skip to main |
skip to sidebar

September 25, 2017

message
No comments
یارم از: سمیرا حمیدقسط نمبر 19**************یہ مختلف قوم و نسل سے تعلق رکھنے والے بچےتھے اور سب مہرکو پیارے تھے کرسمس نیا سال وہ مہر کے ساتھ گزارتے۔ان میں سے ایک مسلمان تھا وہ اپنی عید مہرکے گھر آ کر کرتا۔جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے گئے وہ مہر کے پاس رات بھی رکھنے لگے وہ سب نہ صرف اپنے کام خود کرتے بلکہ مہر کے بھی کہی کام کر دیتے۔مہر مہینے کے اس ایک دن اور رات کا انتظار کرتی جب وہ سب اس کے پاس ہوتے یہی بچے بالغ ہوتے ہی اپنے پیروں پہ کھڑے ہوتے مختلف ،شہروں ،ملکوں اور یونیورسٹیوں کی طرف بڑھتے گئے۔کچھ شادی کر چکے تھےکچھ نوکری کرتھے کچھ ابھی بھی پڑھ رہے تھے۔یہ سب دینا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی حالت میں ہوتے مہر کو فون کرنا نہیں بھولتے تھے۔لیڈی مہر ہمہ وقت ان کے فون سنتیں یا انہیں سالگرہ کے تحائف بھیج رہی ہوتیں....ان کی طرف سے بھیجے جانے والے فون میسجز یا کارڈز پڑھتی رہتیں۔مہینے دو مہینے میں کوئی نہ کوئی ان سے ملنے آیا بھی ہوتا جس کی آمد پہ وہ ایسے خوش ہوتی جیسے پاکستانی مائیں اپنے بیٹوں کو سہرا باندھے دیکھ کر ہوتی ہیں۔گاہے بگاہے یہ سب شٹل کاک آتے رہتے تھے۔اسی لیے یہاں چار،پانچ سے زیادہ لوگوں کو پے انگ گیسٹ نہیں رکھا جاتا تھا۔ایک،دو دن رہ کر چلے جاتے۔کوئی ڈاکٹر تھا ،کوئی انجینئر،کوئی اپنا بزنس کر رہا تھا۔کوئی نرس تھی تو کوئی اسٹوڈنٹ،لیکن یہاں آتے ہی وہ سب لیڈی مہر کے بچے بن جاتےتھے ۔ان کےسارےکام خود کرنا پسند کرتے،انہیں کھانا کھلاتے ،منہ دھلواتے،ہفتہ وار چیک اپ کےلیے لےکر جاتے،انہیں مختلف پارکو میں لیے گومتے رہتے اور راتطکو انہیں کہانی سناتے ،لیڈی مہر ان کے لیے مقدس ہستی جیسی تھیں۔ان ہی میں ایک مورگن کیمبرج سے ایم فل کر رہی تھی۔وہ اپنے فرینڈ جوش کو برد کھودے کے لیے شٹل کاک لائی کہ اگر ماما ہاں کہتی ہے تو وہ بھی جوش کو ہاں کہہ دے۔۔”یہ گنجا کبوتر تمہیں واقع پسند ہے...مورگن؟“”اچھا انسان ہے ماما“مورگن مسکرائی”کیا سوویت یونین کے برفیلے پہاڑوں مٰیں کام کرتا رہاہے۔بہت ہی برفیلا ساہے“”اگلے سال جوش کی پی ایچ ڈی کمپلیٹ ہو جا ئے گی۔“***”مورگن ! کسی ہیرو شیروکو پسند کرتی سنا ہے کیمبرج میں بہت سے فلم سٹار پڑھنے آتے ہے۔میرا تو خواب ہی رہا کہ میرے کسی بچے کی کسی فلم سٹار سے شادی ہو ۔“”تو میں جوش کو انکار کر دوں ما ما ؟“”تمہارے انکار سے تو یہ مر مرا جائے گا“انہوں نے بےچارے سے نظر آتے جوش کو دیکھا جو ٹی وی پہ ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہاتھا،سادھنا اور امرحہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی کہ وہ بے چارہ بار بار پہلو بدل رہا تھا۔دراصل دونوں جان بوجھ کر اسے حواس باختہ کر رہی تھیں۔کر رہی تھی. ایویں خوامخواہ کا مشرقی شغل. تھوڑا ڈر تو ہے. مورگن نے ماما کی تائید کی. ٹھیک ہے ہاں کہہ دو پھر اسے. کب کرو گی شادی؟ میں چاہتی ہوں تم بہار کی دلہن بنو.لیکن کرسمس کی چھٹیوں کے علاوہ تم کہاں فارغ ہو گی شادی کے لیے.نہیں آپ کہہ رہی ہیں تو بہار میں ہی کرو گی.نہیں کرسمس ٹھیک ہے ہم کرسٹینا کو بہار کی دلہن بنا دیں گے.آج کل میں یہیں وہ آنے ہی والی ہے ایسے ہی نمونے کو لے کر.امرحہ اور سادھنا نے بلند بانگ قہقہے چھوڑے نمونے کے نام پر. لیڈی مہر نے جوش کو رسٹ واچ دی تو بے چارہ نم نم سا ہو گیا.لیڈی مہر نے مورگن پر ایک خائف سی نظر ڈالی.پھر سوچ لو مورگن مجھے تو لگتا ہے ایک دو بار رونے سے ہی پگھل کر ختم ہو جائے گا.اس بار وہ دونوں اتنا ہنسیں کہ نشست گاہ سے باہر جانا پڑا. جس دن سادھنا کو معلوم ہوا کہ اس کے اکلوتے بیٹے کو ایسی خطرناک بیماری ہو گئی ہے تو دونوں میاں بیوی کئی دن اور راتوں تک روتے رہے. اس کا شوہر ایک کمپنی میں چند ہزار پر ملازم تھا. وہ اتنی بڑی بیماری کا علاج کیسے کروا سکتے تھے.حیدرآباد میں ایک چھوٹا سا گھر ان کا اپنا تھا. لیکن اسے بیچ کر بھی ان کے بیٹےکا علاج نہیں ہو سکتا تھا.کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ گھر کو بیچ کر سادھنا کا شوہر یورپ کی طرف نکل جائے اور وہاں کام کرے انہوں نے گھر بیچ دیا لیکن اس کے شوہر کو ویزا نہ ملا. ویزا ایجنٹ نے ہی بتایا تھا کہ آدمی کی نسبت عورت کو ویزا ملنے کے چانسز زیادہ ہیں تو سادھنا نے ویزا کے لیے اپلائی کیا اور اسے ویزا مل گیا. وہ یہاں ایشیائی گھرانوں میں کام کرتی تھی. پاکستانی،ہندوستانی،سعودی، گھرانوں میں جا کر وہ گھریلو کام کرتی گھریلو کام کے لیے ہر گھر ہفتے میں دو دن اسے بلاتا اور فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے ملتے.**لیڈی مہر کے گھر وہ پہلے کرائے دار تھی.پھر لیڈی مہر نے اس کے حوالے سارا گھر کردیا.وہ لیڈی مہر کو بھی دیکھتی اور گھر کو بھی. دو سالوں میں اس نے کافی کمایا تھا.سنگاپور کے ہسپتال میں آریان کے دو آپریشن ہو چکے تھے.ایک آخری آپریشن ہونا تھا. پھر تین ماہ تک میڈیکل چیک اپ ڈاکٹر پرامید تھے.آریان کے صحت یابی کے لیے اور ڈاکٹر سے زیادہ سادھنا خود تھی.جن گھرانوں میں وہ جاتی تھی وہ سب آریان کے علاج کے لیے الگ پیسے دیتے تھے.لیڈی مہر بھی آپریشن کے لیے ایک بڑی رقم دیتی تھیں.آپ بہت بہادر ہیں.امرحہ کو ساری کہانی معلوم ہوئی اس کی آنکھیں نم ہو گئی. ہاں میں میں بہت بہادر ہوں.اسی لیے اللہ نے میرا انتخاب کیا کہ میں اس مشکل کو آسان کردو. مجھے اپنے منتخب کیے جانے پر خوشی ہے.آپ کا بیٹا بہت بڑا انسان بنے گا.میں اسے بڑا ڑاکٹر بناؤں گی اور اچھا ہی ہوا کہ وہ اس تکلیف سے گزر رہا ہے.اس سے اسے یاد رہے گا کہ تکلیف سے گزرنے والوں کی اس نے کیسے مدد کرنی ہے اور ان سے غفلت نہیں برتنی. قدرت کے ہر اقدام میں ایک گہرا راز ہوتا ہے.میں کچھ سمجھ رہی ہوں اس راز کو کچھ سمجھ جاؤں گی.اگلا آپریشن کب ہے آریان کا؟ چھ ماہ بعد اس سے زیادہ وقت میں بھی ہو سکتا ہے.سادھنا نے اطمینان سے کہا. امرحہ بہت متاثر تھی سادھنا سے. جب وہ پاکستان میں تھی تو خود کو دنیا کی دکھی اور مظلوم ترین لڑکی سمجھتی تھی.وہ رات کو پائن ایپل کی پلیٹ بھر کر کھاتی جاتی اور روتی جاتی. اسے لگتا دنیا میں اس سے زیادہ مشکل اور مصیبت میں کوئی نہیں ہے. اس سے زیادہ گھٹن میں کوئی نہیں رہ رہا۔سب سے زیادہ تکلیفیں اسے ہی ملی ہیں۔مل رہی ہیں۔اگر انسان دنیا میں چل پھر کر دیکھے تو اسے خبر ہو کہ جس دکھ پر وہ ایسے واویلامچاتا ہیں، دہائی دیتا ہیں،وہ تو کوئی دکھ ہی نہیں ۔لوگ تو کیڑے پڑے زخموں کے ساتھ بھی گنگناتے ہیں....مسکراتے ہے اور اصل میں وہی انسان بھی ہیں جو سر کو آسمان کی طرف شکوے کے لیے نہیں شکر کے لیے اٹھاتے ہیں۔***ایک گاہک شو اسٹور میں پچھلے ایک گھنٹے سے گھوم پھر رہاتھا۔لیکن کوئی جوتا اسے پسند نہیں آ رہا تھا۔ہر بار وہ کاؤنٹر کا چکر لگا کر ذرا آگے نکل جاتا اور پھر سے گھوم کر کاؤنٹر تک آ جاتا۔امرحہ گو بہت مصروف تھی۔لیکن اسے دیکھ بھی رہی تھی۔”میں تمہیں یہ بتا دوں کہ یہاں سٹور میں جوتوں کی ٹوئیٹ نہیں ملتی۔“امرحہ اس کے پاس آئی”اچھا ...تم نے انہیں سکھایانہیں ٹوئیٹ لینا اور دینا۔“”تمہیں کیا چاہیے....تمہیں کوئی جوتا پسند نہیں آ رہا؟“”جو جوتا اچھا ہے وہ مہنگا ہے،جو مہنگا نہیں وہ اچھا نہیں ۔“”مجھے نہیں لگتا کہ تم یہاں کسی خریداری کے موڈ میں آئے ہو۔“”ہاں کچھ کچھ ایسا ہی ہیں“”اچھا دیکھو ہمارے اسٹور میں کچھ نقص والے جوتے رکھے ہیں اگر ہم ورکر چاہیں تو انہیں لے سکتے ہیں میں ان سے بات کر لیتی ہوں تم میرے ساتھ آکر اچھے والے لیکن سستے جوتے لے سکتے ہو “”کتنی اچھی ہو تم....لیکن آج نہیں ...شاید کل...“”پھر تم آج کیا کرنے آئے تھے یہاں۔“”آج پتہ نہیں میں کل پتہ کر کے بتاؤ گا۔“گھڑی کودیکھتا وہ چلا گیا جیسے مقصد پورہ ہو گیا ہو شیشے کے اس پار امرحہ نے اسے جاتے دیکھاوہ ”ہاؤ ڈیپ ان لو“کی دھن سیٹی پر بجا رہا تھا اور ایسے چل رہا تھا جیسے کوئی راک سٹار اپنا کامیاب شو کرکے لوٹ رہا ہو کل وہ پھر آگیا لیکن جوتے لے کر پھر بھی نہیں گیا...جب وہ اسے لے کر اسٹور روم میں لے گئی اور اس نے اس کا وہاں کافی وقت لیا تو عین وقت پہ اسے یاد آیا کہ اس کے پاس تواچھی حالت میں دوتین جوڑے جوتوں کے پڑے ہے پھر وہ نئے کیوں لے ”پھر تم یہاں کیوں آئے ہو وہ زچ ہو گئی۔”پتا نہیں بس کبھی کبھی میری یاداشت کام نہیں کرتی ایسی ہی چلی جاتی ہے ۔جب یاداشت گئی میں آگیا اب واپس آئی ہے تو مجھے جانا ہو گا “”پاکستان میں ہم تم جیسے لوگوں کو باؤلا کہتے ہے۔“”باول....آ.....؟”ہاں باول....آ چلو جاؤ اب ....کتنا وقت ضائع کیا میرا۔“جاتے جاتء وہ پھر رک سا گیا ۔میرا خیال ہے اگر میں ایک جوڑا لے ہی لو تو قومی اسمبلی میں یقینا اسے زیر بحث نہیں لایا جائے گا وہ پھر سے جوتے پہن پہن کر دیکھتا رہا ۔ویسے مجھے یہ خیال بھی آ رہا ہے کہ ایک اسٹوڈنٹ کو اتنا شاہ خرچ نہیں ہونا چاہیے....او ہاں مجھے یاد آیا...میں نے سناہے ایشیا میں لوگوں کے پاس اتنے کپڑے اور جوتے ہوتے ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے اور جوتے دنیا بھر کے انسانوں میں تقسیم کرنے لگے تو ہر ایک کو دو،دوجوتے اور کپڑے مل جائیں ...کیاتمہارے پاس بھی اتنے ہی ہے وہ گڑ بڑاگئی“پتا نہیں یعنی اتنے ہی ہے ہر وقت تم لوگ کپڑوں اور جوتوں کے بارے میں ہی سوچتے رہتےہو اور پھر اصل باتوں پر سوچنے کے لیے دماغ میں اور جگہ ہی نہیں رہتی۔”میرے دماغ میں بھی اور جگہ نہیں رہی،تمہاری اوٹ پٹانگ باتیں سن سن کر...“کندھے اچکا کر وہ چلا گیا...باہر بارش ہورہی تھی اور سڑک کوپار کرتے فٹ پاتھ پر چلتے اس نے کم سے کم پانچ بار مڑ کرشیشے کے اس پار کاؤنٹر پر سر جھکائے کمپیوٹر میں بلز کی انٹری کرتے امرحہ کودیکھا ۔اس بار اس نے سیٹی کی دھن بدل ڈالی۔وہ ایک مشرقی دھن بجا رہا تھا ۔*********ڈیرک آرٹ کا اسٹوڈنٹ تھا اور اس نےایک مقامی چینل کے لیے ایک ڈاکومنٹری بنائی اورڈبنگ کے لیے امرحہ کو بلایا۔امرحہ جانتی تھی ،وہ اب تک شرمندہ ہے۔اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کی مدد کرتا ہے...دو منٹ کی ڈبنگ کے اسے اچھے خاصے پیسے مل گئے تھے اور کافی سے زیادہ معلومات بھی صرف ایک کیمرے کے ساتھ ڈیرک نے وہ ڈاکومنڑی بنا لی تھی اور اچھے خاصے پیسے بنالیے تھے۔ڈیرک نے اسے اپنی پہلی سے بنائی گئ دوسری ڈاکومنٹریزبھی دکھائیں۔ اسے وہ سب اچھی لگیں ،حاص کر ڈیرک کی کوشش اچھی لگی۔ چند دن سوچنے کے بعد اس نےڈیرک سےمشورہ کیا۔وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں ایڈمیشن سے متعلق ایک تفصیلی ڈاکومنڑی بنوانا چاہتی تھی۔تاکہ پاکستانی اسٹوڈنٹس کو اچھی طرح سے اپ ڈیٹ رکھا جائے۔ڈیرک نے اسے بتایا کہ ڈاکومنڑی کے لیے بھی اسکرپٹ لکھا جاتا ہے۔پہلے وہ اسکرپٹ لکھے ۔اس نے اپنے لکھے اسکرپٹ اسے دے دیے۔تاکہ وہ ان سے سیکھ لے۔انہیں کئی دن پڑھنے کے بعد اس نے پانچ منٹ کا اسکرپٹ لکھ لیا۔ڈیرک نے کچھ بنیادی تبدیلیاں کیں اور انہوں نے ایڈمیشن سے متعلق ایک جامع ویڈیو بنا لی....ڈیرک نے اس کی انگلش میں ڈبنگ کی اور امرحہ نے اردو میں.....ویڈیو اس نے پاکستان کے چند ٹی وی چینلز کو بھیج دی اور جواب کا انتظار کرنے لگی ۔تھوڑا وقت لگا اور جواب آگیا۔وہ ویڈیو خریدنے کے لیے تیار تھے۔ پر وہ بہت کم پیسے دے رہے تھے۔اس نے سوچاکہ اسے کم پیسوں پر ہی دے دینی چاہی،لیکن ڈیرک نے روک دیا۔”کبھی فیصلوں میں اتنی جلدی نہیں کرتے ۔جلد بازی ایک بڑے نقصان کا باعث بے شک نہ بنے۔لیکن بڑے فائدے سے ضرور محروم کر دیتی ہے۔میری پہلی ڈاکومنڑی ایک سال میرے پاس پڑی رہی تھی ۔کوئی خریدنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ٹرائل کے لیے میں نے پھر اسے ایک جرنلسٹ کو دے دیا۔اس نے اپنے بلاگ پر پوسٹ کر دی۔بس پھر مت پوچھو...جن چینلز نے انکار کیا تھا وہ اس کے رائٹس لینے کے لیے تڑپنے لگے ،یہاں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک جنہیں اچھی چیز چاہئے....دوسرے جنہیں اچھی بکنے والی چیز چاہئے،جو انہیں فائدہ دے.....تمہیں ایک انکار ہوا ہے۔تم دوسرے کے پاس جاؤ“ڈیرک نے ہی اس کے ساتھ مل کر تھوڑی بہت ریسرچ کی اور اب کی بار انہوں نے ان پاکستانی کمپنیز کو ویڈیو بھیجی جو اسٹوڈنٹ ویزا کا کام کرتے تھے۔انہیں ایک دوسرے درجے کی ویزا کمپنی نے ہاں کہہ دی اور نسبتاً اچھی رقم آفر کی۔امرحہ نے ہاں کہہ دی....یہ ہاں اچھی رہی ...کیونکہ اسی کمپنی نے چند اور ایک ،ایک ..دو،دو منٹ کی ویڈیوز کے لیے امرحہ سے بات کی۔انہیں مانچسٹر یونیورسٹی کے چند دوسرے ڈپارٹمنٹس کی تفصیلات چاہیے تھیں۔جووہ اپنے اسٹوڈنٹس کو دیکھا سکتے۔امرحہ اور ڈیرک نے وہ بھی بنا کر بھیج دیں۔امرحہ کو اچھا خاصہ فائدہ ہواتھا۔اسے یقین تھا کہ اگر یہی رفتار رہی تو وہ بہت جلد اپنا تھرٹی پرسنٹ کا قرض دائم کے ہاتھ میں تھما دے گی۔**اس کی کفایت کا گراف اونچا ہوتا جارہا تھا اور فضول خرچی کا نا ہونے کے برابر....سردیاں آچکی تھیں،تو اس نے اپنےلیے صرف گرم کوٹ لیےتھے۔جو وہ پاکستان سے لائی تھی۔وہ یہاں بے کار تھے۔یہاں کی سردی اس کی سوچ سے بڑ کر تھی۔رات گئے ایک دن دادا جی کا فون آیا۔اسے وہ کافی پریشان لگے ۔”پریشان نہ ہوتا امرحہ....دھیان سے سنو تمہارے باباہسپتال میں.....میں....پوری اعظم مارکیٹ میں آگ لگی تھی....بس واجد خود کو سنبھال نہ سکا“”کیاہوا دادا؟“وہ چلا اٹھی۔”وہ ٹھیک ہے....سینے میں درد ہوا تھا اس کے“”میری بات کروائیں۔“”ابھی وہ ہوش میں نہیٍں ہے تم دعا کرو....“وہ کمرے سے نکل کر باہر کا دروازہ کھول کر آسمان تلے آگئی...اس کا دم گھٹنے لگا۔ایسے جیسے دنیا کی ہر چیز اسے دباؤ سے مار ڈالے گی۔سادھنا اس کے پیچھے آئی۔”پاکستان میں سب ٹھیک ہے امرحہ....؟“”میرے بابا ہسپتال میں ہیں....“اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔”وہ ٹھیک ہو جائے گے۔“وہ منہ اٹھا کر سادھنا کو دیکھنے لگی۔”تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو....دو دن پہلے تم مجھے کہہ رہی تھیں تم شیر جوان ہو۔“”میرے اندر گھبراہٹ بڑھ رہی ہے۔میرا دل پھٹا جا رہا ہے۔“”یہ گھبراہٹ نہیں مایوسی ہے....جب انسان مایوس ہوتا ہے اس کے اندر ایسے ہی ابال اٹھتے ہیں۔اسے بے چین کر دیتے ہیں....یہ مایوسی ہی ہے...ورنہ تم ایسے نکل کر باہر کو نہ بھاگتیں....اپنی عبادات کرتیں...پہلا کام رونےکا نہ کرتیں، دعا کا کرتیں۔خود کو سنبھالو....اپنے گھر والوں کا حال احوال لو.....“وہ سادھنا کی طرف دنگ سے دیکھتی رہ گئی اور اندر کی طرف لپکی...فون کیا اور دادی،اماں سب کو جی جان لگا کرتسلی دی۔”گھبرائیں نہیں وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔“اس کا اندز مضبوط تھا۔”اگر انہیں کچھ ہو گیا تو...؟“اماں روتی جاتی تھیں۔میرے پاس آپ کے مایوسیوں کے جوابات نہیں ہیں۔“دادا اس کی مختلف ڈاکٹرز سے بات کرواتے رہے۔ٹھیک تین گھنٹے بعد انہیں ہوش آگیا اوردو دن بعد وہ گھر چلے گئے۔دوکان میں موجود بیس پچیس لاکھ کے قالین جل کر راکھ ہو چکے تھے۔ بابا کے سینے میں تکلیف کیوں نہ ہواُٹھتی۔کاروبار کے نام پہ وہ کنگال ہو چکے تھے۔پاکستان میں سب بے حد پریشان تھے کہ اب کیاہو گااور مانچسٹر میں وہ تن دہی سے ان معاملات کا حل نکالنے میں مصروف تھی۔لیکن ہلکان یا پریشان نہیں۔”واجد سود پہ قرضہ لے رہا ہے۔“دادا نے فون پہ بتایا۔”سود پر؟“اسےدھچکا لگا۔”ہاں...میری کوئی بات نہیں سن رہا۔بنا سود کےقرض کہی پہ مل نہیں رہا۔“”سود حرم ہے دادا۔“اسے دکھ ہوا جان کر۔”یاد ہے مجھےاور واجد کو بھی یاد دلایا ہے۔کہتا ہے سود نہیں ہے بس وہ قرض پہ منافع لیں گے“دادا آبدیدہ ہو گئے۔یا وہ گھر بیچے گا یا قرض لے گا۔ورنہ دوکان کیسے چلائے گا”بابا سے کہیے گا قرض نہ لیں ،میں کچھ کرتی ہوں۔“”تم کیا کروگی؟“دادا حیران ہوئے۔کیوں بہت کچھ کر سکتی ہوں میں....جہاں ایک مشکل آتی ہے وہاں دائیں بائیں سو حل آتے ہیں۔میں دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھتی ہوں،حل ضرور کہیں آس پاس ہی ہے۔“اس نے اب تک کی اپنی جمع کی گئی تنخواہ اور ڈاکومنٹریز سے ملنے والے پیسے بابا کےاکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دئے....وہ پاکستانی چندلاکھ تھے۔فی الحال اتنے بھی کافی تھے۔پھر کافی سوچ بچار کے بعد اس نےلیڈی مہر کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا۔انہوں نے خاموشی سے ایک چیک کاٹ دیا۔وہ حیران دیکھتی رہ گئی۔اس کا خیال تھا کہ لیڈی مہر اسے مشورہ دیں گی کہ ایسے کرلو ویسے کر لو لیکن انہوں نے مناسب کاایک چیک اسےلکھ دیا۔”یہ قرض ہے۔“انہوں نے امرحہ کو یاد دلایا۔”جی بلکل......“اس نے سر ہلایا۔”تمہیں معلوم ہے امرحہ ! کہ میں تمہیں اور تم جیسی کہی لڑکیوں کو یہاں مفت بھی رکھ سکتی ہوں لیکن میں ایسا نہیں کرتی....اگر ایسا کیا میں نے تو تمہیں بے کار اور ناکارہ بنا دوں گی....میرا ایک بیٹا اسی شہر میں رہتا ہے اور وہ میرے ساتھ نہیں رہتا۔میں نے اسے کوشش اور مسلسل کوشش کرتے رہنا سکھایا ہے۔میرے اس آرام دہ گھر کے شاہانہ بستروں پہ اسے نیند نہیں آتی۔میں اپنے بچوں کو اس دنیا کے کامیاب ترین انسان بنے دیکھنا چاہتی ہوں اور ایسا انسان بننے کے لیے انہیں ایک شاہانہ نہیں محنت کی زندگی گزارنی پڑے گی۔انہیں زیرہ ہونا پڑے گا،تاکہ وہ زیرو کے آگے اعداد لکھ کر اپنے نمبر بڑھا سکیں۔میرے بابا ایک کسان تھے اسکاٹ لینڈ میں ان کا اپنا فارم ہاؤس تھا وہ کہا کرتے تھے ۔”محلوں میں زندگی گزارنے والے بد قسمت ترین لوگ ہیں،کیونکہ وہ ناکارہ ہیں۔“وہ انے مٹی سے اٹے ہاتھ اٹھا کر اعلان کرتے”خوش قسمت تو ہم ہیں....کیونکہ ہم کار آمد ہیں....زندگی ہم میں سانس لیتی ہیں....زندگی ہم میں دھڑکتی ہے۔“میں یہ رقم تمہیں ویسے بھی دے سکتی ہوں اللہ نے مجھے بہت دیا ہے...لیکن یہ قرض اس لیے ہے تاکہ اسے واپس کرنے کےلیے تم خود کو کار آمد بناؤ....ٹھیک ہے؟“”جی ٹھیک ہے۔“اس نے چیک بھی بابا کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیا۔بابا کا فوراً فون آیا۔”امرحہ....اتنے پیسے....کہاں سے آئے اتنے پیسے؟“”میں نے اپنی لینڈ لیڈی سے بنا سود کے ادھار لیے ہیں....اور کچھ میرے اپنے جمع کیے گئے ہے۔“”تم نے کیسے جمع کیے؟“*************
جاری ہے.
Posted in: Yaaram - ناول یارم
Email This
BlogThis!
Share to Facebook
0 comments:
Post a Comment