skip to main |
skip to sidebar

September 25, 2017

message
No comments
یارم از: سمیرا حمیدقسط نمبر 25*****************تم اتنی سطحی ہو امرحہ یا تم ان لوگوں کی باتوں کا دھیان دیتی رہی ہو جو نفرت اور انتشار کے موجد ہیں جو ہمیشہ قدرت کے قوانین میں گھستے ہیں اور پورے دل سے ان قوانین میں ردوبدل میں کر دینا چاہتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو ایک پھولبھی خود نہیں بنا سکتے لیکن اسی پھول کو ناپسندیدہ قابل نفرت ضرور بنا سکتے ہیں.علامت آخر کیا چیز ہوتی ہے؟یہ پھول ہے امرحہ؟صرف پھول اگر یہ اس سے زیادہ کچھ اور بھی ہے تو وہ یہ کہ یہ اپنے وجود میں کامل ہے.یہ خود کو خود ہی کامل کرتا**************************ہے.اس کا کھلتا ہوا رنگ دیکھو کتنا کامل ہے.یہ اپنے رنگ میں نہ کہیں کم نہ کہیں زیادہ.ایک جیسا اس کی پنکھڑیاں کتنی نرم اور ملائم ہیں کتنی جادب نظر کوئی ملاوٹ نہیں ان میں دنیا کی بہترین فیکٹریوں میں بننے والا ریشم بھی اس جتنا ملائم نہیں ہو گا جتنا یہ زمین کے وجود سے نکلا ہوا ہے. دیکھو قدرت کی قابلیت داد دو قدرت کو تعریف کرو قدرت کی الٹا تم اسے ناپسندیدہ علامتیں دے رہی ہو.تم نے اس کی خوبصورتی پر غور نہیں کیا اور اسے ناپسندیدہ جان لیا. سر اٹھا کر آسمان کو دیکھو اگر ساری دنیا اس آسمان کوکوئی فضول اور بکواس علامت قرار دے دے گی تو تم بھی اسے برا مان لو گی. وسیع مندر نیلی جھیلیں سبزو سفید پہاڑ کتنے کامل ہیں.اگر انہیں کوئی علامتیں دے دی گئی تو کیا نفرت کرنے لگو گی ان سے اپنی تخلیق میں یہ پھول کسی سے کم نہیں کائنات کی کسی بھی سے نہیں.اپنے مقام پر بادشاہ ہے.اس کے سر پر تاج ہے اس کی تخلیق کا کہ تمہاری تخلیق جیسی ہونی مقصود پائی تھی تم ویسے ہی ہو. یہ کسی بھی طرح ہیج نہیں اس میں کوئی کمی نہیں کمی ہیں تو ان دماغوں میں جن میں یہ فتور پیدا ہوتا ہے. کوئی پھول کوئی رنگ قدرت کی بنائی کوئی چیز قابل نفرت نہیں ہوتی.یہ خطبی لوگوں کی باتیں میں تم وہ سبق کیوں پڑھ رہی ہو جو دنیا کے مخبوط الحواس اس لوگوں نے غائب دماغ میں لکھا ہے.قدرت کے خلاف جاکر لکھا ہے.قدرت کو ناخوش کرنے کے لیے لکھا ہے.قدرت کو ہیچ کرنے کے لیے لکھا ہے. امرحہ حقیقتا چپ ہو چکی تھی.اس کی ساری زندگی پیلے پھول کو نفرت کی علامت سمجھتے گزر جاتی.***********************اگر اسے یہ سب نہ بتایا جارہا ہوتا آخر اس نے آج تک یہ بات خود کیوں نہ سوچی.دماغ تو اس کے پاس بھی تھا نا. میرا ذاتی خیال ہے کہ پھولوں کے دو تاجروں نے کاروباری حسد کا نتیجہ ہے یہ سب.ایک تاجر کے پاس پیلے پھول ہوں گے اور وہ کاروبار میں ترقی کر رہا ہو گا.اس کے پیلے پھولوں کا باغ تیزی نے پھل پھول رہا ہو گا.دوسرے رنگ کے ہوں گے چلو سرخ لگا لو اب سرخ پھول کے مالک نے یہ سوچا ہو گا کہ پھول کو کسی ایسے جذبے کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو راتوں رات اس کی مانگ میں اضافہ ہو جائے گا تو اپنے کاروباری حلیف کے پھول کو کسی ایسے جذبے کے منسلک کر دیا جائے کہ لوگ اسے لینا ہی پسند نہ کریں.پھر اس نے یہ کیا اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا.دیکھو تم نے کیسے میرے ہاتھ میں میرے پھول واپس کر دیے.یہ وہی پھول جو مجسم شاہکار ہیں.*************************امرحہ نے اس کے ہاتھ سے پھول واپس لے لیے اور تیزی سے بس کی طرف بھاگی جس میں بیٹھ کر اسے جانا تھا.عالیان اس سے چند قدم دور تھا.یہ بات تمہیں کس نے بتائی عالیان؟ بس کی کھڑکی سے سر نکال کر اس نے پھولوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا. سمیرا نے.عالیان نے تیز آواز میں کہا بس دور چلی گئی تھی لیکن وہ وہیں کھڑا بس کی گزرگاہ کو دیکھتا رہا.رات کے ڈنر کا اہتمام ٹھیک ٹھاک تھا.دادا آن لائن دیکھ کر اس نے سادھنا کا بنایا کیک کاٹ لیا تھا.لیڈی مہر نے اسے یونیورسٹی کی تصویر والا کراس بیگ دیا تھا.سادھنا نے باریک سی پازیپ اور این اون نے ہاتھ کی بنی ایک چھوٹی سی گڑیا جو اس کی ماں نے اس کے بیگ میں ایک درجن سے زیادہ رکھ دی تھیں کہ یونیورسٹی میں اسے جو اچھا لگے انہیں دیتی جائے.ایک اس نے لیڈی مہر کو دی. امرحہ نے اس گڑیا کو یونیورسٹی بیگ کے اوپری سطح پر لگا لیا.سب کو معلوم ہوتا چاہیے تا کہ این اون اسے پسند کرتی ہے.اس نے اپنے گھر میں کبھی سالگرہ نہیں کی تھی کیونکہ اسے اپنے دنیا میں آنے کی کوئی خوشی نہیں تھی بلکہ اسے یہ سوچ کر ہی کوفت ہوتی تھی کہ وہ آج کے دن پیدا ہوئی تھی.************************ایک ایسی تاریخ جسے دادی سال میں کتنی بار دہراتی تھی کہ اس دن یہ یہ ہوا. اس نے سادھنا کو ایک بار ایسے ہی یہ سب بتایا تو وہ حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی.لیکن تم تو مسلمان ہو امرحہ اور مسلمانوں میں تو یہ سب باتیں نہیں ہوتی. امرحہ اسے کیا بتاتی کہ اب مسلمانوں میں کیا کیا ہونے لگا ہے.ہمارے محلے میں ایک مسلمان خاندان آباد تھا.مجید بھائی تھے.اسکول میں پڑھاتے تھے اور اپنا ٹیوشن سینٹر چلاتے تھے ان کی نئی نئی شادی ہوئی تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا پھر اسی مہینے ان کی ٹیوشن سینٹر میں آگ لگ گئی.اور پھر چند ہی دنوں بعد ان کے مکان کی چھت گر گئی. سب نے کہا بہو سبز قدم ہے لیکن ان کی ماتا اور وہ آگے سے ہنستے رہتے کہتے جو ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے.************************دو تین سال برابر ان کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوتا رہا لیکن انہوں نے کبھی ایک بار بھی لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے کہ یہ سب ان کی شادی کے بعد ان کی بیوی کے قدموں سے ہوا ہے وہ سب سے یہی کہتے کہ ہمارے مذہب ہمیں ایسا کہنے اور سوچنے سے منع کیا ہے. سادھنا آتش دان کے قریب بیٹھی آریان کے موزے بن رہی تھی اور بہت مدلل انداز سے اسے سب بتا رہی تھی. اس کے پاس سادھنا کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ وہ مسلمان وہ ہے اور مسلمان ایسا ہیں سوچتے اس کا جواب اس کی دادی اس کی ماں اور خاندان کے باقی لوگوں کے پاس تھا. وہی بتا سکتے تھے کہ قرآن پاک میں تو ایسا کچھ نہیں لکھا پھر وہ کہاں سے سیکھ سیکھ کر یہ سب کہتے اور کرتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ان کے کہے ایک ایک لفظ کا حساب کتاب ہو گا.جو کیا ہو گا اس کے بارے میں پوچھا جائے گا.وہ کون سا جواب کھڑ کر دیں گے یہی کہ وہ کم عقل اور انجان تھے اور ان کے جواب کو درست مانا جائے گا کیونکہ جو کلام پاک پڑھتا ہے وہ نہ کم عقل ہوتا ہے نہ ہی انجان رہتا ہے.اگر وہ ٹھیک ٹھیک پڑھتا ہے تو ......**************************”کیا مسئلہ ہے آپ کا؟“ نفسیاتی ڈاکٹر” میں فریشر فلو کا شکار ہوں۔“نیا اسٹوڈنٹ۔اوہ..... لیکن اس کا کوئی علاج نہیں..... پرسکون رہیں.... وقت اس فلو کو نارمل کر دے گا۔وہ کم و پیش سب نئے آنے والوں میں سے اس کے تاثرات زائل ہو چکے تھے.ویلکم ویک کے بعد گاہے بگائے یہ سب اصطلاع اپنے سینیرز اور پروفیسرز سے سننے کو ملی کبھی طنزا اور زیادہ پر مذاقا۔ یونیورسٹی میں نئے آنے والے اسٹوڈنٹس کو مانچسٹر یونی اور شہر کا جو بخار چڑھتا ہے اسے فریشر فلو کہا جاتا ہے۔اس فلو کے حامل فریشرز بہت زیادہ بولتے ہے ۔ایک دم سے سب جان لینا چاہتے ہیں. رات رات بھر جاگتے ہیں.بہت کھاتے ہیں.بلاوجہ ہی یونی اور شہر میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں.مانچسٹر نائٹ لائف سے ایسے لطف اندوز ہوتے ہیں جیسے پڑھنے نہیں سیاحت کرنے گھر سے نکلے ہیں. شروع شروع میں جب وہ مانچسٹر یونی کا ایک چکر لگایا کرتی اور بلاوجہ ہی مختلف ڈپاٹمنٹس میں گھومتی پھرتی تو دائم وغیرہ کا گروپ اسے بہت سنجیدگی سے کہا کرتا۔" تھوڑا وقت لگے گا لیکن تم ٹھیک ہو جاؤں گی۔ یونی بھاگی نہیں جا رہی. دو سال میں تمہارے پاس آرام سے ایک ایک پروفیسر' سٹوڈنٹ' ڈیپارٹمنٹ' گردن' لائبریری'میوزیم گھوم پھر کر دیکھ لینا. اپنے اس فلو کو تھوڑا کم کرنے کی کوشش کرو".اتنی سنجیدگی سے کی گئی نصیحت کے باوجود ہفتے میں دو بار تو ضرور ہی یونی میوزیم جاتی. فارغ وقت ملتا تو وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس اور باغ دیکھتی رہتی. لیکن اب چونکہ اس فلو کے اثرات زائل ہو چکے تھے اب تو اپنے ڈیپارٹمنٹ تک ہی چلیجاتی تھی تو بڑی بات لگتی تھی.************************جب جب اسے اسائنمنٹ ملت' اس کی جن پر بن جاتی. اسے لگتا اس سے اسائنمنٹ نہیں ہو گی اور اسے یونی سے نکال دیا جاۓ گا' فلحال ابھی تک نکالا تو نہیں گیا تھا لکن وی اس نکا لنے کے بارے امن سوچتی ضرور رہتی تھی. ایسے وقت میں پڑھائی ایک ازدھا بن جاتی جو ہڑپ ککر جانے کے لیے تیار نظر آتی.پہلا سمسٹر اپنے اختتام کے قریب تھا، ہر ایک کے ہاتھ میں کتاب اور ونیلا کوک نظر اتی. لائبریری کی طرف آمدورفت ایسے تھی ' جیسے وہاں بننے بنائے اسائنمنٹ مل رہے ہیں. ایک دوسرے کی شکل دیختے ہی پہلا سوال کیا جاتا."اسائنمنٹ مکمل ہو گئی؟"زیادہ لڑکے نہ میں سر ہلاتے نظر آتے.دوسرا سوال"کتنے فیصد ہو گئی؟"امرحہ کی کل ملا کر چھ اسائنمنٹس تھیں. چار پر وہ کم مکمل کر چکی تھی پانچویں پر کم مکمل ہونےمیں نہیں آ رہا تھا. جو جون ملٹن کی لوسٹ پراڈیز کے کردار' مائیکل' رافیل اور شیطان کے تجزیے پر مشتمل تھا. جون ملتان کے کرداروں کو پڑھ لینا کسی معرکے سے کم نہیں تھا . کہاں ان کے تجربے لکھنا..جسے اچھی طرح اس EPIC POEM کی ہی سمجھ نہیں ای تھی' وہ اچھی طرح اس پر کام کیسیکر سکتی تھی. یعنی اچھی تارہا کم کرنے کے لیے اسے معمول سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت تھی.**********************جاری ہے

Posted in: Yaaram - ناول یارم
Email This
BlogThis!
Share to Facebook
0 comments:
Post a Comment