یارم از: سمیرا حمید
قسط نمبر 9
**********
"اور پلیز،جب آپکی جاب کا انتظام ہو جائے تو ہانا کے نوڈلرز واپس کر دیجئے گا"
"کر دوں گی"
"اور۔۔۔ ایک اور بات۔۔۔۔ دوبارہ اپنی ڈگری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ مت کیجیئے گا۔۔۔ خاص کر پلس ایڈ کرنے کی غلطی۔۔۔"
یہ آخری لیکن سب سے خطرناک بم تھا جو کینٹین کے شور و غل میں بہت اہتمام سے پھٹا ۔۔ وہ انکی طرف ایسے دیکھنے لگی، جیسے ابھی ابھی افریقہ کے کسی قدیم قبیلے سے یہی لوگ اٹھا کر لائے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ دیکھو ڈرو نہیں وہ کوئی جنگلی درندہ نہیں، پیٹرول سے چلنے والی بڑی بس ہے جس پر سفر کیا جاتا ہے اور جسے ایک ڈرائیور چلاتا ہے۔۔ وہ قطعا کوئی درندہ یا بلا نہیں۔۔۔
ان تینوں کی شکلیں۔۔۔ جیسے قہقوں کی پھلجڑیوں کو اندر ہی اندر بجھا رہے ہوں۔۔۔ ہاں وہ تینوں اس آخری بات پر ہنسی کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے اور کامیاب بھی تھے اور وہ دھاڑیں مار کر نہ رونے کی کوشش کر رہی تھی اور نا کام ہو رہی تھی۔۔ اسکی شکل سب بتا رہی تھی۔۔۔ اسے خیال آیا کہ اس نحوست کو لے کر اس پر جو حملے کئے گئے تھے وہ کتنے معمولی تھے ان جملوں کے مقابلے میں جو مونچسٹر میں مانچسٹڑ والوں نے کئے تھے۔۔
وہ تو ننھی سی چھوٹی سی بچی تھی۔۔۔ اسے خوش بھی نہ ہونے دیا گیا اور رلا دیا ۔۔۔رلا دیا۔
آنسووں کا سمندر اسکی آنکھوں میں تیرتا نظر آنے لگا۔
ان تینوں نے اسکی شکل کی طرف دیکھا اور بلکل خاموش ہو گئے پھر بائے کہہ کہ اٹھ گئے۔۔ اگر وہ اسکے اولین استاد تھے تو کمال کے تھے۔۔انہوں نے اسے سمندر میں دھکا دے دیا تھا یا ڈوب کر مر جاو یا تیر کر ابھر آو۔۔۔یا ڈر کر دبک جاو یا کود کر اڑ جاو۔۔۔
مانچسٹر میں ملنے والا پہلا سبق۔۔۔ مانچسٹر میں سنا جانے والا پہلا لیکچر اور مانچسٹر میں گرائے جانے والے اولین آنسو۔۔۔
"مانچسٹر میں خوشآمدید"
*۔۔@۔۔*
وہ کینٹین سے نکلی اور ایک ایسا گوشہ ڈھونڈھنے لگی جہاں کوئی نہ ہو لیکن ویکم ویک چل رہا تھا۔ یونیورسٹی میں ایسا رش تھا جیسے 14 اگست کو لاہور مال پر ہوتا ہے۔۔۔ خاص کر چمن اور ریگل چوک کے پاس۔۔۔ خیر وہ سبزے پر بیٹھ گئی۔۔۔اور منہ نیچے کر کے رونے لگی۔۔۔آج اسکا پہلا دن تھا تو وہ بہت اہتمام سے تیار ہو کر آئی تھی۔۔۔ اسنے مسکارا بھی لگایا تھا اور آئی لائنر بھی۔۔ میک اپ کے نام پر وہ یہ دو چیزیں ہی استعمال کرتی تھی۔۔کافی دیر تک وہ سوں سوں کرتی رہی۔۔اسکا مسکارا پھیل گیا اور آنکھیں رگڑنے سے آس پاس اوپر نیچے سیاہی پھیل گئی تھی۔۔اسکے پاس ٹشو نہیں تھا۔۔اپنے سفید دوپٹے سے وہ صاف نہیں کرنا چاہتی تھی۔انگلیوں سے جتنی آنکھیں صاف کر سکتی تھی اسنے کر لیں لیکن چہرے پر کافی سیاہی پھیل چکی تھی اور وہ عجیب مضحکہ خیز لگ رہی تھی پر اب اسے پروا بھی نہیں تھی کہ وہ اچھی لگ بھی رہی ہے یا نہیں۔۔ جی بھر کر رونے کے بعد وہ اٹھی ۔ایک سٹوڈنٹ اسکے پاس سے گزر رہا تھا جسے اسنے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ "مجھے جاب چاہیئے"۔ آنکھوں خو رگڑتے اسنے کہا۔
"جاب۔۔۔؟ میرے پاس جاب نہیں ہے"
"پاگل! مجھے جاب چاہئے۔کیسے ملے گی۔۔۔"؟ اسنے اپنا غصہ اس پر اتارنا چاہا۔۔۔
"اوہ۔۔ مجھے تو ابھی خود ڈھوڈنی ہے" کہہ کر وہ چلا گیا۔ تین چار ایسے ہی نمونوں سے ملتی وہ ایک جگہ جا کر کھڑی ہوگئی اور آس پاس موجود دوسرے اسٹوڈنٹس کو دیکھنے لگی۔۔ وہ بہت تیزی سے آرہے تھے۔ جا رہے تھے۔۔ ہنس رہےتھے۔باتیں کر رہے تھے قہقہے لگا رہے تھے۔وہ سب بہت خوش اور پر جوش تھے۔۔ان سب کے چہرے دمک رہے تھے۔ وہ چالیس ہزار اسٹوڈنٹس میں بلکہ یونیورسٹی میں پہلی لڑکی ہو گی جو ایک طرف کھڑی مزید رونے کی تیاری کر رہی تھے۔۔۔ وہ اپنے سنہری وقت کو برباد کر رہی تھی۔۔وہ چپ کھڑی سب کو دیکھتی رہی۔۔پھر اسے خیال آیا کہ اسے بھی چلنا چاہیئے۔۔اور ایک دم اسے یاد آیا کہ اسے اپنا اسٹوڈنٹ کارڈ بنوانا ہے۔۔ہو سکتا ہے صرف آج کے دن ہی بنے اور آج ہی نہ بنوانے پر اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔
وہ پرجوش اسٹوڈنٹس کے ریلے میں شامل ہو گئی اور اونگوں بونگوں کی طرح منہ اٹھا کر چلتی رہی۔۔۔۔ گھومتی رہی۔۔۔ ایک سے دوسرے کیمپس جیسے تاریخی عمارت کا جائزہ لینے آئی ہو۔۔پڑھنے نہیں۔۔۔
"آپ کچھ ڈھونڈ رہی ہیں یقینا" گہری جامنی رنگ کی شرٹ پہنے اور ask me (مجھ سے پوچھیں) کا بورڈ ہاتھ میں لیئے وہ خود ہی اسکے قریب آیا تھا۔۔۔ وہ دو تین بار اسکے پاس سے گزری تھی بلکہ وہ کئی اور ask me کے پاس سے گزری تھی۔
"مجھ سے پوچھئے میں آپکی مدد کروں گا" اوہ اچھا۔۔۔ask me کا بورڈ وہ اس لئے کئے گھوم رہا تھا۔ اسکا خیال تھا کہ وہ کسی ویب سائٹ کی پروموشن کر رہا ہے۔
"مجھے اسٹوڈنٹ کارڈ بنوانا ہے" یہ کہتے وہ اسکی بے جا لمبی ناک کو دیکھنے لگی۔
"ویل یہ تو بہت آسان ہے" اسنے ہاتھوں کے اشاروں اور زبان کے کلام سے بتایا کہ کہاں جانا ہے۔
"مجھے سمجھ نہیں آئی"۔ امرحہ نے کندھے اچکا کر کر ایسے کہا جیسے اسکی کارکردگی کو انتہائی فضول کا خطاب بس دینے ہی والی ہو۔ اور سمجھ اسے اس لئے نہیں آئی تھی کیونکہ وہ اسکی لمبی ناک کی بناوٹ کو سمجھنے میں مصروف تھی۔
"یہاں چلی جائیں" اب اس نے اسکے ہاتھ ایک نقشہ دیا، اس پر ایک جگہ سرخ دائرہ لگایا۔
"آپکا دن اچھا رہے" وہ مسکرانے لگا اوع ایسا کرتے اسکی ناک پھیل سی گئی اور وہ پھر سے اسکی ناک کو گھورنے لگی۔
"کچھ اور پوچھنا ہے" وہ جزبز ہوا۔وہ یقینا جان چکا تھا کہ وہ اسکی ناک کو گھور رہی ہے۔
اب وہ ہاتھ میں پکڑے نقشے کو دیکھنے لگی اسکول کے نصاب کی کتاب کے نقشے کے علاوہ یہ اس کے ہاتھ میں آنے والا پہلا نقشہتھا جو کسی عمارت کا تھا۔ اور وہ دعوے سے کہہ سکتی تھی۔ وہ اس نقشے کو استعمال کر کے بھٹک تو کئی بار سکتی ہت لیکن اصل مقام پر پچاسویں کوشش پر بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔۔۔
**********
جاری ہے
0 comments:
Post a Comment