یارم از: سمیرا حمیدقسط نمبر 24****************
۔ "روس کی طرح ٹھنڈ اور برف کو جانتی ہو کیا"? "ہاں امرحہ نے ساتھ زور زور سے سر بھی۔ہلایا ۔ "کیا"- ٹھنڈ ٹھنڈ ہوتی ہے برف برف ہوتی ہے ۔" کیا جواب دیا تھا اس نے ۔ " ٹھنڈ ٹھنڈ نہیں ہو تی برف برف نہیں ہوتی امرحہ ،موت ہوتی ہے سفید موت ،سردیوں میں پانی پھینکو تو تو وہ وہیں فضا میں ہی جم جائے ۔ تمہارے ملکوں کے لوگ وہیں جاتے ہی مر جاتے ہیں ویسے تمہاری دنیا کے بارے میں معلومات اتنی کم کیوں ہیں ۔"?"میں جانتی ہوں روس کہاں ہے "- "روس میں کیا کیا ہے "یہ جانتی ہو۔ پاکستان میں کیا کیا ہے تم۔یہ جانتی ہو ؟""پاکستان میں کیا کیا نہیں ہے ۔میں یہ بھی جانتی ہوں ۔تم کیا چاہتی ہو میں ضیاء سے بات شروع کروں یا عبداقدیر سے۔کہو تو میں کہوٹہ کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا سکتی ہوں ۔میں تمہارے ان چند شہروں کے نام بھی بتا سکتی ہوں ،جو زیر زمین پٹرول کے دریا رکھتے ہیں لیکن جن کے بارے میں خود پاکستانی نہیں جانتے ۔کیونکہ انہوں نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہيں کی ۔وہ صرف ان۔رپورٹوں کو مانتے ہیں جو ا نہیں نام نہاد غیر ملکی بنا کر دیتے ہیں ۔وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان ان۔ذرخیز وں کو کام میں لا کر ترقی کر ے۔وہ ایسا تب کریں گے جب انہیں یقین ہو جائے گا کہ ان۔ذرخیز وں کے نکلتے ہی انہیں ان کے ٹھیکے مل جائیں گے ۔یا ان پر انکا قبضہ ہو سکے گا ۔ہمارے روس میں میں ایک بات کہی جاتی ہے پاکستانی اس وقت سیلوٹ کیے جانے کے قابل تھے جب وہ ہندوستانی سے پاکستانی بنے۔تھے ۔اور تب جب وہ ایٹمی طاقت بنے تھے اور بس پاکستانیوں نے یہ سیلوٹ دوبارہ نہیں لی۔" **********امرحہ جانتی تھی کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔خود وہ یہ تک نہ جانتی تھی کہ پاکستان کس سن میں ایٹمی طاقت بنا ۔ "تم نے اسکے ساتھ کچھ زیادہ ہی کر دیا ۔"امرحہ کو اسے پرانے موضوع پر واپس لانا ہی پڑا ۔وہ مزید ویرا کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتی تھی ۔اگر ویرا پاکستان کو لے کر اس سے کوئی عام سا سوال پوچھ لیتی اور اسے اسکا جواب بھی نہ آتا تو برا ہوتا ۔ کم سے کم ایک پاکستانی کو تو پاکستان کے بارے میں معلوم ہو نا چاہیے ۔ "زیادہ نہیں بلکہ بالکل ،ٹھیک کیا ٹھنڈے پانی نے اسے کے اندر کے گندے کیڑے کو بھگو بھگو کر کچل ڈالا ہو گا ۔"" تم بہت بہادر ہو ویرا""اگر مجھے ایسے برف میں دبایا نہ جاتا تو میں کبھی ایسی بہادر نہ ہوتی-" ایک لمحے کے لیے امرحہ بالکل خاموش ہو گئی -ایک ویرا تھی نسے بہادر بنایا گیا تھا- ایک امرحہ تھی جسے مسل مسل رلایا گیا تھا-وہ دونوں انسان تھیں ..دونوں لڑکیاں لیکن ان میں سے ایک کئی گنا مضبوط اور ایک قدم آگے تھی اور دوسری کئی گنا کمزور اور بہت پیچھے تھی-دونوں انسان ہی تھیں پھر بھی برابر نہیں تھی۔تو تمہارے فادر تمہاری طاقت ہے؟امرحہ کو اس پر رشک آ رہا تھا.وہ میرے استاد ہیں.انہوں نے اپنی طاقت مجھے نہیں دی بلکہ میرے اندر کی طاقت کو میرے اندر سے بیدار کیا ہے.جب ایک باپ اپنی بیٹی کے اندر اس طاقت کو بیدار کرتا ہے تو زندگی کی ہر بڑے میدان میں فاتح بننے کے لیے اپنی بیٹی کو تیار کر لیتا ہے.اور یہ پاور ایک باپ اپنی بیٹی کو دے سکتا ہے. انہوں نے مجھے سکھایا کہ بزدلی اور بہادری دونوں کا تعلق دماغ سے ہے جسم سے نہیں.اگر وہ دماغ کو نڈر بنا لیا جائے تو جسم ہر گز ڈرپوک نہیں بنتا وہ کہتے ہیں نا کوئی آپ کو انگلی لہرا کر دھمکائے آپ اسے مکا مار کر خاموش کروا دیں.تمہیں کوئی بھی ردعمل میں تقصان پہنچا سکتا ہے.ہاں ایسا تو ہو سکتا ہے تو کیا نقصان کے خوف سے میں بزدل بنی رہوں خاموش رہوں. ایسا میں نہیں کر سکتی ویسے تمہیں تمہارے پاپا نے کیا سکھایا ہے امرحہ؟ ایک گہرا سایہ امرحہ پر سے ہو کر گزرا. بابا رات گئے گھر آتے تھے.انہیں دنیا میں ایک ہی چیز کی فکر رہتی تھی اپنی کارپٹ شاپ کی.وہاں رکھے ہر چھوٹے پڑے کارپٹ کی. بیگمات کے گھر وقت پر ڈلیوری کی.حتی کہ شاپ پر لیوز ہو جانے والے انرجی سیور تک کی بھی.***********یونیفارم میں ایک دن ان کے سامنے اپنی وین کے لیے نکلنے لگی تو انہوں نے پوچھا. کتنے بجے چھٹی ہوتی ہے تمہاری اسکول سے؟ میں اسکول نہیں کالج جاتی ہوں اب کہہ کر وہ وین میں آکر بیٹھ گئی اور بمشکل اپنے رونے پر قابو پا سکی.جس باپ کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اس کی بیٹی اسکول نہیں کالج جارہی ہے. وہ باپ اس کی تکلیفوں کے بارے میں کیا جان سکتا تھا.جس باپ کی بابت ویرا پوچھ رہی وہ اس کے کے لیے دادا بنے تھے.میں بارہ سال کی تھی تو بری طرح سے رو رہی تھی. میرے دادا مجھے بہت بڑے پارک میں لے گئے.وہ سال کے گرم ترین دنوں میں سے ایک تھا.کیا تم گرم ترین دنوں کا مطلب جانتی ہو؟ امرحہ نے رک کر ویرا سے پوچھا.ہاں!اتنا گرم کہ انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے. ویرا سب جانتی تھی.ہاں یہ وہی دن تھے.پارک میں لے جا کر میرے دادا نے مجھے وہ مردہ پرندے دکھائے جو گرمی سے مر چکے تھے.وہ مجھے ایک درخت کے نیچے لے کر بیٹھ گئے اور انہوں نے مجھے پرندوں کو دیکھتے رہنے کے لیے امرحہ کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک چڑیا گرمی کی تاب نہ لا کر مر گئی. میرے دادا مجھے اس کے قریب لے گئے اور مجھ سے پوچھا.امرحہ!مرنے سے پہلے کیا تم نے ان چڑیا کو روتے آہ بکا شکوے کرتے دیکھا.گرمی نے اسے اتنی تکلیف دی کہ اس کی میٹھی چوں چوں بھدی آواز میں بدلی بلکہ بیچاری تو خاموش ہو گئی پھر تو یہ معصوم سی چڑیا انسانوں سے بڑھ کر ہوگئی.دادا نے چند چھوٹے کنکر اٹھا کر پرندوں کو مار دیے وہ خاموشی سے پھر سے اڑنے لگے.انہوں نے اپنی جگہ بدل لی لیکن واویلا نہیں کیا.نہ روئے نہ چلائے.پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ کائنات کی ادنی مخلوق حشرات اور دوسرے جانور کبھی انسان کی طرح آہ بکا نہیں کرتے.انسان کی طرح روتے چلاتے نہیں واویلا نہیں مچاتے.لیکن کائنات کی ارفع و اعلی مخلوق انسان یہ کام بہت شوق سے کہتا ہے ایسے گلا پھاڑتا ہے جیسے کائنات کے رب نے قلم کے دکھوں کے سب ہی پہاڑ اس پر توڑ دیے ہوں.ایک اکیلا وہی اٹھا دیا ہے.وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ دکھ تکلیف اسے کتنا فائدہ دے رہی ہے.اس کی استاد بنی اسے کیا کیا سکھا رہی ہے.بس رونے چلا جاتا ہے. تو تمہارے دادا کے پاس ساری مشرقی حکمت ہے؟ نہیں ان کے پاس صبراور علم ہے تھوڑا سا ....وہ ایک اچھے استاد رہے ہیں اور میں ان کی بری شاگرد.ہم اپنے استاد کو وہاں ناکام کر دیتے ہیں جب ہم ان کی سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں.ہر دن ہر رات وہ مجھے ایسی ہی باتیں سناتے لیکن میں نے تو اپنے وجود کو جیسے پتھر بنا لیا تھا.قطرہ قطرہ سوجھ بوجھ کی کوئی بھی بوند اس پر اثر نہیں کر رہی تھی.اب تم سب کو دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اپنی زندگی کن اندھیروں میں گذارتی رہی ہوں ذرا سی ہمت کرتی تو ان ان اندھیروں سے نکل سکتی تھی.کیا ہوا تمہارے ساتھ ماضی میں؟کچھ بہت برا؟ تم سنو گی تو ہنسو گی.میں ہنسنا چاہتی ہوں. اس نے سنجیدگی سے کہا.لیکن بتاتے بتاتے میں رو پڑوں گی. اس نے بھی سنجیدگی سے ہی جھیل میں بطخیں ایسے سکون سے تیر رہی تھیں جس سکون سے انسان کا واسطہ کم ہی پڑتا ہے۔**********“SKYPE IS GOD SEND” اور کی قائل بھی تھی. دادا ہر دن اس سے بات کر کے اسے دیکھ کر ہی سوتے تھے.اس نے موبائل لے لیا تھا اور چلتے پھرتے ہر اوقات میں دادا سے سے اسکائپ پر بات کر لیا کرتی موبائیل کے ذریعے ہی اس نے دادا کو اپنی کلاس اپنی کلاس فیلوز اور یونیورسٹی دکھائی تھی. کلاس میں سر کے آنے سے پہلے اس کی کلاس فیلوز نے ہاتھ لہرا کر یک زبان ہو کر کہا تھا.ہیلو گرینڈ پا اور گرینڈ پا اتنے خوش ہوئے کہ پھولے نہیں سمائے تھے."بڑے اچھے لوگ ہیں امرحہ!یہ سب تو" وہ بہت خوش ہوئے.ہاں جی! بہت ہی زیادہ اچھے وہ قہقہ لگاتی. اس نے دادا کو آئس لینڈ کی وہ خاتون بھی دکھائی جو دو کم ستر سال کی عمر میں ماسٹرز کر رہی تھی.اور یونیورسٹی کے کافی اسٹوڈنٹ اور اپنی کلاس کے پروفیسر سے یہ درخواست کرتی پائی جاتی کہ ان کو ان کی عمر بلائے طاق رکھ کر انہیں بھی دوسرے اسٹوڈنٹس کی طرح عام اسٹوڈنٹ سمجھا جائے.انہیں کوئی رعایت نہ دی جائے وہ اس وقت بھی برا مان جاتی بھی جب لائبریری میں کوئی ان سے یہ کہتا تھا کہ وہ چھ یا آٹھ کتابیں پر مشتمل سیٹ کو ان کے ہاسٹل روم تک چھوڑ آتا ہے.یونیورسٹی کو ان سے بہت توقعات تھی اور سب کا ماننا تھا کہ وہ ضرور دنیا بھر میں مانچسٹر یونیورسٹی کا نام روشن کریں گی.اور کانووکیشن ڈے پر یقینا دنیا بھر کا میڈیا مسز رودھال کی شاندار کامیابی کو کوریج دینا فرض سمجھے گا.دادا آپ بھی یونیورسٹی آ جائیں یہاں چھوٹا موٹا کورس ہی کر لیں. ***************URDU CORNER OFFICIAL***************اس عمر میں میں کیا کروں گا کورس کر کے.یہی سوال میں نے بھی مسز ریچل سے پوچھا تھا کہ اس عمر میں تاریخ کو کھنگال کر اس میں گھس کر اور پھر اس میں ڈگری لے کر کیا کریں گی تو انہوں نے کہا.عمر کوئی چیز نہیں ہوتی اصل چیز زندگی ہوتی ہے اور میرے وجود میں زندگی ایسے دوڑتی ہے جیسے کسی نومولود بچے کے جسم میں تو جب زندگی کا معنی ایک ہے زندہ رہنا تو میں کسی شاندار مقصد کو لے کر زندہ کیوں نہ رہوں اس سے پہلے میرا مقصد میرے بچوں میرے خاندان کی پرورش اور دیکھ بھال تھا اب میں ان سے فارغ ہوگئی تو میں نے ایک نیا مقصد بنا لیا.اس میں عمر اور نفع نقصان کی تو بات ہی نہیں ہے.یہ تو مقصد پا لینے کی بات ہے جو میں پا رہی ہوں. واوا اسے سالگرہ وش کر رہے تھے ۔جب وہ کچن میں سادھنا کے ساتھ ناشتہ بنا رہی تھی ۔اس نے موبائل سٹینڈ میں موبائیل لگا دیا تھا ۔اور کام۔کرتے ساتھ ان سے باتیں کرتی رہی تھی ۔سادھنا نے سنا تو اسے گلے لگایا اور کیک بنانے کا وعدہ کیا ۔ویرا نے فی الحال ایک سرخ ربن اسکی کلائی پر باندھ دیا ۔اور ایک اپنی کلائی میں کہ یاد رہے کے ایک نے گفٹ لینا ہے اور ایک نے دینا ہے ۔این۔اون۔نے بھی جیسے اپنا علامتی چپ کا روز ہ۔توڑا اور اسے جاپانی گیت گا کر وش کیا ۔نشست گاہ میں کسی چھوٹی بچی کی طرح ہل ہل۔کر گاتی ،وہ ان تین خواتین کو حیران کر رہی۔تھی ۔لیڈی مہر اسے تھوڑی تلے ہاتھ رکھے دیکھتی رہی۔جب وہ گا چکی۔تو لیڈی مہر نے پر زور سر ہلا کر کہا ،"مجھے امید تھی۔کے۔تمہارے اندر ضرور کوئی نہ کوئی کلا موجود ہے ۔رات کو تم مجھے چند ایسے ہی گیت سنانا۔"امرحہ کے ہاتھ پر کس کر کے این نون پھر سے پرانی این اون بن گئی جو سال میں ایک بار مشکل سے کوئی غیر ضروری بات کیا کرتی تھی ۔لیڈی مہر نے رات کے ڈنر کے۔اہتمام کا امرحہ سے وعدہ کیا ۔اور یونیورسٹی میں کوئی رنگ برنگے پھول لئے اسکا انتظار کر رہا تھا ۔وہ اپنی کلاسز لے چکی تھی اور اپنے اپارٹمنٹ لی حدود سے نکلی ہی تھی کہ عالیان ایک دم۔سے اسکے آگے آگیا ۔شاید وہ بھاگتا ھوا آیا تھا ۔"یہ لو وقت تمہیں زندہ رکھے "۔"وقت مجھے زندہ رکھے "وہ ذرا نہ سمجھی۔"تمہاری سالگرہ ہے نہ آج تو تمہیں دعا دے رہا ہوں جسے وقت زندہ رکھتا ہے اسکی عمر ہزاروں سال کئی صدیاں ہوتی ہے ۔**********"وہ مسکرانے لگی "تمہیں کس نے بتایا "?"میں نے خود کو خود ہی بتایا ۔"اسے لگا اسکی تعریف کی گئی ہے ۔"میری سالگرہ کا کس نے بتایا پا گل"-اوہ سادھنا نے اسکا فون۔آیا تھا کیک بنانے کی ترکیب پوچھ رہی تھی ۔"آخر یہ برطانوی لوگوں کو گھر میں بیکنگ کر نے۔ کا کیوں شوق ہے '"? "سادھنا ہندوستانی ہے "اس نے اطاعت گزار بچوں کی طرح اسے کہا کہ۔اسے برا نہ لگے ۔امرحہ نے اسکے لائے گلدستے میں سے جو کسی باغ سے توڑے لگتے تھے سفید ،نیلے ،سرخ پھول چن لیے اور پیلے پھول اسے واپس کر دے ۔وہ سوالیہ اسے دیکھنے لگا۔وہ دونوں اب یونیورسٹی کی محراب کے پیچھے کھڑے تھے ۔سامنے آکسفورڈ روڈ رواں دواں تھی ۔"یہ واپس کیوں کیے ؟"عالیان۔کو برا لگا۔پیلے پھول کسی کو نہیں دیتے یہ نفر ت اور ناپسندیدگی کی علامت ہو تے۔ہیں ۔ہم بہت اچھے دوست نہ سہی ایسے دشمن بھی نہیں کہ میری سالگرہ کے دن۔مجھے ایسے پھول دے جائیں اور۰۰۰۰۰۰۰"۔ "نفرت ناپسندیدگی کی علامت یہ پھول ?وہ بھرپور سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔"ہاں بالکل "وہ بھی مکمّل سنجیدگی سے جواب دے رہی ہیں تھی ۔"تم۔سے کس نے کہا یہ امرحہ"? "کیا مطلب ہے تمہارا کہ کس نے کہا "? یونیورسٹی کی تاریخی محراب کے نیچے ایک نئی کلاس لگی تھی ۔"تم سے کس نے کہا کہ یہ نفرت اور ناپسندیدگی کی علامت ہیں ؟۔" "سب کو معلوم ہے یہ " اس نے کندھے اچکائے جیسے یہ جتا رہی ہو چچ چچ تمہیں اتنی سی بات نہیں معلوم ۔۔۔۔افسوس ۔۔۔ویسے تم بڑے ماسٹر مائنڈ بنے پھرتے ہو ۔"سب کون ?" "اف یہ ساری دنیا سب اور کون " ایک دم سے امرحہ۔کے تاثرات میں غصے اور کوفت کا گراف بڑھنے لگا۔پھر بھر پور دل سے قہقہہ لگایا ۔******************جاری ہے.
۔ "روس کی طرح ٹھنڈ اور برف کو جانتی ہو کیا"? "ہاں امرحہ نے ساتھ زور زور سے سر بھی۔ہلایا ۔ "کیا"- ٹھنڈ ٹھنڈ ہوتی ہے برف برف ہوتی ہے ۔" کیا جواب دیا تھا اس نے ۔ " ٹھنڈ ٹھنڈ نہیں ہو تی برف برف نہیں ہوتی امرحہ ،موت ہوتی ہے سفید موت ،سردیوں میں پانی پھینکو تو تو وہ وہیں فضا میں ہی جم جائے ۔ تمہارے ملکوں کے لوگ وہیں جاتے ہی مر جاتے ہیں ویسے تمہاری دنیا کے بارے میں معلومات اتنی کم کیوں ہیں ۔"?"میں جانتی ہوں روس کہاں ہے "- "روس میں کیا کیا ہے "یہ جانتی ہو۔ پاکستان میں کیا کیا ہے تم۔یہ جانتی ہو ؟""پاکستان میں کیا کیا نہیں ہے ۔میں یہ بھی جانتی ہوں ۔تم کیا چاہتی ہو میں ضیاء سے بات شروع کروں یا عبداقدیر سے۔کہو تو میں کہوٹہ کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا سکتی ہوں ۔میں تمہارے ان چند شہروں کے نام بھی بتا سکتی ہوں ،جو زیر زمین پٹرول کے دریا رکھتے ہیں لیکن جن کے بارے میں خود پاکستانی نہیں جانتے ۔کیونکہ انہوں نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہيں کی ۔وہ صرف ان۔رپورٹوں کو مانتے ہیں جو ا نہیں نام نہاد غیر ملکی بنا کر دیتے ہیں ۔وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان ان۔ذرخیز وں کو کام میں لا کر ترقی کر ے۔وہ ایسا تب کریں گے جب انہیں یقین ہو جائے گا کہ ان۔ذرخیز وں کے نکلتے ہی انہیں ان کے ٹھیکے مل جائیں گے ۔یا ان پر انکا قبضہ ہو سکے گا ۔ہمارے روس میں میں ایک بات کہی جاتی ہے پاکستانی اس وقت سیلوٹ کیے جانے کے قابل تھے جب وہ ہندوستانی سے پاکستانی بنے۔تھے ۔اور تب جب وہ ایٹمی طاقت بنے تھے اور بس پاکستانیوں نے یہ سیلوٹ دوبارہ نہیں لی۔" **********امرحہ جانتی تھی کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔خود وہ یہ تک نہ جانتی تھی کہ پاکستان کس سن میں ایٹمی طاقت بنا ۔ "تم نے اسکے ساتھ کچھ زیادہ ہی کر دیا ۔"امرحہ کو اسے پرانے موضوع پر واپس لانا ہی پڑا ۔وہ مزید ویرا کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتی تھی ۔اگر ویرا پاکستان کو لے کر اس سے کوئی عام سا سوال پوچھ لیتی اور اسے اسکا جواب بھی نہ آتا تو برا ہوتا ۔ کم سے کم ایک پاکستانی کو تو پاکستان کے بارے میں معلوم ہو نا چاہیے ۔ "زیادہ نہیں بلکہ بالکل ،ٹھیک کیا ٹھنڈے پانی نے اسے کے اندر کے گندے کیڑے کو بھگو بھگو کر کچل ڈالا ہو گا ۔"" تم بہت بہادر ہو ویرا""اگر مجھے ایسے برف میں دبایا نہ جاتا تو میں کبھی ایسی بہادر نہ ہوتی-" ایک لمحے کے لیے امرحہ بالکل خاموش ہو گئی -ایک ویرا تھی نسے بہادر بنایا گیا تھا- ایک امرحہ تھی جسے مسل مسل رلایا گیا تھا-وہ دونوں انسان تھیں ..دونوں لڑکیاں لیکن ان میں سے ایک کئی گنا مضبوط اور ایک قدم آگے تھی اور دوسری کئی گنا کمزور اور بہت پیچھے تھی-دونوں انسان ہی تھیں پھر بھی برابر نہیں تھی۔تو تمہارے فادر تمہاری طاقت ہے؟امرحہ کو اس پر رشک آ رہا تھا.وہ میرے استاد ہیں.انہوں نے اپنی طاقت مجھے نہیں دی بلکہ میرے اندر کی طاقت کو میرے اندر سے بیدار کیا ہے.جب ایک باپ اپنی بیٹی کے اندر اس طاقت کو بیدار کرتا ہے تو زندگی کی ہر بڑے میدان میں فاتح بننے کے لیے اپنی بیٹی کو تیار کر لیتا ہے.اور یہ پاور ایک باپ اپنی بیٹی کو دے سکتا ہے. انہوں نے مجھے سکھایا کہ بزدلی اور بہادری دونوں کا تعلق دماغ سے ہے جسم سے نہیں.اگر وہ دماغ کو نڈر بنا لیا جائے تو جسم ہر گز ڈرپوک نہیں بنتا وہ کہتے ہیں نا کوئی آپ کو انگلی لہرا کر دھمکائے آپ اسے مکا مار کر خاموش کروا دیں.تمہیں کوئی بھی ردعمل میں تقصان پہنچا سکتا ہے.ہاں ایسا تو ہو سکتا ہے تو کیا نقصان کے خوف سے میں بزدل بنی رہوں خاموش رہوں. ایسا میں نہیں کر سکتی ویسے تمہیں تمہارے پاپا نے کیا سکھایا ہے امرحہ؟ ایک گہرا سایہ امرحہ پر سے ہو کر گزرا. بابا رات گئے گھر آتے تھے.انہیں دنیا میں ایک ہی چیز کی فکر رہتی تھی اپنی کارپٹ شاپ کی.وہاں رکھے ہر چھوٹے پڑے کارپٹ کی. بیگمات کے گھر وقت پر ڈلیوری کی.حتی کہ شاپ پر لیوز ہو جانے والے انرجی سیور تک کی بھی.***********یونیفارم میں ایک دن ان کے سامنے اپنی وین کے لیے نکلنے لگی تو انہوں نے پوچھا. کتنے بجے چھٹی ہوتی ہے تمہاری اسکول سے؟ میں اسکول نہیں کالج جاتی ہوں اب کہہ کر وہ وین میں آکر بیٹھ گئی اور بمشکل اپنے رونے پر قابو پا سکی.جس باپ کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اس کی بیٹی اسکول نہیں کالج جارہی ہے. وہ باپ اس کی تکلیفوں کے بارے میں کیا جان سکتا تھا.جس باپ کی بابت ویرا پوچھ رہی وہ اس کے کے لیے دادا بنے تھے.میں بارہ سال کی تھی تو بری طرح سے رو رہی تھی. میرے دادا مجھے بہت بڑے پارک میں لے گئے.وہ سال کے گرم ترین دنوں میں سے ایک تھا.کیا تم گرم ترین دنوں کا مطلب جانتی ہو؟ امرحہ نے رک کر ویرا سے پوچھا.ہاں!اتنا گرم کہ انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے. ویرا سب جانتی تھی.ہاں یہ وہی دن تھے.پارک میں لے جا کر میرے دادا نے مجھے وہ مردہ پرندے دکھائے جو گرمی سے مر چکے تھے.وہ مجھے ایک درخت کے نیچے لے کر بیٹھ گئے اور انہوں نے مجھے پرندوں کو دیکھتے رہنے کے لیے امرحہ کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک چڑیا گرمی کی تاب نہ لا کر مر گئی. میرے دادا مجھے اس کے قریب لے گئے اور مجھ سے پوچھا.امرحہ!مرنے سے پہلے کیا تم نے ان چڑیا کو روتے آہ بکا شکوے کرتے دیکھا.گرمی نے اسے اتنی تکلیف دی کہ اس کی میٹھی چوں چوں بھدی آواز میں بدلی بلکہ بیچاری تو خاموش ہو گئی پھر تو یہ معصوم سی چڑیا انسانوں سے بڑھ کر ہوگئی.دادا نے چند چھوٹے کنکر اٹھا کر پرندوں کو مار دیے وہ خاموشی سے پھر سے اڑنے لگے.انہوں نے اپنی جگہ بدل لی لیکن واویلا نہیں کیا.نہ روئے نہ چلائے.پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ کائنات کی ادنی مخلوق حشرات اور دوسرے جانور کبھی انسان کی طرح آہ بکا نہیں کرتے.انسان کی طرح روتے چلاتے نہیں واویلا نہیں مچاتے.لیکن کائنات کی ارفع و اعلی مخلوق انسان یہ کام بہت شوق سے کہتا ہے ایسے گلا پھاڑتا ہے جیسے کائنات کے رب نے قلم کے دکھوں کے سب ہی پہاڑ اس پر توڑ دیے ہوں.ایک اکیلا وہی اٹھا دیا ہے.وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ دکھ تکلیف اسے کتنا فائدہ دے رہی ہے.اس کی استاد بنی اسے کیا کیا سکھا رہی ہے.بس رونے چلا جاتا ہے. تو تمہارے دادا کے پاس ساری مشرقی حکمت ہے؟ نہیں ان کے پاس صبراور علم ہے تھوڑا سا ....وہ ایک اچھے استاد رہے ہیں اور میں ان کی بری شاگرد.ہم اپنے استاد کو وہاں ناکام کر دیتے ہیں جب ہم ان کی سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں.ہر دن ہر رات وہ مجھے ایسی ہی باتیں سناتے لیکن میں نے تو اپنے وجود کو جیسے پتھر بنا لیا تھا.قطرہ قطرہ سوجھ بوجھ کی کوئی بھی بوند اس پر اثر نہیں کر رہی تھی.اب تم سب کو دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اپنی زندگی کن اندھیروں میں گذارتی رہی ہوں ذرا سی ہمت کرتی تو ان ان اندھیروں سے نکل سکتی تھی.کیا ہوا تمہارے ساتھ ماضی میں؟کچھ بہت برا؟ تم سنو گی تو ہنسو گی.میں ہنسنا چاہتی ہوں. اس نے سنجیدگی سے کہا.لیکن بتاتے بتاتے میں رو پڑوں گی. اس نے بھی سنجیدگی سے ہی جھیل میں بطخیں ایسے سکون سے تیر رہی تھیں جس سکون سے انسان کا واسطہ کم ہی پڑتا ہے۔**********“SKYPE IS GOD SEND” اور کی قائل بھی تھی. دادا ہر دن اس سے بات کر کے اسے دیکھ کر ہی سوتے تھے.اس نے موبائل لے لیا تھا اور چلتے پھرتے ہر اوقات میں دادا سے سے اسکائپ پر بات کر لیا کرتی موبائیل کے ذریعے ہی اس نے دادا کو اپنی کلاس اپنی کلاس فیلوز اور یونیورسٹی دکھائی تھی. کلاس میں سر کے آنے سے پہلے اس کی کلاس فیلوز نے ہاتھ لہرا کر یک زبان ہو کر کہا تھا.ہیلو گرینڈ پا اور گرینڈ پا اتنے خوش ہوئے کہ پھولے نہیں سمائے تھے."بڑے اچھے لوگ ہیں امرحہ!یہ سب تو" وہ بہت خوش ہوئے.ہاں جی! بہت ہی زیادہ اچھے وہ قہقہ لگاتی. اس نے دادا کو آئس لینڈ کی وہ خاتون بھی دکھائی جو دو کم ستر سال کی عمر میں ماسٹرز کر رہی تھی.اور یونیورسٹی کے کافی اسٹوڈنٹ اور اپنی کلاس کے پروفیسر سے یہ درخواست کرتی پائی جاتی کہ ان کو ان کی عمر بلائے طاق رکھ کر انہیں بھی دوسرے اسٹوڈنٹس کی طرح عام اسٹوڈنٹ سمجھا جائے.انہیں کوئی رعایت نہ دی جائے وہ اس وقت بھی برا مان جاتی بھی جب لائبریری میں کوئی ان سے یہ کہتا تھا کہ وہ چھ یا آٹھ کتابیں پر مشتمل سیٹ کو ان کے ہاسٹل روم تک چھوڑ آتا ہے.یونیورسٹی کو ان سے بہت توقعات تھی اور سب کا ماننا تھا کہ وہ ضرور دنیا بھر میں مانچسٹر یونیورسٹی کا نام روشن کریں گی.اور کانووکیشن ڈے پر یقینا دنیا بھر کا میڈیا مسز رودھال کی شاندار کامیابی کو کوریج دینا فرض سمجھے گا.دادا آپ بھی یونیورسٹی آ جائیں یہاں چھوٹا موٹا کورس ہی کر لیں. ***************URDU CORNER OFFICIAL***************اس عمر میں میں کیا کروں گا کورس کر کے.یہی سوال میں نے بھی مسز ریچل سے پوچھا تھا کہ اس عمر میں تاریخ کو کھنگال کر اس میں گھس کر اور پھر اس میں ڈگری لے کر کیا کریں گی تو انہوں نے کہا.عمر کوئی چیز نہیں ہوتی اصل چیز زندگی ہوتی ہے اور میرے وجود میں زندگی ایسے دوڑتی ہے جیسے کسی نومولود بچے کے جسم میں تو جب زندگی کا معنی ایک ہے زندہ رہنا تو میں کسی شاندار مقصد کو لے کر زندہ کیوں نہ رہوں اس سے پہلے میرا مقصد میرے بچوں میرے خاندان کی پرورش اور دیکھ بھال تھا اب میں ان سے فارغ ہوگئی تو میں نے ایک نیا مقصد بنا لیا.اس میں عمر اور نفع نقصان کی تو بات ہی نہیں ہے.یہ تو مقصد پا لینے کی بات ہے جو میں پا رہی ہوں. واوا اسے سالگرہ وش کر رہے تھے ۔جب وہ کچن میں سادھنا کے ساتھ ناشتہ بنا رہی تھی ۔اس نے موبائل سٹینڈ میں موبائیل لگا دیا تھا ۔اور کام۔کرتے ساتھ ان سے باتیں کرتی رہی تھی ۔سادھنا نے سنا تو اسے گلے لگایا اور کیک بنانے کا وعدہ کیا ۔ویرا نے فی الحال ایک سرخ ربن اسکی کلائی پر باندھ دیا ۔اور ایک اپنی کلائی میں کہ یاد رہے کے ایک نے گفٹ لینا ہے اور ایک نے دینا ہے ۔این۔اون۔نے بھی جیسے اپنا علامتی چپ کا روز ہ۔توڑا اور اسے جاپانی گیت گا کر وش کیا ۔نشست گاہ میں کسی چھوٹی بچی کی طرح ہل ہل۔کر گاتی ،وہ ان تین خواتین کو حیران کر رہی۔تھی ۔لیڈی مہر اسے تھوڑی تلے ہاتھ رکھے دیکھتی رہی۔جب وہ گا چکی۔تو لیڈی مہر نے پر زور سر ہلا کر کہا ،"مجھے امید تھی۔کے۔تمہارے اندر ضرور کوئی نہ کوئی کلا موجود ہے ۔رات کو تم مجھے چند ایسے ہی گیت سنانا۔"امرحہ کے ہاتھ پر کس کر کے این نون پھر سے پرانی این اون بن گئی جو سال میں ایک بار مشکل سے کوئی غیر ضروری بات کیا کرتی تھی ۔لیڈی مہر نے رات کے ڈنر کے۔اہتمام کا امرحہ سے وعدہ کیا ۔اور یونیورسٹی میں کوئی رنگ برنگے پھول لئے اسکا انتظار کر رہا تھا ۔وہ اپنی کلاسز لے چکی تھی اور اپنے اپارٹمنٹ لی حدود سے نکلی ہی تھی کہ عالیان ایک دم۔سے اسکے آگے آگیا ۔شاید وہ بھاگتا ھوا آیا تھا ۔"یہ لو وقت تمہیں زندہ رکھے "۔"وقت مجھے زندہ رکھے "وہ ذرا نہ سمجھی۔"تمہاری سالگرہ ہے نہ آج تو تمہیں دعا دے رہا ہوں جسے وقت زندہ رکھتا ہے اسکی عمر ہزاروں سال کئی صدیاں ہوتی ہے ۔**********"وہ مسکرانے لگی "تمہیں کس نے بتایا "?"میں نے خود کو خود ہی بتایا ۔"اسے لگا اسکی تعریف کی گئی ہے ۔"میری سالگرہ کا کس نے بتایا پا گل"-اوہ سادھنا نے اسکا فون۔آیا تھا کیک بنانے کی ترکیب پوچھ رہی تھی ۔"آخر یہ برطانوی لوگوں کو گھر میں بیکنگ کر نے۔ کا کیوں شوق ہے '"? "سادھنا ہندوستانی ہے "اس نے اطاعت گزار بچوں کی طرح اسے کہا کہ۔اسے برا نہ لگے ۔امرحہ نے اسکے لائے گلدستے میں سے جو کسی باغ سے توڑے لگتے تھے سفید ،نیلے ،سرخ پھول چن لیے اور پیلے پھول اسے واپس کر دے ۔وہ سوالیہ اسے دیکھنے لگا۔وہ دونوں اب یونیورسٹی کی محراب کے پیچھے کھڑے تھے ۔سامنے آکسفورڈ روڈ رواں دواں تھی ۔"یہ واپس کیوں کیے ؟"عالیان۔کو برا لگا۔پیلے پھول کسی کو نہیں دیتے یہ نفر ت اور ناپسندیدگی کی علامت ہو تے۔ہیں ۔ہم بہت اچھے دوست نہ سہی ایسے دشمن بھی نہیں کہ میری سالگرہ کے دن۔مجھے ایسے پھول دے جائیں اور۰۰۰۰۰۰۰"۔ "نفرت ناپسندیدگی کی علامت یہ پھول ?وہ بھرپور سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔"ہاں بالکل "وہ بھی مکمّل سنجیدگی سے جواب دے رہی ہیں تھی ۔"تم۔سے کس نے کہا یہ امرحہ"? "کیا مطلب ہے تمہارا کہ کس نے کہا "? یونیورسٹی کی تاریخی محراب کے نیچے ایک نئی کلاس لگی تھی ۔"تم سے کس نے کہا کہ یہ نفرت اور ناپسندیدگی کی علامت ہیں ؟۔" "سب کو معلوم ہے یہ " اس نے کندھے اچکائے جیسے یہ جتا رہی ہو چچ چچ تمہیں اتنی سی بات نہیں معلوم ۔۔۔۔افسوس ۔۔۔ویسے تم بڑے ماسٹر مائنڈ بنے پھرتے ہو ۔"سب کون ?" "اف یہ ساری دنیا سب اور کون " ایک دم سے امرحہ۔کے تاثرات میں غصے اور کوفت کا گراف بڑھنے لگا۔پھر بھر پور دل سے قہقہہ لگایا ۔******************جاری ہے.
0 comments:
Post a Comment