Saturday, 30 September 2017
ناول:جنت کے پتے تحریر: نمره احمد قسط نمبر 13
ناول:جنت کے پتے
تحریر: نمره احمد
قسط نمبر 13
یورپ کا سب سے بڑا اوردنیاکاچھٹابڑاشاپنگ مال.وه فخرسےبولاتھا.
جواھراندرسےبھی اتناھی عالیشان تھا.سفید ٹائلوں سےچمکتےفرشاوپرتک نظرآتی پانچوں منزلوں ک ےبرآمدے. اورھرمال کی طرح وه اندر سے کھوکھلا تھا. عین وسط میں ایکاونچا کھجورکےدرخت کی طرح ٹاورلگاتھا.اوریه روشنیوں وقمقموں سے مزین ٹاورپانچویں منزل کی چھت تک جاتاتھا.
وه مسحورسی گردن اٹھاۓاوپرپانچوں منزلوں کی بالکونیاں دیکھ رھی تھی. جھاں انسانوں کاایک بےفکرھنستامسکراتاھجوم ھرسو بکھرا تھا.
رنگ خوشبو امارت چمک...آه...یه یورپ تھا.
جوتے خریدکروه دونوں باھر چلےآۓ. حیا نے جوتوں کا بل بنواتے ھی جلدی سے ادائیگی کردی تھی تاکه جھان کو موقع ھی نه مل سکے. وه اس پر خاصا خفا ھوا.مگر حیا پرسکون تھی. ھالے نور سمیت وه کسی بھی ترک سے کچھ بھی لینے میں عار نھیں سمجھتی تھی مگر جھان سکندر کا احسان...کبھی نھیں.!
چوتھی منزل کی دکانوں کے آگےبنی چمکتی بالکونی میں وه دونوں ساتھ ساتھ چل رھے تھے.لوگوں کے رش میں راسته بناتی حیاکو جھان کی رفتارسےملنے کیلۓتقریبابھاگنا پڑرھا تھا. پهر بھی وه پیچھے ره جاتی اور وه آگے نکل جاتا. وه اسکا ساتھ دینے کی کوشش میں اب تھکنے لگی تھی.
شاید یھی انکی زندگی کی کھانی تھی..
جھان نے ایک شیشے کادروازه کھولااورایک طرف ھٹ کرراسته دیا "تھینک یو" وه سرخ کوٹ کی جیبوں میں ھاتھ ڈالے مسکراتی ھوئی اندر داخل ھوئی. وه اسکےپیچھے آیا.
وه ریسٹورنٹ تھا نرم گرم ماحول ' ھیٹر اور باھر کے سرما کی ملی جلی خنکی' مدھم روشنیاں پیچھے بجتادھیما میوزک..
آرڈرکرو.وه ایک کونے والی میزکےگردآمنےسامنے بیٹھ گۓتو جھان نے کھا. اپناکوٹ اتار کراس نے کرسی کی پشت په رکھ دیا. اور اب وه کف کھول کر آستین موڑ رھا تھا.
مگر یه دعوت کس خوشی میں ھے? حیا دونوں کھنیاں میز په ٹکاۓدائیں ھتھیلی ٹھوڑی تلے ٹکاۓدلچسپی سے اسے دیکھ رھی تھی. چھرے کے دونوں اطراف میں گرتے بال اب خاصے سوکھ گۓ تھے. تمھارے اس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں اور یه دعوت میری طرف سے ھے اب آڈرکرو.
حیا نےگردن جھکاکر ایک سرسری نگاه اپنے کوٹ پے ڈالیمگر دعوت تمھاری طرف سے ھے تو آرڈر بھی تمھیں کرنا چاھئے.. اس نے جھان کی بات نظراندازکردی که شاید وه مذاق کررھا ھے.
ٹھیک ھے. جھان نے مینوکارڈاٹھایااورصفحےپلٹنےلگا. وه محوسی اس کے وجیھه چھرے کو دیکھے گئی. کیا وه جانتا تھا که وه اسکی بیوی ھے. اتنی بڑی بات وه نا جانتا ھوکیایه ممکن تھا?
اس روزتم نے بھت غلط بات کی تھی جھان.! مجھے تم پے بھت غصه آیا تھا.جب وه آرڈر کرچکا تو وه یونھی بندمٹھی ٹھوڑی تلے ٹکاۓاسے تکتے ھوۓبولی.
میں نے کیاکیاتھا? وه حیران ھوا.
پته نھیں کس نے میرے نام وه پھول بھیجےاور تم نے کھا میراویلنٹائن... میں ایسی لڑکی نھیں ھوں جھان نه ھی میں جانتی ھوں که وه پھول کس نے بھیجے تھے.
اوکے جھان نے سمجھنے والے انداز میں اثبات میں سر کو جنبش دی.مگر وه جانتی تھی اسے یقین نھیں آیا.
ریسٹورنٹ میں گھما گھمی تھی. اردگردویٹرزمیزوں کے درمیان راسته بناتےٹرے اٹھاۓ تیزی سے پھر رھے تھے.
پس منظر میں بجتی موسیقی کے سر بدل رھے تھے اب ایک ترک گلوکار
دھیمی لے والا گیت گنگنارھاتھا.
ویسےتم صبح صبح کھاں جارھی تھیں?
میں یھیں سسلی آرھی تھی شاپنگ وغیره کرنے. ویٹر کافی لے آیا تھااوراب ان دونوں کے درمیا ن جھکاٹرےسےدوسرا کپ اٹھاکرمیز په رکھ رھاتھا. بھادرلڑکی ھواکیلےگھوم پهر لیتی هو. جھان نےمسکراکرکھتے هوۓاپنی کافی میں شکرڈالی.
استنبول میں یه بھادری مھنگی تو نھیں پڑے گی. مطلب ? کافی کا بھاپ اڑاتا کپ لبوں سےلگاتے ھوۓجھان کی آنکھوں میں الجھن ابھری.اس نےایک گھونٹ بھر کر کپ نیچے رکھا.
مطلب ڈرگ مافیا'آ رگنائزڈکرائم اسٹیٹ سیکرٹ آرگنائزیشن جیسی ترکیبات سے واسطه تو نھیں پڑےگا?وه کهنیاں میز په رکھےآگےھوئی اورچھرے په سادگی سجاۓ آهسته سےبولی. کیونکه سناھےیھاں ان سب سے پالا پڑسکتا ھے.کس سے سن لیں تم نے ایسی خوفناک باتیں. جھان نےمسکراکرسرجھٹکا. تم بتاؤیه پاشا کون ھے?
پاشاکو نھیں جانتی تو ترکی کیوں آئی ھو. مصطفی کمال پاشا...یاکمال اتاترک...وه ترکوں کا باپ تھا.
وه نھیں میں استنبول کےپاشاکی بات کر رھی عبدالرحمن پاشا کی.
کافی کاکپ لبوں تک لیجاتے ھوۓجھان نے رک کرناسمجھی سے اسے دیکھا.
کون ? کافی سے اڑتی بھاپ لمحےبھرکےلئےاس کےچھرےکو ڈھانپ گئ. ایک بھارتی اسمگلرجویورپ سے ایشیا میں اسلحه سمگل کرتا ھے. کم آن! اس نے کپ رکھ کر سنجیدگی سے حیا کو دیکھا.استنبول میں ایساکوئی مافیاراج نھیں ھے. یه کس نے تمھیں کھانیاں سنادی ھیں? یونھی مشھور ھونے کیلئےکسی نےاپنے بارے میں کوئی افواه اڑائی ھو گی.تم استنبول کو کیا سمجھ رھی ھو.ھالےکی طرح وه ایک خالص ترک تھا.اپنے استنبول کےلئےجی جان سے تیار تیار.
ویٹر جھان کے اشارے پربل لےآیاتھااوراب جھان اپنے بٹوےسےکارڈنکال کراسکی فائل میں رکھ رھا تھا.
رائی ھوتی ھے توپھاڑبنتاھےنا..
حیایه پاکستان نھیں ھے.جھان نےذراتفاخرسےجتاکرکھاتواسکےلب بھینچ گۓ. کارڈرکھ کر جھان نے فائل بند کرکےایک طرف رکھی.پاکستان میں بھی یه سب نھیں ھوتااوربل میں دوں گی.حیا نے تیزی سے فائل اٹھائ اور کھولی.
جیسےمیں جانتا ھی نھیں. جھان کی اگلی بات لبوں میں ھی ره گئی.
انکےدائیں طرف سے ایک ویٹرٹرےاٹھاۓچلاآرھاتھا.اچانک ایک دوسراویٹرتیزی سےاسکےپیچھے سے آیااورپهلےویٹرسےآگےنکلنےکیکوشش کی.پهلےویٹرکوٹھوکرلگی وه توازن برقرارنه رکھ پایااورنتیجتا اسکی دائیں ھتھیلی پے سیدھی رکھی لکڑی کی ٹرےشڑشڑکرکےبھاپ اڑاتےبیف چلی سمیت الٹ گئی.میزپه رکھےحیاکےھاتھ پےٹرےاورگرم بیف اکٹھےآکر لگے.وه بلبلاکرکھڑی ھوئی.فائل اور بل نیچے جاگرے.
آئی ایم سوری.آئئ ایم سوری وه دونوں ویٹر بیک وقت چیزیں ٹھیک کرنے لگے.ٹرےسےکافی کاکپ بھی الٹ گیا تھا.اور ساری کافی فرش پرگری پڑی تھی.
جھان ناگواری سےترک میں انھیں ڈانٹنے لگا.چندمنٹ معذرتوں اور میزصاف کرنے میں لگ گۓ. وه واپس بیٹھا تو حیااپنی کلائی سھلا رھی تھی.
تمھیں چوٹ آئی ھے.دکھاؤزیاده جل تو نھیں گیا. اس نے ھاتھ بڑھایامگرحیانےکلائ پیچھے کر لی..ذراسی چوٹ سے میں زخمی تو نھیں ھوگئ. بھت ٹف زندگی گزاری ھے میں نے.بظاھر مسکرا کر وه درد کو دبا گئ.ھتھیلی سرخ پڑ چکی تھیاور شدید جل رھی تھی.
میری بات اورھےھاتھ دکھاؤ.مگراسنےھاتھ گود میں رکھ لیا.
ٹھیک ھے اٹس اوکے'کافی کاشکریه.اب ھمیں چلناچاھئے.وهاٹھ کھڑی ھوئی.بل والی بات اسےبھول گئی تھی.مگر کافی توختم کرلووه قدرےپریشانی سےکھڑا ھوا.رھنےدوانتھائی بدتھذیب ویٹرزھیں یھاں کے.چلو.واپسی پےوه اسےمیٹرواسٹیشن تک چھوڑنے آیاتھا.زیرزمین جاتی سیڑھیوں کےدھانےپےوه دونوں آمنےسامنےکھڑےتھے.تم واپس ٹاقسم نھیں آؤگے.نھیں وه دفتر یھاں قریب ھی ھے.جس سے کام کے سلسلےمیں ملنےآیا تھااسطرف.جھان بازواٹھاکردورایک طرف اشاره کیا.اسنےسفیدشرٹ کی آستین یونھی کھنیوں تک موڑرکھی تھی.اور کوٹ بازوپےڈال رکھا تھا.ٹائی کی ناٹ اب تک ڈھیلی ھوچکی تھی.وه یقینااسکاایک ورکنگ ڈےخراب کر چکی تھی.ویسےتم کیاکرتےھو?وه کوٹ کی جیبوں میں ھاتھ ڈالے کھڑی گردن اٹھاۓاسےدیکھ رھی تھی.میں ایک غریب ساریسٹورنٹ اونر ھوں.استقلال اسٹریٹ په جو پھلا برگرکنگ ھےوه میرا ھے.استقلال اسٹریٹ ٹاقسم کے بالکل ساتھ ھے.دیکھی ھےتم نے?اونھوں. اسنےگردن دائیں سےبائیں اوربائیں سےدائیں ھلائی.تم اس ویک اینڈ پے گھر کیوں نھیں آجاتی ممی خوش ھونگی.اور تم ? بےساخته لبوں سےپهسلا.میں توویک اینڈ پے بھی ریسٹورنٹ ھوتا ھوں.پهر فائده اس نے سوچا.
کوشش کرونگی.وه مسکرا دی اس نےدایاں ھاتھ جیب سے نکال کربال پیچھے ھٹاۓ.تمھاراھاتھ ابھی تک سرخ ھے.اگر کسی دوست نےپوچھ لیا تو کیاکھوگی.
کھ دونگی که گدلی برف کیساتھ کیچڑ تھی گھاس په وهیں پھسل گئی. اسنےلاپروائی سےشانےاچکاۓ.اب کزن کیساتھ کافی پینےکاقصه تو سنانےسےرھی.پھسل گئ توھتھیلی رگڑی گئ?
ھاں!اورگھٹنے? جھان نےمسکراکراسکی جینزکیطرف دیکھا.مطلب? حیانےابرواٹھاۓ.
لڑکی کوراسٹوری پوری بنایاکرو.اگرتم ھتھیلیوں کےبل کیچڑ میں گروتواصولاتمھارےگھٹنوں پےبھی رگڑ آنی چاھۓ.پھر وه چند قدم چل کرگھاس کےقطعےکی طرف گیا.جھک کرتین انگلیوں سےمٹی اٹھائی اور واپس آکر اسکےسامنےرکا.اسےاپنی جینزپرلگادوورنه تمھاری فرینڈزیقین نھیں کریں گی.
اتنابھی کوئی شکی مزاج نھیں ھوتاجھان سکندر..!
اسنےھنس کراپنےپوروں پےزراسی گیلی مٹی لی اور جھک کر گھٹنوں کے اوپر جینز په مل دی.پهرھاتھ جھاڑتےھوۓسیدھی ھوئی.میں کوشش کرونگاکه ھفتے کی صبح ساراکام ختم کرکےگھرآجاؤں.تم ھفتےکی شام ضرور آنا.پهلی بار اسے احساس ھوا تھا که وه کمگوسنجیده طبیعت کالئےدۓرھنے والاشخص ضرور ھے مغرور بھی ھے.اور جلدی گھلتاملتابھی نھیں.
جاری هے
چہرے کو صرف کالک ملنے والا پہلا ہاتھ میلا کرتا ہے۔
چہرے کو صرف کالک ملنے والا پہلا ہاتھ میلا کرتا ہے۔
اس کے بعد لاکھ ہاتھ چہرے پر کالک ملیں۔
آدمی ان کو کبھی نہیں گنتا۔ صرف پہلا ہاتھ یاد رہتا ہے۔
من و سلویٰ ۔ عمیرہ احمد
Friday, 29 September 2017
ناول:جنت کے پتے تحریر: نمره احمد قسط نمبر 12
ناول:جنت کے پتےتحریر: نمره احمدقسط نمبر 12"جی"؟ وہ بمشکل بول پائی۔وہ کچن کے کھلے دروازے سے اندر آیااور حیا نے دیکھا'اس کے ہا تھوں میں ادھ کھلے گلابوں کا بوکے اور ایک سفید کارڈ تھا۔"کیا تم یہاں رہنے آئی ہو؟"وہ اس کے سامنے کھڑا سختی سے پوچھنے لگا۔"نن۔۔۔نہیں" وہ سانس روکےان سفیر گلاب کے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔"تو پھر اپنے ویلنٹائن کو میرے گھر کا پتا دینے کی کیا ضرورت تھی"؟اس نے زیرِلب ترکی میں کسی غیر مہزب لفظ سےاس نا معلوم شخص کو نوازااور گلدستہ و کارڈ اس کے سامنے میز پہ تقریباًپھینکنے کے انداز میں رکھا۔"نہیں۔۔۔۔میں نے نہیں"وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سےپھولوں کے اوپر گرے سفید کارڈ کو دیکھے گئی'جس پہ لکھے حروف نمایاں تھے۔"فار مائی لو۔۔حیا سلیمان فرام یور ویلنٹائن"۔اور ویلنٹائن ڈے میں ہفتہ سے زیادہ دن باقی تھے۔"یہ یہاں بھی پہنچ گیا؟"وہ اب تک بے یقین تھی۔جہان اپنا ٹول بکس کھولے چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا۔کچن میں ایک شرمندہ سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔دفعتاًمیز پہ رکھا حیا کا موبائل بج اٹھا۔اس نے چونک کر دیکھا۔گھر سے کال آ رہی تھی۔اس نے کال کاٹی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔"حیا۔۔بیٹھو بچے۔۔۔""میری۔۔۔میری فرینڈ کال کر رہی ہے"۔وہ باہر آ گئی ہے شاید'چلتی ہوں" اللہ حافظ۔حالانکہ پھپھو کی شکل سے ظاہر تھا کہ فون اس کی دوست کا نہیں تھا'مگر انہوں نے سر ہلا دیا۔کہنے کو جیسے کچھ باقی نہیں رہا تھا۔وہ کرسی دھکیل کر تیزی سے باہر نکل گئی۔میز پہ سفید گلاب پڑے رہ گئے۔ڈورمیٹ پہ اس کے جوتے یونہی پڑے تھے۔اس نے ان میں پاوں ڈالے تو دیکھا' ایک کاغذ ان پہ گراہوا تھا۔حیا جھکی اور وہ کاغذ اٹھایا۔وہ کسی کورئیر کمپنی کی رسید تھی غالباًجو شاید جہان نے دستخط کر کے وہاں پھینک دی تھی۔وہ رسید الٹ پلٹ کر دیکھتی تیز قدموں سے گیٹ عبور کر گئی۔وہ پھول آج ہی کی تاریخ میں کسی"اے آر"نے بُک کروائے تھے۔اے سے احمد اور آر سے۔۔۔۔؟وہ دھیرے دھیرے سڑک کے کنارے چلنے لگی۔رسید ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی۔وہ گھنٹہ بھر پہلے تک اس بات سے ناواقف تھی کہ وہ جہانگیر آ رہی ہے'پھر اس"اے آر"کو کیسے علم ہوا؟کیا وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا؟کیا اس کا تعاقب کیا جا رہا تھا؟لیکن ایک پاکستانی آفیسر کے ایک غیر ملک میں اتنے زرائع کیسے ہو سکتے تھے؟صرف اسے تنگ کرنے کے لئے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کون کرے گا؟وہ کالونی کے سرے پہ نصب بینچ پہ بیٹھ گئی۔اس کی نگاہیں برف سے ڈھکی گھاس پہ جمی تھیں۔اسے ہالے کے آنے تک یہیں بیٹھنا تھا۔اس نے اگلے روز ہی ڈورم آفیسرحقان سے بات کر کے اپنا گھر بدلوا لیا۔اب وہ ڈی جے کے کمرے میں منتقل ہو چکی تھی۔کمرے میں تیسری لڑکی ایک چینی نژاد "لنگ لنگ" تھی۔اس کاپورا نام اتنا لمبا اور پیچیدہ تھا کہاس نے یورپ کے لئے اپنا بنام "چیری" رکھ لیا تھا۔وہ ایکسچینج سٹوڈ نٹ تھی اور پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔چوتھی لڑکی ایک اسرائیلی یہودی"ٹالی" تھی۔واقعتاًٹاہلی کے درخت کی طرح لمبی چوڑی اور گھنگھر یالے بالوں والی۔وہ بھی ایکسچینج سٹوڈنٹ تھی۔اور اس کے ساتھ والے کمرے کےفلسطینی ایکسچینج سٹوڈنٹس(وہ ہینڈسم لڑکے جن کا زکر ڈی جے نے پہلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صفحہ نمبر 192روز کیا تھا)سے گاڑی چھنتی تھی۔وہ فلسطینی لڑکے اور وہ اسرائیلی لڑکی ہر جگہ ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔کیمپس کی سیڑھیاں ہوں یا ہاسٹل کا کامن روم۔وہ چاروں ساتھ ہی ہوتے۔"ان کے پاسپورٹ چیک کراّو یا تو یہ اسرائیلی نہیں ہے' یا وہ فلسطینی نہیں ہیں۔اتنا اتحاد اور دوستی؟توبہ ہے بھئ!"ڈی جے جب بھی ان کو ساتھ دیکھ کر آتی ' یونہی کڑھتی رہتی۔حیا نے اپھی ان لڑکوں کو نہیں دیکھا تھا'نہ ہی اسے شوق تھا۔تمام ممالک کے ایکسچینج سٹوڈنٹس پیر تک پہنچ گئےتھے۔وہاں کسی کو کسی ایکسچینج سٹوڈنٹ کا نام نہیں پتہ ہوتا تھا۔بس یہ فلسطینی ہیؓ 'یہ چائنیز ہیں'یہ نارویجن ہے'یہ ڈچ ہے اور یہ دونوں پاکستانی ہیں۔ان کو ایک سے چار مضامین لینے کا اختیار تھا۔ڈی جے نے دو لئے جب کہ حیا نے چار لئے۔پانچ ماہ کے احتتام پہ امتحان دینے کی پابندی تھی' اور یہ پانچ ماہ لازماً ترکی میں گزارنے کی پابندی تھی' باقی چاہے کلاس اٹینڈ کرو' چاہے نہ کرو' چاہے ساری رات باہر گزارو'کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔خوب مزے تھے۔سبانجی میں کلاس کے اندر لڑکیاں کے سکارف پر پابندی تھی۔"تو ےہ ہالے نور کیا کرتی ہو گی؟"حیا نے ڈی جے سے تب پوچھا'جب وہ دونوں کلاس سے نماز کے بہانےکلاس میں دکھائی جانے والی ترکی کی تعادفی پریزنٹیشن سے کسک آئی تھیں اور اب پرئیر ہالمیں بیٹھی چپس کھا رہی تھیں۔"وہ کیپ لے لیتی ہے'اور گلے میں مفلر یا کبھی کبھی وگ بھی لگاتی ہے ' مگر سر ڈھک کر جاتی ہے"۔ڈی جے چپس کترتے ہوئے بتا رہی تھی۔وہ دونوں چاکڑی مارکر کارپٹ پہ بیٹھی تھیں۔ ایک طرف الماری میں قرآن و اسلامی کتب کے نسخے سجے ہوئے تھے۔دوسری طرف بہت سے سکارف اور سکرٹس ٹنگے ہوئے تھے'جینز والی ترک لڑکیاں سکرٹ پہن کر نماز پڑھ لیتی اور پھربعد میں وہ سکرٹ وہاں لٹکا کر چلی جا تیں۔استنبول کے ہر زنانہ پرئیر ہال میں ایسے سکارف اور سکرٹس لٹکے ہوتےتھے۔"مزے کی ہے یہ ہالے نور بھی"۔وہ انگلی سے بال پیچھے کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔اس نے بلیو جینز کے اوپر گلابی سوئیٹر پہن رکھا تھا۔پاکستان میں تایا فرقان کی ڈانٹکے ڈر سے وہ جینز نہیں پہنتی سکتی تھی'لیکن شکر کہ یہاں وہ لوگ نہیں تھے اور وہ زندگی کو اپنیمر ضی سے لطف اندوز ہو کر گزار رہی تھی۔۔"پرسوں تم پھپھو کے گھر گئی تھیں۔کیسا ٹرپ رہا؟""اچھا رہا'پھپھو نے پلاوٙبنایاتھا' وہ واقعی ہی اتنا بد مزہ پکوان نہیں ہے 'جتنا ہم سمجھتے تھے۔""میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی"۔جن پرئیر ہال میں بھی خوب بور ہو گئیں تعو باہر نکل آئیں۔سرد نم ہوا دھیمی لے میں بہہ رہی تھی۔ہری بھری گھاس پہ سبانجی کی گول سی عمارت پورے وقار کے ساتھ کھڑی تھی'جیسے ایک گولائی کی شکل کے بنےگھر کو ہیٹ پہنا دی جائے۔شیشے کے اونچے داخلی دروازوں کے سامنے سیڑھیاں بنی تھیں۔سیڑھیوں کےدونوں اطراف سبزہ پھیلا تھا۔وہ دونوں فائلیں تھامے زینے اتر رہی تھیں'جب ڈی جے نے اس کا شانہ ہلایا۔"یہ جو آخری زینے پہ تین لڑکے کھڑے ہیں'یہ وہی فلسطینی لڑکے ہیں۔دیکھو!ٹالی بھی ان کے ساتھ ہے۔"اس نے ہوا سے چہرے پہ آتے بال پیچھے ہٹائےاور دیکھا۔ وہ ہینڈسم اور خوش شکل سے لڑکے سیڑھیوں کے کنارےکھڑے باتوں میں مصروف تھے۔"آوٙان سے ملتے ہیں"۔"مجھے دلچسپی نہیں ہے۔تم جاوٙ'مجھے زرا کام ہے"۔وہ کھٹ کھٹ زینہ اترتی آگے بڑھ گئی۔ڈی جے نے اسے نہیں پکارا' وہ فلسطینیوں کی جانب چلی گئی تھی۔اوروہ یہی چاہتی تھی'ڈی جے دوستی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جگہ'مگر وہ فی الحال وہ خوب آزادی سے استنبول کو کھوجنا چاہتی تھی۔اکیلی اور تنہا۔قریباً گھنٹے بھر بعدوہ اپنے کمرے سے خوب تیار ہو کر نکلی اور پتھریلی سڑک پر چلنے لگی۔اس نے بلیو جینز کے اوپر ایک تنگ'اسٹائلش سا کوٹ پہن رکھا تھا۔شدید سردی کے باوجود ننگے پاوں میں پانچ انچ اونچی سرخ پنسل ہیل پہنی تھی۔ریشمی بال ہواسے شانوں پہ اڑ رہے تھےاور گہرے کاجل کے ساتھ رس بھری کی طرح لپ اسٹک۔اسےسرخ لپ اسٹک ہمیشہ بہت پر کشش لگتی تھی اور آج اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حسین لگ رہی ہے۔بس سٹاپ آ چکا تھا'جب بادل زور سے گرجے۔یہ بس سٹاپ یونیورسٹی کے اندر ہی تھا۔سبانجی کی ہیرئین "گورسل"تھی 'گورسل بس سروس۔وہ سبانجی کے طلبا کے لئے ہی چلتی تھی اور انہیں استنبعل شہر تک لے جاتی تھی۔ہالے نے اسے گورسل کا شیڈول رٹوا دیا تھا۔چس دن تمہاری گورسل چھوٹی'تمہیں ہالے نور بہت یاد آئے گی۔اس نے سختی سے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا۔گورسل اپنےوقت سے ایک لمحہ تاخیر نہیں کرتی تھی'اور اگر آپ چند سیکنڈ بھی دیر سے آئے تو گورسل گئی۔اب دو گھنٹے بیٹھ کر اگلی گورسل کا انتظار کرو۔جب وہ گورسل میں بیٹھی توآسمان پر سیاہ بادل اکٹھے ہو رہے تھے۔جب گارسل نے باسفورس کا عظیم الشان پل پار کیا تو موٹی موٹی بوندیں پانی میں گر رہی تھیں اور جب وہ ٹاقسم اسکوائر پہ اتری تو استنبول بھیگ رہا تھا۔ٹاقسم اسکوائر استنبول کاایک مرکزی چوک تھا۔وہاں عین وسط میں اتاترک سمیت تاریخی شخصیات کے مجسمے نصب تھے۔"مجسمہ آزقدی" ایک طرف ہرا بھرا سا پارک تھا'اور دوسری طرف میٹرو ٹرین کا زیرِزمین اسٹیشن۔وہ بس سے اتری توبارش تڑاٹر برس رہی تھی۔موٹے موٹے قطرے اس پہ گِر رہے تھے۔وہ سینے پہ بازو لپیٹے تیز تیز سڑک پار کرنے لگی۔گیلی سڑک پہ اونچی ہیل سےچلنادشوارہو گیا تھا۔چند ہی لمحوں میں وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔زیرِزمین میٹرو اسٹیشن تک جاتی وہ چوڑی سیڑھیاں سامنے ہی تھیں۔وہ تقریباًدوڑ کر سیڑھیوں کےدہانے تک پہنچی ہی تھی کہچیخ کی آواز آئی۔وہ لڑکھڑائی اور گرتے گرتے بچی۔اس کی دائیں سینڈل کی ہیل درمیان سے آدھی ٹوٹ گئی تھی۔ٹوٹا ہوا دو انچ کا ٹکڑا بس اٹکا ہوا ساتھ لٹک رہا تھا۔اس نے خفت سے اِدھر اُدھر دیکھ#ا۔لوگ مصروف سے انداز میں چھتریاں تانے گزر رہے تھے۔شکر کہ کسی نے نہیں دیکھاتھا۔بارش اسی طرح برس رہی تھی۔اس کے بال موٹی گیلی لٹوں کی صورت چہرے کے اطراف میں چپک گئے تھے۔اسنے کوفت سے ٹوٹے جوتے کے ساتھ زینہ اترنا چاہا'مگر یہ نا ممکن تھا۔جھنجلا کر وہ جھکی'دونوں جوتوں کے اسٹریپس کھولے'پاوں ان میں سے نکالے اور جوتے اسٹریپس سے پکڑ کر سیدھی ہوئی۔نیچے ٹرین کے پہنچنے کا شور مچ گیا تھا۔وہ بھاگتے ہوئے زینہ اترنے لگی۔اس کے پہلو میں گرے ہاتھ سے لٹکےدونوں جوتے ادھر ادھر نھول رہے تھے۔میٹرو کا ٹکٹ ڈیڑھ لیرا کا تھا'چاہے جس اسٹیشن پربھی اترو۔وہ ٹکٹ لے کر جلدی سےٹرین میں داخل ہوئیتا کہ کسی کے محسوس کرنے سے قبل ہی معتبر بن کر جوتا پہن کر بیٹھ جا ئے۔میٹرع میں نشستیں دونوں دیواروں کے ساتھ قطار میں تھیں۔کھڑے ہونے والے کے لئے اوپر راڈ سے ہینڈل لٹک رہے تھے۔وہ ایک ہینڈل کو پکڑے بھیڑ میں سے راستہ بنانے لگی۔اس کی نظر کونے کی ایک خالی نشست پر تھی مگر آگے چلتے شخص نے راستہ روک رکھا تھا۔جب تک وہ کانے والی نشست پر بیٹھا نہیں'وہ آگے نہیں بڑھ سکی'پھر اس کے بیٹھتے ہی دھم سے اس کے برابر کی جگہ پہ آ بیٹھی۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص شناسا سا لگا۔۔لمحے بھر کو اس کا سانس رُک س گیا تھا۔وہ جہان سکندر تھا۔بہت قیمتی اور نفیس سیاہ سوٹ میں ملبوس'جیل سے بال پیچھے کیےوہ چہرے پہ ڈھیروں سنجیدگی لئے اخبار کھول رہا تھا۔وہ متخیر سی بیٹھی'سامنے دیکھے گئی۔کن اکھیوں سے اسے وہ چہرے کے آگے اخبار پھیلا ئے نظر آ رہا تھا۔سامنے والی قطار اوران کی قطار کے درمیان جگہ اوپرلگے ہینڈل پکڑ کر کھڑے لوگوں سے بھرنے لگی تھی۔وہ اس عجیب اتفاق پر اتنی ششدر بیٹھی تھی کہہاتھ سے لٹکتے جوتےبھول ہی گئے۔یاد رہا تو بس یہی کہ وہ کتنا قریب۔۔۔۔۔مگر کتنا دور تھا۔وہ اسے کیسے مخاطب کرے؟اور اگر وہ اسے دےکھے بنا ٹرین سے اتر گیا تو۔؟اس کا دل ڈوبنے لگا۔مگر وہ تو اسے شائدپہچانے بھی نہ۔اس ے سرد مہر'کم گو شخص سے یہی توقع تھی۔چند پل سر کے تھےکہ جہان نے صفحہ پلٹنے کی غرض سے اخبار نیچھے کیااور انگوٹھے سےاگلے صفحے کا کنارہ موڑتے ہوئےایک سرسری نگاہ پہلو میں بیٹھی لڑکی پہ ڈالی'پھر صفحہ پلٹ کر اخبار کی طرف متوجہ ہو گیا۔لیکن اگلے ہی پل وہ جیسے رکااور گردن موڑ کردوبارہ اسے دیکھا۔اس کی بھیگی موٹی لٹیں رخساروں سے چپک گئی تھیں۔پانی کے قطرے ٹھوڑی سے نیچے گردن پہ گر رہے تھے'وہ اس کے متوجہ ہونے پہ بھی سانس روکے سامنے دیکھے گئی۔"اوہ۔۔۔حیا!"وہ حیرت بھری آوازکہیں دور سے آئی تھی۔حیا نے دھیرے سے پلکیں اس کی جانب اٹھائیں۔کاجل کی لکیر مٹ کر نیچھے بہہ گئی تھی'تب بھی ان اداس آنکھوں میں عجب سحر دکھتا تھا۔"جہان سکندر!"وہ بدقت رسماًمسکرائی۔"حیا!کیسی ہو؟اکیلی ہو؟"کہنے کے ساتھ جہان نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔وہاں کوئی مسافر حیا کا ہم سفر نہیں لگ رہا تھا۔"جی اکیلی ہوں۔""میں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیسی ہو؟" مسکراتے ہوئے اپنا ئیت سے کہتے ہوئے وہ اخبار تہہ کرنے لگا۔ وہ جو اس کے لئے ہتھوڑی اور میخیں نہیں تکھ سکتاتھا اب اخبار رکھ رہا تھا؟یا خدا! یہ وہی جہان سکندر تھا؟"ممی تمہیں یاد کر رہی تھیں۔تم پھر کب آو گی گھر؟"اخبار ایک طرف رکھ کراب وہ پوری طرح حیا کی جانب متوجہ تھا۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔"بس۔۔شائد کچھ دن۔۔۔۔"کچھ کہنے کی سعی میں اسے محسوس ہوا 'جیان کی نظریں اس کے ہاتھ پہ پھسلی تھیں'اور پیشتر اس کے کہ وہ چھپاپاتی' وہ دیکھ چکا تھا۔"جوتے کو کیا ہوا ہے؟اتنی سردی میں ننگے پاوں بیٹھی ہو۔لاو دکھاو جوتا"۔وہ خفا ہوا تھا یا فکر مند'اسے سوچنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔جہان جوتا لینے کے لئے حھکا تو اس نے بے بسی سے ٹوٹی ہیل والی سینڈل سامنے کی۔"یہ تو الگ ہونے والا ہے"۔اس کے ہاتھ سے جوتا لے کراب وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔حیا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔"جہان!رہنے دو۔""ٹھرو 'شاید یہ جڑ جا ئے"۔وہ جھک کر دوسرے ہاتھ سےبریف کیس میں سے کچھ نکالنے لگا۔"جہان!لوگ دیکھ رہے ہیں"۔"یہ پکڑوزرا"۔وہ سیدھا ہوا اور جوتا حیا کو تھمایا'پھر ہاتھ میں پکڑا ٹیپ کھولا۔کافی لمبا سا اسٹریپ کھول کر دانت سے کاٹا۔حیا نے جوتا سامنے کیا۔اس نے احتیاط سےہیل کے نچھلے لٹکتے حصے کو اوپر کے ساتھ جوڑا اوراس کے گرد چکروں میں ٹیپ لگاتا گیا۔"اب پہنو"۔مرہم شدہ سینڈل کو اس نے جھک کر حیا کے قدموں میں رکھا۔حیا نے اس میں پاوں ڈالا اور اسٹریپ بند کرنے جھکی ہی تھی کہ زورپڑنے سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پٹخ ہوا اورہیل کا ٹوٹا حصہ سرے سے ہی الگ ہو گیا۔"اوہ!"وہ متاسف ہوا۔"کوئی بات نہیں"۔حیا کو شرمندگی نے آن گھیراتھا۔یہ وہ سرد مہر اور تلخ جہان نہیں 'بلکہ کوئی اپنا اپنا سا شخص تھا۔وہ جواب دینے کی بجائے جھک گیا تھا۔حیا نے گردن ترچھی کر کے دیکھا۔وہ اپنے بوٹ کا تسمہ کھول رہا تھا۔اس سے پہلے کہ حیا اسے روک پاتی'جہان اپنے بوٹ اتار چکا تھا۔" پہن لو۔باہر ٹھنڑ ہے'سردی لگ جائے گی"۔ اب وہ جرابیں اتارکر اپنے بریف کیس میں رکھ رہا تھا۔اس کا انداز عام سا تھا'جیسے وہ روز ہی میٹرو میں کسی نہ کسی کو اپنے جوتے دے دیتا ہو۔"نہیں 'رہنے دو۔میں ابھی مارکیٹ سے نیا لے لوں گی"۔"پہن لع حیا!""مگر تم کیا کرو گے؟تم تو آفس جا رہے ہو نا؟"جہان نے زرا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا"آفس کے کام سے سسلی جا رہا ہوں"۔"پھر میں تمہیں جوتے کیسے واپس کروں گی؟پتا نہیں کب تمہارے گھر آوں اور۔۔۔""تم ابھی اکیلی کہیں نہیں جا رہیں۔اگلا سٹیشن سسلی ہے۔ادھر ہم ساتھ مال سے جوتا خریدیں گے'پھر میں اپنے بوٹ واپس لے لوں گا"۔"مگر تمہارے آفس کا کام۔۔۔""میں ننگے پاو ۔ جا کر کیا کروں گا؟"وہ دھیرے سے مسکرایا۔وہ پہلی بار حیا کے لئے مسکرایا تھا۔وہ یک ٹک کاجل کی مٹتی سیاہی والی آنکھوں سے اسے دیکھی گئی۔اس کے چہرے سے چپکی موٹی گیلی لٹیں اب سوکھنے لگی تھیںاور ٹھوڑی سے گرتے پانی کے قطرے اب خشک ہو چکے تھے۔"جوتے پہن لو۔لوگ اب بھی دیکھ رہے ہیں"۔وہ چونکی پھر خفیف سا سر جھٹکااور دوہری ہو کر بوٹ پہننے لگی۔وہ جب بھی سمجھتی کہ جہان لا تعلقی سے بیٹھا'اس کی بات نہیں سن رہا'وہ اس کو وہی فقرہ لوٹا دیا کرتا تھا۔وہ سیدھی ہوئی تو جہان اخبار کھول چکا تھا۔عجیب دھوپ چھاوں جیسا شخص تھا۔سسلی کے سٹاپ پہ میٹرو سے اترتے وقت حیا نے دیکھا'جہان بہت آرام سے اس کے آگے ننگے پاوں چل رہا تھا۔اس کے انداز میں کوئی خفت'کوئی جھجک نہ تھی۔وہ دونوں خاموشی سے سیڑھیاں چڑھنےلگے۔چندزینے بعد ہی سیڑھیوں کے احتتام پہ سڑک اور کھلا آسمان دکھائی دینے لگا۔وہ جہان کے دائیں طرف تھی۔آخری سیڑھی چڑھتے ہوئےاس نے دیکھا زمین پہ ایک کیل نکلی پڑی تھی۔اس سے پیشتر کہ وہ مطلع کر پاتی'جہان کا پاوں اس کیل کے نوکدار حصے پہ آیا۔جب اس نے دوبورہ پاوں ااٹھایا تواس کی ایڑھی سے خون کی ننھی سی بوند نکل گئی تھی۔اس نے بے اختیار جہان کے چہرےبکو دیکھا۔وہ سکون سے سیدھ میں دیکھتا تیز تیز چل رہا تھا۔"جہان۔۔۔۔تمہارا پاوں۔۔۔تمہیں زخم آیا ہے۔"وہ اس کے ساتھ چلنے کی کوشش میں تیزی سے چلنے لگی تھی۔"خیر ہے"۔وہ رکا نہیں۔"مگر تمہارا خون نکلا ہے"۔وہ واقعتاًپریشان تھی۔"بچوں والی بات کرتی ہو تم بھی۔اتنے شرا سے خون سے میں زخمی تو نہیں ہو گیا۔بہت ٹف زندگی گزاری ہے میں نے۔وہ دیکھو'جواہر مال۔"اس سے کچھ کہنا بے کار تھا۔وہ چپ ہو کر اس کے ساتھ مال کے قریب آ رکی۔وہ بلند و بالا خوبصورت'نیلے سرمئی شیشوں سے ڈھکی عمارت تھی۔اس کے اوپر بڑا سا ستارہ اور اطرف میں چھوٹے ستارے بنے تھے۔بڑے ستارے کے اوپر Cavahir mallلکھا تھا' اور جہان ترکوں کی طرح "سی"کو "جے"پڑھ رہا تھا۔"یہ جواہر مال ہے۔یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شاپنگ مال"۔وہ فخر سے بولا تھا۔جاری هے
Thursday, 28 September 2017
ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے،
ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے، صرف ہمارا کردار ختم ہوتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
پیرِ کامل ﷺ - عمیرہ احمد
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ۔۔
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ۔۔۔۔ ﮐﮧ ﮨﻢ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﮔﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﮯ ۔۔۔۔ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ۔۔۔۔ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﺎ ﺑﺎﺯﻭ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ۔۔۔۔ ﮔﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ۔۔۔۔۔ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮐﺐ ، ﮐﮩﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﮕﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ، ﺧﺎﮎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﮔﻨﺪﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﻮ ۔
" ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺁﺳﻤﺎﻥ " ﻋﻤﯿﺮﮦ ﺍﺣﻤﺪ
زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہئے
زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہئے جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اسے بھول جانے کی عادت۔ یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچا دیتی ہے۔
امربیل ۔ عمیرہ احمد
،آپ نے مجھے غرور سے چھوڑا تھا، میں آپ کو عاجزی سے چھوڑتی ہوں
،آپ نے مجھے غرور سے چھوڑا تھا، میں آپ کو عاجزی سے چھوڑتی ہوں
لوگوں کو پا نے کے لئے کبھی انکو کھونا پڑتا ہے !!
میری ذات ذرا بے نشاں
دنیا میں صرف برے لوگ نہیں ہوتے ۔۔
دنیا میں صرف برے لوگ نہیں ہوتے ۔۔ اگر اچھا ساتھی مل جائے تو زندگی کا سفر پھولوں کے رستے کا سفر بن جاتا ہے ۔۔
اور اگر ساتھی برا نکل آئے تو وہی رستہ کانٹوں سے بھر جاتا ہے بہتر نہیں ہے ہم نہ پھول مانگیں نہ کانٹے لیں خالی کچے راستے چلنا سیکھ لیں ۔۔
زندگی گلزار ہے ، عمیرہ احمد
زندگی میں ہارنے والوں کو بہت کم لوگ یاد رکھتے ہیں۔۔۔۔
زندگی میں ہارنے والوں کو بہت کم لوگ یاد رکھتے ہیں۔۔۔۔
ہار انسان کے غیر معمولی چہرے کو بھی معمولی بنادیتی ہے اور جیت معمولی شکل کو غیر معمولی ۔
عکس ۔ عمیرہ احمد
جنت کے پتے نمره احمد قسط نمبر 10
جنت کے پتےنمره احمدقسط نمبر 10دروازے پہ مدهم سی دستک ہوئ تو وہ سرعت سے کرسی سے اٹهی.ایک نظر سوئ ہوئ ڈی جے پہ ڈالی، دوسری اپنے زیر استعمال بینک پہ جو دوبارہ سے بنا سلوٹ اور شکن کے بنایا جا چکا تها اور جس پہ ترک لڑکیوں کے اعتماد کے خون کیے جانے کی کوئ نشانی باقی نہ تهی.....اور دروازہ کهول دیا." السلام علیکم ایکسچینج اسٹوڈنٹس ! " ہالے نور ہشاش بشاش سی مسکراتی کهڑی تهی.وہ یوں تهی گویا دهلی ہوئ چاندنی.سیاہ اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے ، ہلکی سبزلمبی جیکٹ تلے سفید جینز پہنےشانے پہ بیگ اور ہاتھ میں چابیوں کا گچھا پکڑے وہ پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی ۔وعلیکم السلام ، آؤ ہالے " وہ مسکراتی ھوئی ایک طرف کو ھوئی ۔تمہارے کمرے میں گئی تھی ۔ مگر تم ادھر نہیں تھیں میں نے اندازہ کیا کہ تم یہیں ھو گی ۔ ہالے نے اپنا بیگ میز پہ رکھا اور کرسی کھینچ کر نفاست سے بیٹھی ۔ہاں میں علی الصبح ہی ادھر آ گئی تھی ۔ ڈی جے کی یاد آ رہی تھی ۔خدیجہ سو رہی ھے ؟ ہالے نے گردن اونچی کر کے اوپر دیکھا جہاں ڈی جے دو موٹے کمبل گٹھڑی کی صورت خود پہ ڈالے سو رہی تھی ۔ ہاں اور شاید دیر تک سوتی رہے ۔اوہ ... میں نے سوچا تھا کہ تمہارے فون رجسٹرڈ کروانے چلیں آج ۔ ترکی میں غیر ملکی فون پہ ترک سم کارڈ ایک ہفتے کے بعد بلاک ھو جاتا ہے ۔ہاں بالکل ۔ تم لوگ جاؤ اور میرا فون بھی لے جاؤ میں ابھی دو گھنٹے مزید سوؤں گی ،،کمبلوں کے اندر سے آواز آئی تو ہالے مسکرا دی ، مسکراتے ھوئے اس کی چمکتی ھوئی سرمئی آنکھیں چھوٹی ھو جاتی تھیں ۔ چلو حیا ! ہم دونوں چلتے ہیں ۔۔، وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑی ھو گئی تھیں ۔ حیا صبح اپنے کمرے میں جا کر فریش ھو آئی تھی ۔ ابھی وہ سیاہ چوڑی دار پاجامے اور ٹخنوں تک آتی سیاہ لمبی قمیص میں ملبوس تھی ۔ شیفون کا دوپٹہ گردن کے گرد مفلر کی ظرح لپیٹے اور اوپر لمبا سیاہ سوئیٹر پہنے ھوئے تھی ۔کچھ دن میرے خوش قسمت دن ھوتے ہیں ، جب میرے پاس کار ھوتی ھے اور کچھ دن بدقسمت دن جب میرے پاس کار نہیں ھوتی اور آج میرا خوش قسمت دن ھے ۔ ہالے نے اٹھتے ھوئے بتایا ۔ ابھی ہم قریبی دکانوں میں جائیں گے ۔ اگر وہاں سے فون رجسٹرڈ نہ ھوئے تو جواہر چلیں گے ، اس کے بعد وہاں سے جہانگیر ۔۔،،جواہر ؟ حیا نے ابرو اٹھائی ، جہانگیر کو اس نے کسی ترک کا نام سمجھ کر نظرانداز کر دیا ۔جواہر شاپنگ مال ھے ۔ یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شاپنگ مال !..اوہ اچھا جیسے پاک ٹاورز ۔۔۔،، اوپر کمبلوں سے آواز آئی ۔پاک ٹاور ؟؟؟ ہالے نے گردن اٹھا کر خدیجہ کے کمبلوں کو دیکھا ۔ہمارا پاک ٹاورز ایشیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال میں شمار ھوتا ھے ،، وہ غنودہ آواز میں بولی ۔ نائس ہالے ستائش سے مسکرا کر باہر نکل گئی ۔ حیا نے اس کے جانے کی تسلی کر لیپھر لپک کر پیچھے آئی ۔ اور سیڑھی پر چڑھ کہ ڈی جے کا کمبل کھینچا ۔یہ پاک ٹاورز ایشیا کا سب سے بڑا مال کب سے ھو گیا ؟؟؟ اس نے کون سا جا کر چیک کر لینا ھے ۔ تھوڑا شو مارنے میں کیا حرج ھے ؟؟ ڈی جے غڑاپ سے پھر کمبل میں گھس گئی ہالے ڈرائیو کرتے ھوئے متاسف سی بار بار معذرت کر رہی تھی ۔ فون رجسٹر نہیں ھو سکے تھے ۔" وی آ " پورٹ کی دکان پہلے تو ملی نہیں ، دوسری موبائل کمپنیوں کی دکانیں ہی ہر جگہ تھیں ۔ یوں جیسے آپ کو زونگ کی دکان کی تلاش ھو اور ہر طرف یو فون کی دکانیں ھوں ۔ بمشکل ایک دکان ملی تو اس کا مینیجر شاپ بند کر کے جا رہا تھا ۔ لاکھ منتوں پر بھی اس نے دکان نہیں کھولی اور چلا گیا ۔ اب ہالے مسلسل شرمندگی کا اظہار کر رہی تھی ۔بس کرو ہالے بعد میں ھو جائے گا یہ کام اب مجھے شرمندہ مت کرو ،خیر تمہارا دوسرا کام تو کروں ، جہانگیر چلتے ہیں ۔ ہالے نے گہری سانس اندر کھینچی ۔ گاڑی سڑک پہ رواں دواں تھی ۔ اور کھڑکی کے باہر ہر سو برف دکھائی دے رہی تھی ۔تم ایڈریس دکھاؤ ہم پہنچنے والے ہیں ۔۔کدھر ؟؟؟ حیا نے ناسمجھی سے ڈرائیو کرتی ہالے کو دیکھا ۔ جہانگیر اور کدھر ؟؟ وہاں کیا ھے ؟ تمہاری آنٹی کا گھر ، کل کہا جو تھا کہ تمہیں لے جاؤں گی صبح بتایا بھی تھا ، بھول گئیں ؟ تم۔۔۔۔ تم مجھے ادھر لے کر جا رہی ھو ؟؟ وہ ہکا بکا رہ گئی ۔ہاں نا ۔۔ اب ایڈریس بتاؤ ، اسٹریٹ نمبر تو مجھے یاد رہ گیا تھا ، آگے بتاؤ ۔۔ اوہ ہالے ! اس نے ہڑبڑا کر پرس سے وہ مڑا تڑا سا کاغذ نکالا ۔۔۔ اس نے دیکھا ، اس علاقے کا نام Chihangir لکھا تھا وہ اسے سہانگیر پڑھتی رہی تھی ، اب یاد آیا کہ ترکوں کا سی ، جیم کی آواز سے پڑھا جاتا تھا ۔ اگر اسے زرا سا بھی اندازہ ھوتا کہ ادھر جانا ھے تو وہ تحائف ہی اٹھا لیتی جو اماں نے بھیجے تھے ۔ زرا اچھے کپڑے ہی پہن لیتی ۔لو یہ تو سامنے ہی تھا ۔ اب تم جاؤ مجھے ادھر تھوڑا کام ھے ۔ میرا نمبر تم نے فون میں فیڈ کر لیا ھے نا ؟ جب فارغ ھونا تو مجھے کال کر لینا ۔۔ میں آ جاؤں گی ، گھنٹہ تو مجھے بھی لگ ہی جائے گا، پھر کھانا ساتھ ہی کھائیں گے ۔ گاڑی رک چکی تھی ۔ حیا نے بےتوجہی سے اس کی ہدایات سنیں اور دروازہ کھول کر نیچے اتری ۔اس کے دروازہ بند کرتے ہی ہالے گاڑی زن سے بھگا لے گئی ۔وہ ایک خوبصورت چھوٹا سا بنگلہ تھا ۔ بیرونی چار دیواری کی جگہ سفید رنگ کی لکڑی کی باڑ لگی تھی ۔ گیٹ بھی لکڑی کی باڑ کا بنا تھا ۔ گیٹ کے پیچھے چھوٹا سا باغیچہ تھا اور اس کے آگے وہ بنگلہ ۔ بنگلے کی گلابی چھت مخروطی تھی ۔ داخلی سفید دروازہ زرا اونچا تھا ۔ اس تک چڑھنے کے لیے دو اسٹیپس بنے تھے ۔ اسٹیپس کے دونوں اطراف خوش رنگ پھولوں والے گملے رکھے تھے ۔ تو یہ تھی وہ چھوٹی سی جنت ، جس میں وہ رہتا تھا ۔ اور جس سے باہر نکلنے کا اس نےکبھی نہیں سوچا تھا ۔ وہ گیٹ کو دھکیل کر ، پتھروں کی روش پر چلتی ان اسٹیپس تک آئی ، اونچے سنہری دروازے پہ سنہری رنگ کی تختی لگی تھی ۔" سکندر شاہ " وہ ترک ہجوں میں لکھا نام اس کے پھوپھا کا ہی تھا ۔گھنٹی کی تلاش میں اس نے ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی ۔ اس گھر میں بہت سی لکڑی کی کھڑکیاں بنی تھیں ۔ اور شاید کوئی کھڑکی کھلی تھی ۔جس سے مسلسل ایک ٹھک ، ٹھک کی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی ہتھوڑے یا کلہاڑے کو لکڑی پہ زور سے مار رہا ھو ۔اس نے اپنی کپکپاتی انگلی گھنٹی پہ رکھی اور سنہری ڈور ناب کے چمکتے دھات میں اپنا عکس دیکھا ۔کاجل سے لبریز بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ، دونوں شانوں پر سے پھسل کر نیچے گرتے لمبے بال اور سردی سے سرخ پڑتی ناک ۔وہ سیاہ لباس میں چینی کی مورت لگ رہی تھی ، گھبرائی ھوئی پریشان سی مورت ۔اس نے گھنٹی سے انگلی اٹھائی تو ٹھک ٹھک کی آواز بند ھو گئی ۔ چند لمحے بعد لکڑی کے فرش پہ قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ کوئی انجانی زبان میں بڑبڑاتا دروازہ کھولنے آ رہا تھا ۔وہ لب کاٹتے ھوئے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی ، جب دروازہ کھلا ۔ چوکھٹ پہ بچھے ڈور میٹ پہ اسے دروازہ کھولنے والے کے ننگے پاؤں دکھائی دیے ۔ اس کی نگاہیں دھیرے سے اوپر اٹھتی گئیں ۔بلیو جینز اور اوپر گرے سوئیٹر میں ملبوس ، وہ ایک ہاتھ میں ہتھوڑی پکڑے کھڑا تھا ۔ سوئٹر کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں اور اس کے کسرتی بازو جھلک رہے تھے حیا نے دھیرے سے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا ۔ اس کا سانس لمحے بھر کو ساکت ھوا ۔وہ ویسا ہی تھا جیسے اپنے بچپن کی تصاویر میں لگا کرتا تھا ۔ وہی بھورے مائل بال جو بہت اسٹائلش انداز میں ماتھے پہ گرتے تھے ۔ پر کشش آنکھیں ، اٹھی ھوئی مغرور ناک ، سنہری رنگت کے تیکھے نقوش ، وہ ماتھے پہ تیوری لیے آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہا تھا بلاشبہ وہ بہت ہینڈسم تھا ۔" سن کمسن ؟؟؟اس نے ترک میں کچھ پوچھا تو وہ چونکی ۔ سس ۔۔۔۔ سبین سکندر ۔۔۔۔ سبین سکندر کا گھر یہ ہی ھے ؟ جی یہی ھے "وہ انگریزی میں بتا کر سوالیہ جانچتی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا ۔ اسے لگا وہ بوسفورس کے پل پر ہتھیلیاں پھیلائے کھڑی ھے ۔اور نیلے پانیوں کو چھو کر آتی ھوا اس کے بال پیچھے کو اڑا رہی ھے ۔ وہ کسی گہرے خواب کے زیر اثر تھی ۔ حسین خواب کے ۔۔۔ میں ان کی مہمان ھوں پاکستان سے آئی ھوں ۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی ۔کیسی مہمان ؟؟ اس کا انداز اکھڑا اکھڑا سا تھا جیسے وہ کسی ضروری کام میں مصروف تھا جس میں حیا مخل ھوئی تھی ۔ میں حیا ھوں ۔۔۔ حیا سلیمان ۔۔۔ اس نے پرامید نگاہوں سے جہان سکندر کا چہرہ دیکھا ۔ کہ ابھی اس کا نام سن کر اس کی پرکشش آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق ۔۔۔ کون حیا سلیمان ؟؟؟ اس کے قدموں تلے بوسفورس کا پل شق ھوا تھا ۔ وہ بے دم سی نیچے گہرے پانیوں میں جا گری تھی ۔"کون حیا سلیمان ؟؟؟ بے آواز دہراتے ھوئے وہ سن سی ھوتی اسے تک رہی تھی ۔ اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں ۔ اس شخص کے چہرے پر زمانے بھر کی بیزاری اور اجنبیت تھی ۔ پہچاننے یا نا پہچاننے کا تو سوال ہی نہ تھا ۔ جہان سکندر تو اس سے واقف ہی نہ تھا ۔کون ، مادام ؟؟ اس نے قدرے اکتا کر دہرایا ۔ حیا نے خفیف سا سر جھٹکا پھر لب بھینچ لیے ۔میں سبین پھپھو سے ملنے آئی ھوں ۔ان کے بھائی سلیمان کی بیٹی ھوں ۔ وہ جانتی ہیں مجھے " اوکے , اندر آ جاؤ " وہ شانے اچکا کر واپس پلٹ گیا ۔وہ جھجھک کر اوپر زینے پہ چڑھی پائیدان کو دیکھ کر کچھ یاد آیا تو فورًا پیر جوتوں سے نکالے اور لکڑی کہ فرش پہ قدم رکھا ۔فرش بیحد سرد تھا ۔ دور راہداری کے اس پار جہاں اس نے جہان کو جاتے دیکھا تھا وہاں سے ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک پھر سے شروع ھو چکی تھی ۔ وہ راہداری عبور کر کے کچن جے دروازے میں آ کھڑی ھوئی ۔ امریکی طرز کا کچن نفاست سے آراستہ تھا ۔ عین وسط گول میز کے گرد چار کرسیوں کا پھول بنا تھا ۔ ایک جانب کاؤنٹر کے ساتھ وہ حیا کی جانب پشت کیے کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں ہتھوڑی تھی ۔ جس سے وہ اوپر کیبنٹ کے کھلے دروازے کے جوڑ پر زور زور سے ضربیں لگا رہا تھا ۔ وہ چند لمحوں کے شش و پنج کے بعد ڈھیٹ بن کر آگے آئی ۔ اور قدرے آواز کے ساتھ کرسی کھینچی ۔ وہ بے اختیار چونک کر پلٹا ۔ ڈرائنگ روم ۔۔۔ خیر !،، وہ ناگواری سے لب بھینچ کر واپس کیبنٹ کی طرف مڑ گیا ۔ اس نے ایک ہاتھ سے کیبنٹ کے دروازے کے جوڑ پہ کسی شے کو پکڑ رکھا تھا ۔ اور دوسرے ہاتھ سے ہتھوڑی مار رہا تھا ۔ حیا سلیمان نے زندگی میں کبھی اتنی تذلیل محسوس نہیں کی تھی ۔ مام ۔۔۔۔۔۔ مام ۔۔۔۔۔ چند لمحے گزرے تو وہ اسی طرح اپنے کام کی طرف متوجہ ، چہرے پہ ڈھیروں سنجیدگی لیے پکارنے لگا ۔وہ انگلیاں مروڑتی ٹانگ پہ ٹانگ رکھے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔دفعتًا چوکھٹ پہ آہٹ ھوئی تو سر اٹھایا ۔ راہداری سے برتن ہاتھ میں لیے سبین پھپھو اسی پل کچن میں داخل ھوئی تھیں ۔جاری هے
ناول: جنت کے پتے تحریر:نمره احمد قسط نمبر 9
ناول: جنت کے پتےتحریر:نمره احمدقسط نمبر 9رکهنے اور ساته شاہر ہ وقت اٹهائے رکهنے کا رواج تها." یعنی اگر کسی کا نام جہان ہو تو وہ ترک ہجوں میں اسے کیسے لکهے گا ؟" بلا ارادہ اس کے لبوں سے نکلا.پهر فورا" گڑبڑا کر ڈی جے کو دیکها.وہ ذرا فاصلے پر کبوتروں کی تصاویر کهینچ رہی تهی.اس نے نہیں سنا تها.ہالے شاپر ڈسٹ بن میں پهینک کر سیدهی ہوئ اور مسکرا کر ہجے کر کے بتایا. (CIHAN )" اوہ !" اس نے خفیف سا سر جهٹکا.تب ہی وہ اسے فیس بک پر نہیں ملا تها.وہ اس کو Jihan لکه کر ڈهونڈتی رہی مگر وہ تو اپنے نام کو Cihanلکهتا ہوگا.گلی صاف ستهری اور کشادہ تهی.دونوں اطراف میں دکانوں کے دروازے کهلے تهے.آگے کرسیاں میزیں بچهی تهیں.اردگرد بہت سے اسٹال لگے تهے.سڑک کے کناروں پہ کهلے عام کتے ٹہل رہے تهے مگر وہ بهونکتے نہیں تهے.حیا کو بهوک لگ رہی تهی اور وہ اب اس سفر نامے سے بور ہونے لگی تهی.بمشکل وہ تینوں اس رش بهرے محلے سے نکلیں." ایکسچنج اسٹوڈنس کو ان کا پہلا کهانا ایک ترک میزبان خاندان دیا کرتا ہے اور ابهی ہم اسی میزبان خاندان کے گهر جا رہے ہیں." جب وہ کار میں بوسفورس کے پل پر سے گزر رہی تهیں تو ہالے نے بتایا.کهانے کا سن کر اس پہ چهائ بیزاریت ذرا کم ہوئ.میزبان خاندان کا گهر استنبول کے ایک پوش علاقے میں واقع تها.کشادہ سڑک،خوبصورت بنگلوں کی قطار اور بنگلوں کے سامنے سبزے پہ جمی برف ان کے اسکالر شپ کو آرڈئ نیٹر نے چند باتیں انهیں ذہن نشین کروا دی تهیں کہ ترکی میں جوتے گهر سے باہر اتارنے ہیں، گهاس پہ نہیں چلنا اور ملاقات کے وقت ترک خاندان کے بڑے کا ہاته چومنا ہے." اس کی ضرورت نہیں تهی.اس تکلف کو رہنے دو " ان دونوں نے گهر کے داخلی دروازے کے باہر بچهے میٹ پہ جوتے اتارے تو اندر سے آتی وہ مشفق اور معمر خاتون پیاری بهری خفگی سے بولی تهیں.پہلے دن کوئ اصول نہیں ہوتے، السلام علیکم اور ترکی میں خوش آمدید " " آپ کے اصولوں کی پاسداری میں ہمارے لیے فخر ہے " حیا نے مسکراتے ہوئے ان کا ہاته تهاما اور سر جهکا کر ان کے ہاته کی پشت کو لبوں سے لگایا.معمر خاتون ، مسز عبدالله کا چہرہ خوشی سے دمک اٹها."اندر آجاؤ".وہ راستہ دینے کے لیے ایک طرف ہٹیں.ان کی سرخ بالوں والی بیٹی آگے بڑهی اور کارپٹ شوز حیا اور ڈی جے کے قدموں میں رکهے.وہ ریشمی کپڑے سے بنے کوٹ شوز کی شکل کے جوتے تهے.دونوں نے جهک کر وہ جوتے پہنے اور اندر داخل ہوئیں.اس ترک گهر کا فرش لکڑی کا بنا تها.لونگ روم کے فرش پہ بہت خوبصورت قالین بچهے تهے.وہ باته روم ہاته دهونے آئ تو دیکها ،وہاں بیسن اور ٹونٹی وغیرہ نہیں تهے بلکہ ایک طرف قطار میں نل لگے تهے، البتہ باته روم کے فرش پر بهی رگز ( پائیدان ) اور کاؤچ بچهے تهے، حیرت انگیز ! وہ واپس آئ تو ڈائننگ روم میں کهانا لگایا جا رہا تها.ڈی جے جهک کر پیار سے مسز عبدالله کی چه سالہ نواسی عروہ سے کچه کہہ رہی تهی.وہ تین خواتین پہ مشتمل چهوٹا سا کنبہ تها اور چونکہ وہ دونوں لڑکیاں تهیں سو ہالے نے ایسے ترک خاندان کا چناؤ کیا تها ، جس میں کوئ مرد نہ ہو.اسی پل مسز عبدالله سوپ کا بڑا سا پیالا اٹهائے آئیں.ہالے ان کی مستعدی سے مدد کروا رہی تهی." تم کیا کہہ رہی تهیں ، تمهارا یہاں کوئ رشتے دار بهی ہے ؟ " انهوں نے سوپ کا ڈونگا میز پہ رکها.حیا نے ایک نظر اس ملغوبے کو دیکها." جی میری پهپهو ہیں ادهر. " وہ سوپ کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکهتے ہوئے بولی." کدهر رہتی ہیں ؟ " "ادهر " اس نے پرس سے وہ مڑا تڑا کاغذ نکال کر ہالے کو تهمایا.ہالے نے ایک نظر اس کاغذ کو دیکها اور پهر اثبات میں سر ہلا دیا."کل میں ملوا دوں گی تمهیں ان سے ، کهانا شروع کرو." اس نے کاغذ واپس حیا کی جانب بڑها دیا." ڈی جے ! ہم واقعی ترکی میں بهوکوں مریں گے.اس ملغوبے کی شکل تو دیکهو ، مجهے تو پهر سے متلی ہو رہی ہے." حیا جبرا" مسکراتے ہوئے ہولے سے اردو میں بولی.مسز عبدالله نے ناسمجهی سے اسے دیکها." یہ کہہ رہی ہے کہ ان خواتین کا خلوص اسے شرمندہ کر رہا ہے."ڈی جے نے جلدی سے ترجمانی کرتے ہوئے میز کے نیچے سے اس کا پیر زور سے کچلا."اوہ شکریہ " مسز عبدالله مسکرا کر کهانا پیش کرنے لگیں.سوپ دراصل سرخ مسور کی دال کس شوربہ تها اور اردو جیسی ترک میں اسے چوربہ کہتے تهے.وہ ذائقے میں شکل سے بڑه کر بدمزا تها.چند لمحوں بعد ہی دونوں پاکستانی ایکسچنج اسٹوڈنٹس کی برداشت جواب دینے لگی.' حیا مجهے الٹی آنے والی ہے " " اور میں مرنے کے قریب ہوں"وہ بدقت مسکراہٹ چہروں پہ سجائے چمچہ بهر رہی تهیں.ترک خواتین بہت مرغوبیت سے سوپ پی رہی تهیں.چوربہ ختم ہوا تو کهانا آ گیا.وہ اس سے بهی بڑه کر بدمزا.ایک چاولوں کا پلاؤتها.پاکستان میں پلاؤکو " پ" کے اوپر پیش کے ساته بولا جاتا ہے.مگر یہاں اسے "پ" تلے زیر کے ساته بولا جاتا تها.پلاؤ شکل میں ابلے چاولوں سے مختلف نہ تها.ساته چنے کا سالن اور مرغی کی گریوی ، منچورین کی طرح تهی.وڈیڑه دن کی بهوکی تهیں اور اوپر سے یہ بدمزا کهانے مزید حالت خراب کر رہے تهے." خدیجہ ! تمهاری دوست مجهے کچه پریشان لگ رہی ہے،خیریت ؟" مسز عبدالله نے پوچه ہی لیا.پلاؤ کا پیالا بهی ختم ہو چکا تها اور ہم پاکستانی میزبانوں کے برعکس وہ اسے دوبارہ بهرنے کے لیے دوڑی نہیں تهیں.وجہ ان کی خلوص کی کمی نہیں تهی ، بلکہ شاید یہی ان کا طریقہ تها.ڈی جے نے گڑبڑا کر اسے دیکها.سب کهانے سے ہاته روک کر اسے دیکهنے لگے تهے.حیا نے میز تلے آہستہ سے اپنا پاؤں ڈی جے کے پاؤں پہ رکها." فیملی فرنٹ کی ہما، کوئ معقول وجہ بتاؤ ان کو ." " نہیں.....وہ.....دراصل.....حیا... حیا بہت ڈرپوک ہے.اسے سٹریٹ کرائم سے بہت ڈر لگتا ہے.اور یہ پہلی دفعہ اکیلی یورپ آئ ہے، تو یہ پوچه رہی ہے کہ کہیں استنبول میں ہمارا آرگنائزڈ کرمنلز سے تو واسطہ نہیں پڑے گا ؟" حیا خفت سے سر جهکائے لب کاٹتی رہی.وہ خالی ہاته ان کے گهر آئ تهیں اور انہوں نے میز بهر دی تهی، پهر بهی اس کے نخرے ختم ہونے میں نہیں آ رہے تهے.اسے بے حد پچهتاوا ہوا.وہ بات سنبهالنے پہ ڈی جے کی بے حد ممنون تهی." قطعا" نہیں ،استنبول بہت محفوظ شہر ہے." سرخ بالوں والی لڑکی رسان سے بولی." یہاں کی پولیس ایسے لوگوں کو کهلے عام نہیں پهرنے دیتی."بالکل .....استنبول میں قانون کی بہت پاسداری کی جاتی ہے." ہالے نے تائید کی.مسز عبدالله خاموشی سے سنتی رہیں.ان کے چہرے پہ کچه ایسا تها کہ حیا انہیں دیکهے گئ.جب ہالے نور استنبول کی شان میں قصیدہ پڑه کر فارغ ہوئ تو مسز عندالله نے گہری سانس لی." خدا کرے ' تمہارا واسطہ کبهی عبفالرحمان پاشا سے نہ پڑے." حیا نے دهیرے سے کانٹا واپس پلیٹ میں رکها.ایک دم پورے ہال میں اتنا سناٹا چها گیا تها کہ کانٹے کی کانچ سے ٹکرانے کی آواز سب نے سنی." کون پاشا؟" ڈی جے نے الجه کر مسز عبدالله کو دیکها." وہ ممبئ کا ایک اسمگلر ہے' یورپ سے ایشیا اسلحہ اسمگل کرتا ہے.استنبول میں اگر چڑیا کا بچہ بهی لاپتا ہو جائے تو اس میں پاشا کا ہاته ہوتا ہے.بو سفورس کے سمندر میں ایک جزیرہ ہے، بیوک ادا.اس جزیرے پہ اس مافیا کا راج ہے." " اور میری مام کو خواب بہت آتے ہیں." ان کی بیٹی نے خفگی سے ان کو دیکها." یہ لڑکیاں سمجهتی ہیں ، میری عقل میرا ساته چهوڑنے لگی ہے."" بالکل ٹهیک سمجهتی ہیں اور ایکسچینج اسٹوڈنٹس ! کان کهول کر سن لو." ہالے نے قدرے تلملا کر مداخلت کی." استنبول میں ایسا کوئ کرائم سین نہیں ہے، یہ سب گهریلو عورتوں کے افسانے ہیں.یہاں کوئ بهارتی اسمگلر نہیں ہے." دونوں ترک لڑکیاں اپنے تئیں بات ختم کرکےاب سوئٹ ڈش کی طرف متوجہ ہوچکی تهیں.خدیجہ بهی ان کی باتوں پہ مطمئن ہوکر شکر پارے کهانے لگی تهی، مگر حیا کے حلق میں وہ شکر پارے کہیں اٹک سے گئے تهے.ابوظہبی انٹرنیشنل ایرپورٹ پہ اس نے اس حبشی کے منہ سے پاشا کا نام سنا تها.وہ نہایت مضمحل سا اپنی بیوی سے عربی میں بات کر رہاتها.اپنے بیٹے کے علاج کا ذکر،پاشا کے کسی کام کا ذکر،پیسے کم ملنے کا ذکر،مگر شاید وہ کسی اور کا ذکر کر رہا ہو اور واقعی ترک گهریلو عورتوں کے افسانوں کے مرکز پاشا کا کوئ وجود نہ ہو.الوداعی لمحات میں جب باقی سب آگے نکل چکے تو مسز عبدالله نے دهیرے سے حیا کے قریب سرگوشی کی." یہ لڑکیاں اپنے استنبول کی برائ نہیں سن سکتیں.تمہیں اس لیے بتایا کہ تم کرائم سے ڈرتی ہو اور خوبصورت بهی ہو، خوبصورت لڑکیوں پہ عموما" ایسے لوگ نظر رکهتے ہیں." حیا نے چونک کر انہیں دیکها ان کے جهریوں زدہ چہرے پہ سچائ بکهری تهی." وہ واقعی اپنا وجود رکهتا ہے." وہ بالکل سن سی ہوئ انہیں دیکهے گئ.کیا افواہوں کا خوف مجسم صورت میں ان کے سامنے آگیا تها،یا ان کی عقل واقعی ان کا ساته چهوڑ رہی تهی؟
❄
❄
❄
❄
❄ شام کے سائے گہرے پڑ رہے تهے.،جب وہ سبانجی یونیورسٹی پہنچیں.سبانجی امرا کی جامعہ تهی.وہاں چار ماہ کے ایک سمسٹر کی فیس بهی دس ہزار ڈالرز سے کم نہ تهی.شہر سے دور ، مضافات میں واقع وہ قدرے گولائ میں تعمیر کردہ عمارت بہت پرسکون سی دکهتی تهی.چونکہ وہ جگہ استنبول شہر سے قریبا" پینتالیس منٹ کے فاصلے پہ تهی، اس لیے سبانجی میں ڈے اسکالرز نہیں ہوتے تهے.ان کے تمام طلبہ و طالبات بشمول ہالے نور جیسے لوگوں کے، جن کے گهر استنبول میں ہی تهے،ہاسٹل میں رہائش پذیر تهے.یونیورسٹی کی عمارت سے دور برف سے ڈهکے میدانوں میں ایک جگہ تهوڑے تهوڑے فاصلے پہ اونچی عمارتیں کهڑی تهیں.وہ ان کے رہائشی بلاکس تهے.انگریزی حرف ایل کی صورت کهڑی تین تین منزلہ عمارتیں ،جن کے کمروں کے آگے بالکونی بنی تهیں.چه کمرے ایک کی ایک لکیر پہ تهے اور چه دوسری لکیر پہ تهے." تمہارا کمرا دوسری منزل پہ ہے." ہالے نے اس کا سامان گاڑی سے نکالتے ہوئے بتایا.حیا اور ڈی جے دوسرا بیگ گهسیٹ کر لا رہی تهیں.ایل کی شکل کا بلاک جس کو ہالے بی ون کہہ رہی تهی،کے باہر گولائ میں چکر کهاتی سیڑهیاں کهلے آسمان تلے بنی تهیں ، جو اوپر تک لے جاتی تهیں.لوہے کی ان سیڑهیوں کے ہر دو زینوں کے درمیان خلا تها اور زینوں پہ برف کی موٹی تہ تهی.ذرا سا پاؤں پهسلے اور آپ کی ٹانگ اس گیپ میں سے نیچے پهسل جائے.وہ تینوں گرتی پڑتی بمشکل حیا کا سامان اوپر لائیں." کمرا تو اچها ہے،ہم یہاں رہیں گے ؟" حیا نے ہالے کی تهمائ چابی سے دروازہ کهول کر دهکیلا تو بے اختیار لبوں سے نکلا." ہم نہیں ،صرف تم ، کیونکہ خدیجہ کا بلاک بی ٹو ہے.وہ جو سامنے ہے." اس نے انگلی سے دور برفیلے میدان میں بنی عمارت کی جانب اشارہ کیا." کیا مطلب ، میں ادهر اکیلی ؟" وہ دنگ رہ گئ." بعد میں تم بدلوا سکتی ہو آفیسر سے کہہ کر.ابهی تم آرام کرو،ہر کمرے میں چار اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں.ہر سٹوڈنٹ کی ٹیلی فون ایکسٹینشن اس کی میز پہ ہوتی ہے.آج کل چهٹیاں ہیں، اکثر طالب علم اپنے گهر گئے ہوئے ہیں.تمہارا کمرا خالی ہے، مگر تم جا کر اپنے بیڈ پر ہی سونا ، ترک لڑکیوں کے بستر پہ کوئ سو جائے تو وہ بہت برا مانتی ہیں.کوئ مسئلہ ہوتو میرا بی فور میں ہے،اوکے؟" مسکرا کر وہ بولی تو حیا نے سرہلا دیا.ڈی جے نے بے چارگی سے اسے دیکها اور ہالے کے ہمراہ سیڑهیاں اترنے لگی " ہالے ! سنو ،اس عمارت کے پیچهے کیا ہے ؟" کسی خیال کے تحت اس نے پکارا.ہالے مسکرا کر پلٹی اور بولی " جنگل ! " پهر وہ دونوں زینے اتر گئیں.حیا نے اندر کمرے میں قدم رکها.کمرا خوبصورتی سے آراستہ تها.ہر دیوار کے ساته ایک ایک ڈبل اسٹوری بینک رکها تها.عموما" ایسے بینکس میں نیچے ایک بیڈ اور اوپر بهی ایک بیڈ ہوتا ہے ،مگر اس میں نیچے بڑی سی رائٹینگ ٹیبل بنی تهی.اس کے ساته ہی لکڑی کی سیڑهی اوپر جاتی ،جہاں ایک آرام دہ بیڈ تها.میز پہ ایک ٹیلی فون رکها تها.وہ چاروں بینکس کو دیکهتی اپنے نام کی میز کی کرسی کهینچ کر نڈهال سی بیٹه گئ.وہ ایک تهکا دینے والا دن ثابت ہوا تها ، مگر ابهی وہ تهکن کے بجائے عجیب سی اداسی میں گهری تهی.غیر ملک ،غیر خطہ ،غیر جگہ اور تنہا کمرا.جس کے پیچهے جنگل تها.اسے جانے کیوں بے چینی ہونے لگی.وہ فریش ہونے کے لیے اٹهی اور دروازے کی طرف بڑهی ،تاکہ باہر کہیں باته روم ڈهونڈے ،ابهی اس نے دروازہ کهولا ہی تها کہ دو کمرے چهوڑ کر ایک کمرے کا دروازہ کهلا،اس میں سے ایک لڑکا بیگ اٹهائے نکل رہا تها.اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور پهر مقفل کر دیا.گرلز ہاسٹل میں لڑکا ؟ اگر پاکستان میں ہوتی تو یقینا" یہی سوچتی ،مگر یہ بات تو سبانجی کے پراسپکٹس میں پڑه چکی تهی کہ وہ مخلوط ہاسٹل تها.البتہ ایک کمرے کے اندر صرف ایک صنف والے افراد ہی رہ سکتے تهے.وہ بددل سی ہو کر واپس کرسی پہ آبیٹهی.سامنے والی دیوار پہ ایک سفید اور سیاہ تصویر آویزاں تهی، پنسل سے بنایا گیا وہ خاکہ ایک کلہاڑے کا تها، جس کے پهل سے خون کی بوندیں گر رہی تهیں.خاکہ نے رنگ تها، مگر خون کے قطروں کو بےحد شوخ سرخ رنگ سے بنایا گیا تها.اس نے جهرجهری لے کر دوسری دیوار کو دیکها.وہاں ایک لڑکی کے چہرے کا بےرنگ پنسل سے بنا خاکہ ٹنگا ہوا تها.وہ تکلیف کی شدت سے آنکهیں میچے ہوئے تهی ، اس کی گردن پہ چهری چل رہی تهی.اور ادهر سے بهڑکیلے سرخ خون کے قطرے ٹپک رہے تهے.وہ مضطرب سی اٹه کهڑی ہوئ.ان تصاویر والی دیوار کے ساته لگے بینک کی میز پہ بہت سے چاقو اور چهریاں قطار میں رکهے تهے.ہر سائز ،ہر قسم اور ہر دهار کا چاقو ،جن کے لوہے کے پهل مدهم روشنی میں بهی چمک رہے تهے.وہ ایک دم بہت خوف زدہ ہو کر باہر لپکی.کوریڈور میں اندهیرا تها.دور نیچے برف سے ڈهکے میدان دیکهائ دے رہے تهے.وہ تیزی سے سیڑهیوں کی جانب بڑهی، جیسے ہی اس نے پہلے زینے پہ قدم رکها اوپر چهت پہ لگا بلب ایک دم جل اٹها.وہ ٹهٹک کر رکی اور گردن گهمائ.کوریڈور خالی تها،
وہاں کوئ نہیں تها.پهر بلب کس نے جلایا؟اس کی گردن کی پشت کے بال کهڑے ہونے لگے.دهڑکتے دل کے ساته وہ پلٹی اور زینے اترنے لگی.تب ہی ایک دم ٹهاہ کی آواز کے ساته اوپر کوئ دروازہ بند ہوا.اس نے پتهر بن جانے کے خوف سے پیچهے مڑ کر نہیں دیکها اور تیزی سے سیڑهیاں پهلانگتی چلی گئ.آخری زینے سے اتر کر اس نے جیسے ہی برف زار پہ قدم رکها ، اوپر بالکونی میں جلتا بلب بجه گیا.باہر زور و شور سے برف گر رہی تهی.تازہ پڑی برف سے اس کے قدم پهسلنے لگے تهے.سفید سفید گالے اس کے بالوں اور جیکٹ پہ آ ٹهہرے تهے.وہ گرتے پڑتے ڈی جے کے بلاک بی ٹو کی طرف بڑه رہی تهی.اسے پہلی دفعہ اپنی مانگی گئ کسی دعا پہ پچهتاوا ہوا تها ، "کاش! آج یہ برف نہ پڑتی." بی ٹو کی دوسری منزل کی بالکونی میں وہ دم لینے کو رکی.اسے منزل یاد تهی، مگر کمرے کا نمبر بهول چکا تها.اس نے ہونٹوں کے گرد ہاتهوں کا پیالا بنا کر زور سے آواز دی." ڈی جے ....تم کہاں ہو ؟" "ڈی جے ......" ایک دروازہ جهٹ سے کهلا اور کسی نے ہاته سے پکڑ کر اسے اندر کهینچا." اگر تم دو منٹ مزید تاخیر کرتیں تو میں مر چکی ہوتی حیا !" ڈی جے بهی اس کی طرح تنہا اور خوفزدہ لگ رہی تهی.مگر اب اس کمرے میں آکر حیا کا سارا خوف اڑن چهو ہوچکا تها." ڈرو مت ، تمہارے لیے ہی تو آئ ہوں.مجهے پتہ تها ، تم اکیلی ڈر رہی ہوگی ،ورنہ میرا کیا ہے، میں تو کہیں بهی رہ لیتی ہوں." وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر بولی ، پهر بے اختیار جمائ روکی." مگر ڈی جے ! میں سوؤں گئ کدهر ؟" " ان تین خالی بیڈز پہ کانٹے بچهے ہوئے ہیں کیا ؟" " مگر ہالے نے کہا تها کہ ترک لڑکیاں....." " فی الحال یہاں نہ ہالے ہے اور نہ ہی ترک لڑکیاں...." " مگر الله تو دیکه رہا ہے ! " غیر ملک میں اس کا سویا ہوا خوف_ خدا جاگ اٹها تها." اور مجهے امید ہے کہ الله تعالی' ہالے کو پتہ نہیں لگنے دے گا.اب بستر میں گهسو اور سو جاؤ.خدا جانے مجهے کس پاگل کتے نے کاٹا تها ، ترکی آگئ.آگے جهیل ،پیچهے جنگل ،اتنی وحشت ...." ڈی جے کمبل میں لیٹے بڑبڑائے جارہی تهی.نیند سے تو وہ بهی بے حال ہونے لگی تهی، سو ڈی جے کے قریبی بینک کی سیڑهیاں پهلانگ کر اوپر کمبل میں لیٹ گئ."حیا ...." وہ کچی نیند میں تهی، جب ڈی جے نے اسے پکارا." ہوں ؟" اس کی پلکیں اتنی بوجهل تهیں کہ وہ انہیں کهول نہیں پا رہی تهی." سامنے والے کمرے میں بڑے ہینڈسم سے لڑکے رہتے ہیں، میں نے انہیں کمرے میں جاتے دیکها ہے." " اچها...." اس کا ذہن غنودگی میں ڈوب رہا تها."اور سنو ،وہ پلاؤ اتنا برا بهی نہیں تها، ہمیں صرف سفر کی تهکاوٹ کے باعث برا لگا ،اور سنو ....." مگر ڈی جے کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ سو چکی تهی.جاری هے.....





وہاں کوئ نہیں تها.پهر بلب کس نے جلایا؟اس کی گردن کی پشت کے بال کهڑے ہونے لگے.دهڑکتے دل کے ساته وہ پلٹی اور زینے اترنے لگی.تب ہی ایک دم ٹهاہ کی آواز کے ساته اوپر کوئ دروازہ بند ہوا.اس نے پتهر بن جانے کے خوف سے پیچهے مڑ کر نہیں دیکها اور تیزی سے سیڑهیاں پهلانگتی چلی گئ.آخری زینے سے اتر کر اس نے جیسے ہی برف زار پہ قدم رکها ، اوپر بالکونی میں جلتا بلب بجه گیا.باہر زور و شور سے برف گر رہی تهی.تازہ پڑی برف سے اس کے قدم پهسلنے لگے تهے.سفید سفید گالے اس کے بالوں اور جیکٹ پہ آ ٹهہرے تهے.وہ گرتے پڑتے ڈی جے کے بلاک بی ٹو کی طرف بڑه رہی تهی.اسے پہلی دفعہ اپنی مانگی گئ کسی دعا پہ پچهتاوا ہوا تها ، "کاش! آج یہ برف نہ پڑتی." بی ٹو کی دوسری منزل کی بالکونی میں وہ دم لینے کو رکی.اسے منزل یاد تهی، مگر کمرے کا نمبر بهول چکا تها.اس نے ہونٹوں کے گرد ہاتهوں کا پیالا بنا کر زور سے آواز دی." ڈی جے ....تم کہاں ہو ؟" "ڈی جے ......" ایک دروازہ جهٹ سے کهلا اور کسی نے ہاته سے پکڑ کر اسے اندر کهینچا." اگر تم دو منٹ مزید تاخیر کرتیں تو میں مر چکی ہوتی حیا !" ڈی جے بهی اس کی طرح تنہا اور خوفزدہ لگ رہی تهی.مگر اب اس کمرے میں آکر حیا کا سارا خوف اڑن چهو ہوچکا تها." ڈرو مت ، تمہارے لیے ہی تو آئ ہوں.مجهے پتہ تها ، تم اکیلی ڈر رہی ہوگی ،ورنہ میرا کیا ہے، میں تو کہیں بهی رہ لیتی ہوں." وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر بولی ، پهر بے اختیار جمائ روکی." مگر ڈی جے ! میں سوؤں گئ کدهر ؟" " ان تین خالی بیڈز پہ کانٹے بچهے ہوئے ہیں کیا ؟" " مگر ہالے نے کہا تها کہ ترک لڑکیاں....." " فی الحال یہاں نہ ہالے ہے اور نہ ہی ترک لڑکیاں...." " مگر الله تو دیکه رہا ہے ! " غیر ملک میں اس کا سویا ہوا خوف_ خدا جاگ اٹها تها." اور مجهے امید ہے کہ الله تعالی' ہالے کو پتہ نہیں لگنے دے گا.اب بستر میں گهسو اور سو جاؤ.خدا جانے مجهے کس پاگل کتے نے کاٹا تها ، ترکی آگئ.آگے جهیل ،پیچهے جنگل ،اتنی وحشت ...." ڈی جے کمبل میں لیٹے بڑبڑائے جارہی تهی.نیند سے تو وہ بهی بے حال ہونے لگی تهی، سو ڈی جے کے قریبی بینک کی سیڑهیاں پهلانگ کر اوپر کمبل میں لیٹ گئ."حیا ...." وہ کچی نیند میں تهی، جب ڈی جے نے اسے پکارا." ہوں ؟" اس کی پلکیں اتنی بوجهل تهیں کہ وہ انہیں کهول نہیں پا رہی تهی." سامنے والے کمرے میں بڑے ہینڈسم سے لڑکے رہتے ہیں، میں نے انہیں کمرے میں جاتے دیکها ہے." " اچها...." اس کا ذہن غنودگی میں ڈوب رہا تها."اور سنو ،وہ پلاؤ اتنا برا بهی نہیں تها، ہمیں صرف سفر کی تهکاوٹ کے باعث برا لگا ،اور سنو ....." مگر ڈی جے کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ سو چکی تهی.جاری هے.....
jannat_kay_pattay - Episode - 8 ﺗﺤﺮﯾﺮﻧﻤﺮﮦ ﺍﺣمد
jannat_kay_pattay - Episode - 8ﺗﺤﺮﯾﺮﻧﻤﺮﮦ ﺍﺣمد•••••••••••••••••••••••ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺧﺎﺻﺎ ﻭﺯﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯﺗﺤﺎﺷﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﮍﮐﮯ ﺳﺮﻣﺌﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﯽ ﮨﺎﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﮕﺰ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﺎﻧﭗ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺁﭖ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺻﺮﻑ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺋﯿﮟ ﮨﯿﮟ؟ ﭼﻐﺘﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ، ﺗﻮ ﺍﺣﻤﺖ ﻧﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ۔ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﺎﺗﺮﮎ ﺍﺋﺮﭘﻮﺭﭦ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﺁﺗﺎﮨﮯ، ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺑﻮ ﺍﯾﻮﺏ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼؓ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺳﮯﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺎﻡ ﺍﭼﮭﺎ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺣﻤﺖ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﮓ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﯽ۔ﻣﮕﺮ ﺣﯿﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺗﻮﮨﻢ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭﺷﺮﮎ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮈﯼ ﺟﮯ ﮐﻮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺑﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮﮐﺎ۔ﻣﯿﺰﺑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺳﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﺤﺚ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﭘﺎﮔﻞ ! ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﻣﻨﺠﻤﺪ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﮍﯼ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﯿﻨﺪﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﻨﺠﻤﺪ ﻣﺠﺴﻤﮯ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ﺍﺣﻤﺖ ﮐﻮ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺳﻮ ﻭﮦ ﺳﺎﺭ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮔﺮﺩﻭﭘﯿﺶ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﺣﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮯ ﺳﮯ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺳﻮ ﺭﺥ ﭘﮭﯿﺮﮮ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﺌﯽ۔ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﻠﻨﺪﻭﺑﺎﻻﺗﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺱ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﮭﯽ، ﻗﺪﺭﮮ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔۔۔۔۔ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﯾﻮﺭﭖ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﺷﯿﺸﮯ، ﺻﻘﻒ ﺳﮍﮐﯿﮟ، ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﻟﻮﮒ، ﺩﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺑﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺳﮍﮎ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺑﭽﮭﯽ ﺑﺮﻑ ﮐﯽ ﺗﮩﯿﮟ، ﮔﻮﯾﺎ ﺳﻔﯿﺪ ﮔﮭﺎﺱ ﮨﻮ۔ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﮎ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮍﮮ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﻣﻨﯽ ﺍﺳﮑﺮﭨﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﺧﺪﺍ ﮐﺮﮮ ﺁﺝ ﺭﺍﺕ ﺑﺮﻑ ﻧﮧ ﭘﮍﮮ۔ ﭼﻐﺘﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﻣﻮﮌ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺗﺸﻮﯾﺶ ﻧﮕﺎﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﺑﺮﻑ ﺯﺍﺭ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﯽ۔ﮨﺎﮞ ! ﺧﺪﺍ ﮐﺮﮮ ﺭﺍﺕ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﺮﻑ ﻧﮧ ﭘﮍﮮ۔ﺍﺣﻤﺖ ﻧﮯ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮐﯽ۔ﺣﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮈﯼ ﺟﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺑﮍﺍﺋﯽ۔ﺍﯾﻮﯾﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﮮ۔۔۔۔۔ ﺧﺪ ﺗﻮ ﺑﺮﻑ ﺑﺎﺭﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﮐﺘﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ، ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺩﯾﮟ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﮮ، ﺭﺍﺕ ﺑﺮﻑ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮮ ﺁﻣﯿﻦ، ﺛﻢ ﺁﻣﯿﻦ۔ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮐﯽ۔ﻭﻧﮉ ﺳﮑﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭘﺎﺭ ﯾﻮﺭﭘﯿﻦ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﮔﮯ ﻧﯿﻼ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﺎ ﺍﯾﺸﯿﺎﺋﯽ ﺣﺼﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺼﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﭘﻞ ﻧﮯ ﺟﻮﮌ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭ ﺧﻄﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻼﭖ، ﺩﻭ ﺗﮩﺰﯾﺒﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻨﮕﻢ۔۔۔۔۔۔۔ﻣﺮﻣﺮﺍ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺣﺼﮧ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺑﻮﺳﻔﻮﺭﺱ ﮐﺎ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﭘﻞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺳﻔﻮﺭﺱ ﺑﺮﺝ ﮨﮯ۔ ﺍﺣﻤﺖ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺗﻮ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﯾﻮﺭﭘﯿﻦ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﭘﻞ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ؟ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺗﮯ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﭘﻞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺍﻧﺎﻃﻮﻟﯿﻦ ﺷﮩﺮ ﺗﮭﺎ۔ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﻞ ﻋﺒﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ﺁﮔﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﺗﮏ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔ﭼﻐﺘﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﮎ ﺩﯼ۔ ﺍﺣﻤﺖ ﺏ ﻻﮎ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ، ﺍﻭﻧﭽﮯ ﭘﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﺎﮐﮧ ﮐﺘﻨﮯ ﺑﺮﺱ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﭘﻞ ﭘﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﻮﺳﻔﻮﺭﺱ ﮐﮯ ﻧﯿﻠﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﮧ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭘﺮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﻗﺺ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﮔﮭﺎﺱ ﺳﯽ ﺑﺮﻑ ﺟﻤﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﯾﺎ ﻣﺮﻣﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﯽ؟ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺩﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺮﻣﺮﺍ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺏ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﻟﭩﯽ ﭘﭩﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﻟﮯ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﺮﺍ ﺗﮭﺎ۔ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭘﺎﺭ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺍﺯ ﻗﺪ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯽ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﻟﭙﯿﭩﮯ، ﺑﻠﯿﻮ ﺟﯿﻨﺰ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﺗﺎ ﺳﻔﯿﺪ ﮐﻮﭦ ﭘﮩﻨﮯ، ﻭﮦ ﮐﻮﭦ ﮐﯽ ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﻮﺟﮭﻞ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺮﻣﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﺮﮎ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻐﺘﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﺎﺑﯽ ﻟﯽ۔ ﺍﺣﻤﺖ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﺎﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺮﻡ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ ﺳﺮ ﮨﻼﺗﯽ ﺳﻨﺘﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﮍﮐﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺋﯽ۔ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﻧﮓ ﺳﯿﭧ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮔﮭﻤﺎﺋﯽ۔ﺳﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺁﻣﺪﯾﺪ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺷﺴﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﮯﺣﺪ ﻧﺮﻡ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺗﺮﮎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺳﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ Salamun Alaikum ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ۔ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﺮﻡ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﺍ۔ ﻭﮦ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﻮﯾﺎ ﻣﮑﮭﻦ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﮨﺎﻟﮯﻧﻮﺭ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﻭﻣﯽ ﻓﻮﺭﻡ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﺒﺎﻧﺠﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﭩﯿﺮﯾﻞ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻢ ﺍﯾﺲ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺋﺮﭘﻮﺭﭦ ﭘﺮ ﺁﭘﮑﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﯽ ﺁﻧﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺳﮑﯽ، ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺬﺭﺕ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﻮﮌ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ﺣﯿﺎ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ۔۔۔۔۔۔۔ﺧﺪﯾﺠﮧ ﺭﺍﻧﺎ۔۔۔۔۔۔۔ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﻮ ﮨﺎﻟﮯ ﻧﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻼﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻧﻮﺭ ﮐﺎ ﮨﻠﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺩﮬﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ۔ﺍﺏ ﮨﻢ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﻣﺤﻠﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﺳﭩﯿﺮﻧﮓ ﮔﮭﻤﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ۔ﻣﺤﻠﮧ؟ ﺍﺭﺩﻭ ﻭﺍﻻ ﻣﺤﻠﮧ، ﺣﯿﺎ ! ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﯽ۔ﺷﺎﯾﺪ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺗﻮﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﺗﺮﮎ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﯽ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻓﻘﺮﮮ ﮐﺎ ﺭﭨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ، ﻟﻔﻆ ﺍﺭﺩﻭ ﺗﺮﮎ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ! ﮈﯼ ﺟﮯ ﻧﮯ ﭼﮩﮏ ﮐﺮ ﻓﻘﺮﮦ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯿﺎ۔” ﺍﯾﻮﺏ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺟﺎﻣﻌﮧ “ ﮐﮯ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﻣﺤﻠﮧ۔ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺭﺵ، ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺳﻮ ﺍﮌﺗﮯ، ﭼﮕﺘﮯ ﮐﺒﻮﺗﺮ، ﻭﮦ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﻨﺎﺗﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮯ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ Eyup Sultan Cammi ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﻣﯿﮟ j ﮐﯽ ﺟﮕﮧ C ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﻠﻂ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
Wednesday, 27 September 2017
احساس اپنا ثبوت آپ ہے ۔
بات دعویٰ کی نہیں بات احساس کی ہے، اور احساس کسی مزید مشاہدے کا محتاج نہیں ہوتا ۔ احساس اپنا ثبوت آپ ہے ۔ جب ہم وادئ احساس میں قدم رکھتے ہیں ، تو بس ، اس سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں رہتا ۔ ہم احساس کو قابو کرتے ہیں اور احساس ہمیں قابو کر لیتا ہے ۔
احساس شائد اپنی ہی آواز میں اپنا نوحہ بھی ہے اور اپنا قصیدہ بھی ۔ اس آواز کو جتنا بند کرو، یہ اتنی ہی سربلند ہوتی ہے ۔ یہ آواز ہی طلسمِ ہوشربا ہے ۔ یہ آواز آہ و فغانِ نیم شب کا پیغام بھی لاتی ہے اور حرفِ رائیگاں بھی نوشت کرتی ہے۔ خاموشی میں ، رات کے سناٹوں میں ، یہ آواز شور مچاتی ہے ۔ سینے کے اندر سے چلّاتی ہے ۔ مجھے آزاد کرو ، مجھے بولنے دو ، میں مرگئی تو تم بھی مرجاوٴ گے ۔ آوازیں بند ہوجائیں تو سمجھ لیجئیے ، کوئی سانحہ گزر رہا ہے ۔
حضرت واصف علی واصف رح
اقتباس از " من چلے کا سودا " ، اشفاق احمد
اے بھائی میرے ، اے بہناں جی
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد کو جاتا ہوں
پر ساتھ چلیں گے رستے میں
اور ورد کریں گے رستے میں
ہم سر کو جھکا کر جائیں گے
اور قدم ملا کر جائیں گے
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد کو جاتا ہوں
پر ساتھ رہیں گے ہم دونوں
اور ساتھ مریں گے ہم دونوں
اس مسجد کو کس چاہت سے
اپنے پرکھوں نے بنایا تھا
پھر اس کی ہری محرابوں میں
اشکوں سے چراغ جلایا تھا
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد کو جاتا ہوں
ہم دونوں کا ہے ایک خدا
ہم دونوں کا ہے ایک آقا
قرآن بھی ایک رسول بھی ایک
اور دونوں کا ہے ایک کعبہ
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد کو جاتا ہوں
پر ساتھ رہیں گے ہم دونوں
اور ساتھ مریں گے ہم دونوں
صد شکر کرو ہم رنگ ہیں سب
اور اک دوجے کے سنگ ہیں سب
اک آقا کملی والا ہے
ہم اس کےمست ملنگ ہیں سب
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد کو جاتا ہوں
پر ساتھ رہیں گے ہم دونوں
اور ساتھ مریں گے ہم دونوں
جس وقت تمہاری مسجد سے
آواز اذان کی آتی ہے
میری بے تاب سماعت میں
گل رنگ چراغ جلاتی ہے
پھر ساتھ ہماری مسجد سے
آواز اذان کی آتی ہے
دونوں کی صدا کے ملنے سے
نگری جنت بن جاتی ہے
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد کو جاتا ہوں
پر ساتھ رہیں گے ہم دونوں
اور ساتھ مریں گے ہم دونوں
اقتباس از " من چلے کا سودا " ، اشفاق احمد
خاموشی مکمل ہو گئی-
خاموشی مکمل ہو گئی- اجڑے ہوۓ رسیدہ پتے مردہ پڑے تھے پھو لوں کا بازار دھندلا رہا تھا-سنان کی آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی تہ تیرنے لگی- اس نے جیب سے رومال نکالا اپنے آنسو پونچھے اور بھاری قدموں سے چلتا ہوا اپنے مکان کی طرف روانہ ہو گیا- اس کی آنکھیں جل رہی تھیں اور سارا وجود تپ رہا تھا اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا جسم دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا گیا ہو ،،،،ایک جگہ رہنے سے ہی،،،،،،ساکت ہونے سے ہی پھول جینی کی آواز گونجی،،،،، میں نے آج نقشے کو جلا دیا ہے،،،،،،،،اپنے دشمن کو،،،،،اس کے ذہن میں آوازیں گڈ مڈ ہوتی چلی گئیں،،پاسکل دریا کے کنارے اکیلی ہو گی،،،وہ مر جاۓ گی،،،،،نہیں مجھے وطن واپس جانا ہے - ترکی میں برف باری شروع ہو جاۓ گی - میرے ماں باپ بھائی بہن میرا انتظار کر رہے ہیں- میں سیاح ہوں- ایک جگہ رہنے سے میرے پاؤں زمین میں دھنس جایئں گے ،،،،،،ایک جگہ رہنے سے ہی پھول کھلتے ہیں - پھول،،،،،،،،زرد گلاب! جانے وہ کب اور کیسے اپنے مکان تک پہنچا - اس نے روک کر گھڑی کے چمکتے ہوۓ ڈایل پر نظر ڈالی،،،،،،، شاید نو بج رہے تھے ،،،دس بجے گاڑی ،،،،،،،وہ تیزی سے سیڑھیاں طے کر کے کمرے میں آ گیا - اور اپنے بکھرے ہوۓ سامان کو تھیلے میں ٹھو نسنے لگا......
پیارکا پہلا شہر سے اقتباس