اُردو ناول آن لائن

Saturday, 23 September 2017

ناول جنت کے پتے - قسط نمبر 70




ناول جنت کے پتے
تحریر نمره احمد 

قسط نمبر 70

سے کرسی کھینچ کر بیٹھ رہی تھی۔انہوں نے سگریٹ ہٹائی'دھویں کا مرغولہ اڑ کر
 فضا میں تحلیل ہوا۔”میں حیا سلیمان ہوں'اصغر اینڈ سنز کی مینجنگ ڈائریکٹر۔۔۔۔“کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر'ٹانگ پر ٹانگ رکھے کہنیاں ہاتھ پر جما کر ہتھیلیاں ملاۓ بیٹھی'وہ بہت سنجیدگی سے بولی۔نجمی صاحب نے کندھوں کو ذرا سی جنبش دی'یعنی وہ جانتے ہیں'اب آگے بات کرے۔اڈھیر عمر صاحب اس لڑکی کے پیچھے ہاتھ باندھے مٶدب سے آ کھڑے ہوۓ تھے۔ان کے لیے دوسری کرسی موجود نہیں تھی۔نجمی صاحب نے کرسی منگوانے کی ضرورت بھی نہ سمجھی۔”ہماری سائٹ پہ سپلائی آپ نے روک رکھی ہے جس سے ہمارا پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔“”دیکھیں بی بی!میں نےاپنی ڈیمانڈ آپ کے۔۔“”میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی نجمی صاحب!“اس نے ہاتھ اٹھا کر ایک دم بہت سخت لہجے میں انہیں روکا۔اس کی آواز میں کچھ تھا کہ وہ رک گئے۔”چند باتیں ہیں جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔“ان کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بنا تمہید کے وہ کہہ رہی تھی۔”آپ کے پیچھے جو کھڑکی ہے'اس سے جھانک کر دیکھیں تو دائیں جانب'دور کہیں ایک زیرِتعمیر منصوبہ دکھائی دے رہا ہے۔کس چیز کا منصوبہ ہے وہ باقر صاحب؟“ لڑکی نے رک کر پیچھے کھڑے آدمی کو مخاطب کیا 'مگر دیکھ وہ ابھی بھی نجمی صاحب کو رہی تھی۔”اوور ہیڈ ہے میم!“انہوں نے فوراًبتایا۔”بالکل!اوور ہیڈ تعمیر ہو رہا ہے وہاں اور کیا آپ جانتے ہیں کی اس میں سینڈ(sand)اور سلٹ(slit) استعمال ہو رہا ہے' اور وہ بھی کس کی جگہ؟crasherمیٹریل کی جگہ!“نفیس سے نقاب سے جھلکتی اس کی بڑی بڑی'سیاہ آنکھیں مسکرائی تھیں۔نجمی صاحب نے سگریٹ والا ہاتھ نیچے کر دیا ان کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ چکے تھے اور وہ پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ تھے۔”آپ اس اوور ہیڈ سے دو میل دائیں چلے جائیں۔تو ایک سکس اسٹار ہوٹل زیرِتعمیر نظر آئے گا'اس کی تکمیل آخری مراحل میں ہے'مگر اس کے مالکان کو یہ علم نہیں ہے کہ اس کی روفنگ(roofing)میں سب اسٹینڈرڈ میٹریل استعمال کیا گیا ہے۔بے حد سستا اور گھٹیا میٹریل۔“اس کی مسکراتی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔نجمی صاحب نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے'مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔”میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔“وہ لب بھینچ کر رہ گئے۔پیشانی پہ بلوں کا اضافہ ہونے لگا۔”ایک روڈ بھی حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس کا بھی ان دونوں پروجیکٹس سے تعلق ہے۔“نگاہیں ان پہ جمائے وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔”جو تعلق ہے'وہ آپ بہتر جانتے ہیں'میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ اس سڑک کے اطراف کو سیمینٹڈ(cemented)نہیں کیا گیا اور اندر ہولز چھوڑ دیے گئے ہیں۔وہ کون سا مسئلہ ہو گا جو سب سے پہلے چند دن میں منظرِ عام پہ آئے گا باقر صاحب؟“نجمی صاحب کو اپنے سانقہ انداز میں دیکھتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی کو مخاطب کیا۔وہ اسی تابعداری سے بولے۔”ڈرین ایج کا مسئلہ میم!“”بالکل ڈرین ایج کا مسئلہ۔مگر سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہو گا؟انسپکشن کا مسئلہ۔چار انسپکشن ٹیمیں ان تینوں پروجیکٹس کو چند روپے رشوت لے کر اپروو کر چکی ہیں' لیکن وہ کیا ہے نجمی صاحب!کہ جو ہمارا میڈیا ہے نا'وہ ذرا سی ریٹنگ کے لیے ایسی خبروں کو خوب اچھالتا ہے اور یوں اس وینڈر کی ساکھ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے' بالخصوص تب جب ان کے ہاتھ ڈاکومنٹس پروف بھی لگ جائے۔۔۔۔باقر صاحب!“اس نے انگلی سے اشارہ کیا تو باقر صاحب نے چند کاغذات میز پہرکھے۔نجمی صاحب ان کو اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھے۔وہ بمشکل ضبط کرتے ہوۓ بولے۔”مجھ پہ ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے۔“”ارے!“اس کی سیاہ آنکھوں میں حیرت ابھری۔”آپ کی بات کس نے کی؟“پھر وہ ذرا سا مسکرائی۔”میں تو اپنی سپلائی کی بات کر رہی تھی۔کل ہفتہ ہے۔میں امید کرتی ہوں کہ سوموار کی صبح مجھے اپنی کنسٹرکشن سائٹ پہ سپلائی کی بحالی کی خبر مل جاۓ گی۔“اپنا پرس اٹھاتے ہوۓ وہ کھڑی ہوئی۔”اور وہ بھی میری پرانی قیمت پہ۔چلیں باقر صاحب!“وہ مزید کچھ کہے بنا پلٹی اڈھیر عمر صاحب نے آگے بڑھا کر دروازہ کھولا۔وہ ان ہی سبک قدموں سے چلتی باہر نکل گئی۔سگریٹ نے نجمی صاحب کی انگلی کو جلایا تو وہ چونکے'پھر غصے سے اسے ایش ٹرے میں پھینکا اور میز پہ رکھے کاغزات اٹھاۓ۔جیسے جیسے وہ انہیں پڑھتے جا رہے تھے' ان کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔”مجھے آپ کو ایک اچھی خبر دینی تھی جنٹلمین!“میٹنگ کے آغاز پہ اس نے مسرور و مطمئن انداز میں انہیں مخاطب کیا جو اپنے سابقہ رویے کو برقراررکھے اس کی طرف متوجہ تھے۔”ابھی ابھی پتا چلا ہے کی وینڈر عارف نجمی نے سپلائی بحال کر دی ہے اور وہ بھی پرانی قیمت پہ۔“”واقعی؟“فرقان تایا حیران ہوۓتو زاہد چچا سیدھے ہو بیٹھے۔”مگر اس نےاس روزفنانس ڈپارٹمنٹ کے رٶف سے خاصی بدتمیزی کی تھی اور وہ سراسر بلیک میلنگ پہ اترا ہوا تھا۔میں نے خود اسے فون کیا تھامگر وہ تو سیدھے منہ بات کرنے کا روادار بھی نہیں تھا۔“”پھر آپ کو بلیک میلرز سے نپٹنے کا فن سیکھ لینا چاہیے سر!کیونکہ میں نے اس سے بات کی ہے اور وہ غیر مشروط طور پہ سپلائی بحال کرنے پہ راضی ہو گیا ہے۔“زاہد چچا خاموش ہو گئے۔ان کے لیے یہ خاصا غیر متوقع تھا۔اگر سلیمان صاحب ان کو آ کر بتاتے کہ انہوں نے وینڈر کو راضی کر لیا ہے ت انہیں حیرانی نہ ہوتی'کیونکہ وہ اس قابل تھے'تب ہی تو اپنے بڑےبھائی سے زیادہ مضبوط شیئر ہولڈر اور ایم ڈی تھے'مگر حیا۔۔۔۔؟یہ بات نگلنا دشوار تھا۔”آپ کو گرین ہاٶس اسکیم کے لیےبجٹ کم پڑ رہا تھا'اس لیے میں نے بجٹ کو ری شیپ کیا ہے۔“وہ اپنے کاغزات آگے پلٹ کر بتانے لگی۔”ہمیں جتنی رقم چاہئے 'وہ ہمارے بجٹ کے اندر پوری ہو سکتی ہے'اگر ہم فالتو لوازمات کو نکال دیں۔“”مطلب؟“تایا فرقان نے انرو اٹھاۓ۔”ہم ہر سال تمام شیئر ہولڈرز کو سالانہ پروفٹ کا ایک منقسم حصہ دیتے ہیں'جبکہ بہت سی کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو وہ حصہ دینے کے بجاۓ اس کو ری انویسٹ کرتی ہیں۔ہم بھی اس دفعہ شئیر ہولڈرز کو وہ حصہ دینے کی بجاۓ اسے اس پروجیکٹ میں لگا دیں گے۔“”مگر اس طرح تو مطلوبہ رقم پوری نہیں ہو گی۔“”ولید!آپ ان کی بات مکمل ہونے دیں۔“سیٹھی صاحب نے پہلی وفعہ ولید کو ٹوکا۔ پہلی دفعہ بورڈ میٹنگ میں اس کی سائیڈ لی گئی تھی۔سب خاموش ہوۓ تو اس نے کہنا شروع کیا۔”ہم اپنے بجٹ کا پندرہ سے بیس فیصد حصہ مارکیٹنگ اور ایڈورٹائرمنٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ہم فی الحال بھی یہی کر رہے ہیں۔ہم مارکیٹنگ کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ہمیں پروجیکٹس ملیں۔“وہ لمحے بھر کو رکی۔لمبی میز کے گرد موجود تمام ایگزیٹوز اب واقعتاً بغوراسے سن رہے تھے۔”مستقبل کے پروجیکٹس جو ابھی ملے نہیں اور جن پہ کام کرنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں'ان کے لیے ہم اپنے حالیہ پروجیکٹ کو قربان نہیں کر سکتے۔میں نے مارکیٹنگ بجٹ کو گھٹا کر پانچ فیصد کر دیا ہے۔یوں ہم بہ آسانی وہ رقم آہستہ آہستہ اس پروجیکٹ میں منتقل کر سکتے ہیں۔کیا کسی کو کائی اعتراض ہے؟“پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوۓ اس نے ذرا مسکرا کر خاموش پڑے کانفرنس روم پہ نگاہ دوڑائی۔ وہ جانتی تھی کہ اب کوئی اس پہ اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔وہ آہستہ آہستہ اپنا انتخاب درست ثابت کر رہی تھی۔آج تایا فرقان کے گھر حیا کے دادا کی برسی کیقرآن خوانی تھی۔خیرات کی دیگیں الگ تھیں۔سب مدعو تھے'سواۓ اس کے۔اس کو جانے خواہش بھی نہیں تھی۔وہ مغرب پڑھ کر لاٶنج میں آئی تو فاطمہ' جہان سے کچھ کہہ رہی تھیں۔اسے آتے دیکھ کر خا موش ہو گئیں۔”اچھا!میں جا رہی ہوں۔“سرسری سا مطلع کع کے باہر نکل گئیں۔پھپھو پہلے ہی جا چکی تھیں۔ ابا کمرے میں سو رہے تھے۔ان کے پاس نرس تھی۔وہ خاموشی سے صوفے پہ آبیٹھی اور ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا۔کنکھیوں سے اس نے لاٶنج کی بڑی کھڑکی کے پار اماں کو لان عبور کرتے دیکھا۔وہ اس سے ناراض نہیں تھیں'بات بھی ٹھیک سے کرتیں'مگر ایسے جیسے کہ انہیں بہت دکھ پہنچایا گیا ہو۔باہر بجلی زور کی چمکی۔پل بھر کو کھڑکیوں کے باہر سارا لان روشن ہو گیا۔پھر اندھیرا چھا گیا۔وہ کچھ سوچتے ہوۓ اس کے سامنےآ بیٹھا۔ حیا نے ٹی وی نہیں چلایا۔وہ ریموٹ پکڑے بیٹھی بس اس کو دیکھ رہی۔وہ کچھ کہنا چاہتا تھا شاید۔


”اماں کیاکہہ رہی تھیں؟“اس نے بظاہر سرسری سے انداز میں پوچھتے ہوۓ بات کا آغاز کیا۔جہان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔نیلی جینز پہ سیاہ شرٹ پہنے'گیلے بالوں کو پیچھے کیے'وہ جیسے کہیں جانے کے لیے تیار لگ رہا تھا۔”وہ چاہتی ہیں کہ میں تمہیں سمجھاٶں کہ تم یہ برقع وغیرہ چھوڑ دو۔“وہ سنجیدگی سے کہنے لگا۔اس کی پشت پہ لاٶنج کی دیوار گیر کھڑکی پہ ٹپ ٹپ قطرے گرنےلگے تھے۔تاریک پڑاآسمان پہلے ہی بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔”تو تم نے کیا کہا؟“وہ اسی طرح مطمئن سے انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی تھی'جیسے وہ اپنے آفس میں بیٹھا کرتی تھی۔”بات تو ٹھیک ہے ان کی۔تم ایک برقعے کے لیے اپنے اتنے رشتے نہیں کھو سکتیں۔“باہر بادل زور سے گرجے تھے۔کھڑکی کے شیشوں پہ تڑاتڑ گرتے قطروں کی اب آوازیں آنے لگی تھیں۔”دوسروں کو چھوڑو'تم اپنی بات کرو جہان۔کیا تم بھی میرے حجاب سے خوش نہیں ہو؟“وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولی تو اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔”اگر میں کہوں کہ میں نہیں ہوں'تب؟اگر میں کہوں کہ تم میرے لیے اسے چھوڑ دو'تب؟“دور کہیں زوردار آواز آئی تھی۔جیسے بجلی گرنے کی ہوتی ہے۔جیسے صدمہ پہنچنے کی ہوتی ہے۔”اگر میں کہوں'ہاں'تب؟“وہ اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتیدیوار گیر کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔اس نے سیاہ لمبی قمیض اور چوڑی دار پہن رکھا تھا۔بال بھی سیدھے کمر پہ گر رہے تھے۔قمیض اور بالوں کے رنگ میں فرق غیر واضح ساتھا۔سیاہی جس کا نہ آغاز تھا نہ اختتام۔”مجھے کبھی کسی نے کہا تھا کہ خندق کی کوئی جنگ بنو قریظہ کے بغیر وجود میں نہیں آئی اور تب میں نے سوچا تھا کہ میرے سارے قرابت دار تو میرے ساتھ ہی ہوں گے۔“وہ بھیگتے شیشے کے پار تاریک لان کو دیکھتی کہہ رہی تھی۔”تیا اب'حجاب کے سب سے بڑے علم بردار'اماں جن کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں اللٰہ کے قریب ہو جاٶں اور میرا شوہر جو روز صبح فجر پڑھنے مسجد جاتا ہے'لیکن آج مجھے پتا چلا کہ عائشے ٹھیک کہتی تھی۔خندق کی جنگ بنو قریظہ کے بغیر وجود میں آہی نہیں سکتی۔“بارش کے ٹپ ٹپ گرتے قطرے شیشے سے لڑھک کر زمین پہ گر ریے تھے جب بجلی چمکتی تو پل بھر کوان میں قوس ِقزح کے ستوں رنگ جھلکتے اور پھر اندھیرا چھا جاتا۔ وہ صوفے سے نہیں اٹھا تھا۔بس گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔”اگر میں لوگوں کے لیے حجاب لیتی ہوتی تو لوگوں
کے کہنے پہ چھوڑ بھی دیتی'لیکن میں اب نہیں چھوڑ سکتی۔“آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر گال پہ پھسلتا گیا۔”کیوں؟میں یہی نہیں سمجھ پا رہا کہ آخر کیوں؟“وہ اس کے پیچھے آکھڑا ہوا تھا۔بادل ابھی بھی گرج رہے تھے۔حیا نے جواب نہیں دیا تھا۔اس نے ایک نظر جہان کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر کونے میں رکھی منی پلانٹ کی سبز بوتل اٹھائی۔ پودے کی بیل جھٹک کر نکال پھینکی اور بوتل کو ہاتھ سے پکڑے ہوۓ دیوار پہ دے مارا۔کانچ ٹوٹا۔ٹکڑے گرتے گئے اور ایک نوک دار بڑاٹکڑا اس کے ہاتھ میں رہ گیا۔”یہ پکڑو۔۔۔“اس نے بوتل کی گردن کاوہ ٹکڑا جہان کی طرف بڑھایا۔”اور جا کر اپنی ماں کی گردن میں اتار دو۔“”حیا!“اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔حیا نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا اور آخری ٹکڑا باقی ماندہ کرچیوں پہ پھینک دیا۔”نہیں کر سکتے نا؟کانپ اٹھا ہے نا دل؟لگتا ہے نا جیسے آسمان پھٹ پڑے گا'اگر تم نے ایسا سوچا بھی؟“اس نے گردن موڑ کر بھیگی آنکھوں سے باہر برستیموسلا دھار بارش کو دیکھا۔”مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔“وہ بولی توباس کی آواز میں آنسوٶں سے بھاری تھی۔”مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے جہان!اللٰہ نے امانت کع آسمان و زمین پہ پیش کیا تھا' مگر دونوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا تھااور اسے انسان نےاٹھا لیا تھا۔تمہاری ماں' ایک انسانی جان تم پہ امانت ہے۔ایسے ہی مجھ پہ میرا وعدہ امانت ہے۔میں نے زندگی میں بس'ایک دفعہ کوئی وعدہ کیا تھااللٰہ تعالیٰ سے۔کوئی مجھے اسے نبھانے کیوں نہیں دیتا؟“بجلی نے اپنی چاندنی پھر سے ہر سو بکھیر دی۔ بس لمحے بھر کی چاندنی اور پھر۔۔۔اندھیری رات چھا گئی۔”مجھے کسی نے کہا تھا کہ دل مارے بغیر نور نہیں ملتا اور میں سوچتی تھی کہ نور کیا ہوتا ہے؟جانتے ہو نور کیا ہوتا ہے؟“آنسوٶں نےگلے میں پھندا ڈال دیاتھا'دم گھوٹنے والا پھندا”نور قرآن ہوتا ہے۔اللٰہ کا حکم جن کو پورے کا پورا لیا جاتا ہے۔ایک حصہ لے کر دوسرے سے انکار نہیں کیا جاتا جہان!میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ اللٰہ کیوں کہتا ہے کہ اگر قرآن کو پہاڑ پہ نازل کرتاتو وہ ٹوٹ جاتا۔ مجھے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔مگر آج آگئی ہے۔“گرم'ابلتے آنسو اس کی ٹھوڑی سے پھسلتے ہوۓ'گردن تک لڑھک رہے تھے۔وہ کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی اور وہ اسے۔”جانتے ہو پہاڑ کیوں ٹوٹتا؟کیونکہ وہ قرآن کو پورے کا پورا لیتا۔۔۔۔۔اور جو شخص قرآنکو پورے کا پورا اپنے دل پ اتارتا ہے نا' اسے ایک بار ٹوٹنا پڑتا ہے۔“ اس نے جلتی آنکھیں بند کیں۔اب ہر طرف اندھیرا تھا۔پل بھر کو بجلی چمکتی بھی تو اسے پروا نہیں تھی۔”لوگوں نے مجھے اس لیے چھوڑا'کیونکہ میں نے اللٰہ کو نہیں چھوڑا۔۔۔تو مجھے واقعی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں چاہیے۔“اس نے آنکھیں کھولیں۔وہ واپس پلٹ رہا تھا۔اس نے دھندلی بصارت سے گردن موڑ کر اس شخص کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھا'جس سے اس نے زندگی کا ایک حصہ محبت کرنےمیں گزارا تھا۔وہ اوپر چلا گیا'مگر حیا اسی سیڑھی کو دیکھتی رہی۔چند منٹ بعد وہ اترتا دکھائی دیا۔اس کا دستی بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔وہ بنا اس کی طرف دیکھے'بنا کچھ کہے'باہر نکل گیا۔اس نے اسے نہیں روکا'آواز تک نہیں دی۔ دے ہی نہیں سکی۔آنسوٶں نے ہر راستہ روک دیا۔وہ جا رہا تھا۔وہ جانےکےلیےہی توآیا تھا........جاری هے


2 comments:

Unknown said...

21 22 23 ................69
Ya episodes nahi mil rahi plz help

Unknown said...

Plz help

Post a Comment

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Hot Sonakshi Sinha, Car Price in India