اُردو ناول آن لائن

Monday, 25 September 2017

یارم از: سمیرا حمید قسط نمبر: 12


یارم از: سمیرا حمیدقسط نمبر: 12************
یہ وہی ask me کا بورڈ پکڑے لمبی ناک والا تھا۔اس سے پہلے امرحہ کچھ بولتی...اس نے اپنی ناک کو ایک ہاتھ سے چھپا لیا۔امرحہ کا دل چاہاکہ واقع اس کی ناک پر اپنےہاتھ میں پکڑی موٹی فائل دے مارے....یہ انسان یقیناً اس کو کوئی مشہور زمانہ مذاق بنا دے گا جو ساری یونیورسٹی میں مشہور ہو جائے گا....”فرمائیے...میں آپ کو کیسے ڈرا سکتا.....ائی ایم سوری آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔“ناک بدستور اس نے بائیں ہاتھ سے چھپا رکھی تھی۔امرحہ نے کاغذ اس کی طرف بڑھایا جس پر اس کے مضمون لکھے تھے اور اس نے پڑھ کر دوسرےکاغذ پر کم سے کم پندرہ منٹ لگا کر اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ سب کچھ لکھ دیا...کلاس کے اوقات کار....ٹیچرز کے نام....مزید مدد کے لئے اسی کے جماعت کےدو تین ہم جماعتوں کے نام....ان کے رہائش کے پتے۔پھر اس نے نقشہ نکالا اور اس پر سرخ دائرہ لگایا۔یہ آپکا ڈیپارٹمنٹ ہے۔”اسے اس کا ڈیپارٹمنٹ دکھا لاؤ۔“اس نے فرنچ لڑکی سےکہا۔لڑکی نے اچنبھے سے اسے پھر ڈیرک کو دیکھااور امرحہ کےکچھ کہنے سے پہلے ہی پوچھ لیا۔”کیوں یہ خود چلی جائے گی نا....“”نہیں یہ خود نہیں جاتی......اسے ڈر لگتا ہے.....“امرحہ نے ڈیرک کے ہاتھ سے کاغذجھپٹ لیا...ڈیرک کے قہقہے نےدور تک اس کا پیچھا کیا....وہ دعا کر رہی تھی کہ پہلے دن جو جو لوگ سے ملے ہیں٬ان سے دوبارہ اس کی ملاقات....ایک لڑکی اس کے پاس سے گزری اور ایک دم رک گئی۔”کوئی مدد چاہیے؟“ساتھ ہی اس نے امرحہ کے ہاتھ میں پکڑا کاغذ لے لیا۔یہاں جانا ہے نہ....میں ابھی یہیں سے آ رہی ہوں بلکہ پھر سے وہیں جا رہی ہوں....آ جاؤ میرے ساتھ۔“وہ خواری سے بچ گئی اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔وہ اسے ڈیپاٹمنٹ تک چھوڑ کت گئی.....اس نے اپنی کلاسسز دیکھ لیں اور اوقات کار بھی.... اپنی کلاسسز دیکھ کر اسے کافی خوشی ہوئی۔وہ اس کی سوچ سے زیادہ خوبصورت تھیں۔یونیورسٹی سے نکل کروہ پیدل ہی پھر سے نوکری کی تلاش میں لگ گئی....لیکن یہ کام تو مشکل ہی بنتا جا رہا تھا۔یونیورسٹی سے بہت زیادہ دور وہ نوکری کر نہیں سکتی تھی۔ اس طرح اس کا بس کا کرایہ لگتا اور اس کی بچت مشکل سے ہی ہو پاتی۔اس کی کلاسسز شروع ہو گیئں لیکن کام نہیں ملا اسے پرشانی یہ تھی کہ اگروہ کام نہ ڈھونڈ سکی تو پھر سے دائم کا لیکچر سننا پڑے گا گو کہ وہ اپنی جگہ ٹھیک تھا لیکن اپنی جگہ غلط وہ بھی نہیں تھی۔وہ انتھک کوشش کر رہی تھی۔*......*.......*ایک دن یونیورسٹی سے پندرا منٹ کی واک پر واقع کیفے کے سامنے سے اس کا گزر ہوا۔وہ یہاں پہلے بھی آ چکی تھی لیکن اسے جواب دیا گیاتھا کہ انہیں ضروت نہیں ہے۔اب ضروت ہے کا بورڈ کیفے کے سامنے رکھا تھا۔اس نے پہلے کیفے میں بیٹھ کر کافی پھر کاونٹر تک آئی.....اسے یہاں کام تو فوراً ہی مل سکتا تھا لیکن صرف ایک مسئلہ تھااور کافی بڑا مسئلہ تھا جو ویٹریس اسے نظر آ رہی تھیں انہوں نے گھٹنوں تک اسکرٹ پہن رکھا تھا جو ایک مشہور کافی کے لیبل جیسا تھا ،یعنی کمپنی کا چلتا پھرتا اشتہار تھیں اسے اشتہار سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن وہ یہ اسکرٹ تو نہیں پہن سکتی تھی اور جوحالات جا رہے تھے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اس واحد نظرمیں آنے والے ”ضروت ہے “کے موقعے کو ہاتھ سے جانے بھی نہیں دے سکتی تھی۔اس نے کاؤنٹرکے پیچھے بیٹھے دراز قد فربہی مائل گورے چٹے انگریز سے بات کی....اس نے امرحہ سے چند سولات پوچھےاور اسےہاں کہہ دیا.....وہ خوش ہونےکےبجائے دکھ سے اسے دیکھنے لگی یعنی نوکری ملی بھی تو کون سی جس پر شاید ابھی انکارہو جائے جب وہ اس کیاگلی بات سنے گا۔”مجھے اس کام کی بہت زیادہ ضرورت ہے.....اگر مجھے یہ نوکری نہ ملی تو میرا مستقبل بہت بری طرح سے تاریکہو جائے گا۔“اس نے اپنی طرف انگریز کو جذباتی کرنے کی کوشش کی تھی۔”میں نےتمہیں کام پررکھ لیاہے۔“”میں یہ ڈریس نہیں پہن سکتی...میں جینز پر یہ شرٹپہن لوں گی بس۔“اس نے ویٹرس کی شرٹ کی طرف اشارہ کیا۔”تمہیں اتنا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں....تم جاسکتی ہو۔“”اس دنیا کےروشن مستقبل کے لئے کیا آپ صرفاس نامکمل ڈریس کو نظر انداز کر کےتعلیم حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتی اسلڑکی پر ایک احسان نہیں کر سکتے۔ دنیاکاہرانسانعلم حاص کرنےوالے کی عزت کرتا ہے۔“”مجھےصرف اپنے روشن مستقبل کی فکر ہے۔ ””آپکس مذہب کے ماننے والے ہیں؟“اس نے اسےگھورا....یورپ میں کبھی بھی کسی سے بھیاتنی جلدی اس کے مذہب کے بارے میں نہیںپوچھ سکتے وہ برا مان جاتے ہیں۔”میںیہودی ہوں۔“امرحہ کی سٹی گم ہو گئی۔وہیک ٹک اسے دیکھتی رہی۔”مجھے گھورنابند کرو اور جاؤیہاں سے “” دیکھئے جانب اگر آپ مجھے کام دیں گے تو سب آپ کیتعریف کریں گے ایک یہودی نے ایک مسلم کا احترام کیا...اس کی اخلاقیات کا خیال رکھا...یو نو وغیرہ وغیرہ۔“”یہ وغیرہوغیرہ کیا ہے؟“”مزید تعریف....اور تعریف سب آپ کو اپنے سر آنکھوں پے بٹھائیںگے۔“لیکن مجھے اپنی کرسی پر بیٹھناہیاچھا لگتا ہے۔”پھر بھی ذرا سوچئے....یہیونیورسٹی ایریا ہے....اسٹوڈنٹس آپ کیکس قدر عزت کرے گے۔ہو سکتا ہے بلکہ مجھےتو یقین ہے کہ سالانہ کانووکیشن ڈےپرآپ کو خاص مدعو کیاجائے گااور آپ تقریر بھی کرے گے...ایسا دن آپ کی زندگی میںدوبارہ کبھی نہیں آسکتا...“”مجھے کانوکیشن میں جانے سے کوئی دلچسپی نہیں...“”جبآپ جائے گے تب آپ کو یہ بہت دلچسپ لگےگا۔“وہ کاونٹر پر بائیں ہاتھ کی چاروںانگلیوں سے بجانے لگا اور اسے مزید دلچسپیسے دیکھتا رہا...اس کی نیلی آنکھیں مزیدنیلی ہو گئیں۔”میں نے سنا تھا انگریز بہت رحم دل ہوتے ہیں“”میں پولش ہوں“”مجھےاندازہ تھا لیکن پولش تو دنیابھر میں انسان دوست مشہور ہیں...اخلاقیات کی پاس داری کرنے والے...انسانی خدمت میں سب سے پہلے آنے والے...اور مدد کے لئے کبھی نہ پیچھے ہٹنے والے ..“”تمہاریزبان ہمیشہ ایسے ہی چلتی ہے۔“”نہیں لیکن جو کافی میں نے ابھی آپ کے یہاں سے پی ہے٬اس کے بعد سے کافی زیادہ...آپ مجھے ایک ہفتے کے ٹرائل پرراکھ سکتے ہیں“”اس سے کیا ہو گا؟“میں شرط لگا سکتی ہوں،جب لوگ مجھے ایک مسلم لیڈی کو فل ڈریس میں دیکھیں گے تو وہ اس طرف کھنچے چلے آئیں گے کہ یہ ایک انسان دوست کا کیفے ہے....یہاں کےمالک نے انسانیت کےلئے نام نہاد اصولوں کو توڑدیا۔“”کیا واقعی؟“وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کاونٹر بجانےلگا۔”بلکل....آزما کر دیکھ لیں...“یہ کہتے امرحہ کی نظر اتاری جانی چاہئے تھی۔”ٹھیک ہےکل سے آجانا تمہیں اصل کا ففٹی پرسنٹ ملے گا۔“”مجھے منظور ہے.....ویسے آپ کو یہ اندازہ ہوگا ہی کہ روزانہ اس کیفے میں کتنے لوگ آتے ہیں...؟“امرحہ کی ذہانت بڑھتی جا رہی تھی۔”میں دس سال سے کیفے چلا رہا ہوں،سال میں ایک صرف ایک بار آنے والوں کو پہچان لیتا ہوں“”میرا مطلب کل اگر زیادہ لوگ آئے تو ...“”تو مجھے معلوم ہو جائے گا۔“وہ آنکھوں کو اندر کی طرف لے جا کر مسکرایا.....اور یہ مسکراہٹ اس پہ جم کررہ گئی۔***********جاری ہے۔


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India