اُردو ناول آن لائن

Monday, 25 September 2017

یارم از: سمیرا حمید قسط نمبر 20


یارماز: سمیرا حمیدقسط نمبر 20**************
"تم نے کیسے جمع کیے؟" دادا کے سوا کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ وہاں جاب کرتی ہی. ایک ' دو بار دادا نے بابا سے کہا کہ امرحہ کو پیسے بھیجنے چاہیں' تا کہ وہ اپنی چھوٹی بڑی ضروریات پوری کر سکے تو بابا نے چند ہزار پاکستانی دادا کے حوالے کیے کہ اس سے اس کے تین' چار ماہ آرام سے گزر جائیں گے۔ امرحہ نے وہ پیسے دادا کے پاس ہی رہنے دیے۔"میں جاب کرتی ہوں بابا""جاب۔۔۔ تم کام کرتی ہو وہاں۔۔۔ تم نے تو کبھی پاکستان میں چھوٹی سی بھی جاب نہیں کی۔۔"" نہیں کی۔ غلطی کی۔۔۔ اب کر رہی ہوں اور بہت خوش ہوں۔۔ بابا یہاں سب کرتے ہیں۔"بابا آب دیدہ ہو گئے۔ زندگی میں پہلی بار اس کے لئے۔۔۔" امرحہ..تم کب اتنی سمجھدار ہو گئیں۔ علی اور حماد کو کھیلنے سے فرصت نہیں ہے اور تم نے مجھے وہاں سے لاکھوں بھیج دیے۔ میں نے تو تمہیں وہاں جانے کے لیے ایک روپیہ نہیں دیا تھا"۔"علی اور حماد کو کھیلنے کودنے سے اس لیے فرصت نہیں بابا کہ آپ نے انہیں کھیل کود میں مصروف رکھا ہے۔ ان پر سختی کریں۔ اگر وہ پڑھنا نہیں چاہتے تو انہیں کوئی ہنر سکھائیں۔ ہم خود ہی تو اپنے بچوں کو ایسے آرام و آسائش کی زندگی دیتے ہیں۔ ہم خود ہی تو انہین ناکارہ بنا دیتے ہیں۔"بابا خاموشی سے سنتے رہے۔" تمہارے دادا نے کہا تم وہاں بڑی کلاس میں پڑھ رہی ہو، مجھے یقین آ رہا ہے کہ واقعی تم بڑی کلاس میں پڑھ رہی ہو۔ مجھے بتاوّ مین اور کیا کیا کروں؟بابا کی یہ بات" مجھے بتاوّ مین اور کیا کیا کروں؟" نے اس کے دل کی دھڑکن تیز کر دی۔ خوشی سے اس کا برا حال ہو گیا۔"بابا ۔ ۔ ۔ پہلے تو سب کو کفایت کی عادت ڈالیں۔ فضول خرچی ترک کر دیں۔ علی اور حماد سے کہا کریں کہ صبح جلدی اٹھیں۔ دانیہ سے کہیں کہ وہ ساتھ ساتھ جاب کرے۔ بابا اپنے ذہن پر کوئی دباوّ نہ رکھیں۔ جو نقصان ہو گیا ہمارا اسی میں فائدہ ہو گا۔ ایک چھوٹا نقصان ہمین بڑے نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بس یہی کافی ہے۔آپ بس محنت سے نئے سرے سے اپنا کام کریں اور میری خواہش ہے کہ آپ یتیم خانے کے بچوں کو بلوا کر انہیں دکان میں بٹھا کر کھانا کھلائیں" "میں خود جا کر انہیں لاوّں گا اور کھانا کھلاوّں گا—اور بتاوّ۔۔"وہ آب دیدہ ہو گئ اور بابا سے کہہ نہ سکی کہ یہ والدین ہی ہوتے ہیں، جو اپنی اولاد کو وہ کل پرزے بناتے ہیں جو زندگی کی گاڑی میں شان سے فٹ ہو جاتے ہیں اور گاڑی چھکا چھک دوڑتی چلی جاتی ہے اور اگر والدین ان ہی پرزوں کو کند کر دیں تو زندگی کی گاڑی جام ہو کر بند ہو جاتی ہے اور بہر حال اس کا ذمہ پہلے سربراہ پر آتا ہے' کیونکہ نومولاد اپنے لیے کچھ نہین کر سکتا۔"بس بابا—امنا خیال رکھیں اور کبھی دل چھوٹا مت کیجیے گا""میری دکان پھر سے چل نکلی تو میں تمہیں پیسے بھیجا کروں گا۔""اس کی ضرورت نہیں ہے بابا۔۔۔۔ میرے پاس میری ضرورت کے لیے کافی پیسے ہوتے ہیں۔""تم تھک جاتی ہوگی؟" "بالکل نہیں۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے سب کرنا۔"**کرسمس آنے میں ابھی وقت تھا۔ موسم اس کی سوچ سے زیادہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ یونیورسٹی میں وہ ہر وقت مونگ پھلی کھاتی ہوئی پائی جاتی اور جس تعداد میں اس کی ہائے ہیلو بڑھ چکی تھی یونیورسٹی میں اسی حساب سے جتنی مونگ پھلی منہ میں جاتی تھی، اس سے کہیں زیادہ دوسروں کی ہاتھوں ہیں جاتی تھی۔ اب روز کی کلو دو کلو مونگ پھلی تو وہ نہیں لے سکتی تھی نا۔ اس لیے جہاں ذرا سا سناٹا سا دیکھتی، منہ میں ڈال لیتی۔ ایک دن ایسا کرتے اسے اپنے پیچھے عالیان کا قہقہہ سنائی دیا۔"کتنی چالاک ہو تم' کیسے چھپ چھپ کر کھا رہی ہو۔""نہیں تو۔۔۔" وہ صاف مکر گئی۔امرحہ انگلش لٹریچر کی سٹوڈنٹ تھی اور عالیان بزنس کا۔۔۔ اور امرحہ تو پھر اپنی عادت کے مطابق پوری یونیورسٹی کا ہفتے میں ایک چکر ضرور لگا لیتی۔ ورنہ حصوں میں تو ضرور ہی چکر کو مکمل کرلیتی۔ لیکن عالیان کم ہی کہیں چلتا پھرتا، کھڑا ٹہلتا نظر آتا۔ ہاں کبھی کبھی وہ ایسے ہو جاتا کہ ہر وقت ہر ایک کو نظر آتا اور کبھی ایسے کہ ہر کوئی اس کا پوچھ رہا ہوتا کہ وہ کہاں ہے۔اب وہ پھر ایسے اچانک سے نمودار ہوا تو امرحہ کو اچھا لگا۔ اس نے جیب سے مونگ پھلی نکال کر اسے دی اور ساتھ ساتھ وہ اسے بتا رہی تھی کہ لاہور میں مونگ پھلے کیسے بکتی ہے۔ کیسے اسے گرم کیا جاتا ہے۔کیسے ہیٹر کے پاس بیٹھ کر اسے اڑایا جاتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ بچپن میں وہ مونگ پھلی کے چھلکوں کے ڈھیر کو چپکے چپکے کھنگالا کرتی تھی کہ اس میں سے اسے کوئی مونگ پھلی مل ہی جائے۔عالیان دیر تک ہنستا رہا۔"میں یقین کرتا ہوں۔۔ مجھے یقین ہے' تم نے یہی کیا ہو گا۔"***وہ ہنستا رہا۔ پھر اپنی انگلی کی پور سے اپنی آنکھ کی نمی صاف کی اور اپنے کراس بیگ میں اس سے مونگ پھلی بھروا کر اپنی کلاس لینے چلا گیا اور پھر وہ اسے ایک ایسے وقت نظر آیا کہ اس نی حیرت سے کتاب بند کر دی. رات بارہ بجے سے پہلے کا وقت تھا. وہ اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے ذرا دور گھر کے دوسرے کنارے کی طرف اسے وہ نظر آیا. پہلے اس نے سر کو اٹھا کر جیسے سارے گھر کا بھرپور جائزہ لیا . پھر وو ایک کھڑکی کی طرف بڑھا. امرحہ نے جھٹ اپنے کمرے کی بتی بھجا دی اور کھڑکی سے سر نکال کر اسی دیکھنے لگی. وہ اس کھڑکی سے اچھل اچھل کر اندر جھانک رہا تھا. پھر اس نے یہی کام دوسری کھڑکیوں کی ساتھ کیا. پھر وو کھڑکی کی چوکھٹ پر کھڑا ہو کر پائپ کا سہارا لے کر اوپر کی منزل کے ایک بیڈ روم میں جھانکنے لگاامرحہ کا حیرت سے برا حال تھا. وہ اتنی مشاقی سے یہ سب کر رہا تھا جیسے سپائیڈر مین ہو اور ایک عرصے سے ایسے کرتب کر رہا ہو. پھر وو اس کھڑکی سے زمین پر کود آیا اور ٹہلنے سا لگا. امرحہ نے سر کو ذرا پیچھے کر لیا.اب وہ اسی کھڑکی کی پاس آ رہا تھا. امرحہ نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا. وہ اسی کی کھڑکی کے پیچھے کھڑا تھا. اب وہ کھڑکی بھی بند نہیں کر سکتی تھی. وہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی. اس نے چند منٹ انتظار کیا اور کھڑکی سے پیچھے جھانکنے کے لیے آگے ہوئی اور اس کی چیخ نکل گئی. عالیان ایک دم سے اس کے سامنے آیا. وہ کھڑکی پر چڑھ چکا تھا."امرحہ...!" عالیان نے سرگوشی سی کی.....***جاری ہے.


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India