پیر کامل صلی اللہ علیہ وسلم .قسط نمبر 3
گالف کلب میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی جارہی تھی۔ سولہ سالہ سالارسکندر بھی انڈر سکسٹین کی کیٹیگری میں پہلی پوزیشن کی ٹرافی وصول کرنے کے لئے موجود تھا ۔ سکندر عثمان نے سالار کا نام پکارے جانے پر تالیاں بجاتے ہوئے اس ٹرافی کیبنٹ کے بارے میں سوچا ، جس میں اس سال انہیں کچھ مزید تبدیلیاں کروانی پڑتی ۔ سالار کو ملنے والی شیلڈز اور ٹرافیز کی تعداد اس سال بھی پچھلے سالوں جیسی ہی تھی ۔ ان کے تمام بچے ہی پڑھائی میں بہت اچھے تھے ۔ مگر سالار سکندر باقی سب سے مختلف تھا ۔ ٹرافیز ، شیلڈز اور سرٹیفکیٹس کے معاملے میں وہ سکندر عثمان کے باقی بچوں سے بہت آگے تھا ۔ 150 آئی کیو لیول کے حامل اس بچے کا مقابلہ کرنا ان میں سے کسی کے لیے ممکن تھا بھی نہیں۔فخریہ انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنی بیوی سے سرگوشی میں کہا ، یہ گالف میں اسکی تیرھویں اور اس سال کی چوتھی ٹرافی ہے ۔ ہر چیز کا حساب رکھتے ہو تم ۔ اس کی بیوی نے مسکراتے ہوئے جیسے قدرے ستائشی انداز میں اپنے شوہر سے کہا ۔ جس کی نظریں اس وقت مہمان خصوصی سے ٹرافی وصول کرتے ہوئے سالار پر مرکوز تھیں ۔ صرف گالف کا ۔ اور کیوں ؟ وہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔ سکندر عثمان نے اپنی بیوی کو دیکھا جو اب سیٹ کی طرف جاتے سالار کو دیکھ رہی تھی ۔اگر یہ اس وقت اس مقابلے میں شرکت کرنے والے پروفیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا تو بھی اس وقت اس کے ہاتھ میں یہی ٹرافی ہوتی ۔ سکندر عثمان نے بیٹے کو دور سے دیکھتے ہوئے کچھ فخریہ انداز میں دعویٰ کیا ۔ سالار اب اپنی سیٹ کے اطراف میں دوسری سیٹوں پر موجود دوسرے انعامات حاصل کرنے والوں سے ہاتھ ملانے میں مصروف تھا۔ انکی بیوی کو سکندر کے دعویٰ پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سالار کے بارے میں یہ ایک باپ کا جذباتی جملہ نہیں ہے ۔ وہ واقعی اتنا ہی غیر معمولی تھا ۔اسے دوہفتے پہلےاپنے بھائی زبیر کے ساتھ اسی گالف کورس پر اٹھارہ ہول پر کھیلا جانے والا گالف کا میچ یاد آیا ۔میں اتفاقا" گرجانے والی ایک بال کو وہ جس صفائی اور مہارت کے ساتھ واپس گرینRoughپر لایا تھا اس نے زبیر کو محو حیرت کردیا ۔ وہ پہلی بار سالار کے ساتھ گالف کھیل رہا تھا ۔ مجھے یقین نہیں آرہا ۔ اٹھارہ ہول کے خاتمہ تک کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ جملہ کتنی بار بولا تھا ۔سے کھیلی جانے والی اس شاٹ نے اگر اسے محو حیرت کیا تھا تو سالار سکندر کےRough پُٹرز نے اسے دم بخود کردیا ۔ گیند کو ہول میں جاتے دیکھ کراس نے کلب کے سہارے کھڑے کھڑے صرف گردن موڑ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سالار اور اس ہول کے درمیان موجود فاصلے کو ماپا تھا اور پھر جیسے بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے سالار کو دیکھا آج سالار صاحب اچھا نہیں کھیل رہے ۔ زبیر نے مڑکر بے یقینی کے عالم میں اپنے پیچھے کھڑے کیڈی کو دیکھا جو گالف کارٹ پکڑے سالار کو دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا ۔ابھی یہ اچھا نہیں کھیل رہا ؟ زبیر نے کچھ استہزائیہ انداز میں کلب کے کینڈی کو دیکھا ۔میں نہ جاتی ۔ کیڈی نے بڑے معمول کے انداز میں انہیںroughہاں صاحب ورنہ بال کبھی بتایا ۔ آپ آج یہاں پہلی بار کھیل رہے ہیں اور سالار صاحب پچھلے سات سال سے یہاں کھیل رہے ہیں ۔ میں اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ آج وہ اچھا نہیں کھیل رہے ۔ کیڈی نے زبیر کی معلومات میں اضافہ کیا اور زبیر نے اپنی بہن کو دیکھا جو فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھیں ۔ اگلی بارمیں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا اور اگلی بار کھیل کی جگہ کا انتخاب بھی میں کروں گا ۔ زبیر نے کچھ خفت کے عالم میں اپنی بہن کے ساتھ سالار کی طرف جاتے ہوئے کہا کسی بھی وقت کسی بھی جگہ ، انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف سے اپنے بھائی کو پراعتماد انداز میں چیلنج کرتے ہوئے کہا ۔میں تمہیں اس ویک اینڈ پر ٹی اے اور ڈی اے کے ساتھ کراچی بلوانا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے سالار کے قریب پہنچ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔ سالار مسکرایا کس لیے ۔۔۔۔۔ ؟ پر تمہیں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر کے ساتھ ایک میچ کھیلنا ہے ۔ behalfمیرے میں اس بار الیکشنز میں اس سے ہارا ہوں ۔ مگر وہ اگر کسی سے گالف کا میچ ہار گیا تو اسے ہارٹ اٹیک ہوجائے گا اور وہ بھی ایک بچے کے ہاتھوں وہ اپنے بھائی کی بات پر ہنسی تھیں مگر سالار کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوگئے تھے۔ بچہ ؟ اس نے ان کے جملے میں موجود واحد قابل اعتراض لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے دہرایا ۔ میرا خیال ہے انکل مجھے اپ کے ساتھ اٹھارہ ہولز کا ایک اور گیم کرنا پڑے گا ۔۔ اسجد دروازہ کھول کر اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔ امی آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ہاں کہو ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟ اسجد صوفے پر بیٹھی گیا ۔ آپ ہاشم انکل کی طرف نہیں گئیں ؟ نہیں ۔ کیوں کوئی خاص بات ؟ ہاں امامہ اس ویک اینڈ پر آئی ہوئی ہے اچھا ۔۔۔۔۔ آج شام کو چلیں گے ۔۔۔۔۔ تم گئے تھے وہاں ؟ شکیلہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ہاں ۔ میں گیا تھا ۔ کیسی ہے وہ ۔۔۔۔۔ اس بار تو خاصے عرصے بعد آئی ہے ۔ شکیلہ کو یاد آیا ہاں وہ ماہ کے بعد ۔۔۔۔۔ شکیلہ کو اسجد کچھ الجھا ہوا لگا کوئی مسلئہ ہے ؟ امی ۔ مجھے امامہ پچھلے کچھ عرصے سے بہت بدلی بدلی لگ رہی ہے ۔ اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا بدلی بدلی ؟ کیا مطلب ؟ مطلب تو میں شاید آپ کو نہیں سمجھا سکتا ، بس اسا کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہے ۔ اسجد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ آج تو وہ ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوگئی ۔ پہلے جیسی کوئی بات ہی نہیں رہی اس میں ۔۔۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اسے ہوا کیا ہے تمہیں وہم ہوگیا ہوگا اسجد ۔۔۔۔۔ اس کا رویہ کیوں بدلنے لگا ۔۔۔۔۔ تم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوکر سوچ رہے ہو ۔ شکیلہ نے اسے حیرانی سے دیکھا نہیں امی ۔۔۔۔۔ پہلے میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید مجھے وہم ہوگیا ہے لیکن اب خاص طور پر آج مجھے اپنے یہ احساسات صرف وہم نہیں لگے ہیں ۔ وہ بہت اکھڑے سے انداز میں بات کرتی رہی مجھ سے تمہارا کیا خیال ہے ، اسکا رویہ کیوں بدل رہا ہے ۔ شکیلہ نے برش میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔ یہ تو مجھے نہیں پتا تم نے پوچھا اس سے ایک بار نہیں کئی بار پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ہر بار آپ کی طرح وہ بھی یہی کہتی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ کبھی وہ کہتی ہے اسٹیڈیز کی وجہ سے ایسا ہے ۔ کبھی کہتی ہے وہ اب میچور ہوگئی ہے اس لئے یہ ایسی کوئی غلط بات تو نہیں ہے ہوسکتا ہے واقعی یہ بات ہو ۔ شکیلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ امی بات سنجیدگی کی نہیں ہے ۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے کترانے لگی ہے ۔ اسجد نے کہا تم فضول باتیں کررہے ہو اسجد ۔ میں نہیں سمجھتی کہ ایسی کوئی بات ہوگئی ۔ ویسے بھی تم دونوں تو بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہو ۔ ایک دوسرے کی عادات سے واقف ہو ۔ شکیلہ کو بیٹے کے خدشات بالکل بے معنی لگے ظاہر ہے ۔ عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں آہی جاتی ہیں۔ اب بچے تو رہے نہیں ہو تم لوگ ۔۔۔۔۔۔ تم معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہونے کی عادت چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ انہوں نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔ ویسے بھی ہاشم بھائی اگلے سال اسکی شادی کردینا چاہتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بعد میں اپنی تعلیم مکمل کرتی رہے گی ۔ کم از کم وہ تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں ۔ شکیلہ نے انکشاف کیا ۔ انکل نے ایسا کب کہا ۔ اسجد کچھ چونکا ۔ کئی بارکہا ہے ۔۔۔۔۔ میرا خیا ل ہے وہ لوگ تو تیاریاں بھی کر رہے ہیں ۔ اسجد نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا ہوسکتا ہے امامہ اسی وجہ سے قدرے پریشان ہو ہاں ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ بہرحال یہ ہی صحیح ہے ، اگلے سال شادی ہوجانی چاہیے۔ اسجد نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئےکہا ۔ ۔۔ وہ سولہ سترہ سال کا ایک دبلا پتلا مگر لمبا لڑکا تھا ، اس کے چہرے پر بلوغت کا وہ گہرا رواں نظر آرہا تھا جسے ایک بار بھی شیو نہیں کیا گیا تھا اور اس روئیں نے اس کے چہرے کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا ۔ وہ اسپورٹس شارٹس اور ایک ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوئے تھا ۔ اس کے پیروں میں کاٹن کی جرابیں اور جاگرز تھے ۔ چیونگم چباتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور اضطراب تھا ۔ وہ اس وقت ایک پرہجوم سڑک کے بیچوں بیچ ایک ہیوی بائیک پر بیٹھا ہوا تیزی سے تقریبا" اسے اڑائے لے جارہا تھا ۔ وہ کسی قسم کے ہیلمٹ کے بغیر تھا اور بہت ریش انداز میں موٹرسائیکل چلا رہا تھا ۔ اس نے دو دفعہ سگنل توڑا۔۔۔۔۔ تین دفعہ خطرناک طریقے سے کچھ گاڑیوں کو اوور ٹیک کیا ۔۔۔۔ چار دفعہ بائیک چلاتے چلاتے اسکا اگلا پہیہ اٹھا دیا اور کتنی ہی دیر دور تک صرف ایک پہیے پر بائیک چلاتا رہا ۔۔۔۔ دو دفعہ دائیں بائیں دیکھے بغیراس نے برق رفتاری سے اپنی مرضی کا ٹرن لیا ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ وہ زگ زیگ انداز میں بائک چلانے لگا ۔ چھے دفعہ اس نے پوری رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں اٹھا دیئے۔ پھر یک دم اسی رفتارسے بائیک چلاتے ہوئے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے اس لین کو توڑا اور دوسری لین میں زناٹے سے گھس گیا ۔ سامنے سے آتی ٹریفک کی بریکیں یک دم چرچرانے لگیں ۔۔۔۔۔ اس نے فل اسپیڈ پر بائیک چلاتے ہوئے یک دم ہینڈل پر سے ہاتھ ہٹا دیے۔ بائیک پوری رفتار کے ساتھ سامنے آنے والی گاڑی سے ٹکرائی ، وہ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں بلند ہوا اور پھر کس چیز پر گرا ۔۔۔۔۔ اسے اندازہ نہیں ہوا ۔ اس کا ذہن تاریک ہوچکا تھا ۔ ۔۔۔وہ دونوں لڑکے اسٹیج پر ایک دوسرے کے بالمقابل روسٹرم کے پیچھے کھڑے تھے ۔ مگر ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کی نظریں ہمیشہ کی طرح ان میں سے ایک پر مرکوز تھیں ۔ وہ دونوں ہیڈ بوائے کے انتخاب کے لیے کنویسنگ کررہے تھے اور وہ پروگرام بھی اسکا ایک حصہ تھا ۔ دونوں کے روسٹرم پر ایک ایک پوسٹر لگا ہوا تھا ، جن میں سے ایک پر ووٹ فارسالار اور دوسرے پر ووٹ پر فیضان لکھا ہوا تھا ۔ اس وقت فیضان ہیڈ بوائے بن جانے کے بعد اپنے ممکنہ اقدامات کا اعلان کررہا تھا ۔ جب کہ سالار پوری سنجیدگی سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا ۔ فیضان اسکول کا سب سے اچھا مقرر تھا اور اس وقت بھی وہ اپنے جوش خطابت کے کمال دکھانے میں مصروف تھا اور اسی برٹش لب و لہجے میں بات کررہا تھا جس کے لیے وہ مشہور تھا ۔ بہترین ساونڈ سسٹم کی وجہ سے اسکی آواز اور انداز دونوں ہی خاصے متاثر کن تھے ۔ ہال میں بلاشبہ سکوت طاری تھا اور یہ خاموشی اس وقت ٹوٹتی جب فیضان کے سپورٹرز اس کے کسی اچھے جملے پر داد دینا شروع ہوتے ۔ ہال یک دم تالیوں سے گونج اٹھتا ۔ آدھ گھنٹہ بعد جب وہ اپنے لئے ووٹ کی اپیل کرنے کے بعد خاموش ہوا تو ہال میں اگلے کئی منٹ تالیاں اور سیٹیاں بجتی رہیں ۔ ان تالیاں بجانے والوں میں خود سالار بھی شامل تھا ۔ فیضان نے ایک فاتحانہ نظر ہال اور سالار پر ڈالی اور اسے تالیاں بجاتے دیکھ کر اس نے گردن کے ہلکے سے اشارے سے اسے سراہا، سالار سکندر آسان حریف نہیں تھا یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ اسٹیج سیکرٹری اب سالار سکندر کے لئے اناؤنسمنٹ کررہا تھا۔ تالیوں کی گونج میں سالار نے بولنا شروع کیا ۔گڈ مارننگ فرینڈز ۔۔۔۔ وہ یک لحظہ ٹھہرا ، فیضان اکبر ایک مقرر کے طور پر یقیننا" ہمارے اسکول کا اثاثہ ہیں ۔ میں یا دوسرا کوئی بھی ان کے مقابلے میں کسی اسٹیج پر کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ وہ ایک لمحہ رکا اس نےفیضان کے چہرے کو دیکھا جس پر ایک فخریہ مسکراہٹ ابھر رہی تھی مگر سالار کے جملے کے باقی حصے نے اگلے لمحے ہی اس مسکراہٹ کو غائب کردیا ۔ اگر معاملہ صرف باتیں بنانے کا ہو تو ۔۔۔۔۔۔ہال میں ہلکی سی کھلکھلاہٹین ابھریں ۔ سالار کے لہجے کی سنجیدگی برقرار تھی ۔مگر ایک ہیڈ بوائے اور مقرر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ مقرر کو باتیں کرنی ہوتی ہیں ۔ ہیڈ بوائے کو کام کرنا ہوتا ہے ۔ دونوں میں بہت فرق ہے Great talkers are not great doers سالار کے سپورٹرز کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا ۔ میرے پاس فیضان جیسے خوب صورت لفظوں کی روانی نہیں ہے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی ۔ میرے پاس صرف میرا نام ہے اور میرا متاثر کن ریکارڈ ہے ۔ مجھے کنویسنگ کے لئے لفظوں کے کوئی دریا نہیں بہانے ، مجھے صرف چند الفاظ کہنے ہیں ۔ وہ ایک بار پھر رکھا ٹرسٹ می اینڈ ووٹ فارمی ۔۔ (مجھ پر اعتماد کریں اور مجھے ووٹ دیں)۔ اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جس وقت اپنے مائیک کو آف کیا اس وقت ہال تالیوں سے گونج رہا تھا ۔ ایک منٹ چالیس سیکنڈز میں وہ اسی نپے تلے انداز میں بولا تھا جو اسکا خاصا تھا اور اسی ڈیڑھ منٹ نے فیضان کا تختہ کردیا تھا ۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد دونوں امیدواروں سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ سالار ان جوابات میں بھی اتنے ہی اختصار سے کام لے ہرا تھا جتنا اس نے اپنی تقریر میں لیا تھا ۔ اسکا سب سے طویل جواب بھی چار جملوں پر مشتمل تھا جبکہ فیضان کا سب سے مختصر جواب بھی چار جملوں سے زیادہ تھا۔ فیضان کی وجہ فصاحت و بلاغت جو پہلے اس کی خوبی سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت اس اسٹیج پر سالار کے مختصر جوابات کے سامنے چرب زبانی نظر آرہی تھی۔ اور اسکا احساس خود فیضان کو بھی ہو رہا تھا ۔ جس سوال کا جواب سالار ایک لفظ یا ایک جملے میں دیتا تھا ۔ اس کے لئے فیضان کو عادتا" تمہید باندھنی پڑتی اور سالار کا اپنی تقریر میں اس کے بارے میں کیا ہوا یہ تبصرہ وہاں موجود اسٹوڈنٹس کچھ اور صحیح محسوس ہوتا کہ ایک مقرر صرف صرف باتیں کرسکتا ہے ۔ سالار سکندر کو بیڈ بوائے کیوں ہونا چاہیے۔ سوال کیا گیا کیونکہ آپ بہترین شخص کا انتخاب چاہتے ہیں ۔ جواب آیا کیا یہ جملہ خود ستائشی نہیں ہے؟ اعتراض کیا گیا نہیں یہ جملہ خود شناسی ہے ۔ اعتراض رد کردیا گیا خود ستائشی اور خود شناسی میں کیا فرق ہے ۔ ایک بار پھر چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا گیا وہی جو فیضان اکبر اور سالار سکندر میں ہے ۔ سنجیدگی سے کہا گیا اگر آپ کو ہیڈ بوائے نہ بنایا تو آپ کو کیا فرق پڑے گا فرق مجھے نہیں آپ کو پڑے گا ۔ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ اگر بہترین آدمی کو ملک کا لیڈر نہ بنایا جائے تو فرق قوم کو پڑتا ہے اس بہترین آدمی کو نہیں آپ اپنے آپ کو پھر بہترین آدمی کہہ رہے ہیں ، ایک بار پھر اعتراض کیا گیا کرےEqunte کیا اس ہال میں کوئی ایسا ہے جو خود کو برے آدمی کے ساتھ ہوسکتا ہے ہو پھر میں اس سے ملنا چاہوں گا ۔۔۔ ہال میں ہنسی کی آوازیں ابھریں ہیڈ بوائے بننے کے بعد سالار سکندر جو تبدیلیاں لائے گا اس کے بارے میں بتائیں تبدیلی بتائی نہیں جاتی دکھائی جاتی ہے اور یہ کام میں ہیڈ بوائے بننے سے پہلے نہیں کرسکتا ، چند اور سوال کیے گئے پھر اسٹیج سیکرٹری نے حاضرین میں سے ایک آخری سوال لیا ۔ وہ ایک سری لنکن لڑکا تھا جو کچھ شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا ۔ اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں اور میرا پورا گروپ آپ کو ووٹ دے گا ۔ سالار اسکی بات پر مسکرایا ۔ جواب دینے سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے گروپ میں کتنے لوگ ہیں ؟ اس نے پوچھا چھ ۔۔۔۔۔ اس لڑکے نے جواب دیا سالار نے سر ہلایا اوکے ۔۔۔۔ سوال کریں آپ کو کچھ حساب کتاب کرتے ہوئے مجھے بتانا ہے کہ اگر 267895 میں 9528522 کو جمع کریں پھر اس میں سے 399999 کو تفریق کریں پھر اس میں 929292 کو جمع کریں اور اسے ۔۔۔۔۔۔ وہ سری لنکن لڑکا ٹھہر ٹھہر کر ایک کاغذ پر لکھا ہوا ایک سوال پوچھ رہاتھا۔۔۔۔ اسے چھ سے ضرب دیں پھر اسے دو کے ساتھ تقسیم کریں اور جواب میں 495359 جمع کردیں تو کیا جواب آئے۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکا اپنی بات مکمل نہیں کرسکا کہ سالار نے برق رفتاری کے ساتھ جواب دیا 8142473اس لڑکے نے کاغذ پر ایک نظر دوڑائی اور پھر کچھ بے یقینی سے سرہلاتے ہوئے تالیاں بجانے لگا ۔ فیضان اکبر کو اس وقت اپنا آپ ایک ایکٹر سے زیادہ نہیں لگا ۔ یورا ہال اس لڑکے کے ساتھ تالیاں بجانے میں مصروف تھا ۔ فیضان کو وہ پورا پروگرام ایک مذاق محسوس ہونے لگا ۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ سالار سے پہلے اس اسٹیج سے اتر رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی مقابلہ ہار چکا تھا ۔ 150 آئی کیو لیول والے اس لڑکے سے اسے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنا حسد محسوس نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ امامہ آپا ۔ آپ لاہور کب جائیں گی ؟ وہ اپنے نوٹس کو دیکھتے ہوئے چونکی۔ سر اٹھا کر اس نے سعد کو دیکھا ۔ وہ سائیکل کی رفتار کو اب بالکل آہستہ کئے اس کے گرد چکر لگا رہا تھا ۔ کل ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ امامہ نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔ جب آپ چلی جاتی ہیں تو میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں ۔ وہ بولاکیوں ۔۔۔۔۔ ؟ امامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔کیونکہ آپ مجھے بہت اچھی لتی ہیں اور آپ میرے لئے بہت سے کھلونے لاتی ہیں اور آپ مجھے سیر کروانے لے کر جاتی ہیں ۔ اور آپ میرے ساتھ کھیلتی ہیں اس لئے۔ اس نے تفصیلی جواب دیا ۔ آپ مجھے اپنے ساتھ لاہور نہیں لے جاسکتیں ؟ امامہ اندازہ نہیں کرسکی یہ تجویز تھی یا سوالمیں کیسے لے جاسکتی ہوں ۔۔۔۔۔ میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں ، تم کیسے رہو گئے وہاں ؟ امامہ نے کہا سعد سائیکل چلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا ۔ تو پھر آپ جلدی یہاں آیا کریںاچھا ۔۔۔۔۔ جلدی آیا کروں گی ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ تم ایسا کیا کرو مجھ سے فون پر بات کرلیا کرو۔ میں فون کیا کروں گی تمہیں ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ سعد کو اسکی تجویز پسند آئی ۔ سائیکل کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے وہ لان کے لمبے لمبے چکر کاٹنے لگا ۔ امامہ بے دھیانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی وہ اسکا بھائی نہیں تھا ۔ دس سالہ سعد پانچ سال پہلے ان کے گھر آیا تھا ، کہاں سے آیا تھا اس بارے میں وہ نہیں جانتی تھی کیونکہ اسے اس بارے میں اس وقت کوئی تجسس نہیں ہوا تھا مگر کیوں لایا گیا تھا ۔ یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی ۔ سعد اب دس سال کا تھا اور وہ گھر میں بالکل گھل مل گیا تھا ۔ امامہ سے وہ سب سے زیادہ مانوس تھا ۔ امامہ کو اکثر اس پر ترس آتا ۔ ترس کی وجہ اسکا لاوارث ہونا نہیں تھا۔ ترس کی وجہ اس کا مستقبل تھا۔ اس کے دو چچاؤں اور ایک تایا کے گھر بھی اس وقت اسی طرح کے گود لئے ہوئے بچے پل رہے تھے ۔ وہ ان کے مستقبل پر بھی ترس کھانے پر مجبور تھی ۔ فائل ہاتھ میں پکڑے سائیکل پر لان میں گھومتے سعد پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی طرح کی بہت سی سوچوں میں الجھ جاتی تھی مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی ۔وہ چاروں اس وقت لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں موجود تھے۔ ان کی عمریں اٹھارہ ، انیس سال کے لگ بھگ تھیں اور اپنے حلیے سے وہ چاروں اپر کلاس کے لگتے تھے مگر وہاں پر نہ انکی عمر کوئی نمایاں کردینے والی چیز تھی نہ ہی انکی اپر کلاس سے تعلق رکھنے کی امتیازی خصوصیت ۔۔۔۔ کیونکہ وہاں پر ان سے بھی کم عمر لڑکے آتے تھے اور اپر کلاس اس علاقے کے مستقل کسٹمرز مین شامل تھی۔ چاروں لڑکے ریڈ لائٹ ایریا کی ٹوٹی ہوئی گلیوں سے گزرتے جارہے تھے ۔ تین لڑکے آپس میں باتیں کررہے تھے جبکہ صرف چوتھا قدرے تجسس اور دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار وہاں آیا تھا اور ان تینوں کے ساتھ تھوڑی دیر بعد ہونے والی اسکی گفتگو سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ وہ واقعی وہاں پہلی بار آیا تھا ۔ گلی کے دونوں اطراف میں کھلے دروازوں میں بناؤ سنگھار کئے نیم عریاں کپڑوں میں ملبوس ہر عمر اور ہر شکل کی عورت کھڑی تھی ۔ سفید ۔۔۔۔۔ سانولی ۔۔۔۔۔ سیاہ ۔۔۔۔۔ گندمی ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔ درمیانی۔۔۔۔۔۔ اور معمولی شکل و صورت والی ۔گلی میں سے ہر شکل اور عمر کا مرد گزر رہا تھا ۔ وہ لڑکا وہاں سے گزرتے ہوئے ہر چیز پر غور کر رہا تھا ۔ تم یہاں کتنی بار آئے ہو ۔ چلتے چلتے اس لڑکے نے اچانک اپنے ساتھ والے لڑکے سے پوچھا وہ لڑکا جوابا" ہنسا کتنی بار ۔۔۔۔۔؟ یہ تو پتا نہیں ۔۔۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکا ہوں ۔ اکثر آٹا ہوں یہاں پر ۔ اس لڑکے نے قدرے فخریہ انداز میں کہا ان عورتوں میں مجھے تو کوئی اٹریکشن محسوس نہیں ہورہی ان میں تو کچھ بھی خاص نہیں ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا اگر کہیں رات ہی گزارنی ہو تو کم از کم ماحول تو اچھا ہو ۔ یہ تو بہت گندی جگہ ہے اس نے گلی میں موجود گڑھوں اور کوڑے کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے کچھ ناگواری سے کہاپھر گرل فرینڈز کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس نے اس بار اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا اس جگہ کا اپنا ایک چارم ہے ۔ گرل فرینڈز اور یہاں کی عورتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ گرل فرینڈز اس طرح کے ڈانس تو نہیں دکھا سکتیں جو ابھی کچھ دیر بعد تم دیکھو گے ۔ تیسرا لڑکا ہنسا۔ اور پھر پاکستان کی جس بڑی ایکٹریس کا ڈانس ہم تمہیں دکھانے لے جارہے ہیں وہ تو بس ۔۔۔۔۔۔دوسرے لڑکے کی بات کو پہلے لڑکے نے کاٹ دیا ۔ اس کا ڈآنس تو تم پہلے مجھے دکھا چکے ہو ۔ ارے وہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ بھائی کی شادی پر ایک مجرا کیاتھا ۔۔۔۔۔ مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ وہ ایکٹرس تو ایک پوش علاقے میں رہتی ہے پھر یہاں کیوں آتی ہے ۔ پہلے لڑکے نے کچھ غیر مطمئن انداز میں اس سے پوچھایہ تم آج خود اس سے پوچھ لینا میں کبھی اس سے اس طرح کے سوال نہیں کرتا، دوسرے لڑکے کی بات پر باقی دونوں لڑکے ہنسے مگر تیسرا لڑکا اسی طرح چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا ان کا سفر بالآخر اس گلی کے آخر میں ایک عمارت کے سامنے ختم ہوگیا ۔ عمارت کے نیچے موجود دکان سے تینوں لڑکوں نے موتیے کے بہت سے ہار خریدے اور اپنی کلائیوں میں لپیٹ لیے ۔ ایک ہار دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کی کلائی میں بھی لپیٹ دیا جو وہاں آنے پر اعتراض کررہا تھا ۔ پھر ان لوگوں نے وہاں سے پان خریدے۔ تمباکو والا پان دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو بھی دیا جو شاید زندگی میں پہلی بار پان کھا رہا تھا ۔ پان کھاتے ہوئے وہ چاروں اس عمارتے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے ۔ اوپر پہنچ کر پہلے لڑکے نے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی ۔ وہ جہ بہت صاف ستھری اور خاصی حد تک آراستہ تھی ۔ گاؤ تکیے اور چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور باریک پردے لہرا رہے تھے ۔ کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔ رقص ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔ ایک عورت لپکتی ہوئی انکی طرف آئی ۔ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مصنوعی مسکراہت سجی ہوئی تھی اس نے دوسرے لڑکے کو مخاطب کیا پہلے لڑکے نے غور سے اس عورت کو دیکھا ۔ ادھیڑ عمر کی وہ عورت اپنے چہرے پر بے تحاشا میک اپ تھوپے اور بالوں میں موتیے اور گلاب کے گجرے لٹکائے ، شیلون کی ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخ ساڑھی میں ملبوس تھی ۔ جس کا بلاؤزر اس کے جسم کو چھپانے میں ناکام ہورہا تھا مگر وہ جسم کو چھپانے کے لئے پہنا بھی نہیں گیا تھا۔ ان چاروں کو وہ ایک کونے میں لے گئی اور وہاں اس نے انہیں بٹھادیا ۔ پہلے لڑکے نے وہاں بیٹھتے ہی منہ میں موجود پان اس اگلدان میں تھوک دیا جو انکے قریب موجود تھا ۔ کیونکہ پان منہ میں ہوتے ہوئے اس سے بات کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ پان کا ذائقہ بھی اس کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ تینوں لڑکے وہاں بیٹھے مدہم آوازمیں باتیں کرنے لگے جب کہ پہلا لڑکا اس ہال کے چاروں طرف موجود گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں سے کچھ اپنے سامنے شراب کی بوتلیں اور نوٹوں کی گڈیاں رکھے بیٹھے تھے ۔ ان میں سے اکثریت سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ اس نے عید کے اجتماعات کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور جگہ پر سفید لباس پہننے والوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تھا۔ خود وہ اپنے ساتھیوں کی طرح سیاہ چینز اور اسی رنگ کی آدھے باروؤں والی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا ۔ انکی عمر کے کچھ اور لڑکے بھی وہاں انہی کی طرح جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھے تھوڑی دیر میں ایک اور عورت وہاں آکر ہال کے درمیان میں بیٹھ کر ایک غزل سنانے لگی تھی ۔ اس کے ساتھ کچھ سازندے بھی تھے ۔ وہ غزلیں سنانے اور اپنے اوپر اچھالے ہوئے نوٹ اٹھا کر وہ خاصی خوش اور مطمئن واپس چلی گئی ۔ اور اس کے جانے کے فورا" بعد ہی فلم انڈسٹری ہال میں داخل ہوئی اور ہال میں موجود ہر مرد کی نظر اس سے جیسے چپک کر رہ گئی تھی ۔ اس نے ہال میں باری باری چاروں طرف گھوم کر ہر ایک کو سر کے اشارے سے خوش آمدید کہا تھا ۔ سازندوں کو اس بار کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑآ تھا ۔ کیسٹ پلیئر پر باری باری چند ہیجان انگیز گانے لگائے گئے تھے جن پر اس عورت نے اپنا رقص پیش کرنا شروع کیا تھا ۔ اور کچھ دیر پہلے کی خاموشی یک دم ختم ہوگئی تھی چاروں طرف موجود مرد اس عورت کو دادو تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے کچھ جو زیادہ جوش میں آرہے تھے وہ اٹھ کر اس ایکٹرس کے ساتھ ڈانس میں مصروف ہوجاتے ۔ ہال میں واحد شخص جو اپنی جگہ پر کسی حرکت کے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا وہ وہی لڑکا تھا مگر اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ایکٹریس کے رقص سے خاصا محظوظ ہورہا تھا تقریبا دو گھنٹے بعد جب اس ایکٹریس نے اپنا رقص ختم کیا تو وہاں موجود آدھے سے زیادہ مرد انٹا غفیل ہوچکے تھے واپس گھر جانا ان کے لئے زیادہ مسئلہ اس لیے نہیں تھا کہ ان میں سے کوئی بھی گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔ وہ سب ہی وہاں رات گزارنے آئے تھے ۔ ان چاروں نے بھی رات وہاں گزاری ۔ اگلے دن وہاں سے واپسی پر گاڑی میں اس دوسرے لڑکے نے جمائی لیتے ہوئے پہلے لڑکے سے پوچھا جو اس وقت لاپرواہی سے گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔ کیسا رہا یہ تجربہ ؟ اچھا تھا ۔۔۔۔ پہلے لڑکے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ بس اچھا تھا ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ تم بھی بس ۔۔۔۔ اس نے قدرے ناراضی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی کبھی کبھار جانے کے لئے اچھی جگہ ہے ۔ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ مگر بہت خاص والی کوئی بات نہیں ہے ۔ میری گرل فرینڈ اس لڑکی سے بہتر ہے جس کے ساتھ میں نے رات گزاری ہے ۔ اس لڑکے نے دو ٹوک انداز میں کہا ۔۔۔ڈائنگ ٹیبل پر ہاشم مبین کی پوری فیملی موجود تھی ۔ کھانا کھانے ہوئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے ۔ موضوع گفتگو اس وقت امامہ تھی جو اس ویک اینڈ پر بھی اسلام آباد میں موجود تھی ۔ بابا ۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ امامہ دن بدن سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ وسیم نے قدرے چھیڑنے والے انداز میں امامہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ہاں ۔۔ یہ تو میں بھی پچھلے کئی ماہ سے نوٹ کررہا ہوں ۔ ہاشم مبین نے وسیم کی بات پر بیٹی کے چہرے کو غور سے دیکتھے ہوئے کہا ۔ امامہ نے چاولوں کا چمچہ منہ میں رکھتے ہوئے وسیم کو گھورا ۔ کیوں امامہ ۔ کوئی مسئلہ ہے ؟ بابا یہ بڑی فضول باتیں کرتا ہے اور آپ بھی خوامخواہ اس کی باتوں میں آرہے ہیں ۔ میں اپنی اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف اور سنجیدہ ہوں ۔ اب ہر کوئی وسیم کی طرح نکما تو نہیں ہوتا ۔ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے وسیم کے کندھے پر کچھ ناراضی سے ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا بابا ۔ آپ اندازہ کریں میڈیکل کے شروع کے سالوں میں اس کا یہ حال ہے تو جب یہ ڈاکٹڑ بن جائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا ۔ وسیم نے امامہ کی تنبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ سالوں گزر جایا کریں گے مس امامہ ہاشم کو مسکراتے ہوئے ۔ ڈآئنگ ٹیبل پر موجود لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ ان دونوں کے درمیان یہ نوک جھوک ہمیشہ ہی رہتی تھی ۔ بہت کم مواقع ایسے ہوتے تھے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں اور انکے درمیان آپس میں جھگڑا نہ ہو ۔ مستقل بنیادوں پر ہوتے رہنے والے ان جھگڑوں کے باوجود امامہ کی سب سے زیادہ دوستی وسیم کے ساتھ ہی تھی ۔ اس کی وجہ شاید انکی اوپر تلے کی پیدائش بھی تھی ۔ اور آپ تصور کریں کہ ۔۔۔۔ اس بار امامہ نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی ۔ اس نے اس کے کندھے پر پوری طاقت سے مکا مارا ۔ وسیم پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا ۔ ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کے سوا اور کیا کیا ہوسکتا ہے ۔ آپ اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کل کے ڈاکٹڑز وارڈ میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی شرح اموات کی ایک وجہ ۔۔۔۔۔۔بابا اس کو منع کریں ۔ امامہ نے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ہاشم مبین سے کہا ۔ وسیم ۔۔۔۔۔ ہاشم نے اپنے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے وسیم کو جھڑکا ۔ وہ بڑی سعادت مندی سے فورا" خاموش ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
0 comments:
Post a Comment