اُردو ناول آن لائن

Monday, 25 September 2017

یارم از:سمیرا حمید قسط نمبر: 16


یارم از:سمیرا حمید
قسط نمبر: 16
*************
”میں یہاں ہوں.... کہاں ہوں.... میں؟“ وہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھی ،سادھنا ،لینڈ لیڈی کی راکنگ چیئر کے پاس صوفے پر بیٹھی کہانی سنا رہی تھی۔اسے لگا وہ صرف پانچ منٹ ہی سوئی ہے۔”اور کیا ،کیا کہہ رہی تھیں آپ؟“ وہ آنکھیں ملنے لگی۔” تم ایسے ہی ہر جگہ لم لیٹ ہو جاتی ہو لڑکی؟“ لینڈ لیڈی ہنس کر بولیں۔ امرحہ لفظ لم لیٹ پر حیران ہوئی۔خالص دیسی لفظ تھا۔یقینا کوئی پاکستانی سکھا کر گیا تھاانہیں۔
” نہیں... جی... بس آج تھکی ہوئی تھی تو “
”جاؤ کھانا کھا لو کچن میں رکھا ہے“
” کھانا؟“ جیسے صدیوں بعد یہ لفظ سنا تھا. وہ جلدی سے کچن میں گئی اور سارے ویجی ٹیبل رائس اور چکن سوپ ہڑپ کر گئی. کافی بنائی اور مگ لے کر آ گئی لینڈ لیڈی اسے دیکھتی ہی رہ گئیں۔”کافی کس سے پوچھ کر بنائی تم نے ؟“ اوہ ! پھر غلطی کر دی اس نے“ وہ خاموش کھڑی دونوں خواتین کو دیکھتی رہی اور منہ لٹکا لیا۔شکل پر بیچارگی لے آئی۔”بیٹھ کر پی لو“ لینڈ لیڈی کے اعصاب کچھ ڈھیلے ہوئے۔ وہ بیٹھ کر پینے لگی برا نہ ماننا پر تم ایشیا والے بہت تنگ کرتے ہو ایک لمبا وقت تمہیں بنیادی اخلاقیات سکھانے میں لگ جاتا ہے اور تم لوگ کھاتے بھی بہت ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں پر تھوڑا اپنی عادات پر قابو پاؤ انہیں درست کرو. امرحہ خاموشی سے کافی پیتی رہی. تم جا کر سو جاؤ سادھنا اور تم امرحہ مجھے میرے کمرے میں لے چلو. وہ انہیں کمرے تک لے آئی. وہ ایک ٹانگ سے معذور تھیں. دائیں ٹانگ فالج زدہ تھی. دایاں ہاتھ بھی مشکل سے حرکت کرتا تھا. لیکن ٹانگ کی طرح مفلوج نہیں تھا. انہیں ان کے بیڈ پر لٹایا۔میرے بال بھی اتار دو. ”بال امرحہ کو لگا ان کے دماغ کے ساتھ بھی کچھ مسئلہ ہے“
” ہاں بھئی !آؤتو“ تو وہ قریب ہوئی اور بالوں پر ہاتھ رکھ کر کھینچا اور وگ اس کے ہاتھ میں آ گئی اور اندر سے بمشکل آدھ انچ لمبے بال نکلے۔
پھر وہ سوئچ بورڈ کی طرف آئی اگر اس نے ٹھیک سے گنے تو وہاں کم سے کم پچیس سے زیادہ بٹن تھے۔نائٹ بلب کا شیڈ پسند کرنے میں انھوں نے کافی زیادہ وقت لیا۔پھر ہلکے سرمئی کو انھوں نے اتوار کی رات کے لیے پسند کیا اور اسے جانے کے لیے کہا۔
” تم ساتھ والے کمرے میں سو جاؤ صبح اپنا سامان لے آنا۔“خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی۔ کیونکہ تین وقت کے کھانے کے ساتھ یہ جگہ اسے بہت ہی سستی پڑ رہی تھی۔”اور ہاں دوبارہ کچن میں نہ جانا۔“ لیکن وہ پہلے کچن میں گئی ایک کپ اور کافی بنائی اور اور ایک کپ کافی کی قیمت کچن کاؤنٹر پر رکھ دی اور کمرے میں آ کر سو گئی۔ درمیان میں اس کی آنکھ کھلی تو اسے اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ اس نے فورا شرلی کو فون کیا۔ میں پولیس کو کال کرنے ہی جا رہی تھی، تم نے ہمیں پریشان کر دیا۔وہ ابھی اتنی ذمےدار نہیں ہوئی تھی۔
*.......*........*
اگلے دن سامان لا کر اسے کمرے میں سیٹ کیا.پھر اس دن سنی ڈے تھا تو کارپٹ کو اٹھا کر دھوپ میں ڈالا.... کپڑے دھوئے، استری کئے، پھر انہیں لیڈی مہر کے وارڈروب میں لٹکایا۔سادھنا کے ساتھ مل کر کھانا بنایا اور پھر کیفے آ گئی۔ واپسی پر بک سٹور ہوتی گئی۔لیکن وہاں اردو کی کتابیں بہت کم تھیں جو تھیں وہ بہت ادبی تھیں زیادہ تر شاعری کی تھیں۔آگ کا دریا،خدا کی بستی‎،‎اداس نسلیں‎،‎من چلے کا سودا وغیرہ وغیرہ ایک تو وہ فی الحال اس طرح کی مہنگی کتابیں خرید نہیں سکتی تھی۔دوسرے اس عمر میں اپنے سر کے بال جھڑوانا نہیں چاہتی تھی۔وہ یہ سب کتابیں پڑھ چکی تھی لیکن پڑھ کر سنا نہیں سکتی تھی۔یہ ایک صبر آزما کام تھا اور اتنا زیادہ صبر اتنی سی عمر میں نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسے ایک سادہ سی سستی سی کتاب چاہیے تھی۔ اس نے اپنی پاکستانی ہم جماعت سے بات کی تو اس نے اسے اپنی خالہ کی ایک کتاب لا دی "کھیل تماشا"اشفاق احمد کی ایک تو مفت میں کتاب مل گئی تھی دوسرا زیادہ موٹی نہیں تھی۔اپنی باری پر اس نے لیڈی مہر کو کھیل تماشا سنانا شروع کی وہ تو مزے سے سنتی رہی لیکن امرحہ کے دماغ کے کہیں اوپر سے الفاظ گزر گزر کر جاتے رہے وہ بلاشبہ اپنی طرز کی شاہکار کتاب تھی.لیکن امرحہ جیسے کندذہن اسے بیکار بنا رہے تھے لیڈی مہر اسے بار بار پیچھے لے جاتیں کئی کئی سطروں کو بار بار پڑھواتیں اتفاق سے اس نے ایک بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔کھیل تماشا کے سننے والے اور سنانے والے دونوں کا دل موہ لیا تھا۔تحت پور کے ماسٹرہالی اور ان پر مر مٹنے والی رجنی نے نشست گاہ میں جادو سا جگا دیا جیسے ایسے لگتا ہے جیسے ماسٹرہالی اپنی کلا رنٹ پہ آساکی وار ان کے سامنے بیٹھے ہی بجا رہے ہوں.اور رجنی عین ان کے سامنے داسی بنی بیٹھی ہو۔لیڈی مہر نہال ہو گئی بہت کمال کی شاندار سادھنا قدیم بنگالی اور بھوج پوری لوک کہانیاں سناتی تھی جو اس نے اپنے بنگالی باپ بھوج پوری ماں سے سنی تھیں.اور حیرت انگیز طور پر وہ کہانیاں اتنی تھیں کہ امرحہ کو لگتا سادھنا نے اپنی زندگی کے اتنے سال صرف کہانی سنتے ہی گزارے ہیں۔جب وہ رات کو کہانی شروع کرتی تو اس کی آواز میں سارے بنگال کا سحر سمٹ آتا۔ وہ کنگا جمنا کی طرح رواں دواں ہو جاتی ہلکورے کھاتی شفاف ہو ہو جاتی اکثر اس کی کہانیاں پرسوز ہوتیں لیکن وہ انہیں اتنی نرمی اور چاہت سے سناتی کہ لگتا ہی نا کہ ان کہانیوں میں سوز ہے۔ سادھنا بمشکل بتیس سال کی تھی اور اس کے آٹھ سالہ بیٹے کو ہڈیوں کا کینسر تھا۔سادھنا کی کہانی محبت سے شروع ہو کر امرجیت پر ختم ہوتی۔وہ پرسوز کہانی سناتے ہوئے بلکل آبدیدہ نہیں ہوتی بلکہ ایسے لگتا کہ اس کا آٹھ سالہ بیٹا اس کے سامنے کھڑا ہے اور اسے کہہ رہا ہے.جو دکھ پر روتا ہے وہ تو پھر انسان ہوا لیکن جو کم بختی پر روتا ہے وہ بھی کوئی انسان ہوتا ہے؟وہ بھی کوئی انسان بھلا
تو سادھنا کیونکر روتی،جب اس کا بیٹا ہی جواں حوصلہ ہے....ساری تکلیف سہ کر بھی اسے فون کرتاہے اور کہتا ہے۔میں جب تک زندہ رہوں گا....کبھی رو کر نہیں سوؤں گا....کبھی رو کر آنکھ نہیں کھولوں گا...ڈکٹروں کے سارے آوزار اور ان کی دوائیں.... اور میرے جسم کی ساری تکلیف بھی مل کرمجھے ہرا نہیں سکے گی۔میں نہیں روؤں گا ماں کبھی نہیں۔
تو ایسے بچےکی ماں کیسے روتی....وہ بات بات پر مسکراتی...ہنستی...اس کہ کہانیاں کیوں نہ ”امر جیت“ ہوتیں....اسکی آواز میں ایسا سحر کیوں نہ آتا جو تھپک تھپک کر سلا دیتا ہے۔دل پہ کیسا ہی بوجھ کیوں نہ ہو....اس کی کہانی کی پرستان لے ہی جاتی ہے۔سادھنا کی کہانی سنتے سنتے وہ نشست گاہ میں ہی سو جاتی جیسے کوئی وہ لوری سناتا ہو جو جنگ سے لوٹ آنے والا اپنے بچوں کو اور جنگ جیت جانے والااپنے کنبے کو سناتاہے وہی جواں مردی کے قصے اور شہیدوں کے لہو رنگ فسانے۔
*........*........*
جاری ہے۔



0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India