سسی پنوں کی کہانی پارٹ 1وہ پیدائشی اندھا نہ تھا۔
پانچ سال پہلے اس کی آنکھوں میں موتیا اترا اور ہمیشہ کے لئے نابینا ہوگیا۔ وہ ذات کا برہمن تھا، ہندومذہب میں یہ سب سے اونچی اور قابل احترام ذات کہی جاتی ہے ۔وہ مذہبی تعلیم کا بڑا ماہر تھا۔ اگرچہ جوان تھا لیکن دور دور سے بڑے بڑے پنڈت اس سے گیتا کے نکتے سمجھنے آتے تھے۔ اس گیان دھیان اور اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے وہ زمین پر قدم نہ رکھتا تھا۔ بھمبور کے علاوہ ارد گرد کے بہت سے مندروں کا وہ گرو پنڈت تھا۔ ان مندروں میں جو نذرانے چڑھتے ان میں آدھا حصہ سورداس کا ہوتا تھا۔
یہ واقعہ اس کی عمر کے پچیسویں سال(25) کا ہے ۔اس وقت تک اس نے شادی نہ کی تھی۔ اور نہ اس کا کوئی ارادہ تھا لیکن نہ جانے اچانک اسے کیا ہوا کہ ایک دن صبح کے وقت جب کہ مندر میں بچاریوں کا ہجوم تھا، اس نے مسکراتے ہوئے اعلان کیا:
"میں بہت جلد شادی کررہا ہوں”
"کس سے؟” اس کے ایک ساتھی پنڈت نے پوچھا۔
"بس دیکھ لینا، پہلے سے نہیں بتاؤں گا۔” سور داس ٹال گیا۔
"کوئی بھی ہو مگر اس کی قسمت کھل جائے گی۔ سونے میں پیلی ہوجائے گی” ایک اور ساتھی نے تبصرہ کیا شام ہوتے ہوتے یہ بات پورے بھمبور میں پھیل گئی کہ بڑا پنڈت شادی کررہا ہے۔ کس سے کر رہا ہے اس کا علم کسی کو نہ تھا۔ مگر اس بارے میں ابھی ابھی گفتگو ضرور ہورہی تھی۔ لوگوں کو یہ تو معلوم تھا کہ سور داس آج کل مندر آنے والی ایک خوبصورت عورت سے خوب ہنس ہنس کے باتیں کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی سے شادی کررہا ہو۔ مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی تھی۔پھر ایک دن سور داس نے اپنی ہونے والی جیون ساتھی کا نام ظاہر کردیا۔ لوگ جس کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ یہ وہی عورت تھی۔ اسے عورت تو نہیں کہہ سکتے کہ ابھی تک اس کی شادی نہ ہوئی تھی مگر بیس سال کی یہ دوشیزہ اس قدر سمجھ دار تھی کہ لوگ نہ صرف اس کی تعریف کرتے بلکہ عزت بھی کرتے تھے، وہ بھمبور کے بڑے مندر میں جہاں کا سورداس بڑا پنڈت تھا، نہ صرف روز آتی بلکہ وہاں گھنٹوں عبادت میں مصروف رہتی۔ اس کے بارے میں لوگوں کا عام خیال تھا کہ اس نے اپنی زندگی عبادت اور مندر کے لیے تج دی ہے اور یہ کہ وہ کبھی شادی نہ کرے گی۔
دوشیزہ بھی ایک پنڈت کی بیٹی تھی ۔ اس کا نام تو کسی کو معلوم نہ تھا مگر اپنی عبادت کی وجہ سے وہ لوگوں میں”دیوی” کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔ دیوی اور سورداس کو مندر میں آنے جانے والوں نے اکثر باتیں کرتے دیکھا تھا لیکن وہ ان پرشبہ نہ کرتے تھے بلکہ اسے بھی مذہبی گفتگو کانام دیتے تھے۔ پھر جب سورداس نے دیوی سے شادی کرنے کا اعلان کیا تو لوگوں کو کچھ زیادہ تعجب نہ ہوا بلکہ انہوں نے اسے سراہا۔
سورداس کی صحت قابل رشک تھی۔ وہ گوری رنگت،مضبوط ہاتھ پیر اور دراز قامت جوان تھا۔ یہ ضرور تھا کہ اس کے چہرے پر نرمی یا مسکراہٹ کے بجائے ایک طرح کی سختی اور کرختگی رہتی تھی۔ لوگ اسے مغرور سمجھتے مگر عزت بھی کرتے تھے۔ غرور کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ لوگوں سے الگ تھلک رہنے کا عادی تھا مگر مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بہت پکا تھا اس کی عزت کی یہی وجہ تھی۔سور داس کی شادی کا اعلان ہوگیا۔ وہ خود کافی مالدار تھا، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہ تھی، لیکن بھمبور کے ہندو معززین اور مندر کے ساتھیوں نے اس کی شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کردیا۔ سورداس نے اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا اور تیاریاں شروع ہوگئیں۔ انتہائی مغرور اور خودسر ہونے کے باوجود لوگ سورداس کی علمیت کی وجہ سے اس کی قدر کرتے تھے اور اسے خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
مگر یہ سورداس کی قسمت تھی یا بد قسمتی کہ شادی سے صرف ایک ہفتہ پہلے اس کی دونوں آنکھوں میں "موتیا” کا ایک ساتھ حملہ ہوا اور تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ سور داس کی آنکھیں جاتی رہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہوگیا۔ لوگ کہتے تھے۔ یہ سیاہ موتیا کا حملہ تھا جس کا علاج اس دور میں قطعی ناممکن تھا۔ سورداس کے ساتھ ہی حسین دوشیزہ”دیوی” کی دنیا بھی اندھیر ہوگئی۔ شادی کی تاریخ یوں گزر گئی جیسے کسی کو کچھ پتہ ہی نہ تھا۔ اس کے تمام ساتھی اور مندر والے حکیموں کے پاس بھاگ رہے تھے۔ ایسے عالم میں کہاں کی شادی اور کس کی شادی مگر دیوی واقعی”دیوی” نکلی۔ اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ جب سب لوگ سور داس کی آنکھوں کی طرف سے مایوس ہوگئے اور معالجوں نے صاف جواب دیدیا تو ایک دن "دیوی” سور داس کے پس پہنچی۔ اس وقت اور بہت سے لوگ سورداس کی ہمدردی اور مزاج پرسی کے لیے آئے ہوئے تھے۔ایسے موقع اور اس بھری محفل میں”دیوی” نے واضح الفاظ میں کہا:
"میں آپ سب کے سامنے کہہ رہی ہوں کہ عورت صرف ایک بار شادی کرتی ہے۔ میں نے بھگوان داس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ ان کی آنکھیں نہ رہیں مگر میرا وعدہ اپنی جگہ قائم ہے۔ میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔اگر بھگوان داس انکار کریں گے تو میں عمر بھر شادی نہ کروں گی اور ایک ودھوا(بیوہ) کی طرح زندگی گزار دوں گی۔”
تمام حاضرین نے "دیوی” کے فیصلے پر پہلے تو تعجب کیا پھر اسے سراہا۔
"دیوی” واقعی دیوی ہے۔ ہم بھگوان داس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ دیوی کے فیصلہ کو عملی جامعہ پہنائیں۔”
بھگوان داس کوکیا عذر ہوسکتا تھا۔ ان کے ارمانوں پر تو اوس پڑگئی تھی۔ دیوی کے اس فیصلے سے ان کے خزاں رسیدہ چمن میں جیسے بہار آگئی۔ پھر دوسرے ہی دن "دیوی "بھگوان داس سے شادی کرکے اندھے بھگوان داس کی لاٹھی بن گئی۔ بھگوان کا اصل نام یہی تھا مگر آنکھوں کے ضائع ہوجانے کی وجہ سے وہ "سور داس”پکارے جانے لگے تھے۔کہتے ہیں کہ شادی کے بعد "دیوی” اور "سورداس” کی زندگی بہت اچھی گزرنے لگی تھی۔ جو دیکھتا تھا حیران رہ جاتا تھا۔ "دیوی” اپنے شوہر کو اس کے اندھے پن کا احساس نہ ہونے دیتی تھی۔ وہ سایہ کی طرح سور داس کے ساتھ رہتی تھی۔ "دیوی ” خود بھی پڑھی لکھی تھی۔ اس لیے وہ سور داس کو کتابیں پڑھ کے سناتی تھی تاکہ سور داس کو لوگوں کے سوالات کے جواب دینے میں دقت نہ ہو۔
سورداس اور دیوی کے تین سال ہنسی خوشی گزرے پھر چوتھے سال ایک بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ دیوی کا پاؤں بھاری ہوا اور ٹھیک نو ماہ بعد اس نے ایک چاند سی بچی کو جنم دیا۔ تمام مندوں میں خوشی منائی گئی، دیوی اور سورداس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ہندوؤں کے براہمن گھرانے میں پیدا ہونے والی بچی یا بچے کی جنم پتری بنانے کا عام رواج تھا۔ راجہ مہاراجہ کے یہاں تو اس پر سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔سورداس کوئی راجہ نہ تھا مگر اسے اپنے حلقوں میں راجہ جیسی عزت حاصل تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی بچی کی جنم پتری بنانے کی خواہش کی۔ بچی کی پیدائش کے چھٹے دن بھمبور اور قرب وجوار کے تمام جوشتی سور داس کی بیٹی کی جنم پتری تیار کرنے کے لیے سرجوڑ کے بیٹھے۔
اس دن پورا مندر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سور داس اور دیوی کی سب لوگ عزت کرتے تھے۔ اس لیے انہیں ان کی نومولود بچی کی جنم پتری سے بھی دلچسپی تھی۔ وہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ اس بچی کو آئندہ زندگی میں کیا کیا واقعات پیش آئیں گے۔ یہی دیکھنے اور سننے کے لیے وہ آج مندر میں جمع ہوئے تھے۔
تمام جوتشی الگ الگ اپنے انداز اور طریقے سے جنم پتری تیار کررہے تھے۔ وہ ستاروں کی چالوں سے حساب لگا رہے تھے اور ہر دن اور ہر ماہ وسال کے نتیجے کو زائچے کے خانوں میں لکھتے جارہے تھے۔ بڑا گھمبیر ماحول تھا۔ ہر شخص زائچہ کا نتیجہ سننے کے لیے دم بخود تھا۔اور ہر ایک کی نظر زائچہ بنانے والے جوتشیوں پر لگی تھی۔
اس وقت ایک جوتشی گھبرا کر چیخ پڑا۔
"ارے یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔۔” اور اس نے بو کھلا کے دوسرے جوتشیوں کودیکھا۔سب جوتشی اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
"کیا ہوا کوئی خاص بات معلوم ہوئی ہے تمہیں؟” ایک جوتشی نے اس سے پوچھا۔
"ہاں ہاں ایک بات۔ ایک بری خبر”جوتشی کہتے کہتے چپ ہوگیا۔
بری خبر کی آواز سورداس کے کانوں تک بھی پہنچی۔ اس کی دیوی نے سنا مگر خاموش رہی۔ سورداس بے چین ہوگیا۔ اس نے چیخ کے پوچھا:
"کیا بری خبر ہے میری بیٹی کے بارے میں؟”
پہلے جوتشی نے کچھ بتانے کے بجائے آہستہ سے کہا۔
"مہاراج سورداس جلدی نہ کیجئے ہمیں پورا حساب لگانے دیجیے”اس طرح وہ سور داس کو خاموش کراکے دوسرے جوتشیوں سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے اپنا حساب لگایا کاغذ دوسرے جوتشیوں کو دکھایا۔ ان لوگوں نے اپنے تیار کئے ہوئے زائچے اور حساب دیکھے اور بڑے بحث و مباحثہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ پہلے جوتشی کی تیار کی ہوئی”جنم پتری” درست ہے۔ اور اس کے حساب وکتاب میں کوئی گڑ بڑ نہیں۔ اس زائچہ کے مطابق سب نے اپنے اپنے زائچہ درست کئے پھر پہلے جوتشی سے کہا کہ وہ نومولود بچی کے اس واقعہ کو بیان کردے جس نے سب کو پریشان کردیا ہے۔
"سنئے سور داس اور دیوی جی!” پہلے جوتشی نے واضح الفاظ اور آواز میں کہا۔”اس نوزائیدہ بچی کی جنم پتری جس پر ہم سب جوتشیوں نے اتفاق کیا ہے وہ صاف صاف بتاتی ہے کہ برہمن ذات کی یہ ہندو بچی جوان ہونے پر ایک مسلمان سے شادی کرے گی۔”
اور اس کی آواز میں دوسری آوازیں ملتی چلی گئیں۔
"ہندو لڑکی کی مسلمان سے کیسے شادی ہوسکتی ہے۔”
"یہ ناممکن ہے”
اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔”
"یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنے بڑے برہمن اور ایسی پاک باز دیوی کی شادی غیر ذات اور غیر مذہب میں ہو”
"اس سے ہمارا مذہب بھسم ہوجائے گا۔”
"ایسی لڑکی کو فوراًختم کردینا چاہیے۔”
"ہاں اس کا گلہ دبا دیا جائے۔”
"اسے دھرم پر قربان کردینا چاہیے۔”
یہ آواز تیز اور شور بڑھتا ہی گیا اور اس میں اس قدر تیزی آگئی کہ کوئی آواز صاف سنائی نہ دیتی تھی۔ سور داس اور نومولود بچی کی ماں”دیوی” بالکل خاموش تھے حالانکہ ان کے دل ودماغ میں ایک طوفان برپا تھا ۔سورداس کی آنکھیں تو خشک تھیں لیکن”دیوی” کی انکھوں میں آنسو گرنے کے لیے بے چین نظر آتے تھے۔
آخر سور داس کی گرجدار آواز بلند ہوئی اور ہر طرف سناٹا چھا گیا:
"جوتشی نے جو کہا وہ سب جوتشیوں کا متفقہ فیصلہ ہے ۔اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس لیے کہ ہمارے جوتشی آسمانی دیوتاؤں کے ہم نشیں بلکہ ہمارے لیے دیوتاؤں کے مانند ہیں۔ یہ وہی کہتے ہیں جو بھگوان انہیں بتاتاہے۔ ان کی زبان بھگوان کی زبان ہے۔ جوتشیوں نے جنم پتری سے یہ بات نکالی ہے کہ جوان ہونے پر یہ بچی جس نے ایک برہمن کے گھر میں جنم لیا۔ اور ایک برہمن پارسادیوی کے شکم سے پیدا ہوئی۔وہ کسی مسلمان سے شادی کرے گی۔ یہ خبر نہ صرف میرے لیے بلکہ تمام ہندو قوم کے لیے باعث شرم ہے۔ دھرم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور یہ بچی دین دھرم کے لیے منحوس ہے۔”
سور داس کے ٹھہر کے سانس لی پھر بولنا شروع کیا:
"اس خبر کے سننے کے ساتھ ہی مجھے اس لڑکی سے جو محبت بحیثیت ایک باپ کے پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔ اور اس کی جگہ نفرت نے لے لی ہے مجھے یقین ہے کہ یہی کیفیت میری بیوی "دیوی” کی بھی ہوگی۔”
لوگوں کی تمام نظریں سمٹ کر فوراً دیوی پر جم گئیں۔ دیوی نے جو خود کو لوگوں کی نظروں کے گرداب میں پایا تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ سرہلا کر اپنے شوہر کی بات کی تصدیق کی۔
اس وقت لوگوں کی آوازوں کا غلغلہ اٹھا :
"دیوی سور داس کی بات کی تصدیق کر رہی ہیں۔”
سور داس نے فوراً بات اگے بڑھائی:جاری ھے
0 comments:
Post a Comment