اُردو ناول آن لائن

Saturday, 30 September 2017

ناول:جنت کے پتے تحریر: نمره احمد قسط نمبر 13


ناول:جنت کے پتے
تحریر: نمره احمد
قسط نمبر 13
یورپ کا سب سے بڑا اوردنیاکاچھٹابڑاشاپنگ مال.وه فخرسےبولاتھا.
جواھراندرسےبھی اتناھی عالیشان تھا.سفید ٹائلوں سےچمکتےفرشاوپرتک نظرآتی پانچوں منزلوں ک ےبرآمدے. اورھرمال کی طرح وه اندر سے کھوکھلا تھا. عین وسط میں ایکاونچا کھجورکےدرخت کی طرح ٹاورلگاتھا.اوریه روشنیوں وقمقموں سے مزین ٹاورپانچویں منزل کی چھت تک جاتاتھا.
وه مسحورسی گردن اٹھاۓاوپرپانچوں منزلوں کی بالکونیاں دیکھ رھی تھی. جھاں انسانوں کاایک بےفکرھنستامسکراتاھجوم ھرسو بکھرا تھا.
رنگ خوشبو امارت چمک...آه...یه یورپ تھا.
جوتے خریدکروه دونوں باھر چلےآۓ. حیا نے جوتوں کا بل بنواتے ھی جلدی سے ادائیگی کردی تھی تاکه جھان کو موقع ھی نه مل سکے. وه اس پر خاصا خفا ھوا.مگر حیا پرسکون تھی. ھالے نور سمیت وه کسی بھی ترک سے کچھ بھی لینے میں عار نھیں سمجھتی تھی مگر جھان سکندر کا احسان...کبھی نھیں.!
چوتھی منزل کی دکانوں کے آگےبنی چمکتی بالکونی میں وه دونوں ساتھ ساتھ چل رھے تھے.لوگوں کے رش میں راسته بناتی حیاکو جھان کی رفتارسےملنے کیلۓتقریبابھاگنا پڑرھا تھا. پهر بھی وه پیچھے ره جاتی اور وه آگے نکل جاتا. وه اسکا ساتھ دینے کی کوشش میں اب تھکنے لگی تھی.
شاید یھی انکی زندگی کی کھانی تھی..
جھان نے ایک شیشے کادروازه کھولااورایک طرف ھٹ کرراسته دیا "تھینک یو" وه سرخ کوٹ کی جیبوں میں ھاتھ ڈالے مسکراتی ھوئی اندر داخل ھوئی. وه اسکےپیچھے آیا.
وه ریسٹورنٹ تھا نرم گرم ماحول ' ھیٹر اور باھر کے سرما کی ملی جلی خنکی' مدھم روشنیاں پیچھے بجتادھیما میوزک..
آرڈرکرو.وه ایک کونے والی میزکےگردآمنےسامنے بیٹھ گۓتو جھان نے کھا. اپناکوٹ اتار کراس نے کرسی کی پشت په رکھ دیا. اور اب وه کف کھول کر آستین موڑ رھا تھا.
مگر یه دعوت کس خوشی میں ھے? حیا دونوں کھنیاں میز په ٹکاۓدائیں ھتھیلی ٹھوڑی تلے ٹکاۓدلچسپی سے اسے دیکھ رھی تھی. چھرے کے دونوں اطراف میں گرتے بال اب خاصے سوکھ گۓ تھے. تمھارے اس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں اور یه دعوت میری طرف سے ھے اب آڈرکرو.
حیا نےگردن جھکاکر ایک سرسری نگاه اپنے کوٹ پے ڈالیمگر دعوت تمھاری طرف سے ھے تو آرڈر بھی تمھیں کرنا چاھئے.. اس نے جھان کی بات نظراندازکردی که شاید وه مذاق کررھا ھے.
ٹھیک ھے. جھان نے مینوکارڈاٹھایااورصفحےپلٹنےلگا. وه محوسی اس کے وجیھه چھرے کو دیکھے گئی. کیا وه جانتا تھا که وه اسکی بیوی ھے. اتنی بڑی بات وه نا جانتا ھوکیایه ممکن تھا?
اس روزتم نے بھت غلط بات کی تھی جھان.! مجھے تم پے بھت غصه آیا تھا.جب وه آرڈر کرچکا تو وه یونھی بندمٹھی ٹھوڑی تلے ٹکاۓاسے تکتے ھوۓبولی.
میں نے کیاکیاتھا? وه حیران ھوا.
پته نھیں کس نے میرے نام وه پھول بھیجےاور تم نے کھا میراویلنٹائن... میں ایسی لڑکی نھیں ھوں جھان نه ھی میں جانتی ھوں که وه پھول کس نے بھیجے تھے.
اوکے جھان نے سمجھنے والے انداز میں اثبات میں سر کو جنبش دی.مگر وه جانتی تھی اسے یقین نھیں آیا.
ریسٹورنٹ میں گھما گھمی تھی. اردگردویٹرزمیزوں کے درمیان راسته بناتےٹرے اٹھاۓ تیزی سے پھر رھے تھے.
پس منظر میں بجتی موسیقی کے سر بدل رھے تھے اب ایک ترک گلوکار
دھیمی لے والا گیت گنگنارھاتھا.
ویسےتم صبح صبح کھاں جارھی تھیں?
میں یھیں سسلی آرھی تھی شاپنگ وغیره کرنے. ویٹر کافی لے آیا تھااوراب ان دونوں کے درمیا ن جھکاٹرےسےدوسرا کپ اٹھاکرمیز په رکھ رھاتھا. بھادرلڑکی ھواکیلےگھوم پهر لیتی هو. جھان نےمسکراکرکھتے هوۓاپنی کافی میں شکرڈالی.
استنبول میں یه بھادری مھنگی تو نھیں پڑے گی. مطلب ? کافی کا بھاپ اڑاتا کپ لبوں سےلگاتے ھوۓجھان کی آنکھوں میں الجھن ابھری.اس نےایک گھونٹ بھر کر کپ نیچے رکھا.
مطلب ڈرگ مافیا'آ رگنائزڈکرائم اسٹیٹ سیکرٹ آرگنائزیشن جیسی ترکیبات سے واسطه تو نھیں پڑےگا?وه کهنیاں میز په رکھےآگےھوئی اورچھرے په سادگی سجاۓ آهسته سےبولی. کیونکه سناھےیھاں ان سب سے پالا پڑسکتا ھے.کس سے سن لیں تم نے ایسی خوفناک باتیں. جھان نےمسکراکرسرجھٹکا. تم بتاؤیه پاشا کون ھے?
پاشاکو نھیں جانتی تو ترکی کیوں آئی ھو. مصطفی کمال پاشا...یاکمال اتاترک...وه ترکوں کا باپ تھا.
وه نھیں میں استنبول کےپاشاکی بات کر رھی عبدالرحمن پاشا کی.
کافی کاکپ لبوں تک لیجاتے ھوۓجھان نے رک کرناسمجھی سے اسے دیکھا.
کون ? کافی سے اڑتی بھاپ لمحےبھرکےلئےاس کےچھرےکو ڈھانپ گئ. ایک بھارتی اسمگلرجویورپ سے ایشیا میں اسلحه سمگل کرتا ھے. کم آن! اس نے کپ رکھ کر سنجیدگی سے حیا کو دیکھا.استنبول میں ایساکوئی مافیاراج نھیں ھے. یه کس نے تمھیں کھانیاں سنادی ھیں? یونھی مشھور ھونے کیلئےکسی نےاپنے بارے میں کوئی افواه اڑائی ھو گی.تم استنبول کو کیا سمجھ رھی ھو.ھالےکی طرح وه ایک خالص ترک تھا.اپنے استنبول کےلئےجی جان سے تیار تیار.
ویٹر جھان کے اشارے پربل لےآیاتھااوراب جھان اپنے بٹوےسےکارڈنکال کراسکی فائل میں رکھ رھا تھا.
رائی ھوتی ھے توپھاڑبنتاھےنا..
حیایه پاکستان نھیں ھے.جھان نےذراتفاخرسےجتاکرکھاتواسکےلب بھینچ گۓ. کارڈرکھ کر جھان نے فائل بند کرکےایک طرف رکھی.پاکستان میں بھی یه سب نھیں ھوتااوربل میں دوں گی.حیا نے تیزی سے فائل اٹھائ اور کھولی.
جیسےمیں جانتا ھی نھیں. جھان کی اگلی بات لبوں میں ھی ره گئی.
انکےدائیں طرف سے ایک ویٹرٹرےاٹھاۓچلاآرھاتھا.اچانک ایک دوسراویٹرتیزی سےاسکےپیچھے سے آیااورپهلےویٹرسےآگےنکلنےکیکوشش کی.پهلےویٹرکوٹھوکرلگی وه توازن برقرارنه رکھ پایااورنتیجتا اسکی دائیں ھتھیلی پے سیدھی رکھی لکڑی کی ٹرےشڑشڑکرکےبھاپ اڑاتےبیف چلی سمیت الٹ گئی.میزپه رکھےحیاکےھاتھ پےٹرےاورگرم بیف اکٹھےآکر لگے.وه بلبلاکرکھڑی ھوئی.فائل اور بل نیچے جاگرے.
آئی ایم سوری.آئئ ایم سوری وه دونوں ویٹر بیک وقت چیزیں ٹھیک کرنے لگے.ٹرےسےکافی کاکپ بھی الٹ گیا تھا.اور ساری کافی فرش پرگری پڑی تھی.
جھان ناگواری سےترک میں انھیں ڈانٹنے لگا.چندمنٹ معذرتوں اور میزصاف کرنے میں لگ گۓ. وه واپس بیٹھا تو حیااپنی کلائی سھلا رھی تھی.
تمھیں چوٹ آئی ھے.دکھاؤزیاده جل تو نھیں گیا. اس نے ھاتھ بڑھایامگرحیانےکلائ پیچھے کر لی..ذراسی چوٹ سے میں زخمی تو نھیں ھوگئ. بھت ٹف زندگی گزاری ھے میں نے.بظاھر مسکرا کر وه درد کو دبا گئ.ھتھیلی سرخ پڑ چکی تھیاور شدید جل رھی تھی.
میری بات اورھےھاتھ دکھاؤ.مگراسنےھاتھ گود میں رکھ لیا.
ٹھیک ھے اٹس اوکے'کافی کاشکریه.اب ھمیں چلناچاھئے.وهاٹھ کھڑی ھوئی.بل والی بات اسےبھول گئی تھی.مگر کافی توختم کرلووه قدرےپریشانی سےکھڑا ھوا.رھنےدوانتھائی بدتھذیب ویٹرزھیں یھاں کے.چلو.واپسی پےوه اسےمیٹرواسٹیشن تک چھوڑنے آیاتھا.زیرزمین جاتی سیڑھیوں کےدھانےپےوه دونوں آمنےسامنےکھڑےتھے.تم واپس ٹاقسم نھیں آؤگے.نھیں وه دفتر یھاں قریب ھی ھے.جس سے کام کے سلسلےمیں ملنےآیا تھااسطرف.جھان بازواٹھاکردورایک طرف اشاره کیا.اسنےسفیدشرٹ کی آستین یونھی کھنیوں تک موڑرکھی تھی.اور کوٹ بازوپےڈال رکھا تھا.ٹائی کی ناٹ اب تک ڈھیلی ھوچکی تھی.وه یقینااسکاایک ورکنگ ڈےخراب کر چکی تھی.ویسےتم کیاکرتےھو?وه کوٹ کی جیبوں میں ھاتھ ڈالے کھڑی گردن اٹھاۓاسےدیکھ رھی تھی.میں ایک غریب ساریسٹورنٹ اونر ھوں.استقلال اسٹریٹ په جو پھلا برگرکنگ ھےوه میرا ھے.استقلال اسٹریٹ ٹاقسم کے بالکل ساتھ ھے.دیکھی ھےتم نے?اونھوں. اسنےگردن دائیں سےبائیں اوربائیں سےدائیں ھلائی.تم اس ویک اینڈ پے گھر کیوں نھیں آجاتی ممی خوش ھونگی.اور تم ? بےساخته لبوں سےپهسلا.میں توویک اینڈ پے بھی ریسٹورنٹ ھوتا ھوں.پهر فائده اس نے سوچا.
کوشش کرونگی.وه مسکرا دی اس نےدایاں ھاتھ جیب سے نکال کربال پیچھے ھٹاۓ.تمھاراھاتھ ابھی تک سرخ ھے.اگر کسی دوست نےپوچھ لیا تو کیاکھوگی.
کھ دونگی که گدلی برف کیساتھ کیچڑ تھی گھاس په وهیں پھسل گئی. اسنےلاپروائی سےشانےاچکاۓ.اب کزن کیساتھ کافی پینےکاقصه تو سنانےسےرھی.پھسل گئ توھتھیلی رگڑی گئ?
ھاں!اورگھٹنے? جھان نےمسکراکراسکی جینزکیطرف دیکھا.مطلب? حیانےابرواٹھاۓ.
لڑکی کوراسٹوری پوری بنایاکرو.اگرتم ھتھیلیوں کےبل کیچڑ میں گروتواصولاتمھارےگھٹنوں پےبھی رگڑ آنی چاھۓ.پھر وه چند قدم چل کرگھاس کےقطعےکی طرف گیا.جھک کرتین انگلیوں سےمٹی اٹھائی اور واپس آکر اسکےسامنےرکا.اسےاپنی جینزپرلگادوورنه تمھاری فرینڈزیقین نھیں کریں گی.
اتنابھی کوئی شکی مزاج نھیں ھوتاجھان سکندر..!
اسنےھنس کراپنےپوروں پےزراسی گیلی مٹی لی اور جھک کر گھٹنوں کے اوپر جینز په مل دی.پهرھاتھ جھاڑتےھوۓسیدھی ھوئی.میں کوشش کرونگاکه ھفتے کی صبح ساراکام ختم کرکےگھرآجاؤں.تم ھفتےکی شام ضرور آنا.پهلی بار اسے احساس ھوا تھا که وه کمگوسنجیده طبیعت کالئےدۓرھنے والاشخص ضرور ھے مغرور بھی ھے.اور جلدی گھلتاملتابھی نھیں.
جاری هے


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India