یارم از:سمیرا حمید
قسط نمبر 13.
***********
وہ گھر گئی تو اس نےشرلی عذرہ وغیرہ سب سے کہے دیا کہ کل ہر صورت وہ خود اور اپنے دوستوں کو لے کر اس کے کیفے آجائیں....چاروں نے آنےکا وعدہ کر لیا سوائے ہانا کے.....اور انہوں نےاسے یقین دلایا کہ وہ کوشش کر کے اپنے ایک یادو دوستوں کو بھی ساتھ لے آئیں گی....صبح وہ دائم اور نوال بھی گئی انہیں سب سچ بتا دیا۔دائم کتنی ہی دیر بے یقینی سے اس کی شکل دیکھتارہا۔
”تم نے کس قدر چالاکی سے یہ سب کیا ہے....ہے نا“
”کرنا پڑا“ اس نے کندھے اچکائے۔
”میں اپنے ہم جماعتوں کو اور دوستوں کو بھی کہے دیتا ہوں....کتنے دن کا ٹرائل ہے؟“
”ایک ہفتے کا....اگر روز آٹھ دس لوگ آئیں تو....“
”آٹھ دس تو کم ہے آخری روز تک میں تمہیں چالیس کر دوں گا۔“
یہ ٹھیک ہے“ اور پھر یوں پہلے دن دس...دوسرے دن پندرہ...پھر اٹھارہ،بیس....پچیس اور آخری دن تین کم پچاس اسٹوڈنٹس وہاں کافی پینے گئے اور مزے کی بات یہ کہ انہوں نےاپنی پرفارمنس کی حد ہی کر دی...وہ کافی پینے جاتے،کاؤنٹر تک آتے جاتے۔
”کتنے نوبل انسان ہیں آپ۔“مسکرا کر کہا جاتا۔
”آپ نے ایک مسلم خاتون کو بغیر کسی امتیاز کے نوکری دی۔“
”آپ جیسے انسان دوست لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں۔“
”ہم سب ضرور اپنے پروفیسر سے آپ کی تعریف کریں گے،آپ کو ہمارے کانووکیشن ڈے پر ضرور آنا چاہئے۔“
”بہت فرشتہ صفت ہیں آپ...ایسی صفات آج کل نا پید ہیں۔“
اب ہم ہر روزصرف یہاں ہی آیا کریں گے کافی پینے“
”چھ دن ہر پرفارمنس کے ساتھ ساتھ وہ مسکراتا رہا، مسکراتا رہا....”میں نے اپنے زندگی میں بہت ڈرمے دیکھے لیکن ان چھ دنوں میں جو یونیورسٹی والوں نے میرے کیفے ڈرامہ سیشن کیا،وہ سب سے شاندار رہا۔“
وہ دنگ کھڑی کاؤنٹر پہ ہاتھ رکھے اسے ہنستے ہوئے دیکھتی رہی، اس کا تو خیال تھا اس کا پلان کامیاب رہا لیکن یہ کیا.....تم ایک کاروباری انسان کو اُلو نہیں بنا سکتیں..رائٹ“؎
”رائٹ“اس نے کمزور سا رائٹ کہا۔
”پر تم ایک کاروباری انسان کو متاثر ضرور کر سکتی ہو....رائٹ..“
”رائٹ“وہ مسکرانے لگی۔
دیکھو مس اخروٹ.....!میں تمہیں یہاں ایسے نہیں رکھ سکتا۔“وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور امرحہ بھی....اس کی خوشی اڑن چھو ہو گئی۔
”کافی کمپنی اس ڈریس کے لئے مجھے پے کرتی ہے اور اس کیفے کے پچاس فیصد مالکانہ حقوق کمپنی کے پاس ہی ہے لیکن کیونکہ میری دلچسپی بڑھ گئی ہے کہ میں یونیوورسٹی کے کانووکیشن میں بلایا جاؤں تو میں تمہیں عارضی طور پر یہاں رکھ سکتا ہوں....جب تک تمہیں کہیں اور نوکری نہیں مل جاتی،تم یہاں کام کرسکتی ہو لیکن اگرکمپنی نے اعتراض کیا تو مجھے تمہیں فوراً نکالنا ہو گا“
کمپنی اعتراض نہیں کرے گی۔“وہ خوشی سے نہال ہو کر بولی۔
”کیوں؟تمہیں کسے پتا“
”میں دعا کروں گی ،کمپنی اعتراض نہ کرے“
”تم یہ دعا کیوں نہیں کرتیں کہ تمہیں کہیں اچھا سا کام مل جائے“
”وہ بھی کر رہی ہوں ساتھ ساتھ لیکن فی الحال مجھ پہ یہی دعا واجب ہے....کہ کمپنی اعتراض نہ کرے“وہ اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے مسکرا رہا تھا۔
”اور مجھے اخروٹ مت کہئے آپ مجھے چلغوزہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ چلغوزہ مجھےبہت پسند ہے۔“وہ خوشی سے بولتی ہی چلی جا رہی تھی کیفے سےباہر مانچسڑ کی سڑکوں پر اُڑنے والی رات اس رات بہت روشن تھی جب سیاہی سفید ہو جائے راتیں روشن ہو جائے تو زندگی کی شاخوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔خوشبو دیتی ہوئی۔پھولوں اورپھلوں سے لدی ہوئی۔
**********
جاری ہے۔
قسط نمبر 13.
***********
وہ گھر گئی تو اس نےشرلی عذرہ وغیرہ سب سے کہے دیا کہ کل ہر صورت وہ خود اور اپنے دوستوں کو لے کر اس کے کیفے آجائیں....چاروں نے آنےکا وعدہ کر لیا سوائے ہانا کے.....اور انہوں نےاسے یقین دلایا کہ وہ کوشش کر کے اپنے ایک یادو دوستوں کو بھی ساتھ لے آئیں گی....صبح وہ دائم اور نوال بھی گئی انہیں سب سچ بتا دیا۔دائم کتنی ہی دیر بے یقینی سے اس کی شکل دیکھتارہا۔
”تم نے کس قدر چالاکی سے یہ سب کیا ہے....ہے نا“
”کرنا پڑا“ اس نے کندھے اچکائے۔
”میں اپنے ہم جماعتوں کو اور دوستوں کو بھی کہے دیتا ہوں....کتنے دن کا ٹرائل ہے؟“
”ایک ہفتے کا....اگر روز آٹھ دس لوگ آئیں تو....“
”آٹھ دس تو کم ہے آخری روز تک میں تمہیں چالیس کر دوں گا۔“
یہ ٹھیک ہے“ اور پھر یوں پہلے دن دس...دوسرے دن پندرہ...پھر اٹھارہ،بیس....پچیس اور آخری دن تین کم پچاس اسٹوڈنٹس وہاں کافی پینے گئے اور مزے کی بات یہ کہ انہوں نےاپنی پرفارمنس کی حد ہی کر دی...وہ کافی پینے جاتے،کاؤنٹر تک آتے جاتے۔
”کتنے نوبل انسان ہیں آپ۔“مسکرا کر کہا جاتا۔
”آپ نے ایک مسلم خاتون کو بغیر کسی امتیاز کے نوکری دی۔“
”آپ جیسے انسان دوست لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں۔“
”ہم سب ضرور اپنے پروفیسر سے آپ کی تعریف کریں گے،آپ کو ہمارے کانووکیشن ڈے پر ضرور آنا چاہئے۔“
”بہت فرشتہ صفت ہیں آپ...ایسی صفات آج کل نا پید ہیں۔“
اب ہم ہر روزصرف یہاں ہی آیا کریں گے کافی پینے“
”چھ دن ہر پرفارمنس کے ساتھ ساتھ وہ مسکراتا رہا، مسکراتا رہا....”میں نے اپنے زندگی میں بہت ڈرمے دیکھے لیکن ان چھ دنوں میں جو یونیورسٹی والوں نے میرے کیفے ڈرامہ سیشن کیا،وہ سب سے شاندار رہا۔“
وہ دنگ کھڑی کاؤنٹر پہ ہاتھ رکھے اسے ہنستے ہوئے دیکھتی رہی، اس کا تو خیال تھا اس کا پلان کامیاب رہا لیکن یہ کیا.....تم ایک کاروباری انسان کو اُلو نہیں بنا سکتیں..رائٹ“؎
”رائٹ“اس نے کمزور سا رائٹ کہا۔
”پر تم ایک کاروباری انسان کو متاثر ضرور کر سکتی ہو....رائٹ..“
”رائٹ“وہ مسکرانے لگی۔
دیکھو مس اخروٹ.....!میں تمہیں یہاں ایسے نہیں رکھ سکتا۔“وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور امرحہ بھی....اس کی خوشی اڑن چھو ہو گئی۔
”کافی کمپنی اس ڈریس کے لئے مجھے پے کرتی ہے اور اس کیفے کے پچاس فیصد مالکانہ حقوق کمپنی کے پاس ہی ہے لیکن کیونکہ میری دلچسپی بڑھ گئی ہے کہ میں یونیوورسٹی کے کانووکیشن میں بلایا جاؤں تو میں تمہیں عارضی طور پر یہاں رکھ سکتا ہوں....جب تک تمہیں کہیں اور نوکری نہیں مل جاتی،تم یہاں کام کرسکتی ہو لیکن اگرکمپنی نے اعتراض کیا تو مجھے تمہیں فوراً نکالنا ہو گا“
کمپنی اعتراض نہیں کرے گی۔“وہ خوشی سے نہال ہو کر بولی۔
”کیوں؟تمہیں کسے پتا“
”میں دعا کروں گی ،کمپنی اعتراض نہ کرے“
”تم یہ دعا کیوں نہیں کرتیں کہ تمہیں کہیں اچھا سا کام مل جائے“
”وہ بھی کر رہی ہوں ساتھ ساتھ لیکن فی الحال مجھ پہ یہی دعا واجب ہے....کہ کمپنی اعتراض نہ کرے“وہ اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے مسکرا رہا تھا۔
”اور مجھے اخروٹ مت کہئے آپ مجھے چلغوزہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ چلغوزہ مجھےبہت پسند ہے۔“وہ خوشی سے بولتی ہی چلی جا رہی تھی کیفے سےباہر مانچسڑ کی سڑکوں پر اُڑنے والی رات اس رات بہت روشن تھی جب سیاہی سفید ہو جائے راتیں روشن ہو جائے تو زندگی کی شاخوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔خوشبو دیتی ہوئی۔پھولوں اورپھلوں سے لدی ہوئی۔
**********
جاری ہے۔
0 comments:
Post a Comment