ناول جنت کے پتے تحریر نمره احمد قسط نمبر 19اگے بڑںھی اور ناب گھما کر دروازہ کھولا۔باہر ںالکونی میں روشنی تھی۔جیسے ھی اس نے دروازہ کھولابالکونی تا ریک ھو گئی۔غالبا,,سیڑیوں کے اوپر لگا بلب بجھ گیا تھا۔کیا کوی واپس اکر پلٹ گیا تھا ۔اس نے گردن اگے کر کے راہداری کی دونوں سمت دیکھا ۔ہر سو خاموشی تھی۔بالکونی ویران تھی۔وھا سردی تھی اور اندر کمرہ گرم تھا۔وی چند ثا نیے وھا کھڑی رہی۔۔پھر دیھرے سے شانے اچکا کر پلٹنے ہی لگی تھی کے۔۔۔۔ ۔۔۔اوہ نہیں اس کے لبہوں سے ایک اوکتای ہوی کراہ نکلی۔چوکھٹ پر اس کے قد موں کے ساتھ سفید گلا بوں کا بئکے اور ایک بند لفا فں رکھا تھا۔وہ جھو کھی اور دونوں چیز یں اٹھایں اور جارھا نہ انداز میں لفا فے کا منہ پھا ڑا ۔اندر رکھا چوکور سفید کا غز نکا لا ور منہ کے سامنے کیا۔ ہیپی وہلنٹا ئہین ڈے۔۔۔۔۔فرام یور ویلنٹا ئن۔۔۔۔اس نے لب بینچ کرتنفر سےوی تحر یر پڑ ھی اور پھر بے حد غصے سے کا غز مروڑ کر گلد ستے سمیت پو ری قوت سے راہداری میں دے مارا۔. اوچ ۔وہ واپس مڑ نے ہی لگی تھی کے ۔ جب کسی کی بو کھلا ئی ہوی اواز سنی۔اس نے چو نک کر پیچھے دیکھا۔گلد ستہ اور کا غز سیدے ہاتھ والے کمرے سے نکلتے معتصم کو جا لگے۔اور اس سے ٹکرا کر اب اس کے قدموں میں پڑے تھے۔. یہ کیا ہے؟ وہ ہکا بکا کھڑا تھا۔. "ائی ایک سوری معتصن؛"وہ شد ید بے زاری سے بمشکل ضبط کر کے بولی۔معتصم کو و ضاحت دینے کا سوچ کر ہی اسے کو فت ہونے لگی تھی 'یہ میں نے تمیں نہیں دیے بلکہ کسی فضول انسان نے مجھے بیجھیے ہیں۔تم برا مت ما ننا اور ان کو ڈسٹ بن میں ڈال دینا۔"وہ ایک ھاتھ دروازے پر رکھے۔'دوسرے میں کا جل پکڑے زرا ر کھائی سے بو لی۔معتصم نے جھک کر وہ کا غز ا ٹھایا اور سیدھے ہوتےہھوےان کی شکنیں درست کرکے چہرے کے سامنے کیا۔حیا کوفت ہونے لگی۔"میں کہھ رہی ہونا سوری".اس نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں پھر معتصم کو پکارا۔وہ جو بھنویں سیکڑے کا غز کو دیکھ رہا تھا۔چونک کر اسے دیکھنے لگا۔"نہیں اٹس اوکے۔مگر یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں کوی سبا نجی میں تنگ کر رہا ہے۔؟.و ہ تحریرپہ نگا ہیں دوڑاتےتشو یش سےپوچھ رہا تھا۔یہ بات نہیں ہے۔یہ بہت پہلے سے میرے پیچھے پڑا ہے ۔لمبی کھانی ہے جانے دو".س کو کوڑے میں پھینک دینا۔گڈ نائیٹ"وہ مزید مروت کا مظاہرہ کیے بغیردروازے کا کواڑبند کر نے لگی تھی۔جب وہ ہولےسے بولا۔ یہ گیلاکیوں ہے؟تم روئ ہو؟کچھ تھا اس کی اواز میں کہ وہ دروازہ بند کرتی حیا ٹھٹھک کے دیکھا۔پھر پٹ نیم وہ کیااور باہر بالکونی میں قدم رکھا۔"میں کیوں رووں گی۔"وہ کا غز دیکھ کر بولی۔معتصم کا غز کے نچلےدائیں طرف کے کنارے پر انگلی پھیر رہا.تھا۔"پھر یہ گںیلا کیوں ہے۔؟"شائید پھولوں پر پانی تھا۔حیا نے میکا نیکی اندازمیں نفی میں گردن ہلائ۔"نہیں یہ تو موٹے لفا فے میں مہر بند تھا".معتصم نے وہ نم حصہ ناک کے قریب جا کر انکھیں موندےسانس ا ندر کو کھینچی۔سٹرس؟لیموں؟لائم؟وہ متز بذب سا حیاکو دیکھنے لگا۔کیا کھ رہے ہیں،مجھے کچھ سمج نہیں ا رہا".کسی نے اس کے نچلے کنارے پہ لیموں لگایا ہے۔"پھر اس نے چونک کر حیا کو دیکھا۔"تمھارے پاس ماچس ہے"وہ جواب دیے بنا الٹے قدموں پیچھے ائ۔اوردروازہ پورا کھول کر ایک طرف ہوگئ۔معتصم قدرے جھجکا'پھر کاغز پکڑے اندر داخل ہوا۔حیانے اپنی اور ڈ ی جے کی میز کی کرسیاں کھینچ کر آ منے سامنے رکھیں اور پھر ٹالی کی میز پر چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی ۔کیا تم بھی بچپن میں لیموں کا رس اور آگ والا کھیل کھیلتے تھے ۔؟وہ اب میز کی دراز کھول کر کچھ ڈ ڈھونڈرہی تھی ۔معتصم دھیرے سے ہنسا۔بہت کھیل کھیلے ہیں اور ان میں سے اکثر آ گ والے ہوتے تھے ۔فلسطین میں بہت آگ ہے شاید تم نہ سمجھو۔چلو آج ان ترکوں کے کھیل اسرائیلی آگ سے کھیلتے ہیں۔ وہ دراز میں سے ایک سگریٹ لائٹر نکال کے اس کہ سامنے کرسی پہ آ بیٹھی اور لائٹر اس کی طرف بڑھایا ۔معتصم نے لائٹر کا پہیہ اپنے انگوٹھے سے گھمایا تو آگ کا نیلا زردساشعلہ جل اٹھا ۔احتیاط سے وہ بے اختیار کہہ اٹھی ۔معتصم نے جواب نہیں دیا ۔وہ خط کہ نم حصے کو جواب تک سوکھ چکا تھا ۔شعلے کے قریب لایا ۔ذرا سی تپش ملی اور الفاظ ابھرنے لگے۔بڑے بڑے کر کے انگریزی کے تین حروف "اے آر پی"۔وہ حروف عین " فرام یورویلنٹائن "کے نیچے لکھے تھے ۔وہ دونوں چند لمحے کاغذ کے تکرے پہ ابھرے بھورے حروف کو تکتے رہے پھر ایک ساتھ گردن اٹھا کہ ایک دوسرے کو دیکھا۔آرپ،،،،،، ایرپ؟ کیسا لفظ ہے یہ ؟حنا نے ممکنہ ادائیگی کےدونوں طریقوں سے حروف کو ملا کہ پڑھا ۔شاید کوئی نام !کیا آ رپ کوئی ترک نام ہے؟معلوم نہیں ۔معتصم نے شانے اچکا دیے۔حیا سوچتی نگاہوں سے کاغذ کو تکتی رہی۔کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں ۔اس نے ایک نظر معتصم کو دیکھا پھر نرم سا مسکرائی تم کر چکے ہو ۔وہ ہولے سے مسکرا کر کھڑا ہوا اور کاغذ میز پر رکھا۔وہ جو بھی ہے شاید تمہیں اپنا نام بتانے کی کو شش کر رہا ہے ۔وہ کون ہو سکتا ہے یہ تم بہتر سمجھ سکتی ہوگی ۔مجھے اب چلنا چاہیے ۔؛ہوں؛ تھینک یو معتصم ۔معتصم نے ذرا سی سر کو جنبش دی اور باہر نکل گیا ۔دروازے کا کیچر سست روی سےواپس چو کھٹ تک جانے لگا۔حیا چند لمحے میز پر رکھے کنارے سے بھورے ہوئے کاغذ کو دیکھے گئ پھر بے اختیار کسی میکانکی عمل کہ تحت اس نے ہاتھ میں پکڑی کاجل کی سلائی کو سیدھا کیا اور بائیں ہتھیلی کی پشت پہ وہ تین حروف اتارتے ۔؛اے آر پی؛دروازہ چوکھٹ کے ساتھ لگنے ہی والا تھا۔ذرا سی دور سے باہر راہداری میں گرا گلدستہ دکھائی دے رہا تھا ۔ایک دو پل مزید گزرے اور دروازہ "ٹھاہ" کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہو گیا ۔وہ اپنی ہتھیلی کی پشت پہ سیاہ رنگ میں تین الفاظ دیکھ رہی تھی ۔"اے آر پی"*** اس نے اوپر بنے کیبنٹ کا دروازہ کھولا ۔چند ڈ بے الٹ پلٹ کیے۔نیچے خانے میں سرخ مرچوں کا ڈبا نہیں تھا ۔وہ ایڑیاں اٹھا کر ذرا سی اونچی ہوئی اور اوپر والے خانے میں جھانکا ۔وہاں سامنےایک پلاسٹک کے بے رنگ ڈبے میں سرخ پاؤڈر رکھا نظر آیا ۔اس نے ڈبہ نکا لا اور کاونٹر کی طرف آئی ۔وہاں ڈی جے کھڑی سلیپ پہ کٹنگ بورڈ کے اوپر پیاز رکھے کھٹا کھٹ کاٹ رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے.بریانی کی مقدار زیادہ ہے چار چمچ سرخ مرچ کہ ڈال دیتی ہوں شاید ذرا سا ذائقہ آ جائے ۔ٹھیک ؟وہ خود کلامی کے انداز میں کہتی ٹوکری سےچھوٹا چمچ ڈھنڈنے لگی۔ہاں ٹھیک !ڈی جے نے بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے رندھی آواز میں کہا اور آستین سے آنکھیں رگڑیں۔حیا اب ڈبے سے چمچ بھر بھر کردھوئیں اڑاتے پتیلے میں ڈال رہی تھی ۔بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا اس کے پیچھے گردن پہ جھول رہا تھا۔سادہ شلوار قمیض پہ وہ ڈھیلا ڈھالا سا سبز سوئٹر پہنے ہوئے تھی ۔جس کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں۔دوپٹہ ایک طرف دروازے پہ لٹکا تھا ۔اور چند لٹیں جوڑے سے نکل کر چہرے کے اطراف لٹک رہی تھیں ۔گوشت میں چمچہ ہلاتی وہ بہت مصروف لگ رہی تھی ۔وہ دونوں اس وقت انجم باجی کے کچن میں موجود تھیں ۔صبح انجم باجی ڈی جے کو ڈائننگ ہال میں ملیں تو شام اپنے گھر کھانے کی دعوت دے ڈالی ،جو کہ ڈی جے نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ وہ اور حیا مل کر بریانی بنائیں گی۔اب سر شام ہی وہ دونوں ہالے کو لیے انجم باجی کے اپارٹمنٹ آ گئی تھیں ۔ایک بیڈروم لاؤنچ اور کچن پر مشتمل وہ چھوٹا مگر بے حد نفیس اور سلیقے سے سجا اپارٹمنٹ تھا ۔ہالے کو انہوں نے لاؤنچ میں انجم باجی کہ پاس بیٹھا رہنے دیا اور خود کچن میں آ کر مصروف ہو گئیں ۔یہ پنٹینگ جوید جی لائے تھے انڈیا سے۔اندر لاؤنچ میں انجم باجی کی ہا لے کو مطلع کرتی آواز آ رہی تھی ۔ڈی جے یہ جوید جی کیا ہے؟اس نے قدرے الجھ کر پوچھا ۔ان کا مطلب ہے جوید جی۔ان کے ہزبینڈ! ڈی جے نے سرگوشی کی تو وہ مسکراہٹ دباتی پلٹ کر ابلتے چاولوں کو دیکھنے لگی ۔جس وقت انجم باجی اور ہالے کچن میں داخل ہوئیں حیا پتیلے کا ڈھکن اخبار لگا کر احتیاط سے بند کر رہی تھی ۔آ ہٹ پہ پلٹی اور مسکرائی۔بس دم دے رہی ہوں ۔بہت خراب ہو تم دونوں مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا ۔بس اب آ پ کو کھانے کے وقت ہی اٹھنا تھا ۔وہ جوید،،،،،، جاوید بھائی آگئے ۔؟وہ ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کرتی ڈی جے کے پاس آئی۔ڈی جے کا سلاد ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا ۔اب کہیں جا کہ وہ ٹماٹروں پہ پہنچی تھی۔بس آنے والے ہیں لاو یہ سلاد تو مجھے بنانے دو۔نہیں!میں کر لوں گی۔تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ڈی جے نے بڑی بے فکری سے کہا تو حیا نے اسے جتا تی نظروں سے گھورا ۔آپ نے اس تھوڑے میں بھی صبح کر دینی ہے۔لاو مجھے دو اور پلیٹیں لگاو۔اس نے ٹماٹر اور چھری ڈی جے کے ہاتھ سے لے لی۔ہالے از خود نہایت پھر تی سے سارا پھیلاؤ سمیٹنے میں لگی تھی۔وہ میلے برتن اب سنک میں جمع کر رہی تھی ۔ڈی جے کیبنٹ سے پلیٹیں نکالنے لگی اور انجم باجی رائتہ بنانے لگیں۔حیا نے ٹماٹر کو کٹنگ بورڈ پہ بائیں ہاتھ سے پکڑکہ رکھا اور چھری رکھ کہ دبائی۔دو سرخ ٹکڑے الگ ہو گئے اور ذرا سا سرخ رنگ اس کی بائیں ہتھیلی کی پشت پہ بہہ گیا جہاں کاجل سے لکھے تین مٹے مٹے سے حروف تھے ۔اے،،،،،آر،،،،،پی۔وہ دو تین روز سے اسی ؛اے آر پی؛ کے متعلق سوچے جا رہی تھی اب بھی کچھ سوچ کر اس نے گردن اٹھائی ۔؛ انجم باجی؛دہی کو کانٹے سے پھینٹتیں انجم باجی نے ہاتھ روک ےلئیےآپنے کسی ایرپ کے متعلق سنا ہے۔ایرپ انجم باجی نے حیرت بھری الجھن سے دوہرایا۔جی ایرپ اے آرپی۔اس نےوضاحت کے لیے ہلجے کر کے بتایا۔اونائٹ اگین حیا۔ہالے جو سنک کے آگے کھڑی تھی ۔قدرے اکتا کر پلٹی۔اس کے ہاتھ میں جھاگ بھرا اسفخج تھاجسے وہ پلیٹ پہ مل رہی تھی ۔تم پھر وہی موضوع لے کر بٹھ گئئ ہو۔اس کے انداز میں خفگی بھرا احتجاج تھا۔مگر ہالے اب وہ الجھی تھی۔یہ ۔موضوع تو اس نے ابھی تک ہالے کے ساتھ ڈسیکس نہیں کیا تھا۔پھرمیں نے کہا تھا نا یہ سب بے کار باتیں ہیں ۔مگر میں نے پوچھا ہی کیا ہے۔اے آڑپی۔عبدالرحمان پاشا اور کون اس نے بتایا تھاکہ یہ گھریلو عورتوں کے فسانے سے ذیادہ کچھ نہیں ہے۔یہ استنبول ہے۔یہاں قانون کا راج ہے۔مافیا کا نہیں ۔اب اس کے بعد اس موضوع پہ کچھ نہیں سنوں گی۔ہالے اب پلٹ کر جھاگ سے بھری پلیٹ کو پانی سے کھنگال رہی تھی ۔اور وہ جو حیرتوں کے سمندر میں گھڑی کھڑی تھی ۔اے آرپی۔عبدالرحمان پاشا اور یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا۔اوکے اوکے وہ سر جھکائے ٹماٹر کاٹنے لگی مگر اس کے ذہین میں جھٹ سے خیال گڈمڈ ہو رہے تھے۔ہالے اور جہان دونوں ایک جیسے تھے۔اور اپنے استنبول کے دفاع کے علاوہ وہ کبھی کچھ نہیں کہیں گے۔اسے یقین تھا۔مگر کسی کے پاس تو کچھ کہنے کے لئے ہو گا اور اسے اس کسی کو ڈھونڈنا تھا۔وہ میز لگا رہی تھی جب جاوید بھائی آگے۔وہ بھی پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔اور سبانجی میں پڑھاتے بھی تھے۔بے حد ملنسار سادہ اور خوش اخلاق سے دیسی مرد تھے۔اپنے پاکستانی ڈرموں کے شوقین اور پرستار۔ٹی وی کے ساتھ ریک میں ان کہی آرئیگاں دھوپ کنارے آنگن ٹیڑھا الف نون سمیت بہت سے کلاسک ڈراموں کی دی وی ڈیز قطار میں سجی تھیں ۔ان دونوں میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لیے طرز تخاطب بہت دلچسپ تھا۔جوید جی اور انجو جی اسے بہت اہنسی آئی۔باقی تینوں کیچن میں تھے۔جب حیا پانی کا جگرکھنے میز پہ آئی جاوید بھائی کو تنہا بیٹھے پایا۔وہ کسی کتاب کی ورق کروانئ کر رہے تھے۔جوید۔۔۔۔۔جاوید بھائی گڑبڑ کر تصیع کرتی ان کے ساتھ کرسی کھنچ کر بیٹھی اور محتاط نگاہوں سے کیچن کے دروازے کو دیکھا۔ایک بات پوچھنی تھی آپ سے۔جی جی پوچیھے۔وہ فورا کتاب رکھ کر سیدھے ہو بیٹھے ۔استنبول میں ایک انڈین مسلم رہیتا ہے عبدالرحمان پاشا نام کا۔آپ اسے جانتے ہیں ۔وہ محتاط کرسی کے کنارے ٹکی بولتے ہوئے بار بار کیچن کے دروازے کو بھی دیکھ لیتی۔کون پاشا وہ بیوک اواولا۔اور حیا کو لگا اسے اس کے جواب ملنے والے ہیں ۔جی جی وہی وہ خاصا مشہور ہے۔ہاں سنا تو میں نے بھی ہے۔بیوک ادا میں اس کا کافی ہولڈ ہے۔وہ مال امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے۔کیا وہ مافیا کا بندہ ہے اسلحہ اسمگل کرتا ہے۔ایک پروفیسر کو مافیا کے بارے میں کیا معلوم ہو گا حیا جیوہ کھساہت سے مسکرائے۔یعنی کہ وہ واقعی مافیا کا بندہ ہے اور آ پ کو معلوم بھی ہے مگر آ پ اعتراف نہیں کر نا چاہ رہے۔شاید ایک اور داود ابراہیم؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا اور وہ عین نشا نے پہ بیٹھا۔داود ابراہیم ۔شاید انہوں نے سادگی سے ہتھیار ڈال دیے۔جاری هے
