اُردو ناول آن لائن

Sunday, 1 October 2017

ناول:جنت کے پتے تحریر: نمره احمد قسط نمبر 14


ناول:جنت کے پتے
تحریر: نمره احمد
قسط نمبر 14
مگراندرسےوه بھت خیال رکھنےوالابھی ھےاورباریک بین بھی ھے.جومعمولی باتیں وه نظرانداز کردیتی تھی.وه جھان کی زیرک نگاھوں سے چھپی نھیں رھتی تھی.
جب وه ھاسٹل واپس آئی تو ڈی جےاورھالےایک رساله کھولےکسی طویل بحث میں مگن تھیں.ڈی جےکی نگاه سب سےپھلے اس کے سرخ ھاتھ پر پڑی تھی. تمھیں کیاھواھے?ایک جگه گدلی برف کیساتھ کیچڑ تھی'وھیں پهسل گئی.پهربات بدلنےکی غرض سے بولی.ھالےیه بالکونی میں بتی کون جلاتا ھے.جیسےھی اسکےنیچےجاؤتووه جل اٹھتی ھے.
ھالےغورسےاسکےکوٹ کودیکھ رھی تھی.اسکےسوال پرنگاھیں اٹھاکراسےدیکھا. ان میں آٹومیٹک سینسرزلگےھیں'وه اپنی رو میں کسی انسان کی موجودگی پریاپهرتیزھوا'آندھی وغیره میں خودبخودجل اٹھتی ھیں.
اوردروازه بھت دیرسےبندھواخودبخود.
ان دروازوں کےکیچرزسلوھیں.یه چوکھٹ په آکردیرسےلگتےھیں.آھاں.....ڈی جےنےبھی سمجھکرسرھلایا. ھمارےھاں بھی ھاسٹلزمیں ایسےدروازےاورلائٹس.....
نھیں ھوتے...حیانےتیزی سے ڈی جے کی بات کاٹی. اور پاک ٹاورایشیاکادوسرابڑامال نھیں. ھمیں غلط فھمی ھوئی تھی. حیا ڈی جےنےاحتجاجا گھورا.ھالےابھی تک حیاکاکوٹ دیکھ رھی تھی.حیاالماری کی طرف چلی گئی تو ھالےنےگھری سانس لی.
پهر حیاتمھیں کسی ھینڈ سم لڑکےنےکافی پلائی. وه جو ٹوٹی جوتی والا شاپرالماری میں رکھ رھی تھی چونک کر پلٹی.
نھیں..کیوں?وه تیزی سےبولی. کافی'چائے'لنچ کچھ بھی نھیں?
نھیں...مگرکیوں?
تم عقلمندجوسرخ کوٹ پهن کرگئی تھی شھرکی سیرپه استنبول میں اتنازیاده سرخ رنگ پهن کراورھیوی میک اپ کرکےنکالاجاۓتواسکاایک ھی مطلب ھوتپا ھےکه......ھالےنےمسکراھٹ دبائی.پارکنگ فار اےڈیٹ.یا پهرون نائٹ اسٹینڈ.یهاں تولوگویلنٹائن پربھی سرخ پھن کر نھیں نکلتے.
اچھاپته نھیں..وه دانسته انکیطرف سے رخ موڑکرالماری میں سےچیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی.
یه دعوت کس خوشی میں ھے. تمھارےاس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں.
مارے تضحیک کے اسکےکانوں سےدھواں نکلنےلگا. وه جھان کی مسکراھٹیں'وه شائستگی'وهریسٹورنٹ لے جانا.سب کسی اپنائیت کےجذبےکے تحت نھیں تھا'بلکه...بلکه وه اسےبکاؤمال سمجھ رھا تھا.خود کوپلیٹ میں رکھ کرپیش کرنے والی لڑکی.کوئی پیشه ور....
اسکےدل پےبھت سےآنسو گررھےتھے.جھان سکندر ھمیشه اسے اسی طرح بےعزت کردیاکرتاتھا.
آھسته آھسته وه جھان سکندر کےاستنبول میں ایڈجسٹ ھوتی جارھی تھی. ڈی جے کی نینداور نسیان البته اسے عاجز کردیتے تھے.ڈی جے کو کھیں ذرا ٹیک مل جاتی وه آنکھیں بند کرکے سونے کیلۓ تیارھوجاتی اور پهر اسکا بھلکڑ پن..حیا جب بھی کچھ فوٹو کروانے جاتی اسے وھاں لاوارث پڑے کسی رجسٹرکسی نوٹس کے جتھے کسی کتاب پےھمیشه شناسائی کاگمان گزرتا.وه اسےاٹھاکردیکھتی توبڑابڑا ڈی جےلکھاھوتاتھا.وه هر چیزواپس لاکرڈی جےکےسرپرماراکرتی تھی.اور ڈی جے یه ادھر کیسے پهنچ گیا ? کهه کرھنسنےلگ جاتی.
سبانجی میں انکاایک مخصوص آئی ڈی کارڈ بنا تھا. اس پےتصویرکھنچوانےکی شرط سراورگردن کھلی رکھنا تھی.وه موبائل کےپریپیڈکارڈکی طرح تھا.گورسل کاٹکٹ'فوٹوکاپئیرکی رقم اور دوپھر کے کھانےکابل اسی کارڈپےاداھوتاتھا. اسمیں موبائل کے ایزی لوڈکی طرح بیلنس ڈلوایا جاتا تھا.
انھیں ان پانچ ماه میں ھر مھینےایک ھزاریوروزکا اسکالرشپ ملناتھا.مگرچندتکنیکی مسائل کےباعث کسی بھی اسکالرشپ ایکسیچینج اسٹوڈنٹ کےفروری کےایک ھزاریوروزنھیں آۓتھے.امیدتھی کےمارچ میں اکٹھےدوھزارمل جائیں گے اورپهرآگے ھرمھینے باقاعدگی سے ملا کریں گے. تب تک پاکستان سے آئی رقم سےگزارا کرناتھا.سوآج کل سب ایکسیچینج اسٹوڈنٹ کاھاتھ تنگ تھا.دوپهرکاکھاناوه سبانجی کےڈائننگ ھال میں کھاتی تھیں. رات کاکھانااپنےکمرےمیں خودبناناھوتا. ھربلاک میں ایک کچن تھا.جھاں پراسٹوڈنٹ اپناناشته اور رات کاکھاناتیارکرتاتھا.مئسله یه تھاکه وھاں طلبه کےلئےخصوصی ڈیزائن کرده چولھے تھے.اس خطرےکےپیش نظر که کھیں کوئی پڑھائی میں مگن چولھے په کچھ رکھ کے بھول جائے یاگیس کھلی چھوڑ دےاورنقصان نه ھو' وه چولھےآٹومیٹک تھے. ھرپندره منٹ بعدجب چولھا خوب گرم ھوجاتاتو خودبخود بند ھوجاتا. پهر پانچ منٹ بعد دوباره جل اٹھتا. انکوبندھونےسےروکنےکاکوئی طریقه نه تھا.اورایسےبیکار چولھوں په دیسی کھاناپکاناناممکن تھا.ھاسٹل کےبلاکس کےقریب ھی ایک بھت بڑا لگژری سپراسٹور"دیاسا"تھا.
"دیا"اسکانام تھااور"سا"ترک میں اسٹورکوکھتے تھے.وه دونوں دیا اسٹور سےراشن لاتیں اور بل آدھا آدھاتقسیم کر لیتیں.ایک رات حیاکھانا بناتی اوروه بھت اچھاسا دیسی کھاناھوتا.دوسری رات ڈی جے کی باری ھوتی اور جو وه بناتی" وه کچھ بھی ھوتا تھا مگر کھانا نه ھوتا.
ڈی جے میں یه تمھارے سر پر الٹ دوں گی.وی جب بغیر بھنی ابلی ھوئی سبزی کا سالن دیکھتی یا پهر ابلے چاولوں په آملیٹ کے ٹکڑےتوڈی جے په خوب چلایا کرتی تھی..اورپهرترکی کےمصالحے.....وه اتنے پھیکےھوتےکه حیا چارچار چمچے بھر کے سرخ مرچ ڈالتے توبھی ذراساذائقه آتا.کھانے اسکے بھی پهیکے ھوتے مگر ڈی جے سے بھتر تھے. البته اپنے کمرے میں روز جب صبح ھوتی تو ڈی جے بینک کی سیڑھیاں پهلانگ کراترتی اور اسی طرح نھار منه کھڑکی میں کھڑی ھوجاتی.پھرپٹ کھول کر باھرچھره نکال کرزورسےآوازلگاتی..
گڈما آآ آ رننگ ڈی جے..اور جواب میں دور کسی بلاک سے ایک لڑکازور سے پکارتا. ٹی بے.. غالبا وه ڈی جےکےالفاظ ٹھیک سمجھ نھیں پاتا تھا. ڈی جے روز صبح صبح یھی عمل دوھراتی تھی. اسکے ٹی بے کھنے کے بعد وه پکارتی"ذا.......لیل"اور وه لڑکا جوابا چلاتا دا...دی. اسکے بعد حیاکمبل سے منه نکال کر کشن اٹھاتی اور ڈی جے کوزور سے دے مارتی. یوں اسکی اور اس ان دیکھے لڑکےکی گفتگواختتام پذیر ھوتی. گھر روز ھی بات ھوجاتی تھی. البته موبائل کی رجسٹریشن میں مئسله ھوا تھا. ڈی جے کاتو رجسٹر ھوگیا'مگر حیاکےساتھ ھوایون که اسکےپاسپورٹ پےجھاں انٹری کی تاریخ پانچ فروری لکھی تھی. وھاں اوپر آفیسر کے دستخط کے باعث پانچ کاھندسه بظاھر چھ لگ رھاتھا.تاریخ کاذرا سا فرق مشکل پیدا کرنے لگا اور اسکا فون رجسٹرنه هوسکا. وه ترک سم اس پےاستعمال نھیں کرسکتی تھی. کیونکه هفتے کے بعد غیر رجسٹر فون پے ترک سم بلاک ھوجاتی تھیتو ھالے نے اسے اپنا ایک پرانا موبائل سیٹ لا دیا. اور وه اس بدصورت موٹے بھدے فون کو برداشت کرنے پر مجبور ھوگئی. اپنے موبائل په اس نے اپنی پاکستانی سم لگا دی تھی.اور وه رومنگ پر ٹھیک چل رھاتھا..
*****
تمھارا کھاں کا پلان ھے. ? حیا نے چاولوں کی پلیٹ میں سے چمچه بھرتے ڈی جے سے پوچھا. یه پلاؤ اب اسکا اور ڈی جے کا مرغوب ترین کھانا بن چکا تھا. اور ساتھ ترک کوفتے اور پھلوں کا سلاد . وه دونوں آمنے سامنے ڈائننگ ھال میں بیٹھی جلدی جلدی کھانا کھا رھی تھی...
جاری هے


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India