یارم..... سمیراحمید
پارٹ3
*********
رات کے پہلے پہر سے آخری پہر تک۔۔۔۔پھر اپنے اسکول بیگ میں اپنے چند کپڑے رکھ کر گھر سے نکل گئی۔۔۔۔چلتی گئی چلتی گئی۔۔۔ حد تو یہ کہ پہلی بار سڑک پر یہاں وہاں پھرتے آوارہ گندے کتوں سے بلکل نہیں ڈری۔۔۔۔آنکھوں میں اشک لیے۔۔۔کندھے پر اسکول بیگ لٹکائے ایسے چلتی جا رہی تھی جیسے خدانخواستہ دنیا میں اکیلی ہو۔
کچھ دور آگے جا کر سمجھ میں نہ آیا کہ اب کہا جائے۔۔۔۔تو سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر رونے لگی۔
" تھکا ڈالا تم نے مجھے امرحہ" دادا اسی فٹ پاتھ پر اسکے ساتھ بیٹھ گئے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ پہلے خود پیا پھر اسے پلایا۔
" میں نے گھر چھوڑ دیا ہے" پانی پی کر وہ چلائی
"ایک دن تو تمہیں وہ گھر چھوڑنا ہی ہے ۔۔۔وہ تمہارا گھر ہے بھی نہیں بچے"
"جاتے کیوں نہیں ہیں آپ دبئی۔۔۔۔کر لیا ہے نا میں میٹرک"
دادا گڑ بڑا گئے۔ " میں بوڑھا،کمزور،بیمار شیمار رہنے والا بندہ اب کہں جاوں گا ملک سے باہی وہ بھی کام کرنے۔۔۔۔۔ خود سوچ بچے۔۔۔کتنا بوڑھا ہو گیا ہوں میں۔۔۔۔بہرا بھی تو ہو رہا ہوں"
" تو وعدہ کیوں کیا تھا؟" بابا کے مارے تھپڑ کو بھول کر وہ اس بات پر ہچکیوں سے رونے لگی کہ دادا نے وعدہ پورا نہیں کیا۔
دادا بہت دیر چپ ہی رہے۔۔نو عمری پھر امرحہ جیسا دکھی دل۔۔۔اب کوئی جھوٹی تسلی اسے نہیں دی جا سکتی تھی۔ "تم کیوں نہیں چلی جاتی امرحہ؟"
" کہاں؟" ایک بڑی ہچکی لی کر اس نے کندھے سے اسکول بیگ اتارا۔
"دبئی، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس"
"میں امریکا، فرانس"۔ وہ اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی کہ دادا کو کیسے کیسے لطیفے یاد آ رہی ہیں۔ اسکا مزاق اڑا رہے ہیں۔ یہ کوئی وقت ہے مزاق کرنے کا کرنے کا وہ بھی ایسا بھیانک۔۔۔۔
"ہاں نا۔۔۔ مرزا کمال کی نواسی نے ایف ایس سی میں ٹاپ کیا ہے اس سال۔۔۔اسے اسکالرشپ ملا ہے۔دو دن ہوئے وہ کینیڈا چلی بھی گئی ۔۔۔۔ امرحہ! تم ایس سی میں ٹاپ کر لو۔"
"میں۔۔۔۔؟" پھر وہی بھیانک مزاق کا انداز۔۔ اف یہ دادا۔۔۔
" ہاں امرحہ بچے۔۔۔ ٹاپ کرو اور چلی جاو۔۔۔مرزا کمال کی نواسی سات سال بعد آئے گی واپس بلکہ سمجھو آئے گی ہی نہیں۔۔۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد اسے کینیڈا میں ہی 3 سال سروس کرنی ہوگی۔۔۔ ہوں ہو گئے دس سال۔۔۔ دس سال وہ بھی کینیڈا میں۔۔۔وہاں بیس پچیس لاکھ لگا کر جایا جاتا ہے، وہ مفت میں چلی گئی ہے۔ دیکھ لو؟ امرحہ! تعلیم کے کتنے فائدے ہیں۔آپ خود کو منوا لو تو دنیا آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے"
رات کے آخری پہر سڑک کے کنارے بیٹھے دادا اسے اول ارسطو سے کم نہیں لگ رہے تھے جو سکندر اعظم کو تاریخی فاتحوں کی فتوحات بڑے سلیقے سے سمجھا رہا تھا۔
اور پھر سکندر اعظم بھی تو فاتح رہا تھا۔
اور یوں اس نے بہت دل سے دادا کے ساتھ جا کر کالج میں داخلہ لیا۔۔۔ رات دن پڑھائی۔۔۔بس پڑھائی۔۔۔ٹاپ کرنا اس نے خود پر لازم کر لیا بلکہ فرض اول ما لیا۔۔اسے اتنا یقین تھا خود پر کہ وہ خود ہی سب دوستوں اور ہم جماعتوں کوبتانے لگی۔۔۔
"مجھے تو کینیڈا جانا ہے پورے دس سال رہوں گی وہاں"
أس کا انداز ایسا ہوتا جیسے کسی اور دنیا کا باشندہ ہو اور کہے رہا ہو کے "مجھے اپنی دنیا میں جانا ہے یہاں حادثاتی طور پر آگیا ہوں
ہاں بس کبھی کبھی قسمت ایسے ہی خراب ہو جاتی ہے"
"ﮈاکٹر بن جاؤں گی۔۔۔ مزے سے زندگی گزاروں گی"
یہ کہتے وہ ایسی شہزادی بن جاتی جو بوڑھی ملکہ کے مرتے ہی خود ملک بن جاتی ہواور اب بس اس نے بوڑھی ملکہ کے دن بھی گننا شروع کر دیے ہوں
"ہاں ہاں میرے فیوچر پلانز میں شروع سے یہی شامل تھا مجھے یورپیین ممالک میں ہی زندگی گزارنی تھی یورپ کو وہ صرف کینیڈا تک ہی جانتی تھی اور مانتی تھی اور کہے ایسے رہی تھی جیسے سات براعظم کو گھوم کر ایک یورپ کا انتخاب کیا ہو...
" بس یہ دو سال ہیں جلدی سے امتحان ہوں اور میں جلدی سے جاوں"
سورج کو اتنی جلدی دھوپ لانے کی اور چاند ستاروں کو روشنی لانے کی اتنی نہیں جلدی ہوگی جیتنی اس کو یہاں سے بھاگنے کی۔۔۔
ان دو سالوں میں وہ بہت خوش رہی اس نے کینیڈا کی اتنی معلومات اکٹھی کر لی تھی کے خود کنیڈین بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گےدادا نے اس کو وہ ساری کتابیں لادیں جس میں کنیڈا لفظ کہیں نہ کہیں آتا تھا اور پہر رزلٹ آگیا ٹاپ بھی ہو گیا پر افسوس کسی اور کا۔۔۔وہ اےپلس بہی نا لےسکی۔۔۔رو رو کر اس نے اپنا حشر برا کر لیا دادا چھپے چھپے نظریں چراے پھرتے تھے جیسے پیپر انہوں نے دے تھے اور صیح سے محنت نہیں کی تھی۔۔
چند جگہوں پر سکالشپ کے لیےاپلاۓ کیا مگر جہاں ﮈبل پلس والوں کی بھرمار ہو وہاں اے گریڈز کو کون پوچھتا ہے دادا کو ان دنوں معلوم ہوا ملک میں کتنی تعداد لائق طلباء کی ہے۔جہاں جہاں وہ اسکا فارم جمع کروانے گئے تھے وہاں موجود جم غفیر دیکھ کر انہیں خوشی تو ہوتی ساتھ ہی امرحہ کا سوچ کر افسوس بھی ہوا انہیں اندازہ ہو گیا کے سکالر شپ ملنا مشکل ہے ۔۔اور وہی ہوا جیس کا ﮈر تھا
اس کو سکالر شپ کے ایڑمیشن فارم کی بجاے معزرت کے تین لیٹر آے,,
گھر ولوں کو کوئ خبر نہیں تھی کے ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے
امرحہ کا بخار اتر کیوں نھیں رہا دادا اور امرحہ کی بول چال کیوں بند ہے۔۔۔ادھر اس کی دوستوں کے فون آنے شروع ہو گۓ۔۔ کہ کب جا رہی ہو کینیڈا
"سنو ہم سے مل کر جانا ہمت ہے جو تم اتنی دور اکیلی پڑھنے جا رہی ہو میں تو سوچ کے ہی مر جاؤں "اس نے پچھلے دو سالوں میں سب کو اتنا یقین دلا رکھا تھا کے جیسے اب تو یہ پکا گئ کینیڈا۔۔۔ وہ یہ سب طنز نہیں کر رہی تھیں پر امرحہ کو طنز ہی لگ رہے تھے نا۔۔۔بابا نے اسکی منگنی کر دی۔۔۔ اس نے بھی کروالی کہ کینیڈا تو گئے نہیں دوسرے گھر ہی چلو۔۔۔لیکن دوسرے گھر بھی نہ جا سکی۔۔۔چھ مہ بعد ہی منگنی ٹوٹ گئی۔ظاہر ہے انہیں بھی خبر ہو گئی کہ اس لڑکی کی پیدائش اور بعد از پیدائش سے کیسے کیسے واقعات جڑے ہیں۔۔۔بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کر سکتے تھے۔۔۔اماں اور دادی پر ناراض ہوئے کی کیوں ایسی ایسی باتیں کر کے امرحہ کو اتنا مشہور کر دہا ہے کہ اسکا رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔ اماں اور دادی بھی پچھتائیں پر اب دیر پو چکی تھی نا۔۔۔...!
******
جاری ہے" تھکا ڈالا تم نے مجھے امرحہ" دادا اسی فٹ پاتھ پر اسکے ساتھ بیٹھ گئے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ پہلے خود پیا پھر اسے پلایا۔" میں نے گھر چھوڑ دیا ہے" پانی پی کر وہ چلائی
"ایک دن تو تمہیں وہ گھر چھوڑنا ہی ہے ۔۔۔وہ تمہارا گھر ہے بھی نہیں بچے"
"جاتے کیوں نہیں ہیں آپ دبئی۔۔۔۔کر لیا ہے نا میں میٹرک"
دادا گڑ بڑا گئے۔ " میں بوڑھا،کمزور،بیمار شیمار رہنے والا بندہ اب کہں جاوں گا ملک سے باہی وہ بھی کام کرنے۔۔۔۔۔ خود سوچ بچے۔۔۔کتنا بوڑھا ہو گیا ہوں میں۔۔۔۔بہرا بھی تو ہو رہا ہوں"
" تو وعدہ کیوں کیا تھا؟" بابا کے مارے تھپڑ کو بھول کر وہ اس بات پر ہچکیوں سے رونے لگی کہ دادا نے وعدہ پورا نہیں کیا۔
دادا بہت دیر چپ ہی رہے۔۔نو عمری پھر امرحہ جیسا دکھی دل۔۔۔اب کوئی جھوٹی تسلی اسے نہیں دی جا سکتی تھی۔ "تم کیوں نہیں چلی جاتی امرحہ؟"
" کہاں؟" ایک بڑی ہچکی لی کر اس نے کندھے سے اسکول بیگ اتارا۔
"دبئی، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس"
"میں امریکا، فرانس"۔ وہ اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی کہ دادا کو کیسے کیسے لطیفے یاد آ رہی ہیں۔ اسکا مزاق اڑا رہے ہیں۔ یہ کوئی وقت ہے مزاق کرنے کا کرنے کا وہ بھی ایسا بھیانک۔۔۔۔
"ہاں نا۔۔۔ مرزا کمال کی نواسی نے ایف ایس سی میں ٹاپ کیا ہے اس سال۔۔۔اسے اسکالرشپ ملا ہے۔دو دن ہوئے وہ کینیڈا چلی بھی گئی ۔۔۔۔ امرحہ! تم ایس سی میں ٹاپ کر لو۔"
"میں۔۔۔۔؟" پھر وہی بھیانک مزاق کا انداز۔۔ اف یہ دادا۔۔۔
" ہاں امرحہ بچے۔۔۔ ٹاپ کرو اور چلی جاو۔۔۔مرزا کمال کی نواسی سات سال بعد آئے گی واپس بلکہ سمجھو آئے گی ہی نہیں۔۔۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد اسے کینیڈا میں ہی 3 سال سروس کرنی ہوگی۔۔۔ ہوں ہو گئے دس سال۔۔۔ دس سال وہ بھی کینیڈا میں۔۔۔وہاں بیس پچیس لاکھ لگا کر جایا جاتا ہے، وہ مفت میں چلی گئی ہے۔ دیکھ لو؟ امرحہ! تعلیم کے کتنے فائدے ہیں۔آپ خود کو منوا لو تو دنیا آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے"
رات کے آخری پہر سڑک کے کنارے بیٹھے دادا اسے اول ارسطو سے کم نہیں لگ رہے تھے جو سکندر اعظم کو تاریخی فاتحوں کی فتوحات بڑے سلیقے سے سمجھا رہا تھا۔
اور پھر سکندر اعظم بھی تو فاتح رہا تھا۔
اور یوں اس نے بہت دل سے دادا کے ساتھ جا کر کالج میں داخلہ لیا۔۔۔ رات دن پڑھائی۔۔۔بس پڑھائی۔۔۔ٹاپ کرنا اس نے خود پر لازم کر لیا بلکہ فرض اول ما لیا۔۔اسے اتنا یقین تھا خود پر کہ وہ خود ہی سب دوستوں اور ہم جماعتوں کوبتانے لگی۔۔۔
"مجھے تو کینیڈا جانا ہے پورے دس سال رہوں گی وہاں"
أس کا انداز ایسا ہوتا جیسے کسی اور دنیا کا باشندہ ہو اور کہے رہا ہو کے "مجھے اپنی دنیا میں جانا ہے یہاں حادثاتی طور پر آگیا ہوں
ہاں بس کبھی کبھی قسمت ایسے ہی خراب ہو جاتی ہے"
"ﮈاکٹر بن جاؤں گی۔۔۔ مزے سے زندگی گزاروں گی"
یہ کہتے وہ ایسی شہزادی بن جاتی جو بوڑھی ملکہ کے مرتے ہی خود ملک بن جاتی ہواور اب بس اس نے بوڑھی ملکہ کے دن بھی گننا شروع کر دیے ہوں
"ہاں ہاں میرے فیوچر پلانز میں شروع سے یہی شامل تھا مجھے یورپیین ممالک میں ہی زندگی گزارنی تھی یورپ کو وہ صرف کینیڈا تک ہی جانتی تھی اور مانتی تھی اور کہے ایسے رہی تھی جیسے سات براعظم کو گھوم کر ایک یورپ کا انتخاب کیا ہو...
" بس یہ دو سال ہیں جلدی سے امتحان ہوں اور میں جلدی سے جاوں"
سورج کو اتنی جلدی دھوپ لانے کی اور چاند ستاروں کو روشنی لانے کی اتنی نہیں جلدی ہوگی جیتنی اس کو یہاں سے بھاگنے کی۔۔۔
ان دو سالوں میں وہ بہت خوش رہی اس نے کینیڈا کی اتنی معلومات اکٹھی کر لی تھی کے خود کنیڈین بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گےدادا نے اس کو وہ ساری کتابیں لادیں جس میں کنیڈا لفظ کہیں نہ کہیں آتا تھا اور پہر رزلٹ آگیا ٹاپ بھی ہو گیا پر افسوس کسی اور کا۔۔۔وہ اےپلس بہی نا لےسکی۔۔۔رو رو کر اس نے اپنا حشر برا کر لیا دادا چھپے چھپے نظریں چراے پھرتے تھے جیسے پیپر انہوں نے دے تھے اور صیح سے محنت نہیں کی تھی۔۔
چند جگہوں پر سکالشپ کے لیےاپلاۓ کیا مگر جہاں ﮈبل پلس والوں کی بھرمار ہو وہاں اے گریڈز کو کون پوچھتا ہے دادا کو ان دنوں معلوم ہوا ملک میں کتنی تعداد لائق طلباء کی ہے۔جہاں جہاں وہ اسکا فارم جمع کروانے گئے تھے وہاں موجود جم غفیر دیکھ کر انہیں خوشی تو ہوتی ساتھ ہی امرحہ کا سوچ کر افسوس بھی ہوا انہیں اندازہ ہو گیا کے سکالر شپ ملنا مشکل ہے ۔۔اور وہی ہوا جیس کا ﮈر تھا
اس کو سکالر شپ کے ایڑمیشن فارم کی بجاے معزرت کے تین لیٹر آے,,
گھر ولوں کو کوئ خبر نہیں تھی کے ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے
امرحہ کا بخار اتر کیوں نھیں رہا دادا اور امرحہ کی بول چال کیوں بند ہے۔۔۔ادھر اس کی دوستوں کے فون آنے شروع ہو گۓ۔۔ کہ کب جا رہی ہو کینیڈا
"سنو ہم سے مل کر جانا ہمت ہے جو تم اتنی دور اکیلی پڑھنے جا رہی ہو میں تو سوچ کے ہی مر جاؤں "اس نے پچھلے دو سالوں میں سب کو اتنا یقین دلا رکھا تھا کے جیسے اب تو یہ پکا گئ کینیڈا۔۔۔ وہ یہ سب طنز نہیں کر رہی تھیں پر امرحہ کو طنز ہی لگ رہے تھے نا۔۔۔بابا نے اسکی منگنی کر دی۔۔۔ اس نے بھی کروالی کہ کینیڈا تو گئے نہیں دوسرے گھر ہی چلو۔۔۔لیکن دوسرے گھر بھی نہ جا سکی۔۔۔چھ مہ بعد ہی منگنی ٹوٹ گئی۔ظاہر ہے انہیں بھی خبر ہو گئی کہ اس لڑکی کی پیدائش اور بعد از پیدائش سے کیسے کیسے واقعات جڑے ہیں۔۔۔بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کر سکتے تھے۔۔۔اماں اور دادی پر ناراض ہوئے کی کیوں ایسی ایسی باتیں کر کے امرحہ کو اتنا مشہور کر دہا ہے کہ اسکا رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔ اماں اور دادی بھی پچھتائیں پر اب دیر پو چکی تھی نا۔۔۔...!
******
جاری ہے
" تھکا ڈالا تم نے مجھے امرحہ" دادا اسی فٹ پاتھ پر اسکے ساتھ بیٹھ گئے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ پہلے خود پیا پھر اسے پلایا۔
" میں نے گھر چھوڑ دیا ہے" پانی پی کر وہ چلائی
"ایک دن تو تمہیں وہ گھر چھوڑنا ہی ہے ۔۔۔وہ تمہارا گھر ہے بھی نہیں بچے"
"جاتے کیوں نہیں ہیں آپ دبئی۔۔۔۔کر لیا ہے نا میں میٹرک"
دادا گڑ بڑا گئے۔ " میں بوڑھا،کمزور،بیمار شیمار رہنے والا بندہ اب کہں جاوں گا ملک سے باہی وہ بھی کام کرنے۔۔۔۔۔ خود سوچ بچے۔۔۔کتنا بوڑھا ہو گیا ہوں میں۔۔۔۔بہرا بھی تو ہو رہا ہوں"
" تو وعدہ کیوں کیا تھا؟" بابا کے مارے تھپڑ کو بھول کر وہ اس بات پر ہچکیوں سے رونے لگی کہ دادا نے وعدہ پورا نہیں کیا۔
دادا بہت دیر چپ ہی رہے۔۔نو عمری پھر امرحہ جیسا دکھی دل۔۔۔اب کوئی جھوٹی تسلی اسے نہیں دی جا سکتی تھی۔ "تم کیوں نہیں چلی جاتی امرحہ؟"
" کہاں؟" ایک بڑی ہچکی لی کر اس نے کندھے سے اسکول بیگ اتارا۔
"دبئی، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس"
"میں امریکا، فرانس"۔ وہ اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی کہ دادا کو کیسے کیسے لطیفے یاد آ رہی ہیں۔ اسکا مزاق اڑا رہے ہیں۔ یہ کوئی وقت ہے مزاق کرنے کا کرنے کا وہ بھی ایسا بھیانک۔۔۔۔
"ہاں نا۔۔۔ مرزا کمال کی نواسی نے ایف ایس سی میں ٹاپ کیا ہے اس سال۔۔۔اسے اسکالرشپ ملا ہے۔دو دن ہوئے وہ کینیڈا چلی بھی گئی ۔۔۔۔ امرحہ! تم ایس سی میں ٹاپ کر لو۔"
"میں۔۔۔۔؟" پھر وہی بھیانک مزاق کا انداز۔۔ اف یہ دادا۔۔۔
" ہاں امرحہ بچے۔۔۔ ٹاپ کرو اور چلی جاو۔۔۔مرزا کمال کی نواسی سات سال بعد آئے گی واپس بلکہ سمجھو آئے گی ہی نہیں۔۔۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد اسے کینیڈا میں ہی 3 سال سروس کرنی ہوگی۔۔۔ ہوں ہو گئے دس سال۔۔۔ دس سال وہ بھی کینیڈا میں۔۔۔وہاں بیس پچیس لاکھ لگا کر جایا جاتا ہے، وہ مفت میں چلی گئی ہے۔ دیکھ لو؟ امرحہ! تعلیم کے کتنے فائدے ہیں۔آپ خود کو منوا لو تو دنیا آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے"
رات کے آخری پہر سڑک کے کنارے بیٹھے دادا اسے اول ارسطو سے کم نہیں لگ رہے تھے جو سکندر اعظم کو تاریخی فاتحوں کی فتوحات بڑے سلیقے سے سمجھا رہا تھا۔
اور پھر سکندر اعظم بھی تو فاتح رہا تھا۔
اور یوں اس نے بہت دل سے دادا کے ساتھ جا کر کالج میں داخلہ لیا۔۔۔ رات دن پڑھائی۔۔۔بس پڑھائی۔۔۔ٹاپ کرنا اس نے خود پر لازم کر لیا بلکہ فرض اول ما لیا۔۔اسے اتنا یقین تھا خود پر کہ وہ خود ہی سب دوستوں اور ہم جماعتوں کوبتانے لگی۔۔۔
"مجھے تو کینیڈا جانا ہے پورے دس سال رہوں گی وہاں"
أس کا انداز ایسا ہوتا جیسے کسی اور دنیا کا باشندہ ہو اور کہے رہا ہو کے "مجھے اپنی دنیا میں جانا ہے یہاں حادثاتی طور پر آگیا ہوں
ہاں بس کبھی کبھی قسمت ایسے ہی خراب ہو جاتی ہے"
"ﮈاکٹر بن جاؤں گی۔۔۔ مزے سے زندگی گزاروں گی"
یہ کہتے وہ ایسی شہزادی بن جاتی جو بوڑھی ملکہ کے مرتے ہی خود ملک بن جاتی ہواور اب بس اس نے بوڑھی ملکہ کے دن بھی گننا شروع کر دیے ہوں
"ہاں ہاں میرے فیوچر پلانز میں شروع سے یہی شامل تھا مجھے یورپیین ممالک میں ہی زندگی گزارنی تھی یورپ کو وہ صرف کینیڈا تک ہی جانتی تھی اور مانتی تھی اور کہے ایسے رہی تھی جیسے سات براعظم کو گھوم کر ایک یورپ کا انتخاب کیا ہو...
" بس یہ دو سال ہیں جلدی سے امتحان ہوں اور میں جلدی سے جاوں"
سورج کو اتنی جلدی دھوپ لانے کی اور چاند ستاروں کو روشنی لانے کی اتنی نہیں جلدی ہوگی جیتنی اس کو یہاں سے بھاگنے کی۔۔۔
ان دو سالوں میں وہ بہت خوش رہی اس نے کینیڈا کی اتنی معلومات اکٹھی کر لی تھی کے خود کنیڈین بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گےدادا نے اس کو وہ ساری کتابیں لادیں جس میں کنیڈا لفظ کہیں نہ کہیں آتا تھا اور پہر رزلٹ آگیا ٹاپ بھی ہو گیا پر افسوس کسی اور کا۔۔۔وہ اےپلس بہی نا لےسکی۔۔۔رو رو کر اس نے اپنا حشر برا کر لیا دادا چھپے چھپے نظریں چراے پھرتے تھے جیسے پیپر انہوں نے دے تھے اور صیح سے محنت نہیں کی تھی۔۔
چند جگہوں پر سکالشپ کے لیےاپلاۓ کیا مگر جہاں ﮈبل پلس والوں کی بھرمار ہو وہاں اے گریڈز کو کون پوچھتا ہے دادا کو ان دنوں معلوم ہوا ملک میں کتنی تعداد لائق طلباء کی ہے۔جہاں جہاں وہ اسکا فارم جمع کروانے گئے تھے وہاں موجود جم غفیر دیکھ کر انہیں خوشی تو ہوتی ساتھ ہی امرحہ کا سوچ کر افسوس بھی ہوا انہیں اندازہ ہو گیا کے سکالر شپ ملنا مشکل ہے ۔۔اور وہی ہوا جیس کا ﮈر تھا
اس کو سکالر شپ کے ایڑمیشن فارم کی بجاے معزرت کے تین لیٹر آے,,
گھر ولوں کو کوئ خبر نہیں تھی کے ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے
امرحہ کا بخار اتر کیوں نھیں رہا دادا اور امرحہ کی بول چال کیوں بند ہے۔۔۔ادھر اس کی دوستوں کے فون آنے شروع ہو گۓ۔۔ کہ کب جا رہی ہو کینیڈا
"سنو ہم سے مل کر جانا ہمت ہے جو تم اتنی دور اکیلی پڑھنے جا رہی ہو میں تو سوچ کے ہی مر جاؤں "اس نے پچھلے دو سالوں میں سب کو اتنا یقین دلا رکھا تھا کے جیسے اب تو یہ پکا گئ کینیڈا۔۔۔ وہ یہ سب طنز نہیں کر رہی تھیں پر امرحہ کو طنز ہی لگ رہے تھے نا۔۔۔بابا نے اسکی منگنی کر دی۔۔۔ اس نے بھی کروالی کہ کینیڈا تو گئے نہیں دوسرے گھر ہی چلو۔۔۔لیکن دوسرے گھر بھی نہ جا سکی۔۔۔چھ مہ بعد ہی منگنی ٹوٹ گئی۔ظاہر ہے انہیں بھی خبر ہو گئی کہ اس لڑکی کی پیدائش اور بعد از پیدائش سے کیسے کیسے واقعات جڑے ہیں۔۔۔بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کر سکتے تھے۔۔۔اماں اور دادی پر ناراض ہوئے کی کیوں ایسی ایسی باتیں کر کے امرحہ کو اتنا مشہور کر دہا ہے کہ اسکا رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔ اماں اور دادی بھی پچھتائیں پر اب دیر پو چکی تھی نا۔۔۔...!
******
جاری ہے
0 comments:
Post a Comment