یارم از:سمیرا حمیدقسط نمبر 5۔****************وہ برطانیہ کے تیسرے مصروف ترین ائیرپورٹ کی اونچی چھت تلے ایڑھی کے بل گھوم گھوم گئی ۔"مانچسٹر میں آگئی ہوں آگ لگانے "اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر چلا کر کہا ۔۔۔ چند لوگوں نے اسے حیرت سے دیکھا ۔۔ بھلے سے دیکھیں اسے پرواہ نہی تھی ۔ ۔ وہ گھیر دار سفید شلوار اورگول دامن قمیض میں ملبوس تھی ۔ اس کا سفید لمبا دوپٹہ مانچسٹر ائر پورٹ کی صفائی کر رہا تھا اور خاص کر ہر آنے جانے والے لے سامان کے ساتھ الجھ رہا تھا ۔۔۔اس نے پھر سے دونوں بازو پھلا کر ایڑھی کے بل گھوم کر کہا ۔میں آگئی ہوں مانچسٹر ۔۔۔۔۔میں اب کبھی نہی رووْ ں کی اور تم مجھے کبھی نہ رلانا ۔۔"خوش بختی کا اگر کوئی نقارہ تھا تو وہ اس وقت امرحہ کا یہی نعرہ تھا ۔ مسرت وشادمانی کا اگر کوئی اشارہ تھا تو وہ یہی ۔۔ایڑھی کے بل گھوم جانا تھا ۔سکون و راحت کے دریا کااگر کوئی کنارہ نہ تھا تو وہ بس ۔۔۔ وہ امرحہ کا وجود سارا تھا ۔وہ اک دم سے آزادی کے شدید احساس میں گھر گئی تھی ۔ یہ احساس بہت خوش آئین تھا کہ وہ ہر دکھ سے دور ہو گئی ھے اور یہاں اسے سب امرحہ کی حیثیت سے جانیں گے اور بس ۔۔۔۔ جہاں صبح ہو گی ۔۔۔ شام اور رات لیکن کوئی آہ نہی ۔۔۔دکھوں کے استعارے چھپ گئے اور خوشیوں کی علامتیں جابجا نظر آنے لگیں ۔برصغیر کے حاکم اے وقت کی سرزمین پر لہراتا اسکا سفید دوپٹہ جہاز کا بادبان بنا اسکی کشتی کو کھلے نیلے پانیوں میں رواں کرنے لگا ۔ایک امریکی ٹین ایجر اپنے چھوٹے سے الیکٹرک گٹار پر یوٹو میوزک بینڈ کا گانا "آرڈنری لو " بجا رہا تھا ۔بنگال کے سحر کو اپنی آنکھوں میں سموئے اور اپنی شرمیلی مسکراہٹ سے اسے پھونکتے بنگالی نو بیاہتا دلہن اپنےمحبوب شوہر کے کان میں سرگوشی کر رہی تھی ۔ بنگال کی شرماہٹ اور آرڈنری لو کی دھن نے اسے نئی دنیا میں آمد پر خوش آمدید کہا ۔ وہ فدا سی ہو گئی اور امریکی ٹین ایجر کے پاس کھڑی ہو کر مسکرا مسکرا کر اسے داد دینے لگی ۔اسے کوئی لینے نہی آیا تھا وہ تین گھنٹے سے انتظار کر رہی تھی لیکن اسے انتظار سے کوئی مسلہ نہی تھا وہ اگلے تین گھنٹے اور انتظار کر سکتی تھی ۔۔ اب اسے کوئی مسلہ نہی تھا بھئی ۔۔۔اسے اپنے نام کا بورڈ دور سے نظر آیا ۔۔لانگ کراس بیگ لٹکائے اک چائنیز مکس کورین لڑکی بھاگتی ہوئی آرہی تھی ۔۔"میں ہو امرحہ " وہ لپک کر اس کورین لڑکی کی طرف لپکی ورنہ جس تیزی سے وہ بھاگ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا اسے ۔۔لینے نہیں بائے بائے کہنے آئی ہے_"اوہ سلام..... سوری مجھے دیر ہوگئی۔۔"" کوئی بات نہیں، چلیں.....؟" امرحہ نے سلام کا جواب دیا کہ اسے اچھا لگا اس نے ہیلو کے بجائے سلام کہا۔۔"دراصل جسے تمہیں لینے آنا تھا اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا آتے ہوئے...... پھر مجھے آنا پڑا....... زیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا_" وہ شرمندہ ہو رہی تھی کہ کوئی اسے وقت پر لینے نہیں آسکا۔۔امرحہ کی شکل بنی پھر اس کی ہنسی نکل گئی۔۔ ہانا آگے آگے چلنے لگی وہ اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ امرحہ کے لیئے اس کا ساتھ دینا مشکل ہو رہا تھا..... دونوں ٹیکسی میں بیٹھ گئیں...... بلڈنگ تک آئیں۔۔ سامان اُوپر لائیں اور فلیٹ کے اندر آگئیں۔۔فلیٹ خالی تھا...... دو کمرے سامنے...... چھوٹا سا لاوُنج اور لاوُنج کے سامنے ہlی اوپن کچن....... امرحہ کی آنکھیں اعزازیہ کھل گئیں..... ایسا صاف ستھرا فلیٹ میرے لیے...... واو۔۔ہانا اسے ایک کمرے میں لے آئی، جہاں دو سنگل بیڈ رکھے تھے اور نہ جانے کیسے جگہ نکال کر فرش پر ایک فولڈنگ میٹریس بچھایا گیا تھا....... جہاں میٹریس بچھا تھا یقیناً وہ ان کے چلنے پھرنے کی چند قدمی جگہ تھی......" یہ آپ کا بستر ہے...." اس نے فرشی بستر کی طرف اشارہ کیا..... اور امرحہ کا منہ بن گیا۔۔ وہ کیوں سوئے نیچے۔۔" برائے مہربانی، اس کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ مت لگائیے گا۔۔" یہ فقرہ اس نے جبراً مسکرا کر لیکن درخواست انداز میں کہا اور کیونکہ ہاف چائنیز تھی تو ذرا جھک کر کہا۔۔جب تک وہ تازہ دم ہوئی ہانا نے اسے کافی اور سینڈوچز بنا دئیے۔۔" یہ میری طرف سے۔۔" چھوٹی سی ٹرے کو آگے کرتے ہوئے اس نے ایسی خوشی سے کہا جیسے اپنے قیمتی خزانے میں سے اسے کچھ عنایت کر رہی ہو...... امرحہ دیکھ کر رہ گئی..... اتنی لمبی فلائٹ کے بعد اسے یہ چھوٹا سا خوان پیش کیا جا رہا تھا....." شاید یہ ابتدائیہ ہو اور اصلی سوپر(کھانا) رات مے ہو۔۔"امرحہ سوچنے لگی اور ساتھ اس نے یہ بھی سوچا کہ اگر کوئی غیر ملکی ان کے گھر آیا ہوتا تو پھر بڑی میز کے ساتھ ایک اور میز لگائی جاتی لوازمات کو رکھنے کے لیے اور یہ ابتدائیہ ہوتا، تفصیلی کھانے کی تو بات ہی تفصیلی ہوتی....." مجھے دیر ہو رہی ہے...... مجھے جانا ہے۔۔" اور جاتے جاتے بھی وہ پھر کہہ گئی۔۔" برائے مہربانی، کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگائیے گا۔۔"لیکن وہ ایک ایک چیز کو ہاتھ لگاتی رہی....... اسٹڈی ٹیبل پر رکھے نئی نئی اشکال کے پرفیومز کو اسپرے کرنے سے اس نے ابتداء کی..... دراصل وہ صرف یہ دیکھ رہی تھی کہ وہ کس قدر اصلی ہیں...... یعنی کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کتنا بھی مہنگا اور ہائی برانڈ کا پرفیوم لے لیا جائے وہ اصل کی کاپی ہی ہوتا ہے اصل نہیں تو یہ کتنا سچ ہے..... سب کے پرفیومز بے دریغ اسپرے کرتے اسے کچھ کچھ حقیقی سچ کا اندازہ ہو رہا تھا کہ پاکستان میں وہ اصل کی کاپی ہی خریدتی رہی ہے...... پورا فلیٹ معطر ہو گیا اور وہ تھک گئی تو اس نے پرفیومز کی جان چھوڑی اور پھر وہیں قریب ہی کچھ میک اپ کا سامان رکھا تھا وہ اسے دیکھنے لگی..... البتہ کتابوں پر اس نے صرف ایک نظر ڈالی کیونکہ ان کے ٹائٹل ہی ایسے ایسے تھے جیسے ساری مصری تاریخ ہی وہاں نت نئے رنگوں سے سجا کر رکھ دی گئی ہو، اور عہد فرعون سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی......پھر وہ واش روم گئی...... ایک ایک آئٹم کو چیک کیا، فیس واش، باڈی واش، لوشنز کو دیکھا...... حتٰی کے باتھ ٹب کے کنارے رکھی چھوٹی چھوٹی بتخوں کو بھی..... پھر وہ کچن میں آئی..... ایک ایک کیبنٹ کو کھول کر دیکھا..... فوڈ آئٹمز کو سونگھا بھی..... دوسرا کمرہ لاک تھا..... لاونج میں رکھا ٹی وی اس نے آن کیا اور پہلے چینل چیک کرتی رہی پھر ایک میوزک چینل لگا کر کچن میں آکر نوڈلز بنانے لگی..... دو عدد نوڈلز کے پیکٹ بنائے..... بڑے پیالے نما باول میں ڈالے..... اور ایڈورڈ مایا کو سنتے سنتے کھا گئی باول کو میز پر ہی رہنت دیا اور ٹی وی بند کر کے سنگل بیڈ پر آ کر سو گئی۔"تیس فیصد ادا کیا تھا انہیں۔۔۔لوئی مزاق تھا"رات کو بارہ کے بعد کا وقت ہو گا جب اسے اٹھایا جا رہا تھا۔"مس پاکستان۔۔۔پلیز اٹھیں" ایک انجانی آواز سے اسکی سماعتیں روشناس ہوئیں، پہلے تو وہ سمجھی کہ خواب ہے سو وہ بدستور سوئی رہی، جب دوبارہ مس پاکستان۔۔۔ مس پاکستان کی آواز آئی تو اسے حیرت ہوئی کہ دادا لڑکی کی آواز میں کیوں بول رہے ہیں اور سیدھے سیدھے امرحہ کیوں نہیں کہہ رہے۔"لیڈی امرحہ۔۔۔پلیز۔۔۔ورنہ میں آپکی ناک پاس یہ سپرے کر دوں گی۔۔۔اینڈ ٹرسٹ می۔۔ اس کی بو دنیا کی گندی ترین بو ہے۔۔۔کئی ہفتوں تک ناک میں گسی رہتی ہے۔ اور کئی ہفتوں تک کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا"امرحہ تو خواب میں دادا کے پاس بیٹھی نہاری کھا رہی تھی۔اسپرے کا ڈھکن کھلا اور دنیا کی گندی ترین بد بو اسکی ناک کے قریب آئی۔۔۔وہ صحیح کہہ رہی تھی وہ کئی ہفتوں خانے والی نہیں تھی۔"دادا" وہ چلا کر اٹھ بیٹھی۔***********جاری ہے
0 comments:
Post a Comment