اُردو ناول آن لائن

Sunday, 24 September 2017

یارم از:سمیرا حمید پارٹ 6


یارم از:سمیرا حمید
پارٹ 6
*************
باول کو میز پر ہی رہنت دیا اور
ٹی وی بند کر کے سنگل بیڈ پر آ کر سو گئی۔
"تیس فیصد ادا کیا تھا انہیں۔۔۔لوئی مزاق تھا"
رات کو بارہ کے بعد کا وقت ہو گا جب اسے اٹھایا جا رہا تھا۔
"مس پاکستان۔۔۔پلیز اٹھیں" ایک انجانی آواز سے اسکی سماعتیں روشناس ہوئیں، پہلے تو وہ سمجھی کہ خواب ہے سو وہ بدستور سوئی رہی، جب دوبارہ مس پاکستان۔۔۔ مس پاکستان کی آواز آئی تو اسے حیرت ہوئی کہ دادا لڑکی کی آواز میں کیوں بول رہے ہیں اور سیدھے سیدھے امرحہ کیوں نہیں کہہ رہے۔
"لیڈی امرحہ۔۔۔پلیز۔۔۔ورنہ میں آپکی ناک پاس یہ سپرے کر دوں گی۔۔۔اینڈ ٹرسٹ می۔۔ اس کی بو دنیا کی گندی ترین بو ہے۔۔۔کئی ہفتوں تک ناک میں گسی رہتی ہے۔ اور کئی ہفتوں تک کچھ کھانے کو دل نہیں چاہتا"
امرحہ تو خواب میں دادا کے پاس بیٹھی نہاری کھا رہی تھی۔
اسپرے کا ڈھکن کھلا اور دنیا کی گندی ترین بد بو اسکی ناک کے قریب آئی۔۔۔وہ صحیح کہہ رہی تھی وہ کئی ہفتوں خانے والی نہیں تھی۔
"دادا" وہ چلا کر اٹھ بیٹھی۔
"ابھی میں نے اسپرے نہیں کیا" اس نے کندھے اچکا کر اسپرے کی بوتل پر ڈھکن رکھا۔
وہ اپنی سرخ بوجھل آنکھوں سے گہری سبز آنکھوں والی کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ اس کی نظر دھندلا رہی تھی۔۔۔اور اسکی آنکھیں نیند کے بوجھ سے بند ہو رہی تھیں اور اسے گہرا سبز رنگ ہر طرف تیرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔ اپنے ہاتھ بھی سبز سبز دکھ رہے تھے
اسپرے کی بوتل کا ڈھکن پھر سے کھلا اور اسکی ناک کے قریب آیا۔۔اسنے خفا سا ہو کر ہاتھ سے پرے کیا۔۔اس با اسکی آنکھیں پوری کھل گئی، اف کیا بلا تھی یہ سپرے، کیا ضرورت تھی اسے ایجاد کرنے کی، کیا اسکے بناء ترقی نہ ہو سکتی مہذب دنیا میں۔۔۔
"کتنا غیر مہذب انداز ہے
امرحہ کی آواز انتہاء کی غیر دوستانہ ہو گئی۔ گہری سبز آنکھیں پھیل گئیں۔ "غیر مہذب" شاید اسنے ہنسنا چاہا لیکن پھر ارادہ ملتوی کر دیا۔
"تم لوگ کتنی بھی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھ لو بنیادی اخلاقی اصول کبھی نہیں سیکھو گے" امرحہ نے اپنی پہلی تقریر کا آغاز مانچسٹر میں آمد کے چوبیس کھنٹے کے اندر اندر کر دیا تھا۔۔۔ دیر قطعا نہیں کی۔۔۔ کیوں کرتی دیر۔۔۔۔اس بار سبز آنکھیں طنز سے اسے دیکھنے لگیں۔ " باہر آ جائیے مس امرحہ" کہہ کر وہ خود باہر چلی گئی۔ امرحی کر لیڈی امرحہ نام اچھا لگا لیکن نا جانے کیوں اسے لگا اسے طنزا لیڈی کہا گیا ہے۔۔ زیادہ سوچنے کی مانچسٹر میں ضرورت نہیں تھی۔۔وہ منہ دھو کہ باہر آ گئی۔۔ اسنے جا بوجھ کے دیر لگائی کہ کرتی رہیں کھانے پہ اسکا انتظار۔۔۔
لیکن باہر لاونج میں کھانے کی مئز سجی تھی نا ہی کھانوں کی اشتہاانگیز خوشبوئیں آ رہی تھیں البتہ ایک نہ دو پورے پانچ کا مجمع باہر بیٹھا تھا اور میز پر باول رکھا تھا جس میں کچھ نوڈلز بچے تھے یہ اتفاق تھا یا انکا اندازتھا وہ مجمع اسے گھور رہا تھا
"بیٹھ جائیے" ایک لڑکی نے کہا جس کی ایشیائی طرز کی بالوں کی گوندھی چوٹی دائیں بائیں ایسے لٹک رہی تھی جیسے کنڈلی مارے بھورا سانپ کھڑکی سے باہر جھول رہا ہو۔۔ امرحہ بیٹھ گئی۔۔شاید کھانے سے پہلے
متعارف ہونا ہوگا..
یہ مس پاکستان ہے..امرحه..ہانا نے کہا.
ہانا کا دوستانه جوش کہاں گیا..امرحه نے ایسے ہی سوچا..
ہیی..میں للی ہو اسکاٹ لینڈ سی..
میں شرلی مآرگوٹ..بھورے بالوں والی نے کہا پر وہ مسکرا نہ سکی...
ام بیٹی لوو میں جرمنی سے ہو..بوہت لمبی اور بوہت پتلی بیٹی لوو نے بے ترھا مسکرا کر کہا..امرحھ دیکھ رہی تھی کے اس کی ہنسی اس کی آمد سے ھی قابو سے بہر ہے
میں عذرا ہو شکاگو سے..لڑکھڑاتی اردو میں آواز ائی.مردانہ ہیئر سٹائل لئے ہوے جس کو وہ صوفیہ کریسٹنا ٹائپ سمجھ رہی تھی وہ عذرا نکلی..یعنی اگر شر لی کی لمبی چوٹی عذرا کے لگا دی جاے تب کہی جا کے وہ تھوڑی سی عذرا عذرا ٹائپ لگے.پر خیر وہ جان جائے گی کے اب جو یہاں ہو گا وہ کم ہو گا اور جو نہیں ہو گا وہ حیران کن ہو گا.
میں نے اپ سے کہا تھا نا کے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا..ہانانے بولنا شروع کیا.
میں صرف واش روم گئی تھی..وہ صاف مکر گئی..
ہانا کا منھ کھل گیا..یہ جھوٹ بول رہی ہے شرلی..
شرلی نے آنکھ سے اشارہ کیا ہانا کو...اور ہانا خاموش ہو گئی..
یہ...شرلی نے میز پے رکھے باول کی طرف اشارہ کیا...
مجھے کیا معلوم اس کے بارے میں...یہ تو پھلے سے ھی یہاں رکھا تھا..شرلی کے صرف یہ ہی کہنے پے وہ ڈر سی گئی..اور اسے افسوس ہوا کے سارے نوڈلز کھا کر باول دھو کے کیوں نهی رکھا..
ابھی عمرحه کو نہیں معلوم تھا کے وہ باول دھو کے رکھ بھی دیتی تو بھی انھیں پتا چل جاتا کے ہانا کے نوڈلز کس نے کھاۓ..
ٹھیک ہے امرحه آپ جا کر سو جاۓ..سوری آپ کو ڈسٹرب کیا..شرلی نے کہا..
اور کھانا..وہ کھڑی ہو کر پوچھنے لگی...
وہ پانچوں پھلے اسے اور پھر آپس میں ایک دسرے کو دیکھنے لگی..بٹی لّو نے گو کے اپنے منہ پے ہاتھ رکھ لیا تھا پر امرحه دیکھ رہی تھی کے وہ اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے...
ابهی آپ کو اور بھوک لگی ہے..عذرا نے پوچھا.
نہیں بھوک تو نہی لگی مگر پھر بھی کھانا تو کھاتے ہے نا..اس سے یہی بات بن سکی..لیکں سچ میں اسے بھوک لگی تھی اور بھوک سیے ذیادہ اس بات کا انتظار تھا کے اس کے لئے کھانے میں کیا بنا ہے..کیا سب انگلش کھانے ہے کے کچھ دیسی بھی..
ہم بنا بھوک کے کہانا نہیں کھاتے لیڈی..شرلی نے کسی قدر متانت سے کہا..
کھلاتے بھی نهی..اس نے اردو میں کہا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا بس عذرا نے اسے گھور کر دیکھا..وہ کمرے میں ائی اور فرشی بستر پر سو گئی..باہر بھنبناہٹ ہوتی رھی..ہوتی رہے تیس فیصد ادا کیا ہے..وہ اطمینان سیے سو گئی..
اگلے دن وہ سو کر اٹھی تو روم کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ کے اس کی چیخ نکل گئی..اتنی صفائی ...اتنی خوبصورتی..
بلڈنگ کے جس راستے وہ اس فلیٹ میں ائی تھی یہ اس کے پیچھے کا منظر تھا..جہاں سر سبز گھاس کا کھلا قطه تھا اور کیاریوں میں جگہ جگہ پھول لگے تھے..قطعے کے پار سڑک تھی جس پر دور دور تک
گرد کے نشان نہ تھا، اور ایسا لگتا تھا دھول مٹی اڑ کر اس خطے تک کبھی آئی ہی نہیں اور اتنی خاموشی جیسے کوئی بنی نوع انسان زمین پر اترا ہی نہیں اور اگر اترا بھی ہے تو وہ خاموشی کو خراج تحسین پیش کرنے میں مشغول ہے۔۔ کمرہ خالی تھا..... سارا فلیٹ ہی خالی تھا..... بیڈ کورز بے شکن تھے، اسٹڈی ٹیبل پر ایک بھی پرفیوم موجود نہیں تھا...... واش روم میں کل رات تک نظر آنے والے سب ہی شیمپوز، فیس واش غائب تھے۔۔ وہ کچن مہیں آئی تو کاونٹر پر ایک چٹ رکھی تھی۔۔
" تمہارا ناشتہ۔۔"
انڈا، جام، چار ڈبل روٹی کے پیس، دودھ اور شوگر ایک پلیٹ میں، کافی کے مگ میں ایک مگ جتنی کافی اور سائیڈ پر رکھا ایک عدد ٹی بیگ.....
باقی چاروں کیبنٹ کو ایک زنجیر سے پرو کر درمیان میں ایک چھوٹا سا تالا لگا دیا تھا..... امرحہ کو ایک معمولی سا جھٹکا لگا یہ سب دیکھ کر..... بس ہہی معمولی سا...... اس کے پاس فون تو تھا لیکن ابھی اس فون سے بات نہیں ہو سکتی تھی رات ہانا نے اس کی بات پاکستان کروا دی تھی...... اب ظاہر ہے، اسے خود ہی فون کرنا ہوگا اگر وہ اس معمولی سے جھٹکے کے بارے میں دادا سے لمبی بات کرنا چاہ ہی رہی تھی تو...... لمبی بات پر لمبا بل بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔۔
دوسری چٹ فریج پر لگی تھی۔۔"نو بجے آکر ڈربی تمہیں لے جائے گی یونیورسٹی تیار رہنا۔
ناشتا کر کے وہ تیار ہو گئی۔۔ٹھیک نو بجے ڈربی نامی چھوٹی سی لڑکی کہ گڑیا کہ لڑکی ہی آئی۔
"میں ڈربی ہوں۔ مجھے شرلی نے کہا ہے کہ تمہیں اپنے ساتھ یونیورسٹی لے جاوں"
"میں امرحہ ہوں۔۔۔میں آج پہلی بار یونیورسٹی جا رہی ہوں"
"یہ تمہیں دیکھ کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے"
وہ مسکرائی اور امرحہ کو اسکی مسکراہٹ بہت اچھی لگی، انفیکٹ امرحہ کو اسکی گھسی ہوئی جینز اور گھسے ہوئے شوز بھی نہت اچھے لگے۔ اور اسکے برسیز والے دانت بھی کیونکہ وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں قدم رکھنے جا رہی تھی۔۔۔ اسے ہر چیز اچھی لگنی تھی نا۔
"آجاو جلدی سے پھر" ڈربی تیزی سے باہر نکلی۔فلیٹ کو لاک کر کے وہ اسکے پیچھے آئی۔ ڈربی ایک منی سی سائیکل کو لئے تیار کھڑی تھی۔
"آ جاو بیٹھ جاو" اسنے منی سی سائیکل کی پچھلی نشست کی طرف اشارہ کیا۔
تو اس پر ڈراپ کرنا تھا اسے۔۔۔اس لئے خاص ڈربی کو بھیجا گیا تھا۔
"کیا ہوا امرحہ۔۔۔۔ آ جاو نا۔۔۔ میں تمہیں گراوں گی نہیں"
"لیکن شاید میں تمہیں گرا دوں" امرحہ اردو میں بڑبڑا کر رہ گئی اور اس منی سی لڑکی کی منی سی سائیکل پر بیٹھ گئی۔ پہلے اپنی شرمندگی چھپاتی رہی،پھر اپنی ہنسی دباتی رہی۔۔۔ سڑکوں پر سے گزرتے اس نے کسی طرف بھی نا دیکھا اور ڈربی کے پیچھے منہ چھپائے وہ اپنی ہنسی کے فواروں کو برسنے سے روکتی رہی اور سفید بادبان کو دریا مانچسٹر پر ہوا کے سنگ کرتی رہی۔۔۔
"دادا۔۔۔۔" اسنے خیالوں میں دادا کو مخاطب کیا " مجھے اتنی ہنسی آ رہی ہے کہ میرا جی چاہتا ہے اس سڑک پر کود جاوں اور پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اتنی زور زور سے ہنسوں کہ سارا مانچسٹر اکٹھا ہو جائے۔ دادا! زندگی کیسے ہمیں چھوٹے معمولی بے کر قسم کے بہانوں پر ہنساتی ہے۔۔۔۔دادا مجھے وقت کے یہ بہانے اچھے لگے جو اس نے میری زندگی میں پرو دیئے"
*******************
جاری ہے


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India