اُردو ناول آن لائن

Monday, 25 September 2017

یارم از: سمیرا حمید پارٹ 11


یارم از: سمیرا حمید
پارٹ 11
***********
تمھارا کچھ گم ہو گیا ہے?کاؤنٹرسر نے کاؤنٹر سے اپنا آدھا گنجا سر آگے کر کے مسکرا کر اس سے پوچھا-"نہیں "- "تو مسکراؤبھئی ---تم مانچسٹر میں ہو"- "مانچسٹر میں مسکرانا پڑتا ہے?" " بالکل کیونکہ مانچسٹر مسکرانے پر مجبور کرتا ہے;یہاں اداسی کا کیا کام ہے -یہ تو دنیا بھر کے Swans (راج ہنس)کی جگہ ہے وہ مسکرا دی-"بلیک سوان "اسے بربراہٹ سنائی دی-اور اسک تصویر کھینچ دی گئی-"یہ نہیں ایک اور پلیز"اس نے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے کہا-اس بار وہ مسکرائی اور وائٹ سوان بن گئی کیونکہ وہ دل سے مسکرائی وہ مسکرا ہٹ جو اس نے یہاں آکر سیکھی تھی-کیونکہ اس رونے کی عادت تھی-اسے یہی عادت ڈالی گئی تھی-بات بات پر رونے کی-اسے بات بات پر رلانا سب کا پسندیدہ مشغلہ تھا-اور وہ دل چھوٹا کر کے بیٹھتی تھی کیونکہ اسے دل بڑا کرنا سکھایا ہی نہیں گیا تھا,یہی اسکا ماحو ل تھا جو اسے ملا تھا-اسی ماحول کی وہ عادی تھی اسے نہیں بتایا گیا تھا کہ جس زمین پر رینگا جاتا ہے اسی پر شان سے چلا جا سکتا ہے اوردوڑا بھی-وہ ایسی ہی رینگتی,روتی دھوتی,زندگی گزارتی رہتی اگر وہ یہاں نہ آتی ;کیونکہ اسے کبھی نہی کہا گیا تھا " یو آر اے برڈ مائی ڈیئر فلائی جسٹ فلائی (میری پیاری تم ایک پرندہ ہو----اڑو بس اڑو)اسے تو کہا گیا تھا کہ تو منحوس ہے, بدبخت ہے ,کالی نظر اور کالی زبان والی ہے-مانچسٹر یونیورسٹی کے اندر رو اسے کچھ اور سکھایا جا رہا تھا-"مسکراؤ کے زندگی میں رونے کے لئے کوئی دن نہیں بنا-----" اڑو کے اڑنے کا حق صرف پر والوں کے پاس نہیں ہے-"اور ایسے کھل کر مہکو کہ تم سے بہتر گلستان میں کوئی گل نہیں -" "تم سب کر سکتی ہو ,تمھارے پاس سب ہے ,تمھارے ہاتھ میں سب ہے-ناکامی اور مایوسی کی فضا میں ہمیشہ سانس بھرنا تم پر فرض نہیں "-کارڈ لے کر وہ بہت خوش ہوئی;اس نے کاؤنٹر سر کا شکریہ ادا کیا ,بس اتنی سی تو بات تھی-اسکو سمجھ آگیا تھا کہ اس درسگاہ کو دنیا کی بڑی درسگاہو ں میں کیوں شمار کیا جاتا ہے-اس درسگاہ نے اسے پہلے دن ہی رینگنے سے چلنا سکھا دیا تھا-ذمہ داری,خوداری,آگے بڑھنے کی صلا حیت عطا کر دی تھی-ہاتھ میں کارڈ لے کر وہ اپنی مسکارا پھیلی سیاہی سے اٹی آنکھوں کو دیکھنے لگی اور ہنس پڑی----وہ پرجوش تھی کچھ بھی نہیں ہوا تھااگر وہ بدصورت بھی لگ رہی تھی تو----یہاں دماغ والوں کو سلوٹ کیا جاتا تھا;خوبصورت چہروں کو نہیں ----اور دماغ کو کام پر لگانا ایسا مشکل کام بھی نہیں تھا سب آسان تھا---سب---کچھ دور بھی نہیں تھا ,سب پاس تھادونوں ہاتھوں کی دونوں مٹھیوں میں تھا,ڈپارٹمنٹ سےنکل کر وہ باہر آگئی دن روشن تھاار ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ,اسکے بال نرمی سے لہرانےلگے-اس نے اپنے بیگ کا اسٹرپ لمبا کیا اود اسے دوسرے سٹوڈنٹس کی طرح کراس کر کے پہن لیا(دائیں سے بائیں طرف) اور اعتماد سے چلنے لگی-"امرحہ واحد"گولڈ میڈل لینے کےلئےدوڑ میں پوری جان سے شامل ہو چکی تھی-تماشائیوں کی خالی نشستوں پر اسےکسی صورت نہیں بیٹھنا تھا-اسکےنام کی نشست اب کبھی وہاں نہیں ہوگی-%%%%%%آکسفورڈ روڈ پر وہ سیدھی چلتی جا رہی تھی-صبح اس نے وہ منا سا ناشتہ کیا تھااب اسےبھوک لگی تھی لیکن وہ کھانا کھانے نہیں جا رہی تھی نوکری کی تلاش کے لئے جا رہی تھی-یونیورسٹی کےاندر کی طرح باہر بھی سٹوڈنٹس کی رونق لگی تھی-کچھ ذرا آگے زرا آگے سڑک اس پار اسے چرچ نظر آیا-اسکا دل چاہا کے اندر جا کے چر چ کو دیکھےپھر وہ اپنی ہی سائیڈ پر چلتی رہی اب دو سال یہں رہنا تھا تو وہ سب دیکھ لے گی-اگر نوکری کا انتظام نہ ہوا توایک ماہ بعد ہی واپس جانا پڑے گا-سڑک ختم ہوگئی لیکن اسے کوئی جگہ ایسی نظر نہ آئیجہاں وہ نوکری کی بات کر سکتی---سڑک کے سامنے دوسری طرف اسے عبدالہادی ِحلال فوڈ کی دکان نظر آئی-سڑک پار کر کے وہ اس دکان میں آئی-بلاشبہ اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں,بھلے سے کانپتی رہتیں اس نے اندر جا کر اس نے کاؤنٹر بوائے سے بات کی اس نے سلیقے سے اسے بتایا کہ فی الحال اسے وہاں نوکری نہیں دی جا سکتی-"کیا کچھ دن بعد دی جا سکتی ہے ,دو ہفتوں بعد---"
”نہیں ..... شاید ایک سال بعد جب میں یہاں سے چھوڑدوں گا۔“وہ اگلے اسٹور”پک اینڈ کلک “میں گئی۔وہ کمپیوڑ اسٹور تھاور وہ کمپیوٹر رپئرنگ کے بارےمیں یقیناً نہیں جانتی تھی اور ظاہر ہے اسے نوکری نہیں دی گئی٬جبکہ اسی اسٹور پر دوسری لڑکیاں کمپیوٹر رپئرنگ کا کام کررہی تھیں۔ان ہی اسٹورز اور دوکانوں کے عین سامنے سڑک پار کرکے مشہور برگراور پزا کے چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ کھلے تھے وہ وہاں بھی گئی اور زیادہ خود اعتمادی سے گئی ۔اب اس کے صرف دل کی دھڑکن تیز تھی .....لیکن شام تک نہ اس کی دل کی دھڑکن تیز رہی نہ ٹانگوں میں کپکپاہٹ،صرف زبان میں تیزی رہی جو ہرریسٹورنٹ،دوکان،اسٹور میں جاتے ہی تیزی سے چلنے لگتی.....وہ تھک گئی تھی لیکن رکی نہیں.....اسےبھوک بھی لگی تھی لیکن پیسے بچانے کے لئے اس نے باہرسے کچھ بھی لے کر نہیں کھایا....اور اس سے بھی بڑھ کر اس نے یہ کام کیا کہ اس نے سائیکل چلانے والی ایک لڑکی سے لفٹ مانگی اس نے کاغذ پہ لکھے ہوئے پتے کو لڑکی کے آگے کیا۔
”میں تمہیں مین روڈ تک لے جا سکتی ہوں.....آگے تم پیدل چلی جانا۔“اس نے کہا ۔اب سائیکل پر بیٹھتے اسے قطعا ً ہنسی نہیں آ رہی تھی۔اس کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے بل پڑ ہے تھے لیکن اسےرونا نہیں آ رہا تھا وہ اُدس اور غم زدہ بھی نہیں تھی۔وہ خود کو بے چاری بھی محسوس نہیں کر رہی تھی۔صبح ان ہی کھلی روشن،قدیم عمارات سے گزارتے ہوئےبھی وہ امرحہ واجد ہی تھی اور ان ہی سڑکوں سے پھرسے گزرتے ہوئے بھی وہ امرحہ واجد ہی رہی .......تبدیلی ظاہر میں نہیں باطن میں آئی تھی ....اور کافی سے زیادہ آچکی تھی....کافی سے زیادہ آنے والی تھی۔گھر آئی تو اس کا لنچ کاؤنٹر پر رکھا تھا اور گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔سب اپنے اپنے کام پہ جا چکی تھیں۔اس نے لنچ کو رات کے کھانے کے طور پرکھا لیا اور منہ ہاتھ دھو کر تازہ دم ہو کر سو گئی۔دو گھنٹے بعد وہ اُٹھی تو کتابیں پڑھنے لگی۔رات کو وہ ایک ایک کر کےآتی گئیں اور سوتی گئیں۔لیکن وہ جاگ کر پڑھتی رہی۔
*...........*..........*
اگلے دن صبح اس نے شرلی کے ساتھ جاب کی بات کی کہ اسے کہاں جانا چاہیے اور کہاں نہیں۔شرلی نے اسے دو تین جگہوں کے نام بتائے اور پتے بی سمجھا دیے۔
پہلے وہ یونیورسٹی آئی تاکہ اپنی کلاسز کا معلوم کر سکے .....اس کے لئے یونیورسٹی ایریا میں الگ سے بہت وسیع کیمپ لگایا گیاتھا جہاں ہر ڈیپارٹمنٹ کا کاؤنٹر لگا تھا اور سینئر اسٹوڈنٹس ان کاؤنٹرز پر اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر انجام دے رہے تھے سب گرے پرپل یونیفارم میں ملبوس تھے تاکہ انہیں دور سے ہی پہچان لیا جائے....اس ایریا میں بھی ایسا ہی رش تھا جیسے وہاں ایک مہذب اتوار بازار سجا ہو...آہستگی سے لیکن جلدی جلدی بولنے کی آوازیں تھیں اور ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہو کر شور بن گئی تھیں۔وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنے مطلوبہ کاؤنٹر تک آئی اور بنیادی معلومات لینے لگی۔لیکن ایک مسئلہ تھا جو لڑکی اسے سب سمجھا رہی تھی وہ فرنچ تھی اور اس انگلش اچھی ہو کر بھی امرحہ کہ سر اوپر سے گزر رہی تھی ... اس نے لڑ کی سے ایک دو بار کہا کہ....” برائے مہربانی پھر سے بتائیں اور آہستہ بتائیں میں سمجھ نہیں پا رہی۔“اور لڑکی نے ایسا کیا بھی امرحہ پھر بھی کچھ خاص سمجھ نہ سکی۔
”ڈیرک ! سنو تم ان کی مدد کرو۔“ لڑکی نے خوش اخلاقی سے اپنے ساتھی سے کہا جو ان دونوں سے رخ موڑے کسی دوسرے کا مسئلہ حل کر رہا تھا۔
”جی.... ڈیرک نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
**********
جاری ہے۔

0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India