اُردو ناول آن لائن

Saturday, 23 September 2017

یارم از: سمیرا حمید قسط نمبر 22







یارم از: سمیرا حمیدقسط نمبر 22****************اگلا سارا دن ڈور بیل بجتی رہی. لیڈی مہر کے ان بچوں کی طرف سےدنیا بھر سے تحائف آتے رہے.ان کا وقت فون کالز سنتے ہے گزرا. اور تو اور سب اپنے اپنے گھر ..اپنی اپنی جگہ کیک رکھے بیٹھے تھے اور اسکائپ پر لائیو لیڈی مہر کو سامنے بٹھاۓ کیک کاٹ رہے تھے. ادھر لیڈی مہر کیک کاٹ رہیں تھیں... ہر ایک گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی آن لائن ہو جاتا.. کم سے کم دس کیک کٹے. امرحہ کے عیش تھے. کیک کھا کھا کر وہ تھک چکی تھی. تحائف کا اتنا ڈھیر لگ چکا تھا کہ اسے لیڈی مہر پر رشک آنے لگا تھا. کیسی اولاد ملی تھی انھیں.. جو ان کی نہیں تھی اور ان کی اپنی اولاد سے زیادہ ان کی اپنی تھی... جن میں قوم و نسل ، مذہب و روایت کا فرق تھا. فرق نہیں تھا تو ایک محبّت میں نہیں تھا لیڈی مہر نے انہیں محبّت دی تھی تو وو بھی کنجوس نہیں تھے.رات تک جب آخری تحفہ بھی آ چکا تو ان سب نے آتش دن کے پاس بیٹھ کروو سب تحائف کھولے اتنے بیش قیمت تحائف تھےکو امرحہ کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گیں تھیں. لیڈی مہر ایک تحفے کو کھولتیں،اسے کتنی ہی دیرچھوتی رہتیں ہونٹوں سے لگتیں ور اپنی آنکھوں پر رکھ لیتیں. وو تحائف بلا شبہ بہت قیمتی تھے کیوں کہ انہیں محبت سے خریدا گیا تھا. بے اولاد ہو کر بھی ایک خاتون نے اولاد والوں سےزیادہ خوشی پائی. یہ سب اس لیے ممکن ہوا تھا کہ انہوں نے انسانیت کی معراج کو چھو لیا تھا. انہوں نے رنگ و نسل کو مٹا کر ان سب کو گلے سے لگایا تھا. وہ ایک ایک تو تحفے کو کھولتیں اور اسے بھیجنے والی کے بارے میں انہیں بتاتی جاتیں.*********"دیکھو ذرا مورگن کو.." اتنی مہنگی گھڑی مجھے بھیج دی. مجھے اس کی ضرورت ہے یا اسے.. اب میں کچھ کہوں گی تو ناراض ہو جاۓ گی. ہر سال مجھے پہلے سے مہنگا تحفہ دیتی ہے. پارٹ ٹائم جاب کرتی ہے... جب گھر آیا کرتی تھی تو میرے دائیں کان کے ساتھ اپنا بایاں کان جوڑ کر سویا کرتی تھی اور اگر سوتے میں اس کا سر کھسک جاتا یو اٹھ کر پھر سے میرے کان سے کان ملا کر سو جاتی تھی... جانے اسے کیا خبط تھا. کہتی تھی رات میں خوابوں میں جو کچھ بھی آپ سنتی ہیں..میں بھی وہ سننا چاہتی ہوں ... اور اگلے دن اٹھ کر مجھے بتایا کرتی تھی کہ رہے مجھے آنے والےسارے خواب اس نے بھی سنے ہیں..." ساتھ ساتھ لیڈی مہر اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتی رہیں. یہ باتیں سن کر جان کر امرحہ کو لگ رہا تھا اس نے ملک نہیں بدلا... دنیا ہی بدل لی ہے... کیا دنیا میں لیڈی مہر جیسے لوگ بھی ہیں."یہ ڈینس نے خود بنایا ہے ." انہوں نے لکڑی کے نفیس تختے کو ان سب کے سامنے کیا.. تختے پر ایک تصویر کھدی جس میں ایک عورت کرسی پر بیٹھی ہے اس کے سر پر فرشتوں کا ہالہ چمک رہا ہے اور دس بچے اس فرشتہ صفت خاتون کے سامنے بیٹھے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں.*********" یہ دیکھو کیا بنا ڈالا ڈینس نے مجھے.. آج کل جرمنی میں ہوتا ہے. اپنا بزنس کر رہا ہے اور ایک این جی او بھی چلا رہا ہے ... یہ بارہ سال کا تھا جب ایک رات میرے پاس رہا تھا تو رات کے کسی پہراپنے بستر سے نکل کر میرے بیڈ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا. نجانے کب تک کھڑا رہا. جب اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ یہ میرے پاس کھڑا مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے. کیا مجھ سے زیادہ کوئی عورت اس کرہ زمین پر ایسی خوش قسمت ہو گی جسے اس کی اولاد راتوں کو ایسے اٹھ اٹھ کر محبت سے دیکھتی ہو."**********بوہت دائر تک لیڈی مہر سب کی باتیں کرتی رہیں. پھر امرحہ انہیں ان کے کمرے میں لی آئی. بیڈ سائیڈ ٹیبل پر ایک چھوٹی سی تصویر فریم میں رکھی تھی' وہ پہلے وہاں موجود نہیں تھی. "یہ عالیان نے دی ہے.." لیڈی مہر تصویر کو ہاتھ میں لے کر اسے ہونٹوں سے لگانے لگیں. تصویر ہاتھ سے بنائی گئی تھی جس میں عالیان نے اپنے تخیل کو دکھایا تھا کہ وہ لیڈی مہر کو نوجوان اور خوبصورت کیسے دیکھنا چاہتا ہے."بہت پیار کرتا ہے مجھ سے .." انہوں نے امرحہ کو پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا. انہوں نے اپنے سب بچوں کے بارے میں بتایا تھا. اب وہ اس کے بارے میں کیوں نہ بتاتیں."اٹھارہ سال کا ہونے کے بعد جب یہ ادارے سے نکلا تو میں اسے گھر لی آئی. یہ میرے دوسرے سب بچوں میں سب سے چھوٹا تھا اور بچپن میں بہت رویا کرتا تھا . جب یہ ایک دن اور ایک رات میرے پاس رہ کر جاتا تو مجھے بتایا جاتا کہ وہ واپسی پر بہت ڈسٹرب ہو جاتا ہے' روتا ہے ' رات رات بھر سوتا نہیں کھانا نہیں کھاتا.. پھر میں جا کر اسے مل کر آتی لیکن اسے گھر نہ بلاتی ... پھر یہ بڑا ہو گیا تو میں نے سوچا اب اسے اپنے پاس رکھوں گی.. وہ گھر آ گیا اور بہت خوش تھا بلکہ خوشی سے روتا رہا. کئی کئی گھنٹے وو گھر کی دیواروں کو کمروں کو دیکھتا رہتا ' آتش دان کے قریب بیٹھا اونگھتا رہتا اور پھر رات رات بھر ٹی وی پر ایکشن فلمیں دیکھتا رہتا... میں نے سوچا' نیا نیا گھر کا ماحول ملا ہے شائد اس لیے' لیکن کئی ہفتے گزرگئے اس کے معمولات میں تبدیلی نہ ہوئی دن بھر باہر کھیلتا.. رات کو فلم اور ویڈیو گیمز' میں نے انتظار کیا کہ شاید وہ خود کو بدل لے ...***********وہ بڑا ہو چکا تھا اب اسے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا. زندگی میں آگے بڑھنا چاہئیے تھا لیکن وہ مجھے مایوس کر رہا تھا. ایک دن جب شدید برف باری ہو رہی تھی' میں نے اس کے چند گرم کپڑے ایک بیگ میں رکھے اور اسے چند پاؤنڈز دے کر گھر کے دروزے کے باہر کیا اور اس سے کہا "انسان بن جاؤ تو آ جانا .. اپنے گھر کو میں تمہیں برباد کرنے نہیں دوں گی.""پھر ! امرحہ کو بے تحاشا حیرت ہوئی. لیڈی مہر اتنی سختی سے کم لیتی رہی تھیں پورا ایک سال محھے اس کی کوئی خبر نہیں ملی، یہ تو میں جانتی تھی کہ وہ بہت ضدی ہے غصہ بھی بہت آتا ہے اسے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایسے مجھ سے ناراض ہو جائے گا. مجھے دکھ ہوا کے شاید میں نے اس کے ساتھ زیادہ ہی سختی سے کام لیا لیکن میں کیا کرتی میرے گھر کا آرام و آسائش اسے برباد کر رہا تھا میں اپنے گھر کو آگ لگا سکتی تھی لیکن آلیاں کو ایسے ناکام ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی لیڈی مہر کے بیڈ کے قریب کاؤچ پر بیٹھے امرحہ تھوڑی دیر کو چپ سی ہو گئی... اس کے دونوں بھی لگاتار فیل ہوتے رہتے تھے اسکول اور کالج میں لیکن کبھی انہیں دانٹ کی علاوہ کچھ نہیں کہا گیا تھا بابا ان کا جیب خرچ بند کر دیتے تو اماں چپکے سے انہیں پیسے دیتی رہتیں.ورنہ دادی. آئے دن وہ نئی سے نئی موٹر سائیکل بدلتے دن رات بائیک چلاتے اور رات گے گھر آتے. اور نہیں تو کمپیوٹر یا موبائل کے ساتھ مصروف رہتے اور اماں بابا کے سامنے یہ سب کرتے .. لیکن کبھی انہیں ٹھیک کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تھی. اور تو اور اگر وہ سو رہے ہوتے اور دادا انہیں اٹھانے کی کوشش کرتے کہ بہت سو لیے تو اماں اور دادی دادا سے لڑنے لگتیں کہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے انہیں..بچے ہیں.. سونے دیا جائے."یہ بچے ہیں .. دن کے دو بج رہے ہیں.. کام والوں نے اپنے دن کا آدھا رزق کما لیا ہے. اس عمر میں میں نے اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھا لی تھی." دادا کہتے."وہ وقت اور تھے" اماں برا مان جاتیں. "وہ اچھے وقت تھے . میرے ابا جی مجھے سو جوتے لگتے تھے اگر میری آنکھ اذان فجر کے بعد کھلتی تھی.**********مسجد کے امام صاحب نے بچوں کو جلدی اٹھانے کی عادت ڈالنے کے لیے اذان فجر کی ذمہ داری باری باری سب پر لگائی تھی.سمجھ دار لوگ تھے اس زمانے کے.حکماٹر سے تربیت کرتے تھے. میری اماں تندور پر روٹیاں لگاتی تو میرا باپ مجھے تندورپربیٹھا دیتا، کہتا تجھے بھی پتا چلنا چاہئیے کہ تیری ماں کیسے جھلس کر تیرے لیے روٹی پکا رہی ہے. میرے ابا جی کے نہانے کے بالٹیاں میری ماں مجھ سے بھرواتی، کہتی'تمہارے لیے محنت مشقت کر کے آتا ہے . اس کی دھول مٹی صاف کرنے کی مشقت تم کرو... اگر ہمارے ماں باپ ہمارے چاؤ چونچلے ہی کرتے رهتے تو وقت کی سختی نے ہمیں پیس کر رکھ دیا ہوتا اور ہم چلنے سے پہلے ہی گرنے جیسے ہو جاتے.""بس بس ...." دادی کو ہمیشہ دادا کا لیکچر برا لگتا. دادا کے اس لیکچر کی سمجھ امرحہ کو اب آ رہی تھی. " پھر کیا ہوا..."" امرحہ کو بہت دلچپسی ہو رہی تھی اس قصے میں ."مجھے اتنا تو یقین تھا کہ وہ محفوظ ہو گا لیکن کبھی کبھی مجھے بہت ڈرلگتا. فون بجتا تو میرا دل سہم جاتا... میرے کان ڈور بیل کی آواز پر لگے رهتے لیکن پورا سال بیت گیا. اس کی کوئی خبر نہ ملی. ایک رات میں سو رہی تھی تو کسی نے میرا لحاف اٹھا کر بادام کے چھوٹے سے کیک پر ایک موم بتی جلا کر میرے آگے کیا.. وہ عالیان تھا. وہ کھڑکی کے راستے میرے کمرے میں مجھے سرپرائز دینے آیا تھا...""اور یہ روایت اب تک قائم ہے..""ہاں! لیڈی مہر مسکرانے لگیں. "لیکن اب کچھ ایسے کہ میں اپنا کمرہ بدل لیتی ہوں. وہ ایک ایک کھڑکی پھلانگتا جھانکتا آتا ہے. اس رات اس نے مانچسٹر یونیورسٹی کا سٹیڈنٹ کارڈ میرے آگے رکھا."میں انسان بن چکا ہوں" اس نے فخر سے مجھے بتایا. *********"یونیورسٹی نے اسے اسکالر شپ دیا تھا" لیڈی مہر نے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی.." اس نے مجھے مایوس نہیں کیا تھا. جب میں نے اپنے سب بچوں کو گود لیا تھا' اس وقت میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں بہتر انسان بناؤں گی. مجھے کوئی بھی راستہ اپنانا پڑے دریغ نہیں کروں گی. ایک عورت کی گود میں جب بچہ آتا ہے تو اس پر نبیوں اور ولیوں جتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے . ایک ایسا فرض جس میں غفلت کی گنجائش نہیں ہے. جب ایک انسان کو پرورش کے لیے ... تربیت کے لیے ایک دوسرا انسان دیا جاتا ہے تو جیسے کل انسانیت کی لگامیں اس کے ہاتھ میں دے دی جاتیں ہیں کہ اسے ابلیس بنا دو کہ کل انسانیت کے لیے وبال جان بن جائے یہ وہ بندہ بشر جو اپنے آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں خیر کی روشنی بکھیرتا چلا جاۓ.. سارے انسان خیر ہوتے ہیں امرحہ...بس ان کی پرورش کے جو گہوارے ہوتے ہیں وہ انہیں کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں.یہ سب پھول ہوتے ہیں' بس ہم ہی انہیں توڑ کر مسل کر اپنی مرضی کے کیچڑ میں پھینک دیتے ہیں."***********************جاری ہے.

....



0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India