یارم از:سمیرا حمید
قسط نمبر 14
*************
وہ کام سے بھی لگ گئی اور کلاسسز میں بھی مصروف ہو گئی۔ساتھ ہی اس نے بھی نوڈلز کھانےشروع کر دیے۔اپنی پہلی تنخواہ سے اس نے سب سے پہلے ہانا کی پسند کے نوڈلز کا بڑا پیکٹ لیا جو وہ دو ہفتے تک کھا سکتی تھی۔ساتھ ہی انڈے،دودھکے ڈبے،جام، ڈبل روٹی لےکر اسے نے فریج بھرا تاکہ وہ سب بھی استعمال کریں....اب اسے رہائش کی تلاش تھی....ساتھ ساتھ وہ اپنا رہائش کا مسئلہ بھی حل کر رہی تھی ۔گو شرلی نےاس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اتنی پرشان نہ ہو رہائش کے لیے لیکن وہ پریشان تھی اگر اسے انہوں نے خندہ پیشانی سے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ڈھیٹ بن کر مستقل ہی وہاں جم جاتی اور بہانے بناتی کہ اسے رہائش نہیں مل رہی ۔چونکہ اسے شروع سے بہت زیادہ کھانے کی عادات تھی تو ابھی وہ مکمل طور پر اپنی بھوک پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔چنے منے سے ناشتے سے تو اس کا کچھ بنتا ہی نہیں تھا اس سے زیادہ تو وہ شام کی چائے میں اُڑا جایا کرتی تھی۔دوپہر کے کھانے کے وقت یونیورسٹی میں اسےکسی نہ کسی ٹوئیٹ مل جاتی۔ٹوئیٹ...(Twit) تو ٹوئیٹ کا قصہ کچھ یوں تھاکہ کسی بھی فرینڈیاہائے ہیلوفرینڈیا کلاس فیلو کے پاس جایا جاتااور اس سے کہا جاتا ۔”ٹوئیٹ می پلیز“(مجھے ٹوئیٹ کرو)اگر وہ چاہتا یا افورڈ کر سکتا تو اسے ٹوئیٹ کر دیتا یعنی ایک کپ چائے ،کافی یا کوئی بھی کولڈرنک پلا دی جاتی۔دائم گروپ نے اسے اپنی ساری ٹوئیٹس دے دی تھیں۔ٹوئیٹ مانگنے والے کو وہ ٹوئیٹ واپس بھی کرنی ہوتی تھیں۔اب منظرکچھ یوں ہوتا کہ دائم یا نوال اس سے کہتے کہ جو سامنے حماد بیٹھا ہے اس کے پاس میری چھ ٹوئیٹس ہیں۔اس کے پاس جاؤ اور کہو ”ٹوئیٹ می بیک پلیز“وہ جاتی اور کہہ دیتی۔اسی طرح شرلی ،عذرہ اور ایسےہی دوسرے ہائے ہیلو دوست اپنی ٹوئیٹس دے دیتے۔اکثر جن کی تین یا چار ٹوئیٹس اکھٹی ہو چکی ہوتیں ان کا وہ برگر کھا لیتی لیکن برگر،سینڈوچ یا پیزا کھائے جانے پر ایک ایکسٹرا ٹوئیٹ منفی ہوجاتی یعنی اگر چار ٹوئیٹس ہے تو تین کا برگر اور ایک منفی یعنی باقی زیرو....اور اگر تین ہی تھیں تو ایک جمع ہو جاتی یعنی برگر کھانے والےکھاتے میں ایک ٹوئیٹ آجاتی۔پہلی بار تو امرحہ کو کافی سے زیادہ شرم آئی بھر اس نے محسوس کیا کہ امیر کبیر اسٹوڈنٹس بھی ایسا کر لیتے ہیں تو وہ بھی کرنے لگی....وہ دائم نوال شرلی کے پاس جاتی ریفری"آٹوئیٹ پلیز "کہتی وه سوچتے.ادھر ادھر دیکھتے.
وه سامنے....ہاں وہاں گراؤنڈ میں...وه جس نے سفید شرٹ پہنی ہے. ہاں وہی اس کے پاس جاؤ."
کاغذ پہ لکھ دیا جاتا" ٹوئیٹ ہر بیک "(اسے ٹوئیٹ واپس کر دو)اسی کاغذ پر ٹوئیٹ دینے والا لکھ دیتا" بقایا دو" باقی کی دو بھی وہ ہڑپ کر جاتی.اسےبڑا مزہ آ رہا تھا. اسے ٹوئیٹ پہ ٹو ئیٹ مل رہی تھیں.....اس نے دادا کو سب بتایا.
"مانگنے کے نت نئے انداز" وہ ہنسنے لگے.
"دینے کے نت نئے انداز دادا."
"کیا کمال کا جواب دیا ہے تم نے" وہ بہت خوش ہوئے.اس دن وہ دائم گروپ کی ایک لڑکی اقصیٰ کےپاس گئی اورٹوئیٹ ریفرکرنے کے لئےکہا.
یہ تمہیں لائبریری میں ملے گا ورنہ کہیں نہیں ملے گا اس وقت ....بڑے بڑے کان ہیں اس کے...لائبریری میں کسی سے بھی پوچھ لینا.تمھیں اس کا بتا دیا جائے گا."پوری بیس ٹو ئیٹس ہیں میری اس کے پاس".
"بیس..!"،امرحہ کے منہ میں پانی بھر آیا.آرام سے چار پانچ برگرکھائےجاسکتےہیں'کافی بھی.....آرام سے دوہفتےنکل جائیں گے.
یعنی اگلےدوہفتوں کےلیے بالکل خوار نہیں ہوناپڑےگا....وہ لائبریری میں آگئی اور سرگوشی کے انداز میں اسکاپوچھا.
"میں سمجھ نہیں پائی....کونسی کتاب چاہئے؟؟"
"اف..کتاب نہیں چاہئے...عالیان کا پوچھ رہی ہوں.جس کی بڑے بڑے کان ہیں."
ایک ہلکی سی مسکراہٹ لائبریرین کے چہرے پر نمودارہوکرمعدوم ہو گئی اوراس نےہاتھ سے اشارہ کرکے بتایاکہ وہ کہاں بیٹھا ہے.وہ اسکےپاس آئی اور کاغذ جس پراقصیٰ کی لکھائی میں ٹوئیٹ کالکھاتھااسکےاگےکیا.
اس نے اپنی موٹی سی کتاب سے نظر اٹھاکراس چٹ کوپڑھاپھرجس ہاتھ نےچٹ تھام رکھی تھی'اس خفگی سے گھورا...اس کی پیشانی پر پتلی سی لکیربن کرغائب ہو گئی.
"سوری اس وقت نہیں"اس نے آ ہستگی سے کہا.
"پھرکس وقت؟؟"
"بس آج نہیں....ان فیکٹ اگلے ہفتے تک نہیں...برائےمہربانی اس سےپہلےمجھےتنگ نہ کیا جائے."
پر مجھے توابھی اسی وقت بھوک لگی ہے."اسکی تیز آواز پر وہ بھوری آنکھوں والا حیران رہ گیا.پیشانی پرخفگی سے دو لکیریں بن کر ابھریں اوروہیں براجمان رہیں.
"ٹوئیٹ می بیک." امرحہ نےدونوں ہاتھ سینے پر باندھ کرتھوڑی اوراونچی آوازمیں کہا.یہ وہی تھاناجواس دن ویلکم ویک میں اس پرچلا رہاتھا.اب وہ اس پر چلا سکتی تھی.
"میں نہیں کر رہا." اس نےذرا سختی سے کہا.
"میں کیا کروں....مجھے تو بھوک لگی ہے." اس نے اس طرف آتےہوئےایک اورکام کیاتھا.اس نےکاغذپرخودہی سینڈوچ لکھ دیاتھا.
اسکی تیزبھوری آنکھیں ایک لحظےکےلیےسیاہی مائل سی ہوئیں.پیشانی پر شکنوں کاجال سا بچھ گیا.90ءکے ہیروز کی طرح اس نے گردن کو ہلکا سا جھٹکا دے کر اس کو گھورااورپھروہ ٹوئنٹی ز کے ہیروکی ترطرح مکمل نظرانداز کرکےاٹھ کھڑاہوا.
"میں نے کہانا'اگلےہفتےسےپہلےمیرےپاس نہ آنا." وہ لائبریری بلڈنگ سے باہر نکلا.
"میں کچھ نہیں جانتی."وہ بھی اسکے ساتھ نکلی.اس نے اس کے ہاتھ سے کاغذ کھینچااورتیزی سے آگےآگےچلنےلگا.
وہ اسکے پیچھے پیچھے لپکی کہ وہ کینیٹن جارہاہے.لیکن.....وہ تو.....وہ تو
"یہ کیا ہے اقصیٰ؟؟" اس نےدوانگلیوں میں اٹکایا کاغذ اقصیٰ کےآگےکیا.
"کس بھوکی کومیرےپیچھےلگادیاہے؟؟"
*********
جاری ہے۔
قسط نمبر 14
*************
وہ کام سے بھی لگ گئی اور کلاسسز میں بھی مصروف ہو گئی۔ساتھ ہی اس نے بھی نوڈلز کھانےشروع کر دیے۔اپنی پہلی تنخواہ سے اس نے سب سے پہلے ہانا کی پسند کے نوڈلز کا بڑا پیکٹ لیا جو وہ دو ہفتے تک کھا سکتی تھی۔ساتھ ہی انڈے،دودھکے ڈبے،جام، ڈبل روٹی لےکر اسے نے فریج بھرا تاکہ وہ سب بھی استعمال کریں....اب اسے رہائش کی تلاش تھی....ساتھ ساتھ وہ اپنا رہائش کا مسئلہ بھی حل کر رہی تھی ۔گو شرلی نےاس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اتنی پرشان نہ ہو رہائش کے لیے لیکن وہ پریشان تھی اگر اسے انہوں نے خندہ پیشانی سے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ڈھیٹ بن کر مستقل ہی وہاں جم جاتی اور بہانے بناتی کہ اسے رہائش نہیں مل رہی ۔چونکہ اسے شروع سے بہت زیادہ کھانے کی عادات تھی تو ابھی وہ مکمل طور پر اپنی بھوک پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔چنے منے سے ناشتے سے تو اس کا کچھ بنتا ہی نہیں تھا اس سے زیادہ تو وہ شام کی چائے میں اُڑا جایا کرتی تھی۔دوپہر کے کھانے کے وقت یونیورسٹی میں اسےکسی نہ کسی ٹوئیٹ مل جاتی۔ٹوئیٹ...(Twit) تو ٹوئیٹ کا قصہ کچھ یوں تھاکہ کسی بھی فرینڈیاہائے ہیلوفرینڈیا کلاس فیلو کے پاس جایا جاتااور اس سے کہا جاتا ۔”ٹوئیٹ می پلیز“(مجھے ٹوئیٹ کرو)اگر وہ چاہتا یا افورڈ کر سکتا تو اسے ٹوئیٹ کر دیتا یعنی ایک کپ چائے ،کافی یا کوئی بھی کولڈرنک پلا دی جاتی۔دائم گروپ نے اسے اپنی ساری ٹوئیٹس دے دی تھیں۔ٹوئیٹ مانگنے والے کو وہ ٹوئیٹ واپس بھی کرنی ہوتی تھیں۔اب منظرکچھ یوں ہوتا کہ دائم یا نوال اس سے کہتے کہ جو سامنے حماد بیٹھا ہے اس کے پاس میری چھ ٹوئیٹس ہیں۔اس کے پاس جاؤ اور کہو ”ٹوئیٹ می بیک پلیز“وہ جاتی اور کہہ دیتی۔اسی طرح شرلی ،عذرہ اور ایسےہی دوسرے ہائے ہیلو دوست اپنی ٹوئیٹس دے دیتے۔اکثر جن کی تین یا چار ٹوئیٹس اکھٹی ہو چکی ہوتیں ان کا وہ برگر کھا لیتی لیکن برگر،سینڈوچ یا پیزا کھائے جانے پر ایک ایکسٹرا ٹوئیٹ منفی ہوجاتی یعنی اگر چار ٹوئیٹس ہے تو تین کا برگر اور ایک منفی یعنی باقی زیرو....اور اگر تین ہی تھیں تو ایک جمع ہو جاتی یعنی برگر کھانے والےکھاتے میں ایک ٹوئیٹ آجاتی۔پہلی بار تو امرحہ کو کافی سے زیادہ شرم آئی بھر اس نے محسوس کیا کہ امیر کبیر اسٹوڈنٹس بھی ایسا کر لیتے ہیں تو وہ بھی کرنے لگی....وہ دائم نوال شرلی کے پاس جاتی ریفری"آٹوئیٹ پلیز "کہتی وه سوچتے.ادھر ادھر دیکھتے.
وه سامنے....ہاں وہاں گراؤنڈ میں...وه جس نے سفید شرٹ پہنی ہے. ہاں وہی اس کے پاس جاؤ."
کاغذ پہ لکھ دیا جاتا" ٹوئیٹ ہر بیک "(اسے ٹوئیٹ واپس کر دو)اسی کاغذ پر ٹوئیٹ دینے والا لکھ دیتا" بقایا دو" باقی کی دو بھی وہ ہڑپ کر جاتی.اسےبڑا مزہ آ رہا تھا. اسے ٹوئیٹ پہ ٹو ئیٹ مل رہی تھیں.....اس نے دادا کو سب بتایا.
"مانگنے کے نت نئے انداز" وہ ہنسنے لگے.
"دینے کے نت نئے انداز دادا."
"کیا کمال کا جواب دیا ہے تم نے" وہ بہت خوش ہوئے.اس دن وہ دائم گروپ کی ایک لڑکی اقصیٰ کےپاس گئی اورٹوئیٹ ریفرکرنے کے لئےکہا.
یہ تمہیں لائبریری میں ملے گا ورنہ کہیں نہیں ملے گا اس وقت ....بڑے بڑے کان ہیں اس کے...لائبریری میں کسی سے بھی پوچھ لینا.تمھیں اس کا بتا دیا جائے گا."پوری بیس ٹو ئیٹس ہیں میری اس کے پاس".
"بیس..!"،امرحہ کے منہ میں پانی بھر آیا.آرام سے چار پانچ برگرکھائےجاسکتےہیں'کافی بھی.....آرام سے دوہفتےنکل جائیں گے.
یعنی اگلےدوہفتوں کےلیے بالکل خوار نہیں ہوناپڑےگا....وہ لائبریری میں آگئی اور سرگوشی کے انداز میں اسکاپوچھا.
"میں سمجھ نہیں پائی....کونسی کتاب چاہئے؟؟"
"اف..کتاب نہیں چاہئے...عالیان کا پوچھ رہی ہوں.جس کی بڑے بڑے کان ہیں."
ایک ہلکی سی مسکراہٹ لائبریرین کے چہرے پر نمودارہوکرمعدوم ہو گئی اوراس نےہاتھ سے اشارہ کرکے بتایاکہ وہ کہاں بیٹھا ہے.وہ اسکےپاس آئی اور کاغذ جس پراقصیٰ کی لکھائی میں ٹوئیٹ کالکھاتھااسکےاگےکیا.
اس نے اپنی موٹی سی کتاب سے نظر اٹھاکراس چٹ کوپڑھاپھرجس ہاتھ نےچٹ تھام رکھی تھی'اس خفگی سے گھورا...اس کی پیشانی پر پتلی سی لکیربن کرغائب ہو گئی.
"سوری اس وقت نہیں"اس نے آ ہستگی سے کہا.
"پھرکس وقت؟؟"
"بس آج نہیں....ان فیکٹ اگلے ہفتے تک نہیں...برائےمہربانی اس سےپہلےمجھےتنگ نہ کیا جائے."
پر مجھے توابھی اسی وقت بھوک لگی ہے."اسکی تیز آواز پر وہ بھوری آنکھوں والا حیران رہ گیا.پیشانی پرخفگی سے دو لکیریں بن کر ابھریں اوروہیں براجمان رہیں.
"ٹوئیٹ می بیک." امرحہ نےدونوں ہاتھ سینے پر باندھ کرتھوڑی اوراونچی آوازمیں کہا.یہ وہی تھاناجواس دن ویلکم ویک میں اس پرچلا رہاتھا.اب وہ اس پر چلا سکتی تھی.
"میں نہیں کر رہا." اس نےذرا سختی سے کہا.
"میں کیا کروں....مجھے تو بھوک لگی ہے." اس نے اس طرف آتےہوئےایک اورکام کیاتھا.اس نےکاغذپرخودہی سینڈوچ لکھ دیاتھا.
اسکی تیزبھوری آنکھیں ایک لحظےکےلیےسیاہی مائل سی ہوئیں.پیشانی پر شکنوں کاجال سا بچھ گیا.90ءکے ہیروز کی طرح اس نے گردن کو ہلکا سا جھٹکا دے کر اس کو گھورااورپھروہ ٹوئنٹی ز کے ہیروکی ترطرح مکمل نظرانداز کرکےاٹھ کھڑاہوا.
"میں نے کہانا'اگلےہفتےسےپہلےمیرےپاس نہ آنا." وہ لائبریری بلڈنگ سے باہر نکلا.
"میں کچھ نہیں جانتی."وہ بھی اسکے ساتھ نکلی.اس نے اس کے ہاتھ سے کاغذ کھینچااورتیزی سے آگےآگےچلنےلگا.
وہ اسکے پیچھے پیچھے لپکی کہ وہ کینیٹن جارہاہے.لیکن.....وہ تو.....وہ تو
"یہ کیا ہے اقصیٰ؟؟" اس نےدوانگلیوں میں اٹکایا کاغذ اقصیٰ کےآگےکیا.
"کس بھوکی کومیرےپیچھےلگادیاہے؟؟"
*********
جاری ہے۔
0 comments:
Post a Comment