیا نے گہری سانس لی اور پرس کھولا انکو پیسے انھوں نے زبردستی تھمائے ۔ مومن کو تو کوئی اعتراض نہ تھا مگر معتصم ان سے رقم لینے میں متذبزب تھا مگر یہ ایک ان کہی بات تھی کہ بغیر کسی اسکالر شپ کے استنبول جیسے مہنگے شہر میں وہ سب اتنا ہی افورڈ کر سکتے تھے ۔
وہ تینوں جواہر کے لیے نکل رھے تھے معتصم نے کہا تھا کہ وہ حسین سے نظر بچا کر گھڑی خرید لائیں گے ان کو بھی ساتھ چلنے کی پیشکش کی اور ڈی جے ہاں کرنے ہی والی تھی کہ حیا نے اس کا پاؤں اپنے جوتے اے زور سے کچلتے ھوئے بظاہر مسکراتے ھوئے انکار کیا ۔
نہیں ۔۔ آپ لوگ جائیں ہم آج ہی ھو کر آئے ہیں وہ تینوں چلے گئے تو ڈی جے نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا ۔
تم نے انکار کیوں کیا ؟؟؟
پاگل عورت ۔۔،، تم پاکستان سے آئی ھو یا نیو یارک سے ؟؟ ان کی دعوت قبول کر لی یہ ہی بہت ھے اب ان کے ساتھ سیر سپاٹوں پہ بھی نکل جائیں دماغ ٹھیک ھے ؟؟؟
مگر وہ تو ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں ۔۔ پیچھے ہمارے اصلی والے بھائیوں کو پتا چلا تو کل ہی واپس پاکستان بلوا لیں گے ۔ اس لیے اپنی اوقات میں واپس آؤ اور رات کے کھانے کی تیاری کرو موبائل کے ساتھ ننھی ہینڈز فری کانوں میں لگاتے ھوئے بولی ۔
زہر ملا کر دوں گی تمہیں ۔۔, ڈی جے بھناتی ھوئی پیر پٹخ کر اٹھی ۔ اور اگر تم چاولوں پہ آملیٹ ڈال کے لائی تو ساری ڈش تمہارے اوپر الٹ دوں گی ۔۔
وہ وہیں صوفے پر لمبی بیٹھی ۔ اب موبائل کے بٹن دبا رہی تھی ۔ دھیما میوزک اس کے کانوں میں بجنے لگا ۔ڈی جے غصے میں بہت کچھ کہتی گئ مگر اسے سنائی نہیں دے رہا تھا ۔ وہ آنکھیں موندے ھولے ھولے پاؤں جھلانے لگی ۔ ڈی جے پیر پٹخ کر باہر نکل گئی ۔۔
وہ رات ویلنٹائن کی رات تھی ۔ ڈی جے کامن روم میں منعقدہ اس آل گرلز پارٹی میں جا چکی تھی ۔ جو لڑکیوں نے مل کر دی تھی جبکہ حیا آئینے کے سامنے کھڑی اپنا کاجل درست کر رہی تھی اس کی تیاری مکمل تھی لیکن جب تک وہ اپنی آنکھوں کے کٹورے کاجل سے بھر نہ لیتی اسے تسلی نہیں ھوتی تھی ۔ ابھی وہ کاجل کی سلائی کی نوک آنکھ کے کنارے سے رگڑ رہی تھی کہ دروازہ بجا ۔
دھیمی سی دستک اور پھر خاموشی ۔
اس نے کاجل کی سلائی نیچے کی اور پلٹ کر دیکھا ۔ یہ انداز ڈی جے کا تو نہیں تھا ۔ وہ یوں ہی کاجل پکڑے........جاری هے


Wednesday, 8 November 2017

پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلم قسط نمبر 16


پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلمقسط نمبر 16۔۔۔۔۔۔۔حسن نے نکاح کے انتظامات بہت آسانی سے کر لیے تھے۔سالار نے اسے کچھ رقم دی تھی جس سے اس نے تین گواہوں کا انتظام کر لیا تھا۔چوتھے گواہ کے طور پر وہ خود موجود تھا۔نکاح خواہ کو اندازہ تھا کہ اس نکاح میں کوئی غیر معمولی کہانی تھی۔مگر اسے بھاری رقم کے ساتھ اتنی دھمکیاں بھی دے دی گئی تھیں کہ وہ خاموش ہو گیا۔حسن سہ پہر کے وقت اس نکاح خواں اور تینوں گواہوں کو لے آیا تھا۔وہ سب سالار کے کمرے میں چلے گئے تھے۔وہیں بیٹھ کر نکاح نامہ بھرا گیا تھا۔سالار امامہ کو اس بارے میں پہلے ہی انفارم کر چکا تھا۔مقررہ وقت پر فون پر نکاح خواں نے ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا تھا۔سالار نے ملازمہ کے ذریعے امامہ کو پیپرز بھجوا دیے تھے۔امامہ نے پیپرز لیتے ہی برق رفتاری سے ان پر سائن کر کے ملازمہ کو واپس دے دئیے تھے۔ملازمہ ان پیپرز کو واپس سالار کے پاس لے آئی تھی ، مگر وہ بری طرح تجسس کا شکار تھی۔آخر وہ لوگ کون تھے جو سالار کے کمرے میں تھے اور یہ پیپرز کیسے تھے جن پر امامہ نے سائن کیا تھا۔اس کا ماتھا ٹھٹک رہا تھا اور اسے شبہ ہو رہا تھا کہ ہو نہ ہو وہ دونوں آپس میں شادی کر رہے تھے۔سالار کو پیپرز واپس دیتے ہوئے وہ پوچھے بغیر رہ نہیں سکی تھی۔"یہ کس چیز کے کاغذ ہیں سالار صاحب؟"اس نے بظاہر سادگی اور معصومیت سے پوچھا۔"تمہیں اس سے کیا۔۔۔۔۔جیسے بھی پیپرز ہوں۔۔۔۔۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔"سالار نے درشتی سے اسے جھڑک دیا۔"اور ایک بات تم کان کھول کر سن لو ، اس سارے معاملے کے بارے میں اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا بلکہ بہت بہتر ہو گا۔۔۔۔۔""مجھے کیا ضرورت ہے جی کسی سے بھی اس بارے میں بات کرنے کی۔میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔آپ اطمینان رکھیں صاحب جی ! میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔"ملازمہ فوراً گھبرا گئی تھی۔سالار ویسے بھی اتنا اکھڑ مزاج تھا کہ اسے اس سے بات کرتے ہوئے خوف آیا کرتا تھا۔سالار نے کچھ نخوت بھرے انداز میں سر کو جھٹکا۔اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا کہ ملازمہ یہ سب کسی کو بتا سکتی تھی۔اگر بتا بھی دیتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭"تم ایک بار پھر جلال سے ملو ، ایک بار پھر پلیز۔۔۔۔۔"وہ اس دن اس سے فون پر کہہ رہی تھی۔سالار اس بات پر چڑ گیا۔"وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا امامہ ! وہ کتنی بار کہہ چکا ہے۔آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ دوبارہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس نے بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی کوئی منگنی وغیرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔""وہ جھوٹ بول رہا ہے۔"امامہ نے بےاختیار اس کی بات کاٹ دی۔"صرف اس لیے کہ میں اس سے دوبارہ کانٹیکٹ نہ کروں ، ورنہ اس کے پیرنٹس اتنی جلدی اس کی منگنی کر ہی نہیں سکتے۔""تو جب وہ نہیں چاہتا تم سے شادی کرنا اور کانٹیکٹ کرنا۔۔۔۔۔تو تم کیوں خوار ہو رہی ہو اس کے پیچھے۔""کیونکہ میری قسمت میں خواری ہے۔"اس نے دوسری طرف سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔"اس کا کیا مطلب ہوا؟"وہ اُلجھا۔"کوئی مطلب نہیں ہے۔نہ تم سمجھ سکتے ہو۔۔۔۔۔تم بس اسے جا کر کہو کہ میری مدد کرے ، وہ حضرت محمد ﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔اس سے کہو کہ وہ آپ ﷺ کے لئے ہی مجھ سے شادی کر لے۔"وہ بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔"یہ کیا بات ہوئی۔"وہ اس کے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔"کیا یہ بات کہنے سے وہ تم سے شادی کر لے گا۔"امامہ نے جواب نہیں دیا ، وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔وہ بیزار ہو گیا۔"تم یا تو رو لو۔۔۔۔۔یا پھر مجھ سے بات کر لو۔"دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔سالار نے فوراً کال کی۔کال ریسیو نہیں کی گئی۔پندرہ بیس منٹ کے بعد امامہ نے اسے دوبارہ کال کی۔"اگر تم یہ وعدہ کرتی ہو کہ تم روؤ گی نہیں تو مجھ سے بات کرو ، ورنہ فون بند کر دو۔"سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔"پھر تم لاہور جا رہے ہو۔"اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے اس سے پوچھا۔سالار کو اس کی مستقل مزاجی پر حیرانی ہوئی۔وہ واقعی ڈھیٹ تھی۔وہ اب بھی اپنی ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی۔"اچھا ، میں چلا جاؤں گا۔تم نے اپنے گھر والوں کو شادی کے بارے میں بتایا ہے۔"سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔"نہیں ، ابھی نہیں بتایا۔"وہ اب خود پر قابو پا چکی تھی۔"کب بتاؤ گی؟"سالار کو جیسے ڈرامے کے اگلے سین کا انتظار تھا۔"پتا نہیں۔"وہ کچھ اُلجھی۔"تم کب لاہور جاؤ گے؟""بس جلد ہی چلا جاؤں گا۔ابھی یہاں مجھے کچھ کام ہے ورنہ فوراً ہی چلا جاتا۔"اس بار سالار نے جھوٹ بولا تھا۔نہ تو اسے کوئی کام تھا اور نہ ہی وہ اس بار لاہور جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔"جب تم بیلف کے ذریعے اپنے گھر سے نکل آؤ گی تو اس کے بعد تم کیا کرو گی۔۔۔۔۔آئی مین ! کہاں جاؤ گی؟"سالار نے ایک بار پھر اسے اس موضوع سے ہٹاتے ہوئے کہا۔"اس صورت میں جب جلال بھی تمہاری مدد کرنے پر تیار نہ ہوا تو۔۔۔۔۔""میں ابھی ایسا کچھ فرض نہیں کر رہی ، وہ ضرور میری مدد کرے گا۔"امامہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پُر زور انداز میں کہا۔سالار نے کندھے اُچکائے۔"تم کچھ بھی فرض کرنے کو تیار نہیں ہو ، ورنہ میں تم سے ضرور کہتا کہ شاید وہ نہ ہو جو تم چاہتی ہو پھر تم کیا کرو گی۔۔۔۔۔تمہیں دوبارہ اپنے پیرنٹس کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔۔۔۔۔تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ تم ابھی یہاں سے نہ جانے کا سوچو۔۔۔۔۔نہ ہی بیلف اور کورٹ کی مدد لو۔بعد میں بھی تو تمہیں یہاں ہی آنا پڑے گا۔""میں دوبارہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی ، کسی صورت میں نہیں۔""یہ جذباتیت ہے۔"سالار نے تبصرہ کیا۔"تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔"امامہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص جملہ دُہرایا۔سالار کچھ جزبز ہوا۔"اوکے۔۔۔۔۔کرو جو کرنا چاہتی ہو۔"اس نے لاپرواہی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭"کل شام کو ہم لوگ اسجد کے ساتھ تمہارا نکاح کر رہے ہیں۔تمہاری رخصتی بھی ساتھ ہی کر دیں گے۔"ہاشم مبین نے رات کو اس کے کمرے میں آ کر اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔"بابا ! میں انکار کر دوں گی۔۔۔۔۔آپ کے لئے بہتر ہے آپ اس طرح زبردستی میری شادی نہ کریں۔""تم انکار کرو گی تو میں تمہیں اسی وقت شوٹ کر دوں گا ، یہ بات تم یاد رکھنا۔"وہ سر اٹھائے انہیں دیکھتی رہی۔"بابا ! میں شادی کر چکی ہوں۔"ہاشم مبین کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔"میں اس لیے اس شادی سے انکار کر رہی تھی۔""تم جھوٹ بول رہی ہو۔""نہیں ، میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔میں چھے ماہ پہلے شادی کر چکی ہوں۔""کس کے ساتھ۔""میں یہ آپ کو نہیں بتا سکتی۔"ہاشم مبین کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس اولاد کے ہاتھوں ا تنا خوار ہوں گے۔آگ بگولہ ہو کر وہ امامہ پر لپکے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے اس کے چہرے پر تھپڑ مارنے شروع کر دئیے۔وہ چہرے کے سامنے دونوں ہاتھ کرتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہی۔کمرے میں ہونے والا شور سن کر وسیم سب سے پہلے وہاں آیا تھا اور اسی نے ہاشم مبین کو پکڑ کر زبردستی امامہ سے دور کیا۔وہ دیوار کے ساتھ پشت ٹکائے روتی رہی۔"بابا ! آپ کیا کر رہے ہیں ، سارا معاملہ آرام سے حل کیا جا سکتا ہے۔"وسیم کے پیچھے گھر کے باقی لوگ بھی اندر چلے آئے تھے۔"اس نے۔۔۔۔۔اس نے شادی کر لی ہے کسی سے۔"ہاشم مبین نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔"بابا ! جھوٹ بول رہی ہے ، شادی کیسے کر سکتی ہے۔ایک بار بھی گھر سے نہیں نکلی۔"یہ وسیم تھا۔"چھے ماہ پہلے شادی کر لی ہے اس نے۔"امامہ نے سر نہیں اٹھایا۔"نہیں ، میں نہیں مانتا۔ایسا نہیں ہو سکتا ، یہ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔"وسیم اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔امامہ نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔"ایسا ہو چکا ہے۔""کیا ثبوت ہے۔۔۔۔۔نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟"وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔"یہاں نہیں ہے ، لاہور میں ہے ، میرے سامان میں۔""بابا ! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے آتا ہوں۔دیکھ لیتے ہیں۔"وسیم نے ہاشم مبین سے کہا۔امامہ بےاختیار پچھتائی۔سامان سے کیا مل سکتا تھا۔"شادی کر بھی لی ہے تو کوئی بات نہیں ، طلاق دلوا کر تمہاری شادی اسجد سے کرواؤں گا اور اس آدمی نے طلاق نہ دی تو پھر اسے قتل کروا دوں گا۔"ہاشم مبین نے سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے جاتے ہوئے کہا۔کمرہ آہستہ آہستہ خالی ہو گیا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ جال میں پھنسنے کے بعد کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔یہ ایک اتفاق تھا کہ نکاح نامے کی کاپی سالار نے اس کو نہیں بھجوائی تھی۔اگر اس کے پاس ہوتی بھی تو تب بھی وہ اسے ہاشم مبین کو نہیں دے سکتی تھی ورنہ سالار سکندر کا نام نکاح نامے پر دیکھنے کے بعد ان کے لئے اس تک پہنچنا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا منٹوں کا کام تھا اور اس کے سامان سے نکاح نامہ نہیں ملے گا تو اس کے اس بیان پر کسی کو یقین نہ آ سکتا کہ وہ نکاح کر چکی تھی۔اس نے کمرے کے دروازے کو لاک کر دیا اور موبائل پر سالار کو کال کرنے لگی۔اس نے اسے ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔"تم ایک بار پھر لاہور جاؤ اور جلال کو میرے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔۔میں اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اس کے علاوہ میں کہیں نہیں جا سکتی۔تم میرے لئے ایک وکیل کو ہائر کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے پیرنٹس کو میرے شوہر کی طرف سے مجھے حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف ایک کورٹ نوٹس بھجوائے۔""تمہارے شوہر ، یعنی میری طرف سے۔""تم وکیل کو اپنا نام مت بتانا بلکہ یہ بہتر ہے کہ اپنے کسی دوست کے ذریعے وکیل کو ہائر کرو اور میرے شوہر کا کوئی بھی فرضی نام دے سکتے ہو۔تمہارا نام وکیل کے ذریعے انہیں پتا چلے گا تو وہ تم تک پہنچ جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔"امامہ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اسے کیا خدشہ ہے اور نہ ہی سالار نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔اس سے بات کرنے کے بعد امامہ نے فون بند کر دیا۔اگلے روز دس گیارہ بجے کے قریب کسی وکیل نے فون کر کے ہاشم مبین سے امامہ کے سلسلے میں بات کی اور انہیں امامہ کو زبردستی اپنے گھر رکھنے کے بارے میں اس کے شوہر کی طرف سے کئے جانے والے کیس کے بارے میں بتایا۔ہاشم مبین کو مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔وہ غصے میں پھنکارتے ہوئے اس کے کمرے میں گئے اور اسے بری طرح مارا۔"تم دیکھنا امامہ ! تم کس طرح برباد ہو گی۔۔۔۔۔ایک ایک شے کے لیے ترسو گی تم۔۔۔۔۔جو لڑکیاں تمہاری طرح اپنے ماں باپ کی عزت کو نیلام کرتی ہیں ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔تم ہمیں کورٹ تک لے گئی ہو۔۔۔۔۔۔تم نے وہ سارے احسان فراموش کر دئیے ، جو ہم نے تم پر کئے۔تمہارے جیسی بیٹیوں کو واقعی پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا چاہئیے۔"وہ بڑی خاموشی سے پٹتی رہی۔اپنے باپ کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی مگر وہ اپنی کیفیات اور اپنے احساسات انہیں نہیں سمجھا سکتی تھی۔"تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ، کسی کو نہیں۔ہمیں زندہ درگور کر دیا ہے تم نے۔"سلمیٰ اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھیں مگر انہوں نے ہاشم مبین کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔وہ خود بھی بری طرح مشتعل تھیں ، وہ جانتی تھیں کہ امامہ کا یہ قدم کس طرح ان کے پورے خاندان کو متاثر کرنے والا تھا اور خاص طور پر ان کے شوہر کو۔"تم نے ہمارے اعتماد کا خون کیا ہے۔کاش تم میری اولاد نہ ہوتیں۔کبھی میرے خاندان میں پیدا نہ ہوئی ہوتیں۔پیدا ہو ہی گئی تھی تو تب ہی مر جاتی۔۔۔۔۔یا میں ہی تمہیں مار دیتا۔"امامہ آج ان کی باتوں اور پٹائی پر نہیں روئی تھی۔اس نے مدافعت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔وہ صرف خاموشی کے ساتھ پٹتی رہی پھر ہاشم مبین احمد جیسے تھک سے گئے اور اسے مارتے مارتے رک گئے۔ان کا سانس پھول گیا تھا۔وہ بالکل خاموشی سے ان کے سامنے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔"تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے ، سب کچھ چھوڑ دو۔اس لڑکے سے طلاق لے لو اور اسجد سے شادی کر لو۔ہم اس سب کو معاف کر دیں گے ، بھلا دیں گے۔"اس بار سلمیٰ نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔"نہیں ، واپس آنے کے لئے اسلام قبول نہیں کیا ،مجھے واپس نہیں آنا۔"امامہ نے مدھم مگر مستحکم آواز میں کہا۔"آپ مجھے اس گھر سے چلے جانے دیں ، مجھے آزاد کر دیں۔""اس گھر سے نکل جاؤ گی تو دنیا تمہیں بہت ٹھوکریں مارے گی۔۔۔۔۔تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ باہر کی دنیا میں کیسے مگرمچھ تمہیں ہڑپ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔جس لڑکے سے شادی کر کے تم نے ہمیں ذلیل کیا ہے وہ تمہیں بہت خوار کرے گا۔ہمارے خاندان کو دیکھ کر اس نے تمہارے ساتھ اس طرح چوری چھپے رشتہ جوڑا ہے ، جب ہم تمہیں اپنے خاندان سے نکال دیں گے اور تم پائی پائی کی محتاج ہو جاؤ گی تو وہ بھی تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا ، تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی ، کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔"سلمیٰ اب اسے ڈرا رہی تھیں۔"ابھی بھی وقت ہے امامہ ! تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔""نہیں امی ! میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے ، میں سب کچھ طے کر چکی ہوں۔میں اپنا فیصلہ آپ کو بتا چکی ہوں۔مجھے یہ سب قبول نہیں۔آپ مجھے جانے دیں ، اپنے خاندان سے الگ کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔جائیداد سے محروم کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی مگر میں کروں گی وہی جو میں آپ کو بتا رہی ہوں۔میں اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کر چکی ہوں۔آپ یا کوئی بھی اسے بدل نہیں سکتا۔""ایسی بات ہے تو تم اس گھر سے نکل کر دکھاؤ ، میں تمہیں جان سے مار دوں گا لیکن اس گھر سے تمہیں جانے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔اور اس وکیل کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گا۔تمہیں اگر یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی کورٹ یا عدالت تمہیں میری تحویل سے نکال سکتی ہے تو یہ تمہاری بھول ہے ، میں تمہیں کبھی بھی کہیں بھی جانے نہیں دوں گا۔میں بیلف کے آنے سے پہلے اس گھر سے کہیں اور منتقل کر دوں گا پھر میں دیکھوں گا کہ تم کس طرح اپنے فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں اور مجھے اگر وہ لڑکا نہ ملا جس سے تم نے شادی کی ہے تو پھر میں اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے اسجد سے تمہاری شادی کر دوں گا۔میں اس شادی کو سرے سے ماننے سے انکار کرتا ہوں۔تمہاری شادی صرف وہ ہو گی جو میری مرضی سے ہو گی ، اس کے علاوہ نہیں۔"وہ مشتعل انداز میں کہتے ہوئے سلمیٰ کے ساتھ باہر نکل گئے۔وہ وہیں دیوار کے ساتھ کھڑی خوفزدہ اور پریشان نظروں سے دروازے کو دیکھتی رہی۔اس نے جس مقصد کے لیے شادی کی تھی اس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ہاشم مبین احمد اپنی بات پر چٹان کی طرح اڑے ہوئے تھے۔
"بےچاری امامہ بی بی ! " ناصرہ نے سالار کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اچانک بلند آواز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل پر پڑی ہوئی کتابوں کو سمیٹ رہا تھا۔ناصرہ اسے متوجہ دیکھ کر تیزی سے بولی۔"بڑی مار پڑی ہے جی کل رات کو۔""کس کو مار پڑی ہے؟"سالار نے کتابیں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔"امامہ بی بی کو جی ! اور کسے۔"وہ کتابیں ایک طرف کرتے کرتے رک گیا اور ناصرہ کو دیکھا جو کمرے میں موجود ایک شیلف کی جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔"ہاشم مبین نے کل بہت مارا ہے اسے۔"سالار بےحد محفوظ ہوا۔"واقعی؟""ہاں جی ، بہت زیادہ پٹائی کی ہے ، میری بیٹی بتا رہی تھی۔"ناصرہ نے کہا۔"ویری نائس۔"سالار نے بےاختیار تبصرہ کیا۔"جی۔۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"ناصرہ نے اس سے پوچھا۔اس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ ناصرہ کو بڑی عجب لگی۔اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس خبر پر مسکرائے گا۔اس کے ذاتی "قیافوں " اور "اندازوں" کے مطابق ان دونوں کے درمیان جیسے تعلقات تھے اس پر سالار کو بہت زیادہ افسردہ ہونا چاہئیے تھا مگر یہاں صورت ِحال بالکل برعکس تھی۔"بےچاری امامہ بی بی کو پتا چل جائے کہ سالار صاحب اس خبر پر مسکرا رہے تھے تو وہ تو صدمے سے ہی مر جائیں۔"ناصرہ نے دل میں سوچا۔"کس بات پر مارنا ہے جی ! سنا ہے وہ اسجد صاحب سے شادی پر تیار نہیں ہیں کسی اور "لڑکے" سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔"ناصرہ نے لڑکے پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں سالار کو دیکھا۔"بس اس بات پر۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔"یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے جی ، ان کے پورے گھر میں طوفان مچا ہوا ہے۔شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے ، کارڈ آ چکے ہیں اور اب امامہ بی بی بضد ہیں کہ وہ اسجد صاحب سے شادی نہیں کریں گی۔بس اسی بات پر ہاشم صاحب نے ان کی پٹائی کی۔""یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس پر کسی کو مارا جائے۔"وہ اپنی کتابوں میں مصروف تھا۔"یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا۔۔۔۔۔ان لوگوں کے لیے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔"ناصرہ نے اسی طرح صفائی کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔"میں تو بڑی دکھی ہوں ! امامہ بی بی کے لیے۔بڑی اچھی ہیں ، ادب لحاظ والی۔۔۔۔۔اور اب دیکھیں۔۔۔۔۔کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ان پر۔ہاشم صاحب نے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔میری بیٹی روز ان کا کمرہ صاف کرتی ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ بتاتی ہے کہ ان کا تو چہرہ ہی اُتر کر رہ گیا ہے۔"ناصرہ اسی طرح بول رہی تھی۔شاید وہ شعوری طور پر یہ کوشش کر رہی تھی کہ سالار اسے اپنا اور امامہ کا حمایتی اور طرف دار سمجھتے ہوئے کوئی راز کہہ دے مگر سالار احمق نہیں تھا اور اسے ناصرہ کی اس نام نہاد ہمدردی سے کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں۔اگر امامہ کی پٹائی ہو رہی تھی اور اسے کچھ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو اس سے اس کا کیا تعلق تھا ، مگر اسے اس صورت ِحال پر ہنسی ضرور آ رہی تھی۔کیا اس دور میں بھی کوئی اس عمر کی اولاد پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور وہ بھی ہاشم مبین احمد جیسے امیر طبقے کا آدمی ۔۔۔۔۔حیرانی کی بات تھی۔۔۔۔۔"سوچ کی ایک ہی رُو میں بہت سے متضاد خیالات بہ رہے تھے۔ناصرہ کچھ دیر اسی طرح بولتی اپنا کام کرتی رہی مگر پھر جب اس نے دیکھا کہ سالار اس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا اور اپنے کام میں مصروف ہو چکا ہے تو وہ قدرے مایوس ہو کر خاموش ہو گئی۔"یہ پہلے محبت کرنے والے تھے ، جن کا رویہ بےحد عجیب تھا۔۔۔۔۔کوئی اضطراب۔۔۔۔۔ بےچینی اور پریشانی تو ان دونوں کے درمیان نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی تکلیف کا بھی سن کر ۔۔۔۔۔شاید امامہ بی بی بھی ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی بات سن کر اسی طرح مسکرائیں ، کون جانتا ہے۔"ناصرہ نے شیلف پر پڑی ایک تصویر اٹھا کر صاف کی۔ 
گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل اور تکلیف دہ فیصلوں میں سے ایک تھا مگر اس کے علاوہ اس کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ہاشم مبین احمد اسے کہاں لے جاتے اور پھر کس طرح اسے طلاق دلوا کر اس کی شادی اسجد سے کرتے ، وہ نہیں جانتی تھی۔واحد چیز جو وہ جانتی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ ایک بار وہ اسے کہیں اور لے گئے تو پھر اس کے پاس رہائی اور فرار کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اسے جان سے کبھی نہیں ماریں گے مگر زندہ رہ کر اس طرح کی زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہو جاتا ، جیسی زندگی کی وہ اس وقت توقع اور تصور کر رہی تھی۔ہاشم مبین احمد کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک بیٹھ کر روتی رہی اور پھر اس نے پہلی بار اپنے حالات پر غور کرنا شروع کیا۔اسے گھر سے صبح ہونے سے پہلے پہلے نکلنا تھا اور نکل کر کسی محفوظ جگہ پر جا کر پہنچنا تھا۔محفوظ جگہ۔۔۔۔۔؟اس کے ذہن میں ایک بار پھر جلال انصر کا خیال آیا ، اس وقت صرف وہی شخص تھا جو اسے صحیح معنوں میں تحفظ دے سکتا تھا۔ہو سکتا ہے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر اس کا فیصلہ اور رویہ بدل جائے ، وہ اپنے فیصلے پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے ، ہو سکتا ہے وہ مجھے سہارا اور تحفظ دینے پر تیار ہو جائے ، اس کے والدین کو مجھ پر ترس آ جائے۔ایک موہوم سی اُمید اس کے دل میں اُبھر رہی تھی۔وہ مدد نہیں بھی کرتے تب بھی کم از کم میں آزاد تو ہوں گی۔اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزار تو سکوں گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں یہاں سے کیسے نکلوں گی اور جاؤں گی کہاں۔۔۔۔۔؟وہ بہت دیر تک پریشانی کے عالم میں بیٹھی رہی ، اسے ایک بار پھر سالار کا خیال آیا۔"اگر میں کسی طرح اس کے گھر پہنچ جاؤں تو وہ میری مدد کر سکتا ہے۔"اس نے سالار کے موبائل پر اس کا نمبر ملایا۔موبائل آف تھا ، کئی بار کال ملائی لیکن اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔امامہ نے موبائل بند کر دیا۔اس نے ایک بیگ میں اپنے چند جوڑے ، کپڑے اور دوسری چیزیں رکھ لیں۔اس کے پاس کچھ زیورات اور رقم بھی تھی ، اس نے انہیں بھی اپنے بیگ میں رکھ لیا پھر جتنی بھی قیمتی چیزیں اس کے پاس تھیں ، جنہیں وہ آسانی سے ساتھ لے جا سکتی تھی اور بعد میں بیچ کر پیسے حاصل کر سکتی تھی وہ انہیں اپنے بیگ میں رکھتی گئی۔بیگ بند کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دو نفل ادا کیے۔اس کا دل بےحد بوجھل ہو رہا تھا۔بےسکونی اور اضطراب نے اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔آنسو بہا کر بھی اس کے دل کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا۔نوافل ادا کرنے کے بعد جتنی آیات اور سورتیں اسے زبانی یاد تھیں اس نے وہ ساری پڑھ لیں۔بیگ لے کر اپنے کمرے کی لائٹ بند کر کے وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔لاؤنج کی ایک لائٹ کے علاوہ ساری لائٹیں آف تھیں۔وہاں زیادہ روشنی نہیں تھی۔وہ محتاط انداز میں چلتے ہوئے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آ گئی اور پھر کچن کی طرف چلی گئی۔کچن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ محتاط انداز میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے کچن کے اس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو باہر لان میں کھلتا تھا۔عقبی لان کے اس حصے میں کچھ سبزیاں لگائی گئی تھیں اور اس گھر میں کچن کا وہ دروازہ واحد دروازہ تھا جسے لاک نہیں کیا جاتا تھا ، صرف چٹخنی لگا دی جاتی تھی۔دروازہ اس رات بھی لاک نہیں تھا۔وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔کچھ فاصلے پر سرونٹ کوارٹرز تھے ، وہ بےحد محتاط انداز میں چلتے ہوئے لان عبور کر کے اپنے اور سالار کے گھر کی درمیانی دیوار تک پہنچ گئی۔دیوار بہت زیادہ بلند نہیں تھی ، اس نے آہستگی سے بیگ دوسری طرف پھینک دیا اور پھر کچھ جدوجہد کے بعد خود بھی دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہو گئی۔
جاری ہے


پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلم قسط نمبر 15


پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلم
قسط نمبر 15
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں اسجد سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تو شاپنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"امامہ نے مستحکم لہجے میں امی سے کہا۔سلمیٰ اسے اگلے روز اپنے ساتھ مارکٹ جانے کا کہنے کے لیے آئی تھیں۔
"پہلے تمہیں شادی پر اعتراض تھا ، اب تمہیں اسجد سے شادی پر اعتراض ہے ، آخر تُم چاہتی کیا ہو۔"سلمیٰ اس کی بات پر مشتعل ہو گئیں۔
"صرف یہ کہ آپ اسجد سے میری شادی نہ کریں۔"
"تو پھر کس سے کرنا چاہتی ہو تم۔"ہاشم مبین اچانک کھلے دروازے سے اندر آ گئے تھے۔یقیناً انہوں نے باہر کوریڈور میں امامہ اور سلمیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی اور وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائے تھے۔امامہ یک دم چپ ہو گئی۔
"بولو ، کس سے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔اب منہ بند کیوں ہو گیا ہے ، آخر تم اسجد سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔کیا تکلیف ہے تمہیں۔"انہوں نے بلند آواز میں کہا۔
"بابا ! شادی ایک بار ہوتی ہے اور وہ میں اپنی پسند سے کروں گی۔"وہ ہمت کر کے بولی۔
"کل تک اسجد تمہاری پسند تھا۔"ہاشم مبین نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"کل تھا ، اب نہیں ہے۔"
"کیوں ، اب کیوں نہیں ہے؟"امامہ کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"بولو ، اب کیوں پسند نہیں ہے وہ تمہیں۔"ہاشم مبین نے بلند آواز میں پوچھا۔
"بابا ! میں کسی مسلمان سے شادی کروں گی۔"ہاشم مبین کو لگا آسمان ان کے سر پر گر پڑا تھا۔
"کیا۔۔۔۔۔کہا تم نے۔۔۔۔۔؟"انہوں نے بےیقینی سے کہا۔
"میں کسی غیر مسلم سے شادی نہیں کروں گی کیونکہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"
کمرے میں اگلے کئی منٹ تک مکمل خاموشی رہی۔سلمیٰ کو جیسے سکتہ ہو گیا تھا اور ہاشم مبین۔۔۔۔۔وہ ایک پتھر کے مجسمے کی طرح اسے دیکھ رہے تھے۔ان کا منہ کھلا ہوا تھا وہ جیسے سانس لینا بھول گئے تھے۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی انہیں زندگی میں اپنی اولاد اور وہ بھی اپنی سب سے لاڈلی بیٹی کے سامنے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کے چالیس سال مکمل طور پر بھنور کی زد میں آ گئے تھے۔
"تم کیا بکواس کر رہی ہو۔"ہاشم مبین کے اندر اشتعال کی ایک لہر اٹھی تھی۔
"بابا ! آپ جانتے ہیں میں کیا کہہ رہی ہوں۔آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔"
"تم پاگل ہو گئی ہو۔"انہوں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا۔امامہ نے کچھ کہنے کی بجائے نفی میں گردن ہلائی۔وہ ہاشم مبین کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتی تھی۔"اس لیے تمہیں پیدا کیا۔۔۔۔۔تمہاری پرورش کی کہ تم۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔"ہاشم مبین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہیں۔"صرف اسجد سے شادی نہ کرنے کے لیے تم یہ سب کر رہی ہو ، صرف اس لیے کہ تمہاری شادی اس آدمی سے کر دیں جس سے تم چاہتی ہو۔"
"نہیں ، ایسا نہیں ہے۔"
"ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔تم بےوقوف سمجھتی ہو مجھے۔"ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
"آپ میری شادی کسی بھی آدمی سے کریں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔بس وہ آپ کی کمیونٹی سے نہ ہو۔۔۔۔۔پھر آپ کم از کم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ میں کسی خاص آدمی کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔"
ہاشم مبین اس کی بات پر دانت پیسنے لگے۔
"تم جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار۔۔۔۔۔۔تمہیں پتا کیا ہے۔۔۔۔۔"
"میں سب جانتی ہوں بابا ! میری عمر بیس سال ہے ، میں آپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والی بچی نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ کے اس مذہب کی وجہ سے ہمارے خاندان پر بڑی برکات نازل کی گئی ہیں۔"
وہ بڑے مستحکم اور ہموار انداز میں کہتی گئی۔"تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔بخشش نہیں ہو گی تمہاری۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔"
ہاشم مبین غصے کے عالم میں انگلی اٹھا کر بولنے لگے۔امامہ کو ان پر ترس آنے لگا۔اسے دوزخ میں کھڑے ہو کر دوزخ سے ڈرانے والے شخص پر ترس آیا ، اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر پھرنے والے شخص پر ترس آیا ، اسے مہر شدہ دل والے آدمی پر ترس آیا ، اسے نفس زدہ آدمی پر ترس آیا ، اسے گمراہی کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑے آدمی پر ترس آیا۔
"تم گمراہی کے رستے پر چل پڑی ہو۔۔۔۔۔چند کتابیں پڑھ کر تم ۔۔۔۔۔۔"امامہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
"آپ اس بارے میں مجھ سے بحث نہیں کر سکیں گے ، میں سب کچھ جانتی ہوں ، تحقیق کر چکی ہوں ، تصدیق کر چکی ہوں۔آپ مجھے کیا بتائیں گے ، کیا سمجھائیں گے۔آپ نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا ہے ، میں نے اپنی مرضی کا راستہ چن لیا۔آپ وہ کر رہے ہیں جو آپ صحیح سمجھتے ہیں ،میں وہ کر رہی ہوں جو میں صحیح سمجھتی ہوں۔"آپ کا عقیدہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔میرا عقیدہ میرا ذاتی مسئلہ ہے۔کیا اب یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ میرے اس فیصلے کو قبول کر لیں ، جذباتی حماقت کی بجائے بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جانے والا قدم سمجھ کر۔"
اس نے بڑی رسانیت اور سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ہاشم مبین کی ناراضی میں اور اضافہ ہوا۔
"میں۔۔۔۔۔میں اپنی بیٹی کو مذہب بدلنے دوں تاکہ پوری کمیونٹی میرا بائیکاٹ کر دے۔۔۔۔۔میں فٹ پاتھ پر آ جاؤں۔۔۔۔۔نہیں امامہ ! یہ نہیں ہو سکتا۔تمہارا اگر دماغ بھی خراب ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا دماغ بھی خراب ہو جائے۔کوئی بھی مذہب اختیار کرو مگر تمہاری شادی میں اسجد سے ہی کروں گا ، تمہیں اسی کے گھر جانا ہو گا۔۔۔۔۔اس کے گھر چلی جاؤ اور پھر وہاں جا کر طے کرنا کہ تمہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ہو سکتا ہے تمہیں عقل آ جائے۔"
وہ غصے کے عالم میں کمرے سے نکل گئے۔
"مجھے پتا ہوتا کہ تمہاری وجہ سے ہمیں اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا تو میں پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیتی۔"ہاشم مبین کے جاتے ہی سلمیٰ نے کھڑے ہوتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔"تم نے ہماری عزت خاک میں ملانے کا تہیہ کر لیا ہے۔"
امامہ کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔وہ کچھ دیر اسی طرح بولتی رہیں پھر کمرے سے چلی گئیں۔
انہیں اس کے کمرے سے گئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا جب دروازے پر دستک دے کر اسجد اندر داخل ہوا۔امامہ کو اس کے اس وقت وہاں آنے کی توقع نہیں تھی۔اسجد کے چہرے پر پریشانی بہت نمایاں تھی۔یقیناً اسے ہاشم مبین نے بلوایا تھا اور وہ اسے سب کچھ بتا چکے تھے۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے امامہ؟"اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اسے دیکھتے رہی۔
"تم کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ۔"
"اسجد ! تمہیں اگر یہ بتا دیا گیا ہے کہ میں کیا کر رہی ہوں تو پھر یہ بھی بتا دیا گیا ہو گا کہ میں کیوں کر رہی ہوں۔"
"تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کیا کر رہی ہو۔"وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"مجھے اندازہ ہے۔"
"اس عمر میں انسان جذبات میں آ کر بہت سے غلط فیصلے کر لیتا ہے۔۔۔۔۔"
امامہ نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔"جذبات میں آ کر۔۔۔۔۔؟کوئی جذبات میں آ کر مذہب تبدیل کرتا ہے؟کبھی نہیں۔۔۔۔۔میں چار سال سے اسلام کے بارے میں پڑھ رہی ہوں ، چار سال کم نہیں ہوتے۔"
"تم لوگوں کی باتوں میں آ گئی ہو۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔"
"نہیں ، میں کسی کی باتوں میں نہیں آئی۔میں نے جس چیز کو غلط سمجھا اسے چھوڑ دیا اور بس۔"
وہ کچھ دیر بےچارگی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹکتےہوئے اس نے کہا۔
"ٹھیک ہے ان سب باتوں کو چھوڑو ، شادی پر کیوں اعتراض ہے تمہیں۔۔۔۔۔تمہارے عقائد میں جو تبدیلی آئی ہے وہ ایک طرف۔کم از کم شادی تو ہونے دو۔"
"میری اور تمہاری شادی جائز نہیں۔"
وہ اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔"کیا میں غیر مسلم ہوں؟"
"ہاں ، تم ہو۔۔۔۔۔"
"انکل ٹھیک کہہ رہے تھے کسی نے واقعی تمہارا برین واش کر دیا ہے۔"اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"پھر تم ایک ایسی لڑکی سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو۔بہتر ہے تم کسی اور سے شادی کرو۔"اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
"میں نہیں چاہتا کہ تم اپنی زندگی برباد کر لو۔"وہ اس کی بات پر عجیب سے انداز میں ہنسی۔
"زندگی برباد۔۔۔۔۔کون سی زندگی۔۔۔۔۔یہ زندگی جو میں تم جیسے لوگوں کے ساتھ گزار رہی ہوں۔جنہوں نے پیسے کے لیے اپنے مذہب کو چھوڑ دیا۔۔۔۔۔"
"Behave yourselff ۔۔۔۔۔تم بات کرنے کے تمام مینرز بھول گئی ہو۔کس کے بارے میں کیا کہنا چاہئیے اور کیا نہیں ، تم نے سرے سے ہی فراموش کر دیا ہے۔"اسجد اسے ڈانٹنے لگا۔
"میں ایسے کسی شخص کا احترام نہیں کر سکتی جو لوگوں کو گمراہ کر رہا ہو۔"امامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
"جس عمر میں تم ہو۔۔۔۔۔اس عمر میں ہر کوئی اسی طرح کنفیوز ہو جاتا ہے جس طرح تم کنفیوز ہو رہی ہو۔جب تم اس عمر سے نکلو گی تو تمہیں احساس ہو گا کہ ہم لوگ صحیح تھے یا غلط۔"۔اسجد نے ایک بار اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"اگر تم لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ میں غلط ہوں ، تب بھی تم لوگ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔اس طرح مجھے گھر میں قید کر کے کیوں رکھا ہوا ہے اگر تم لوگوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر اتنا یقین ہے تو مجھے اس گھر سے چلے جانے دو۔۔۔۔۔حقیقت کو جانچنے دو۔۔۔۔۔"
"اگر کوئی اپنا ، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے پر تل جائے تو اسے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا اور وہ بھی ایک لڑکی کو۔۔۔۔۔امامہ ! تم اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھو ، اپنی فیملی کا خیال کرو ، تمہاری وجہ سے سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔"
"میری وجہ سے کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔اور اگر کچھ داؤ پر لگا بھی ہے تو میں اس کی پرواہ کیوں کروں۔میں تم لوگوں کے لئے دوزخ میں کیوں جاؤں ، صرف خاندان کے نام کی خاطر اپنا ایمان کیوں گنواؤں۔نہیں اسجد ! میں تم لوگوں کے ساتھ گمراہی کے اس راستے پر نہیں چل سکتی۔مجھے وہ کرنے دو جو میں کرنا چاہتی ہوں۔"اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
"مجھ سے اگر تم نے زبردستی شادی کر بھی لی تو بھی تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔میں تمہاری بیوی نہیں بنوں گی ، میں تم سے وفا نہیں کروں گی۔مجھے جب بھی موقع ملے گا ، میں بھاگ جاؤں گی۔تم آخر کتنے سال مجھے اس طرح قید کر کے رکھ سکو گے ، کتنے سال مجھ پر پہرے بٹھاؤ گے۔۔۔۔۔مجھے صرف چند لمحے چاہئیے ہوں گے تمہارے گھر ، تمہاری قید سے بھاگ جانے کے لیے ۔۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔۔میں تمہارے بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤں گی۔تم ساری عمر انہیں دوبارہ دیکھ نہیں سکو گے۔"
وہ اسے مستقبل کا نقشہ دکھا کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتی تو میں کبھی امامہ ہاشم جیسی لڑکی سے شادی نہ کروں۔۔۔۔۔یہ سراسر خسارے کا سودا ہو گا۔۔۔۔۔حماقت اور بےوقوفی کی انتہا ہو گی۔۔۔۔۔تم اب بھی سوچ لو۔۔۔۔۔اب بھی پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔تمہارے سامنے تمہاری ساری زندگی پڑی ہے۔۔۔۔۔تم کسی بھی لڑکی کے ساتھ شادی کر کے پُر سکون زندگی گزار سکتے ہو۔۔۔۔۔کسی پریشانی۔۔۔۔۔کسی بےسکونی کے بغیر مگر میرے ساتھ نہیں۔میں تمہارے لیے بدترین بیوی ثابت ہوں گی ، تم اس سارے معاملے سے الگ ہو جاؤ ، شادی سے انکار کر دو ، انکل اعظم سے کہہ دو کہ تم مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتے یا کچھ عرصے کے لیے گھر سے غائب ہو جاؤ۔جب تمام معاملہ ختم ہو جائے تو پھر آ جانا۔"
"تم مجھے اس طرح کے احمقانہ مشورے مت دو ، میں کسی بھی قیمت پر تم سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔کسی بھی قیمت پر۔نہ میں انکار کروں گا ، نہ اس معاملے سے الگ ہوں گا ، نہ ہی گھر سے کہیں جاؤں گا ۔۔۔۔۔میں تم سے ہی شادی کروں گا امامہ ! اب یہ ہمارے خاندان کی عزت اور ساکھ کا معاملہ ہے۔یہ شادی نہ ہونے اور تمہارے گھر سے چلے جانے سے ہمارے پورے خاندان کو جتنا نقصان اٹھانا پڑے گا اس کا تمہیں بالکل اندازہ نہیں ورنہ تم مجھے کبھی یہ مشورہ نہ دیتیں۔جہاں تک بُری بیوی ثابت ہونے یا گھر سے بھاگ جانے کا تعلق ہے۔۔۔۔۔تو یہ سب بعد کا مسئلہ ہے۔میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ، تم اس طرح کے ٹمپرامنٹ کی مالک نہیں ہو کہ دوسروں کو بےجا پریشان کرتی رہو۔۔۔۔۔اور وہ بھی مجھے ، جس سے تمہیں محبت ہے۔"اسجد بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
"تمہیں غلط فہمی ہے ، مجھے کبھی بھی تم سے محبت نہیں رہی۔۔۔۔۔کبھی بھی۔۔۔۔۔میں ذہنی طور پر تمہارے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کو اس وقت سے ذہن سے نکال چکی ہوں جب میں نے اپنا مذہب چھوڑا تھا۔تم میری زندگی میں اب کہیں نہیں ہو ، کہیں بھی نہیں۔۔۔۔۔اگر میں اپنے گھر والوں کے لئے مسائل کھڑے کر سکتی ہوں تو کل تمہارے لیے کتنے مسائل کھڑے کروں گی تمہیں اس کا احساس ہونا چاہئیے اور اس غلط فہمی سے باہر نکل آنا چاہئیے۔۔۔۔۔ہم دونوں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔میں تم لوگوں کے خاندان کا حصہ کبھی نہیں بنوں گی۔
نہیں اسجد ! تمہارے اور میرے درمیان بہت فاصلہ ہے ، اتنا فاصلہ کہ میں تمہیں دیکھ تک نہیں سکتی اور میں اس فاصلے کو کبھی ختم نہیں ہونے دوں گی۔میں کبھی بھی تم سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔"
اسجد بدلتی ہوئی رنگت کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کیا تم میرا ایک کام کر سکتے ہو؟"
"تمہارا کیا خیال ہے اب تک میں اس کے علاوہ کیا کر رہا ہوں۔"سالار نے پوچھا۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی ، پھر اس نے کہا۔"کیا تم لاہور جا کر جلال سے مل سکتے ہو۔"سالار نے ایک لمحہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں۔
"کس لئے۔"اسے امامہ کی آواز بہت بھاری لگ رہی تھی۔یوں جیسے اسے فلو تھا پھر اچانک اس کو خیال آیا کہ وہ یقیناً روتی رہی ہو گی۔یہ اسی کا اثر تھا۔
"تم میری طرف سے اس سے ریکویسٹ کرو کہ وہ مجھ سے شادی کر لے۔۔۔۔۔ہمیشہ کے لیے نہیں تو کچھ دنوں کے لیے ہی۔۔۔۔۔میں اس گھر سے نکلنا چاہتی ہوں اور میں کسی کی مدد کے بغیر یہاں سے نہیں نکل سکتی۔۔۔۔۔بس وہ مجھ سے نکاح کر لے۔"
"تمہارا تو اس سے فون پر رابطہ ہے تو پھر تم یہ سب خود اس سے فون پر کیوں نہیں کہہ دیتیں۔"سالار نے چپس کھاتے ہوئے بڑے اطمینان سے اسے مشورہ دیا۔
"میں کہہ چکی ہوں۔"اسے امامہ کی آواز پہلے سے زیادہ بھرائی ہوئی لگی۔
"پھر؟"
"اس نے انکار کر دیا ہے۔"
"ویری سیڈ۔"سالار نے افسوس کا اظہار کیا۔
"تو یہ ون سائیڈڈ لو افئیر تھا۔"اس نے کچھ تجسس کے عالم میں پوچھا۔
"نہیں۔"
"تو پھر اس نے انکار کیوں کر دیا؟"
"تم یہ جان کر کیا کرو گے۔"وہ کچھ چڑ کر بولی۔سالار نے ایک اور چپس اپنے منہ میں ڈالا۔
"میرے وہاں جا کر اس سے بات کرنے سے کیا ہو گا ، بہتر ہے تم ہی دوبارہ اس سے بات کر لو۔"
"وہ مجھ سے بات نہیں کر رہا ، وہ فون نہیں اٹھاتا۔ہاسپٹل میں بھی کوئی اسے فون پر نہیں بلا رہا۔وہ جان بوجھ کر کترا رہا ہے۔"امامہ نے کہا۔
"تو پھر تم اس کے پیچھے کیوں پڑی ہو ، جانے دو اسے۔وہ تم سے محبت نہیں کرتا۔"
"تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے ، تم صرف میری مدد کرو ، ایک بار جا کر اسے میری صورت حال کے بارے میں بتاؤ ، وہ مجھ سے اس طرح نہیں کر سکتا۔"
"اور اگر اس نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کر دیا تو۔"
"پھر بھی تم اس سے بات کرنا ، شاید۔۔۔۔۔شاید کوئی صورت نکل آئے ، میرا مسئلہ حل ہو جائے۔"
سالار کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی ، اسے امامہ کے حال پر ہنسی آ رہی تھی۔
فون بند کرنے کے بعد چپس کھاتے ہوئے بھی وہ اس سارے معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اس سارے معاملے میں زیادہ سے زیادہ انوالو ہوتا جا رہا تھا۔یہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر محسوس ہو رہا تھا۔پہلے امامہ تک فون پہنچانا اور اب جلال سے رابطہ۔۔۔۔۔امامہ کا بوائے فرینڈ ۔۔۔۔۔اس نے چپس کھاتے ہوئے زیرِ لب دُہرایا۔امامہ نے اسے اس کے ہاسپٹل اور گھر کے تمام کوائف سے آگاہ کر دیا تھا اور اب وہ سوچ رہا تھا کہ اسے جلال انصر سے مل کر کیا کہنا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اس شخص کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور وہ خاصا مایوس ہوا۔سامنے کھڑا لڑکا بڑی عام سی شکل و صورت کا تھا۔سالار کے لمبے قد اور خوبصورت جسم نے اسے صنفِ مخالف کے لئے کسی حد تک پرکشش بنا دیا تھا مگر سامنے کھڑا ہوا وہ شخص ان دونوں چیزوں سے محروم تھا۔وہ نارمل قد و قامت کا مالک تھا۔اس کے چہرے پر داڑھی نہ ہوتی تو وہ پھر بھی قدرے بہتر نظر آتا۔سالار سکندر کو جلال انصر سے مل کر مایوسی ہوئی تھی۔امامہ اب اسے پہلے سے زیادہ بےوقوف لگی۔
"میں جلال انصر ہوں ، آپ ملنا چاہتے ہیں مجھ سے؟"
"میرا نام سالار سکندر ہے۔"سالار نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
"معاف کیجئیے گا مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔"
"ظاہر ہے آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں۔میں پہلی بار آپ سے مل رہا ہوں۔"
سالار اس وقت جلال کے ہاسپٹل میں اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا۔چند لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کرنے پر وہ اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔اس وقت وہ ڈیوٹی روم کے باہر کھڑے تھے۔
"کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟"جلال اب کچھ حیران نظر آیا۔
"بیٹھ کر بات۔۔۔۔۔مگر کس سلسلے میں۔"
"امامہ کے سلسلے میں۔"
جلال کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔"آپ کون ہیں؟"
"میں اس کا دوست ہوں۔"جلال کے چہرے کا رنگ ایک بار پھر بدل گیا۔وہ چپ چاپ ایک طرف چلنے لگا۔سالار اس کے ساتھ تھا۔
"پارکنگ میں میری گاڑی کھڑی ہے ، وہاں چلتے ہیں۔"سالار نے کہا۔
گاڑی تک پہنچنے اور اس کے اندر بیٹھنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔
"میں اسلام آباد سے آیا ہوں۔"سالار نے کہنا شروع کیا۔
"امامہ چاہتی تھی کہ میں آپ سے بات کروں۔"
"امامہ نے کبھی مجھ سے آپ کا ذکر نہیں کیا۔"جلال نے کچھ عجیب سے انداز میں کہا۔
"آپ امامہ کو کب سے جانتے ہیں؟"
"تقریباً بچپن سے۔۔۔۔۔ہم دونوں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں۔بڑی گہری دوستی ہے ہماری۔"
سالار نہیں جانتا اس نے آخری جملہ کیوں کہا۔شاید یہ جلال کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ تھے جن سے وہ کچھ اور محفوظ ہونا چاہتا تھا۔وہ جلال کے چہرے پر نمودار ہونے والی ناپسندیدگی دیکھ چکا تھا۔
"امامہ سے میری بہت تفصیلی بات ہو چکی ہے ، اتنی تفصیلی بات کے بعد اور کیا بات ہو سکتی ہے۔"جلال نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"امامہ چاہتی ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں۔"سالار نے جیسے نیوز بلیٹن پڑھتے ہوئے کہا۔
"میں اپنا جواب اسے بتا چکا ہوں۔"
"وہ چاہتی ہے آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔"
"یہ ممکن نہیں ہے۔"
"وہ اس گھر میں اپنے والدین اور گھر والوں کی قید میں ہے۔وہ چاہتی ہے آپ اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو وقتی طور پر اس سے نکاح کریں اور پھر بیلف کی مدد سے اسے چھڑا لیں۔"
"یہ ممکن ہی نہیں ہے ، وہ ان کی قید میں ہے تو نکاح ہو ہی کیسے سکتا ہے۔"
"فون پر۔"
"نہیں ، میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔میں ایسے معاملات میں انوالو ہونا ہی نہیں چاہتا۔"جلال نے کہا۔"میرے والدین مجھے اس شادی کی اجازت نہیں دیں گے اور پھر وہ امامہ کو قبول کرنے پر تیار بھی نہیں ہیں۔"
جلال کی نظریں اب سالار کے بالوں کی پونی پر جمی ہوئی تھیں ، یقیناً سالار کی طرح اس نے بھی اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہو گا۔
"اس نے کہا کہ آپ وقتی طور پر اس سے صرف نکاح کر لیں تاکہ وہ اپنے گھر سے نکل سکے ، بعد میں آپ چاہیں تو اسے طلاق دے دیں۔"
"میں نے کہا نا میں اس کی مدد نہیں کر سکتا اور پھر اس طرح کے معاملات ۔۔۔۔۔آپ خود اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔۔۔۔اگر وقتی شادی کی بات ہے تو آپ کر لیں۔آخر آپ اس کے دوست ہیں۔"
جلال نے کچھ چھبتے ہوئے انداز میں سالار سے کہا۔"آپ اسلام آباد سے لاہور اس کی مدد کے لیے آ سکتے ہیں تو پھر یہ کام بھی کر سکتے ہیں۔"
"اس نے مجھ سے شادی کا نہیں کہا ، اس لئے میں نے اس بارے میں نہیں سوچا۔"سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے بےتاثر لہجے میں کہا۔"ویسے بھی وہ آپ سے محبت کرتی ہے ، مجھ سے نہیں۔"
"مگر عارضی شادی یا نکاح میں تو محبت کا ہونا ضروری نہیں۔بعد میں آپ بھی اسے طلاق دے دیں۔"جلال نے مسئلے کا حل نکال لیا تھا۔
"آپ کا مشورہ میں اسے پہنچا دوں گا۔"سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
"اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر امامہ سے کہیں کہ وہ کوئی اور طریقہ اپنائے۔۔۔۔۔بلکہ آپ کسی نیوز پیپر کے آفس چلے جائیں اور انہیں امامہ کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے زبردستی قید کر رکھا ہے۔جب میڈیا اس معاملے کو ہائی لائٹ کرے گا تو خود ہی وہ امامہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر آپ پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دیں۔"
سالار کو حیرانی ہوئی۔جلال کی تجویز بری نہیں تھی۔واقعی امامہ اس بارے میں کیوں نہیں سوچ رہی تھی۔یہ راستہ زیادہ محفوظ تھا۔
"میں آپ کا یہ مشورہ بھی اسے پہنچا دوں گا۔"
"آپ دوبارہ میرے پاس نہ آئیں بلکہ امامہ سے بھی یہ کہہ دیں کہ وہ مجھ سے کسی بھی طریقے یا ذریعے سے دوبارہ رابطہ نہ کرے۔میرے والدین ویسے بھی میری منگنی کرنے والے ہیں۔"جلال نے جیسے انکشاف کیا۔
""ٹھیک ہے ، میں یہ ساری باتیں اس تک پہنچا دوں گا۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔جلال مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سے اُتر گیا۔
اگر امامہ کو یہ توقع تھی کہ سالار جلال کو اس سے شادی کرنے کے لیے قائل کرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔وہ امامہ سے کوئی ہمدردی رکھتا تھا نہ ہی کسی خوفِ خدا کے تحت اس سارے معاملے میں کودا تھا۔۔۔۔۔اس کے لئے یہ سب کچھ ایک ایڈونچر تھا اور ایڈونچر میں یقیناً جلال سے امامہ کی شادی شامل نہیں تھی۔اگر جلال سے اس کی شادی کے لئے دلائل دینے بھی پڑتے تو وہ کیا دیتا۔اس کے پاس صرف ایک دلیل کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں تھی کہ جلال اور امامہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور یہ وہ دلیل تھی جسے جلال پہلے ہی رد کر چکا تھا۔وہ مذہبی یا اخلاقی حوالوں سے قائل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ خود ان دونوں چیزوں سے نا بلد تھا۔مذہب اور اخلاقیات سے اس کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آخر وہ امامہ کے لیے ایک دوسرے آدمی سے اتنی لمبی بحث کرتا کیوں۔وہ بھی ایسا آدمی جسے دیکھتے ہی اس نے ناپسند کر دیا تھا۔
اور یہ تمام وہ باتیں تھیں جو وہ اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے سوچ رہا تھا۔وہ آیا اس لیے تھا کیونکہ وہ جلال سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ امامہ کے پیغام پر اس کا ردِ عمل کیا رہتا تھا۔اس نے امامہ کا پیغام اسی کے لفظوں میں کسی اضافے یا ترمیم کے بغیر پہنچا دیا تھا اور اب وہ جلال کا جواب لے کر واپس جا رہا تھا اور خاصا محفوظ ہو رہا تھا۔آخر اس پیغام کے جواب میں وہ کیا کرے گی ، کہے گی۔اسجد سے شادی تو وہ نہیں کرے گی ، جلال اس سے شادی کرنے پر تیار نہیں ، گھر سے وہ نکل نہیں سکتی ، کوئی اور ایسا آدمی نہیں جو اس کی مدد کے لیے آ سکے پھر آخر وہ آگے کیا کرے گی۔عام طور پر لڑکیاں ان حالات میں خودکشی کرتی ہیں۔اوہ یس۔۔۔۔۔وہ یقیناً اب مجھ سے زہر یا ریوالور پہنچانے کی خواہش کرے گی۔
سالار متوقع صورت حال کے بارے میں سوچ کر پُر جوش ہو رہا تھا۔"خودکشی۔۔۔۔۔ویری ایکسائیٹنگ۔
"آخر اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی ہے۔٭
"تم مجھ سے شادی کرو گے؟" سالار کو جیسے شاک لگا۔"فون پر نکاح؟" وہ کچھ دیر کے لئے بول نہیں سکا۔
لاہور سے واپس آنے کے بعد اس نے امامہ کو جلال کا جواب بالکل اسی طرح سے پہنچا دیا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اب رونا دھونا شروع کرے گی اور پھر اس سے کسی ہتھیار کی فرمائش کرے گی، مگر وہ کچھ دیر کے لئے خاموش رہی پھر اس نے سالار سے جو کہا تھا اس نے چند ثانیوں کے لئے سالار کے ہوش گم کر دئیے تھے۔
"مجھے صرف کچھ دیر کے لئے تمہارا ساتھ چاہئیے۔ تاکہ میرے والدین اسجد کے ساتھ میری شادی نہ کر سکیں اور پھر تم بیلف کے ذریعے مجھے یہاں سے نکال لو۔ اس کے بعد مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہے گی اور میں کبھی بھی اپنے والدین کو تمہارا نام نہیں بتاؤں گی۔" وہ اب کہہ رہی تھی۔
"اوکے کر لیتا ہوں۔۔۔۔۔ مگر یہ بیلف والا کام تھوڑا مشکل ہے۔ اس میں بہت سی legalitiess انوالو ہو جاتی ہیں۔ وکیل کو ہائر کرنا۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔"امامہ نے دوسری طرف سے اس کی بات کاٹ دی۔"تم اپنے فرینڈز سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہو۔ تمہارے فرینڈز تو اس طرح کے کاموں میں ماہر ہوں گے۔"
سالار کے ماتھے پر کچھ بل نمودار ہوئے۔"کس طرح کے کاموں میں۔"
"اسی طرح کے کاموں میں۔"تم کیسے جانتی ہو۔"
"وسیم نے مجھے بتایا تھا کہ تمہاری کمپنی اچھی نہیں ہے۔"
امامہ کے منہ سے بے اختیار نکلا اور پھر وہ خاموش ہو گئی۔ یہ جملہ مناسب نہیں تھا۔
"میری کمپنی بہت اچھی ہے، کم از کم جلال انصر کی کمپنی سے بہتر ہے۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اس بار بھی خاموش رہی۔
"بہرحال میں دیکھتا ہوں، میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں۔"سالار کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد بولا۔" مگر تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ یہ کام بہت رسکی ہے۔"
"میں جانتی ہوں مگر ہو سکتا ہے میرے والدین صرف یہ پتا چلنے پر ہی مجھے گھر سے نکال دیں کہ میں شادی کر چکی ہوں اور مجھے بیلف کی مدد لینی نہ پڑے یا ہو سکتا ہے وہ میری شادی کو قبول کر لیں اور پھر میں تم سے طلاق لے کر جلال سے شادی کر سکوں۔"
سالار نے سر کو قدرے افسوس کے عالم میں جھٹکا۔ اس نے دنیا میں اس طرح کا احمق پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ احمقوں کی جنت کی ملکہ تھی یا شاید ہونے والی تھی۔
"چلو دیکھتا ہوں، کیا ہوتا ہے۔" سالار نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
٭
"میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔" حسن نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر بےاختیار ہنسا۔
"یہ اس سال کا نیا ایڈونچر ہے یا آخری ایڈونچر؟"
"آخری ایڈونچر۔"سالار نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ تبصرہ کیا۔"یعنی تم شادی کر رہے ہو۔"
حسن نے برگر کھاتے ہوئے کہا۔
"شادی کا کون کہہ رہا ہے۔" سالار نے اسے دیکھا۔
"تو پھر؟"
"میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہ رہا ہوں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے، میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔" حسن اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"آج تم مذاق کے موڈ میں ہو؟"
"نہیں، بالکل بھی نہیں۔ میں نے تمہیں یہاں مذاق کرنے کے لئے تو نہیں بلایا۔"
"پھر کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔ نکاح۔۔۔۔۔ لڑکی کی مدد۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔" اس بار حسن نے قدرے ناگواری سے کہا۔" محبت ہو گئی ہے تمہیں اس سے؟"
"مائی فٹ۔۔۔۔۔ میرا دماغ خراب ہے کہ میں کسی سے محبت کروں گا اور وہ بھی اس عمر میں۔" سالار نے تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہی تو۔۔۔۔۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ پھر تم کیا کر رہے ہو۔"
سالار نے اس بار اسے تفصیل سے امامہ اور اس کے مسئلے کے بارے میں بتایا۔ اس نے احسن کو صرف یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ لڑکی وسیم کی بہن ہے کیونکہ حسن وسیم سے بہت اچھی طرح واقف تھا لیکن اس سے تفصیلات سننے کے بعد حسن نے پہلا سوال ہی یہ کیا تھا۔
"وہ لڑکی کون ہے؟" سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
"وسیم کی بہن۔"
"واٹ۔" حسن بے اختیار اچھلا۔"وسیم کی بہن۔۔۔۔۔ وہ جو میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔"
"ہاں۔"
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ، تم کیوں خوامخواہ اس طرح کی حماقت کر رہے ہو۔وسیم کو بتا دو اس سارے معاملے کے بارے میں۔"
"میں تم سے مدد مانگنے آیا ہوں ، مشورہ مانگنے نہیں۔"سالار نے ناگواری سے کہا۔
"میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔"حسن نے کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"تم نکاح خواں اور کچھ گواہوں کا انتظام کرو ، تاکہ میں اس سے فون پر نکاح کر سکوں۔"سالار نے فوراً ہی کام کی بات کی۔
"مگر تمہیں یہ نکاح کر کے کیا فائدہ ہو گا۔"
"کچھ بھی نہیں ، مگر میں کسی فائدے کے بارے میں سوچ بھی کب رہا ہوں۔"
"دفع کرو سالار ! اس سب کو۔۔۔۔۔تم کیوں کسی دوسرے کے معاملے میں کود رہے ہو اور وہ بھی وسیم کی بہن کے معاملے میں۔۔۔۔۔بہتر۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار درشتی سے اس کی بات کاٹی۔"تم مجھے صرف یہ بتاؤ میری مدد کرو گے یا نہیں۔۔۔۔۔باقی چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔"
"ٹھیک ہے ، میں تمہاری مدد کروں گا۔میں مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہوں ، مگر تم یہ سوچ لو کہ یہ سب بہت خطرناک ہے۔"حسن نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
"میں سوچ چکا ہوں ، تم مجھے تفصیلات بتاؤ۔"سالار نے اس بار فرنچ فرائز کھاتے ہوئے کچھ مطمئن انداز میں کہا۔
"بس ایک بات۔۔۔۔۔اگر انکل اور آنٹی کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔"
"انہیں پتا نہیں چلے گا ، وہ یہاں نہیں ہیں ، کراچی گئے ہوئے ہیں اور ابھی کچھ دن وہاں رکیں گے۔وہ یہاں ہوتے پھر میرے لیے یہ سب کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا۔"سالار نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔وہ اپنا برگر تقریباً ختم کر چکا تھا۔حسن اب اپنا برگر کھاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا نظر آ رہا تھا مگر سالار اس کے تاثرات کی طرف دھیان نہیں دے رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ حسن اس وقت اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہے۔اسے حسن سے کسی قسم کا خوف یا خطرہ نہیں تھا۔وہ اس کا بہترین
جاری ہے


پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلم قسط نمبر 14


پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلم
قسط نمبر 14
__________________
امامہ اپنے کمرے میں آ کر بھی اسی طرح بیٹھی رہی، اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ صرف چند گھنٹوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ پوری رات سو نہیں سکی۔ صبح وہ ناشتے کے لئے باہر آئی۔ اس کی بھوک یک دم جیسے غائب ہو گئی تھی۔
دس ساڑھے دس بجے کے قریب اس نے پورچ میں کچھ گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے اور جانے کی آوازیں سنیں۔ وہ جانتی تھی اس وقت ہاشم مبین اور اس کے بڑے بھائی آفس چلے جاتے تھے اور اسے ان کے آفس جانے کا انتظار تھا۔ ان کے جانے کے آدھ گھنٹہ بعد وہ اپنے کمرے سے باہر آئی۔ لاؤنج میں اس کی امی اور بھابھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ خاموشی سے فون کے پاس چلی گئی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی۔
"تمہارے بابا کہہ کر گئے ہیں کہ تم کہیں فون نہیں کرو گی۔" اس نے گردن موڑ کر اپنی امی کو دیکھا۔
"میں اسجد کو فون کر رہی ہوں۔"
"کس لئے؟"
"میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"وہی فضول باتیں جو تم رات کو کر رہی تھیں۔" سلمیٰ نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں آپ کے سامنے بات کر رہی ہوں، آپ مجھے بات کرنے دیں۔۔۔۔۔ اگر میں نے کوئی غلط بات کی تو آپ فون بند کر سکتی ہیں۔" اس نے پرسکون انداز میں کہا اور شاید یہ اس کا انداز ہی تھا جس نے سلمیٰ کو کچھ مطمئن کر دیا۔
امامہ نے نمبر ڈائل کیا مگر وہ ا سجد کو فون نہیں کر رہی تھی۔ چند بار بیل بجنے کے بعد دوسری طرف فون اٹھا لیا گیا۔ فون اٹھانے والا جلال ہی تھا۔ خوشی کی ایک لہر امامہ کے اندر سے گزر گئی۔
"ہیلو! میں امامہ بول رہی ہوں۔" اس نے جلال کا نام لیے بغیر اعتماد سے کہا۔
"تم بتائے بغیر اسلام آباد کیوں چلی گئیں میں کل تم سے ملنے ہاسٹل گیا تھا۔" جلال نے کہا۔
"میں اسلام آباد آئی ہوں اسجد!" امامہ نے کہا۔
"اسجد!" دوسری طرف سے جلال کی آواز آئی۔" تم کس سے کہہ رہی ہو؟"
"مجھے بابا نے رات ہی بتایا کہ میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔"
"امامہ؟" جلال کو جیسے ایک کرنٹ لگا۔"شادی کی تاریخ۔" امامہ اس کی بات سنے بغیر اسی پرسکون انداز میں بولتی رہی۔" میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"امامہ! میں ابھی بات نہیں کر سکا۔"
"تو پھر تم بات کرو، میں تمہارے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کر سکتی، یہ تم جانتے ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس طرح کی شادی نہیں کروں گی۔ تم اپنے پیرنٹس سے بات کرو اور پھر مجھے بتاؤ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"
"امامہ! کیا تمہارے پاس کوئی ہے۔" جلال کے ذہن میں اچانک ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں۔"
"اس لئے تم مجھے اسجد کہہ رہی ہو؟"
"ہاں۔"
"میں اپنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں، تم مجھے دوبارہ رنگ کب کرو گی؟"
"تم مجھے بتا دو کہ میں تمہیں کب رنگ کروں؟"
"کل فون کر لو، تمہاری شادی کی تاریخ کب طے کی گئی ہے۔" جلال کی آواز میں پریشانی تھی۔
"یہ مجھے نہیں پتا۔"امامہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے امامہ! میں آج ہی ا پنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اس نےا مامہ کو تسلی دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
امامہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی بھابھی یا امی کو یہ شک نہیں ہو سکا کہ وہ اسجد سے نہیں کسی اور سے بات کر رہی تھی۔
"یہ شادی تمہارے بابا اور اعظم بھائی نے مل کر طے کی ہے۔ تمہارے یا اسجد کے کہنے پر وہ اسے ملتوی نہیں کریں گے۔" سلمیٰ نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا۔
"امی! میں مارکیٹ تک جا رہی ہوں، مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں۔" امامہ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
"فون کی بات دوسری ہے مگر میں تمہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں سے سکتی۔ تمہارے بابا نہ صرف مجھے بلکہ چوکیدار کو بھی ہدایت کر گئے ہیں کہ تمہیں باہر جانے نہ دیں۔"
"آمی! آپ لوگ میرے ساتھ آخر اس طرح کیوں کر رہےہیں؟" امامہ نے کچھ بے بسی کے عالم میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔" میں نے آپ کو اپنی شادی سے تو منع نہیں کیا۔ میری ہاؤس جاب تک انتظار کر لیں، اس کے بعد میری شادی کر دیں۔"
"میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تم شادی سے انکار کیوں کر رہی ہو، تمہاری شادی جلد ہو رہی ہے مگر تمہاری مرضی کے خلاف تو نہیں ہو رہی۔" اس بار اس کی بھابھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"خواہ مخواہ کل رات سے پورا گھر ٹینشن کا شکا ر ہے اور میں تو تمہیں دیکھ کر حیران ہوں تم تو کبھی بھی اس طرح ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ جب سے تم لاہور گئی ہو بہت عجیب ہو گئی ہو۔"
"اور ہمارے چاہنے سے ویسے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے، تمہارے بابا نے طے کیا ہے یہ سب کچھ۔"
"آپ انہیں سمجھا تو سکتی تھیں۔" امامہ نے سلمیٰ کی بات پرا حتجاج کیا۔
"کس بات پر؟" سمجھاتی تو تب اگر مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض لگتی اور مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔" سلمیٰ نے بڑے آرام سے کہا۔ امامہ غصہ کے عالم میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سکندر اور طیبہ کراچی گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر اکیلا ہی تھا، ملازم جس وقت ناشتہ لے کر آیا وہ ٹی وی آن کئے بیٹھا تھا۔
"ذرا ناصرہ کو اندر بھیجنا۔" اسے ملازم کو دیکھ کر کچھ یاد آیا۔ اس کے جانے کے چند منٹ بعد ناصرہ اندر داخل ہوئی۔
"جی صاحب! آپ نے بلایا ہے؟" ادھیڑ عمر ملازمہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"ہاں، میں نے بلایا ہے۔۔۔۔ تم سے ایک کام کروانا ہے۔" سالار نے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے کہا۔
"ناصرہ! تمہاری بیٹی وسیم کے گھر کام کرتی ہے نا؟" سالار اب ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"ہاشم صاحب کے گھر؟" ناصرہ نے کہا۔
"ہاں، ان ہی کے گھر۔"
"ہاں جی کرتی ہے۔" وہ کچھ حیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
"کس وقت جاتی ہے وہ ان کے گھر؟"
"اس وقت ان کے گھر پر ہی ہے۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ سالار صاحب؟" ناصرہ اب کچھ پریشان نظر آنے لگی۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، یہ موبائل اسے دو اور اس سے کہو کہ یہ امامہ کو دےدے۔" سالار نے بڑے لاپرواہ انداز میں اپنا موبائل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
ناصرہ ہکا بکا رہ گئی۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔
"یہ موبائل اپنی بیٹی کو دو اور اس سے کہو کسی کو بتائے بغیر یہ امامہ تک پہنچا دے۔"
"مگر کیوں؟"
"یہ جاننا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔" سالار نے ناگواری کے عالم میں اسے جھڑکا۔
"لیکن اگر کسی کو وہاں پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔" ناصرہ کی بات کو اس نے درشتی سے کاٹ دیا۔
"کسی کو پتا تب چلے گا جب تم اپنا منہ کھولو گی۔۔۔۔۔ اور تم اپنا منہ کھولو گی تو صرف تمہیں اور تمہاری بیٹی کو نقصان ہو گا اور کسی کو نہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو نہ صرف کسی کو پتا نہیں چلے گا بلکہ تمہیں بھی خاصا فائدہ ہو گا۔"
ناصرہ نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے وہ موبائل پکڑ لیا۔" میں پھر کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ کسی کو اس موبائل کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہئیے۔" وہ اپنا والٹ نکال رہا تھا۔
ناصرہ سر ہلاتے ہوئے جانے لگی۔"ایک منٹ ٹھہرو۔" سالار نے اسے روکا۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔
"یہ لے لو۔" اس نے انہیں ناصرہ کی طرف بڑھا دئیے۔ ناصرہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ نوٹ پکڑ لئے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی رہی تھی وہاں کے بچوں کے ایسے بہت سے رازوں سے واقف تھی، اسے بھی پیسے کمانے کا موقع مل گیا تھا۔ اس نے فوری اندازہ یہی لگایا تھا کہ امامہ اور سالار کا چکر چل رہا تھا اور یہ موبائل وہ تحفہ تھا جو اسے امامہ کو دینا تھا، مگر اسے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس سب کا اسے پہلے پتا کیوں نہیں چلا۔۔۔۔۔ اور پھر امامہ۔۔۔۔۔ اس کی تو شادی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی تھی۔
"اور دیکھو ذرا مجھے، میں امامہ بی بی کو کتنا سیدھا سمجھتی رہی۔" ناصرہ کو اب اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ابو! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔" جلال رات کو اپنے والد کے کمرے میں چلا آیا۔ اس کے والد اس وقت اپنی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں آؤ، کیابات ہے۔" انہوں نے جلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہا، اس کے والد نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہے۔" انہیں یک دم تشویش ہونے لگی۔
"ابو! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" جلال نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
"کیا؟" انصر جاوید کو اس کے منہ سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔" تم کیا کرنا چاہتے ہو؟"
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
"یہ فیصلہ تم نے یک دم کیسے کر لیا۔ کل تک تو تم باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اوراب آج تم شادی کا ذکر لے بیٹھے ہو۔" انصر جاوید مسکرائے۔
"بس۔۔۔۔۔ معاملہ ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ مجھے آپ سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔"
انصر جاوید سنجیدہ ہو گئے۔
"آپ نے زینب کی دوست امامہ کو دیکھا ہے۔" اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
"ہاں! تم اس میں انٹرسٹڈ ہو۔" انصر جاوید نے فوراً اندازہ لگایا۔
جلال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔" مگر وہ لوگ تو بہت امیر ہیں۔۔۔۔۔ اس کا باپ بڑا صنعت کا ر ہے اور وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔" انصر جاوید کا لہجہ بدل چکا تھا۔
"ابو ! وہ اسلام قبول کر چکی ہے، اس کی فیملی قادیانی ہے۔" جلال نے وضاحت کی۔
"اس کے گھر والوں کو پتا ہے؟"
"نہیں۔"
"تمہارا خیال ہے وہ یہ پرپوزل قبول کر لیں گے؟" انصر جاوید نے چبھتے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔
"ابو! اس کی فیملی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کی اجازت کی بغیر ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔"
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟" اس بار انصر جاوید نے بلند آواز میں کہا۔" میں تمہیں کسی حالت میں اجازت نہیں دے سکتا۔"
جلال کا چہرہ اتر گیا۔"ابو! میری اس کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"مجھ سے پوچھ کر کمٹمنٹ نہیں کی تھی تم نے۔۔۔۔۔ اور اس عمر میں بہت ساری کمٹمنٹس ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندہ اپنی زندگی خراب کر لے۔۔۔۔۔ انہیں اپنے پیچھے لگا کر ہم سب برباد ہو جائیں گے۔"
"ابو! میں خفیہ طور پر شادی کر لیتاہوں۔۔۔۔۔ کسی کو بتائیں گے نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔"
"اور اگر پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔ میں ویسے بھی تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے تک تمہاری شادی کرنا نہیں چاہتا۔ ابھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔"
"ابو! پلیز۔۔۔۔۔ میں اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتا۔" جلال نے مدھم آواز میں اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ ایسا ہے تو تم اس سے کہو کہ وہ اپنے والدین سے اس سلسلے میں بات کرے۔ اگر اس کے والدین مان جاتے ہیں تو میں تم دونوں کی شادی کر دوں گا۔" انہوں نے تیز مگر حتمی لہجے میں کہا۔" مگر میں تمہاری شادی کسی ایسی لڑکی سے قطعی نہیں کروں گا جو اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف تم سے شادی کرنا چاہے۔۔۔۔۔"
"ابو! آپ اس کا مسئلہ سمجھیں۔ وہ بری لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ بس وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے جس پر اس کے گھر والے راضی نہیں ہوں گے۔" جلال نے دانستہ طور پر اسجد اور اس کی منگنی کا ذکر گول کر دیا۔
"مجھے کسی دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ یہ امامہ کا مسئلہ ہے، وہ جانے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔" انصر جاوید نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"ابو ! پلیز۔۔۔۔۔ میری بات سمجھیں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔"
"بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تم کس کس کی مدد کرو گے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں اتنا فرق ہے کہ ان سے کوئی دشمنی یا مخالفت مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں، سمجھے تم اور پھر میں ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کر کے اپنے خاندان والوں کا سامنا کیسے کروں گا۔"
"ابو! وہ مسلمان ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے۔" جلال نے جھنجھلا کر کہا۔
"چار ملاقاتوں میں وہ تم سے اتنی متاثر ہو گئی کہ ا س نے اسلام قبول کر لیا۔"
"ابو! اس نے مجھے ملنے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔"
"تم نے اسلام قبول کرتے دیکھا تھا اسے؟"
"میں اس سے مذہب کے بارے میں تفصیلاً بات کرتارہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔"
"بالفرض وہ ایسا کر بھی چکی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر اسے اپنے مسائل سے خود نمٹنا چاہئیے۔ تمہیں بیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہئیے۔ اپنے والدین سے دو ٹوک بات کرے، انہیں بتائے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ پھر میں اور تمہاری امی دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ دیکھو جلال اگر اس کا خاندان اپنی مرضی اور خوشی سے اس کی شادی تمہارے ساتھ کرنے پر تیار ہو جائے تو میں اسے بخوشی قبول کر لوں گا۔۔۔۔۔ مگر کسی بے نام و نشان لڑکی سے میں تمہاری شادی نہیں کروں گا۔ مجھے اس معاشرہ میں رہنا ہے۔۔۔۔۔ لوگوں کو منہ دکھانا ہے۔۔۔۔۔ بہو کے خاندان کے بارے میں کیا کہوں گا میں کسی سے۔۔۔۔۔ یہ کہ وہ گھر چھوڑ کر آئی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے میرے بیٹے سے شادی کر لی ہے۔"
"ابو! یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اس کی مدد کریں اور۔۔۔۔۔" انصر جاوید نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"مذہب کو بیچ میں مت لے کر آؤ، ہر چیز میں مذہب کی شرکت ضروری نہیں ہوتی۔ صرف تم ہی یہ مذہبی فریضہ ادا کرنے والے رہ گئے ہو، باقی سارے مسلمان مر گئے ہیں۔"
"ابو! اس نے مجھ سے مدد مانگی ہے، میں اس لئے کہہ رہا ہوں۔"
"بیٹا! یہاں بات مدد کی یا مذہب کی نہیں ہے، یہاں صرف زمینی حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ تم میں مدد کا جذبہ ہے اور تمہیں اپنے مذہبی فرائض کا احساس ہے مگر انسان پر کچھ حق اس کے والدین کا بھی ہوتا ہے اور یہ حق بھی مذہب نے ہی فرض کیا ہے اور اس حق کے تحت میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس سے شادی نہ کرو۔۔۔۔۔ فرض کرو تم اس سے شادی کر بھی لیتے ہو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ تم تو چند ماہ میں امریکہ ہو گے۔۔۔۔۔ اور وہ یہاں گھر بیٹھی ہو گی۔۔۔۔ میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں تم چاروں کی تعلیم پر بھی خرچ کروں اور اس کی تعلیم پر بھی۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم پر میرا کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ تو وہ ڈاکٹر تو نہیں بنے گی۔۔۔۔۔ یہاں گھر میں کتنے سال تم اسے بٹھا سکتے ہو۔۔۔۔۔ اور اگر اس کے خاندان نے تم پر یا ہم پر کیس کر دیا تو اس صورت میں تم بھی پابند ہو کر رہ جاؤ گے اور میں بھی۔۔۔۔۔ تم کو اپنی بہن کا احساس ہونا چاہئیے، تم یہ چاہتے ہو کہ اس عمر میں، میں جیل چلا جاؤں۔۔۔۔۔ اور شاید تم بھی۔۔۔۔۔"
جلال کچھ بول نہیں سکا۔
"ان چیزوں کے بارے میں اتنا جذباتی ہو کر نہیں سوچنا چاہئیے۔ میں نے تمہیں راستہ بتا دیا ہے۔۔۔۔۔ اس سے کہو اپنے والدین سے بات کر کے انہیں رضامند کرے۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ رضامند ہو جائیں پھر مجھے کیا اعتراض ہو گا تم دونوں کی شادی پر لیکن اگر وہ یہ نہیں کرتی تو پھر اس سے کہو کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے اور تم ٹھنڈے دل سے سوچو، تمہیں خود پتا چل جائے گا کہ تمہارا فیصلہ کتنا نقصان دہ ہے۔"
انصر جاوید نے آخری کیل ٹھونکی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"باجی ! میں آپ کا کمرہ صاف کر دوں؟"ملازمہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
"نہیں ، تم جاؤ۔"امامہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کے لیے کہا۔ملازمہ باہر جانے کی بجائے دروازہ بند کر کے اس کے پاس آ گئی۔
"میں نے تم سے کہا ہے نا کہ تم۔۔۔۔۔"امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر اس کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ملازمہ نے اپنی چادر کے اندر سے ایک موبائل نکالا تھا۔ امامہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
"باجی ! یہ میری ماں نے دیا ہے ، وہ کہہ رہی تھی کہ ساتھ والے سالار صاحب نے آپ کے لیے دیا ہے۔"اس نے امامہ کی طرف عجلت کے عالم میں وہ موبائل بڑھایا۔ امامہ نے تیزی سے موبائل کو جھپٹ لیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
"دیکھو ، تم کسی کو بتانا مت کہ تم نے مجھے کوئی موبائل لا کر دیا ہے۔"امامہ نے اسے تاکید کی۔
"نہیں باجی ! آپ بےفکر رہیں ، میں نہیں بتاؤں گی۔ اگر آپ کو بھی کوئی چیز سالار صاحب کے لیے دینی ہو تو مجھے دے دیں۔"
"نہیں ، مجھے کچھ نہیں دینا ، تم جاؤ۔"اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
ملازمہ کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے کمرے کو لاک کر لیا۔ کانپتے ہاتھوں اور دل کی بےقابو ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ اس نے دراز سے موبائل اور اس پر جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا۔ وہ اسے تفصیل سے ساری بات بتانا چاہتی تھی۔فون جلال کی امی نے اٹھایا۔
"بیٹا ! جلال تو باہر گیا ہوا ہے ، وہ تو رات کو ہی آئے گا۔تم زینب سے بات کر لو۔اسے بلا دوں؟"جلال کی امی نے کہا۔
"نہیں آنٹی ! مجھے کچھ جلدی ہے ، میں زینب سے پھر بات کر لوں گی۔بس میں نے ان سے چند کتابوں کا کہا تھا ، مجھے ان ہی کے بارے میں پوچھنا تھا۔میں دوبارہ فون کر لوں گی۔"امامہ نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے اس دن دوپہر کو بھی کھانا نہیں کھایا۔وہ صرف رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ جلال گھر آ جائے اور وہ اس سے دوبارہ بات کر سکے۔شام کے وقت ملازمہ نے اسے اسجد کے فون کی اطلاع دی۔
وہ جس وقت نیچے آئی اس وقت لاؤنج میں صرف وسیم بیٹھا ہوا تھا۔وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے فون کی طرف چلی گئی۔فون کا ریسیور اٹھاتے ہی دوسری طرف اسجد کی آواز سنائی دی تھی۔بےاختیار امامہ کا خون کھولنے لگا۔یہ جاننے کے باوجود کہ اس شادی کو طے کرنے میں اسجد سے زیادہ خود ہاشم مبین کا ہاتھ تھا۔امامہ کو اس پر غصہ آ رہا تھا۔
وہ اس کا حال دریافت کر رہا تھا۔
" اسجد ! تم نے اس طرح میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا ہے؟"
"کیسا دھوکہ امامہ ! "
"شادی کی تاریخ طے کرنا۔۔۔۔۔تم نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی۔"وہ کھولتے ہوئے بولی۔
"کیا انکل نے تم سے بات نہیں کی۔"
"انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتی۔"
"بہر حال اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اور پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ شادی اب ہو یا کچھ سالوں کے بعد۔"اسجد نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"اسجد ! تمہیں فرق پڑتا ہو یا نہیں ، مجھے پڑتا ہے۔میں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے تھے۔"
"ہاں ، میں جانتا ہوں مگر اس سارے معاملے میں ، میں تو کہیں بھی انوالو نہیں ہوں۔تمہیں بتا رہا ہوں ، شادی انکل کے اصرار پر ہی ہو رہی ہے۔"
"تم اسے رکوا دو۔"
"تم کیسی باتیں کر رہی ہو امامہ ! میں اسے کیسے رکوا دوں۔"اسجد نے کچھ حیرانی سے کہا۔
"اسجد پلیز ! "
"امامہ ! میں ایسا نہیں کر سکتا ، تم میری پوزیشن سمجھو۔اب تو ویسے بھی کارڈ چھپ چکے ہیں ، دونوں گھروں میں تیاریاں ہو رہی ہیں اور۔۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات سنے بغیر ریسیور پٹخ دیا۔وسیم نے اس پوری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔وہ خاموشی سے اسجد کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو سنتا رہا تھا جب امامہ نے فون بند کر دیا تو وسیم نے اس سے کہا۔
"تم خوامخواہ ایک فضول بات پر اتنا ہنگامہ کھڑا کر رہی ہو۔کل بھی تو تم نے شادی اسجد کے ساتھ ہی کرنی ہے پھر اس طرح کر کے تم خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہی ہو۔بابا تم سے بہت ناراض ہیں۔"
"میں نے تم سے تمہاری رائے نہیں مانگی ، تم اپنے کام سے کام رکھو۔جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو وہ کافی ہے۔"
امامہ اس پر غرائی اور پھر واپس کمرے میں آ گئی۔
وہ رات کو بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی مگر ملازم کے کھانا لانے پر اس نے کھانا کھا لیا تھا۔رات کو گیارہ بجے کے قریب اس نے جلال کو فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔شاید وہ امامہ کے فون کی توقع کر رہا تھا۔مختصر سی تمہید کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف آ گیا۔
"امامہ ! میں نے ابو سے کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔"اس نے امامہ سے کہا۔
"پھر؟"وہ اس کے استفسار پر چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
"ابو ! اس شادی پر رضامند نہیں ہیں۔"
امامہ کا دل ڈوب گیا۔"مگر آپ تو کہہ رہے تھے انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔"
"ہاں ، میرا یہی خیال تھا مگر انہیں بہت ساری باتوں پر اعتراض ہے۔وہ سمجھتے ہیں تمہارے اور ہمارے گھرانے کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔۔۔۔۔اور وہ تمہارے خاندان کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور انہیں سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ تم اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔انہیں یہ خوف ہے کہ اس صورت میں تمہارے گھر والے میرے گھر والوں کو تنگ کریں گے۔"
وہ ساکت بیٹھی موبائل کان سے لگائے اس کی آواز سنتی رہی۔"آپ نے انہیں رضامند کرنے کی کوشش نہیں کی۔"ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
"میں نے بہت کوشش کی۔انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر تمہارے گھر والے اس شادی پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر وہ بھی راضی ہو جائیں گے۔اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا خاندان کیا ہے لیکن تمہارے گھر والوں کی مرضی کے بغیر وہ میری اور تمہاری شادی کو تسلیم نہیں کریں گے۔"جلال نے اس سے کہا۔
"اور آپ۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟"
"امامہ ! میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔"جلال نے کچھ بےبسی کے عالم میں کہا۔
"جلال ! میرے پیرنٹس کبھی آپ سے میری شادی پر تیار نہیں ہوں گے ، بصورتِ دیگر ہماری پوری کمیونٹی ان کا بائیکاٹ کر دے گی اور وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور پھر آپ اسجد سے میری منگنی کو کیوں بھول رہے ہیں۔"
"امامہ ! تم پھر بھی اپنے والدین سے بات تو کرو ، ہو سکتا ہے کوئی راستہ نکل آئے۔"
"میں کل بابا سے تھپڑ کھا چکی ہوں۔صرف یہ بتا کر کہ میں کسی دوسرے میں انٹرسٹڈ ہوں۔"امامہ کی آواز بھرانے لگی۔"اگر انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں جسے پسند کرتی ہوں وہ ان کے مذہب کا نہیں ہے تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔پلیز آپ انکل سے بات کریں۔آپ انہیں میرا پرابلم بتائیں۔"اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
"میں ابو سے کل دوبارہ بات کروں گا اور امی سے بھی۔۔۔۔۔پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"جلال پریشان تھا۔
امامہ نے جس وقت اس سے بات کرنے کے بعد فون بند کیا وہ بےحد دل گرفتہ تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ جلال کے والدین کو اس شادی پر اعتراض ہو گا۔
موبائل ہاتھ میں لیے وہ بہت دیر تک خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی۔٭
"تمہارے ابو مجھ سے پہلے ہی اس سلسلے میں بات کر چکے ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔تم کو اس طرح کے خطروں میں کودنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال کی امی نے قطعی لہجے میں اس سے کہا۔وہ امامہ کے کہنے پر ان سے بات کر رہا تھا۔
"مگر امی ! اس میں خطرے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہو گا ، آپ خوامخواہ خوفزدہ ہو رہی ہیں۔"جلال نے کچھ احتجاجی انداز میں کہا۔
"تم حماقت کی حد تک بےوقوف ہو۔"اس کی امی نے اس کی بات پر اسے جھڑکا۔"امامہ کے خاندان اور اس کے والد کو تمہارے ابو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے ساتھ شادی ہونے کی صورت میں وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دیں گے یا ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔"
"امی ! ہم اس شادی کو خفیہ رکھیں گے ، کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔میں اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانے کے کچھ عرصہ بعد اسے بھی وہاں بلوا لوں گا۔سب کچھ خفیہ ہی رہے گا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔"
"ہم آخر ! امامہ کے لئے کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لیں اور تمہیں ویسے بھی یہ پتا ہونا چاہئیے کہ ہمارے یہاں اپنی فیملی میں ہی شادی ہوتی ہے۔ہمیں امامہ یا کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔"امی نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"مجھے اگر یہ اندازہ ہوتا کہ تم اس طرح اس لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کر دو گے تو میں اس سے پہلے ہی تمہاری کہیں نسبت طے کر دیتی۔"اس کی امی نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"امی ! میں امامہ کو پسند کرتا ہوں۔"
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم اسے پسند کرتے ہو یا نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں ، میں اور تمہارے ابو کیا سوچتے ہیں۔۔۔۔۔اور ہم دونوں کو نہ تو وہ پسند ہے اور نہ ہی اس کا خاندان۔"امی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"امی ! وہ بہت اچھی لڑکی ہے ، آپ اسے بہت اچھی طرح جانتی ہیں ، وہ یہاں آتی رہی ہے اور تب تو آپ اس کی بہت زیادہ تعریف کرتی تھیں۔"جلال نے انہیں یاد دلایا۔
"تعریف کرنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اسے اپنی بہو بنا لوں۔"وہ خفگی سے بولیں۔
"امی ! کم از کم آپ تو ابو جیسی باتیں نا کریں۔تھوڑا سا ہمدردی سے سوچیں۔"اس بار جلال نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا۔
"جلال ! تمہیں احساس ہونا چاہئیے کہ تمہاری اس ضد اور فیصلے سے ہمارے پورے خاندان پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ہمارا بھی خواب ہے کہ ہم تمہاری شادی کسی اچھے اور اونچے خاندان میں کریں۔تمہارے ابو اگر تمہیں اس شادی کی اجازت دے بھی دیں تو بھی میں کبھی نہیں دوں گی۔نہ ہی میں امامہ کو اپنی بہو کے طور پر قبول کروں گی۔"
" امی ! آپ اس کی صورتِ حال کو سمجھیں ، وہ کتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے۔اس وقت اسے مدد کی ضرورت ہے۔"
"اگر وہ اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے تو پھر اسے کم از کم دوسرے کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرنی چاہئیے۔میں اسے برا نہیں کہہ رہی۔وہ بہت اچھا فیصلہ کر رہی ہے مگر ہم لوگوں کو اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔تم کچھ عقل سے کام لو۔تمہیں اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانا ہے۔اپنا ہاسپٹل بنانا ہے۔"اس کی امی نے قدرے نرم لجے میں کہا۔"بیٹا ! اچھے خاندان میں شادی ہو تو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سے مواقع ملتے ہیں اور تمہارے لیے تو پہلے ہی بہت سے خاندانوں کی طرف سے پیغام آ رہے ہیں۔جب اسپیشلائزیشن کر لو گے تو کتنے اونچے خاندان میں تمہاری شادی ہو سکتی ہے۔تمہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔خود سوچو ، صرف امامہ سے شادی کر کے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔۔خاندان اس کا بائیکاٹ کر چکا ہو گا۔۔۔۔۔۔معاشرے میں جو بدنامی ہو گی ، وہ الگ ہے۔۔۔۔۔اور تم سے شادی ہو بھی جائے تو کل کو تمہارے بچے تمہارے اور امامہ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ساری عمر کی بات ہے۔"امی اسے سنجیدہ لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔جلال کسی اعتراض یا احتجاج کے بغیر خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
اس کے چہرے سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ قائل ہوا ہے یا نہیں۔
امامہ نے اگلی رات جلال کو پھر فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔
"امامہ ! میں نے امی سے بھی بات کی ہے۔وہ ابو سے زیادہ ناراض ہوئی ہیں میری بات پر۔"امامہ کا دل گویا مکمل ڈوب گیا۔
"وہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے ایک فضول معاملے میں خود انوالو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔"میں نے انہیں تمہارے پرابلم کے بارے میں بھی بتایا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ تمہارا پرابلم ہے ، ہمارا نہیں۔"
امامہ کو اس کے لفظوں سے شدید تکلیف ہوئی تھی۔
"میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رضامند نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گی۔"جلال کی آواز دھیمی ہو گئی تھی۔
"مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے جلال ! "اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ کسی موہوم سی اُمید پر کہا۔
"میں جانتا ہوں امامہ ! مگر میں کچھ نہیں کر سکتا۔میرے والدین اس پرپوزل پر راضی نہیں ہیں۔"
"کیا تُم ان کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟"
"نہیں ، یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔مجھے ان سے اتنی محبت ہے کہ میں انہیں ناراض کر کے تم سے شادی نہیں کر سکتا۔"
"پلیز جلال ! "وہ گڑگڑائی۔"تمہارے علاوہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
"میں اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، تم مجھے اس کے لیے مجبور نہ کرو۔"
"میں آپ کو نافرمانی کے لیے نہیں کہہ رہی ہوں۔میں تو آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔"
اس کے اعصاب چٹخ رہے تھے۔اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنے التجائیہ اور منت بھرے انداز میں بات کی ہو۔
"آپ مجھ سے صرف نکاح کر لیں ، اپنے والدین کو اس کے بارے میں نہ بتائیں۔بےشک آپ بعد میں ان کی مرضی سے بھی شادی کر لیں ، میں اعتراض نہیں کروں گی۔"
"تم اب بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔خود سوچو اگر ایسے کسی نکاح کے بارے میں ابھی میرے والدین کو پتا چل جاتا ہے تو وہ کیا کریں گے۔۔۔۔۔وہ تو مجھے گھر سے نکال دیں گے۔۔۔۔۔اور پھر تم اور میں کیا کریں گے۔"
"ہم محنت کر لیں گے ، کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔"
"تمہارے اس کچھ نہ کچھ سے میں باہر پڑھنے جا سکوں گا؟"اس بار جلال کا لہجہ چبھتا ہوا تھا ، وہ بول نہیں سکی۔
"نہیں امامہ ! میرے اتنے خواب اور خواہشات ہیں کہ میں انہیں تمہارے لیے یا کسی کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔مجھے تم سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جس کا مظاہرہ تم کر رہی ہو۔تم دوبارہ مجھے فون مت کرنا کیونکہ میں اب اس سارے معاملے کو یہیں ختم کر دینا چاہتا ہوں ، مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر تم اپنے اس مسئلے کا حل خود نکالو ، میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ، خدا حافظ۔"
جلال نے فون بند کر دیا۔
رات دس بج کر پچاس منٹ پر اسے اپنے اردگرد کی پوری دنیا دھوئیں میں تحلیل ہوتی نظر آئی۔کسی چیز کے مٹھی میں ہونے اور پھر دور دور تک کہیں نہ ہونے کا فرق کوئی امامہ سے بہتر نہیں بتا سکتا تھا۔ماؤف ذہن اور شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ وہ بہت دیر تک کسی بت کی طرح اپنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی رہی۔
مجھے بتا دینا چاہئیے اب بابا کو سب کچھ۔۔۔۔۔اس کے سوا اب اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔شاید وہ خود ہی مجھے اپنے گھر سے نکال دیں۔۔۔۔۔کم از کم مجھے اس گھر سے تو رہائی مل جائے گی۔
جاری ہے


 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India