اُردو ناول آن لائن

Wednesday, 27 September 2017

اول =جنت کےپتے تحریر=نمرہ احمد قسط نمبر= 6


اول =جنت کےپتے تحریر=نمرہ احمدقسط نمبر= 6********* اٹھائیس جنوری کواسے اتحاد ائیر لائنزکا ٹکٹ ای میل کردیا گیا جس کا اس کوپرنٹ آؤٹ نکلوانا تھا پھر اسی ٹکٹ پراسے پانچ فروری کواسنبول کےلئے روانہ ہونا تھا... شام میں وہ آرم سے تایا فرقان گھر Evo مانگنے گئ تھی.. اسکا نیٹ کام نہیں کر رہا تھا خدیجہ کا پیغام آیا تھا سبانجی یونیورسٹی نےہاسٹل کاالیکٹرک فارم پر کرنے کے لیے بھیجا ہے ... تایا فرقان لان میں آخبار پڑھ رہے تھے آگئ تایا کی یاد "جی" وہ مسکراتے ہوئے بولی .. فلائٹ کب ہے؟ پانچ فروری کو.. اپنا خیال رکھنا ویسے بیٹیوں کوتنہا اتنی دور بھیجنا نہیں چاہیے سلیمان کا حوصلہ ہے خیر تم ترکی میں اپنے لباس اور اقدار کا خیال رکھنا سرسے دوپٹا نا اتارنا جیسے ارم نہیں اتارتی "جی بہتر" میں زرا ارم سے مل لوں وہ جان چھڑا کر اندر چلی گئ .....کاش وہ بتاسکتی تایا کو کے جومغربی لباس یہاں انکی وجہ سے نہیں پہنتی وہاں ضرور پہنے گی اس نےبہت سی جینز خریدکر اپنے سامان میں رکھ لی تھی اور رہی سرڈھکنے کی بات وہ تو سبانجی میں سختی سےحرام تھا ارم کمرے میں نہیں تھی باتھ روم کادروازا بند تھا اندر سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی وہ بے دلی سے بیڈ پربیٹھ گئ ارم شاور لینے میں بہت دیر لگاتی تھی..... دفتاً سیل فون کی گھنٹی بجی ارم کافون اس کےساتھ ہی تکیے پے رکھا تھا اس نے سیل فون پکر کردیکھا ایک نیاپیغام آرہا تھا اور ساتھ ہی بھیجنے والے کا نام لکھا آرہا تھا "حیاسلمان"...وہ بےیقینی سے فون کی سکرین دیکھ رہی تھی ارم نےکسی کانمبر اس کےنام کے ساتھ محفوظ کررکھا تھا.....حیا نے باتھ روم کابند دروازے کودیکھا اورفون پے ایک دوبٹن دبائے پیغام کھل گیامیں کال کر لوں؟ صبح سےبات نہیں ہوئ اب مزید انتظار نہیں کر سکتا یہ دل اتنا مضبوط نہیں جان... اس نے جلدی سے پیغام کو مٹایااور واپس تکیے پےفون رکھ دیا ... ایک لمحے میں اسےسب سمجھ آگیا تھا.. ارم تایا ابوکی سکارف رکھنے والی لڑکی ایک عددبوائے فرینڈ کی مالک تھی .تب ہی وہ اس رشتے پر خوش نہیں تھی حیا کویاد آیا....وہ مزید وہاں سے بیٹھے نکل آئ اور Evo اس نے تایا فرقان سے مانگ لیا.. حجاب اوڑھنا یانقاب کرنا کردار کی پختگی کی علامت نہیں اس نےبےاختیار سوچا تھا....سبانجی یونیورسٹی اسےاس ہاسٹل کےمتعلق جاننے کے لیے سوال نامہ بھیجا تھا وہ لیپ ٹاپ گودی میں رکھ کے سب سوال پڑھ رہی تھی اور اپنا موڑ بہتر کرنے کے لیے جواب بھیجنے لگی .. کیا آپ اپنی ہم وطن ایکسچینج اسٹوڈنٹ کے ساتھ کمرہ شئیر کرنا چاہیں گی؟ "با لکل بھی نہیں"کیا آپ سموکنگ کرتی ہیں؟"بالکل کرتی ہوں"ڈرنک کرتی ہیں؟"وہ بھی کرتی ہوں"آپ کس قسم کی طبیعت کی مالک ہیں؟"جگڑالواور خونخوار" وہ مسکراہٹ دبائے جواب لکھ رہی تھی.. جب صحفہ ختم ہوا تو اس نے "نیکسٹ" کو دبایا وہ سوچ رہی تھی اگلے صحفے کے جوابات پر کر کے منسوخ کردے گی اس فارم کو اس فارم کا جمع کرانے کا کوئ ارادہ نہیں تھا مگر جب نیکسٹ دبانے پر اگلے صفحے کی بجائے فارم فل کرنے کا شکریہ ..... ہم آپکا روم الاٹ کرتے وقت آپکی دی گئ ترجیحات کا خیال رکھیں گے... لکھا آیا تواس کی مسکراہٹ غائب ہوگئ...لعنت ہو تم سب پر .. فارم سبانجی کوجاچکہ تھا اسکا پہلا ہی تاثر کتنا برا پڑاہوگا وہ جانتی تھی اس کی پیکنگ ابھی مکمل نہیں ہوئ تھی وہ سب سامان دیکھ کر باہر آئ لانج خالی تھا .....حیا نے ٹیلی فون کےسٹینڈ پر سے ڈائری اٹھائ اور سبین پھپھو کا نمبر اور گھر کا پتاوالا صحفہ پھاڑ کر مٹھی میں دبا لیا.....ایک دفع جہاں سکند اسے مل جائے پھر وہ بیتے ماہوسال کاحساب ضرور لے گی وہ واپس آئ اور لیپ ٹاپ دیکھا وہاں ایک نئ ای میل کا نشان سکرین پر جگمگا رہا تھا "نیشنل رسپانس فار سائبرکرائم"اس نے اس میل کودیکھا اور کھولا وہ جیسے جیسے پڑتی گئ اسکی آنکھیں حیرت سے کھلتی گئ .......یہ ای میل سائبر کرائم سیل سے حیا کی اس میل کے جواب میں آئ تھی جو چند روز قبل اس نے بطور شکایت بھیجی تھی اور جس میں اس نے وڈیو کا زکر کیا تھا اب اس کے جواب میں ہیلپ ڈیسک آفیسر نے اس کو باقعدہ کمپلینٹ فارم بھیجا تھاجس کو بھرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنا فون نمبر اور گھر کا پتا بھی لکھنا تھا یہ فارم ایف آی کے مترادف تھا اس لیے تمام تفصیلات ضروری تھی .. اگر سائبر کرائم سیل نےجواب اب دیا تو وہ پرائیویٹ نمبر سے آنے والی کال . وہ میجر احمد کا آفس وہ سب کیا تھا ؟؟؟ کیا اے بےوقوف بنایا گیا کیا واقعی وہ اصلی میجر تھا ؟ مگر پھر وڈیو کو مکمل تور پر انٹرنیٹ سے کی طاقت کیسے آئ.؟ وہ لیپ ٹاپ پر ٹائپ کرنے لگی کے وہ وڈیواب ہٹ چکی ہے وہ اپنی شکایت واپس لے رہی ہے ....اس نے میل لکھ کر سینڈ کر دیا .. پھر وہ سوچنے لگی میجر احمد کا تعلق سائبر کرئم سے نہیں تھا اسے یقین ہوچلا تھا .. *********ائیرپوٹ پر ڈی جے بری طرح رو رہی تھی اس کے والدین اس کے پاس کھڑے تھے اسے تسلی دے رہے تھے حیا نے چپ کروانے کی کوشش کی تھی پھر فاصلے پر کھڑی ہوگئ جیبوں میں ہاتھ ڈال کر.. آج اس نے شلوار کمیض پہنی ہوئ تھی آج بس آخری روز تھا پھر وہ ترکی کھل کے اپنی مرضی کا لباس پہنے گی مرضی سے گھومے گی .....اس وقت رات کے 11 بجے تھے اور انکی فلائٹ صبح 4بجے تھی...کتنا روتی ہو تم خیال رکھنا اس کا سلیمان صاحب کو ڈی جے کے مسلسل رونے پے کوفت ہونے لگی تھی ...اسکے آنسو تب تھمے جب اتحاد ائیرلائن کی وہ پاکستانی آفیسر ان کے پاس آئ اور ان سے مخاطب ہوئ... میڈم آپ اپنے ڈاکومینٹس اور لیپ ٹاپ سوٹ کیس سے نکال کے ہینڈی کیری میں رکھ لیں تاکے سامان گم بھی ہوجائے تو ڈاکومینٹس محفوظ رہیں .. ایویں سامان گم ہو جائے ڈی جے غصہ سے بولی .. میم یہی بہتر ہے کیونکیہ بعض اوقات سامان گم ہو جاتا ہے .. حیا مان بھی جاتی مگر ڈی جے اڑ گئ ... ہر گز نہیں اتنا بھاری ہینڈی کیر نی اٹھانا .. پھر تو ترکی اللہ آپ پر مہربانی کرے وہ غصہ میں کیہ کر چلی گئ... حیا بےاختیار ہنس دی ڈی جے اچھی لگی تھی...فلائٹ میں ان دونو کی نشستیں ایک پی قطار میں ملی کھڑکی کے ساتھ والی حیا کو ملی اور راستے والی ڈی جے کو درمیان والی خالی تھی ....کیا ہی مزہ آجائے اگر درمیان والی سیٹ پے ایک ہینڈسم چارمنگ سا لڑکا آکر .. ڈی جےکے الفاظ ادھورے رہ گئے ایک بھاری بھرکم سے پاکستانی اتمنان سے چلتے ہوئے آئے اور ان دونو کے درمیان بیٹھ گئے .. ..مجے شبیر کہتے ہیں بھاری آواز میں بولا "حیا" نائس ...گڈ " ڈی جے نے میگزین پھیلا کر چہرے پے رکھ لیا ..تھوڑی دیر میں مینیو کارڈز آگئے وہ دونو پھر سے تازہ دم ہوگئ ......مینیو پے کچھ جانے پہچانےنام لکھیے تھے حیا نے ڈی جے طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ٹرکش فوڈ بہت زبردست ہوتا وہ لوگ کھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں میں بتاتا ہوں کیا منگواؤ دونو نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر ہتھیار ڈال دیئے وہ بہت اعتماد سے آڈر لکھواتے گئے مگر جب کھانا آیا حیا کا دل خراب ہونے لگا شبیر بڑے مزے لے لے کر کھانے لگا ڈی جے بھی ایک چمچ لگا کر دوہری ہوگئ .. حیا بھی بد مزہ ہوگئ اتنا پھیکا سالن اس نے آج تک نہیں کھایا تھا انہوں نے چکھ کر برتن پیچھے کر دیے... حیا دوپٹا پیچھے کر کے سوگئ... جاری ہے


0 comments:

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India